تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قادیانیوں کے بلا اُجرت وکیلوں سے ہوشیار،تصویر کا دوسرا رخ

حافظ عبیداللہ
آج کل پھر قادیانی مردہ کو زندہ کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ،جسے 1974 میں ہمیشہ کی لئے منوں مٹی تلے دفنادیا گیا تھا، آئیے میں آپ کو ماضی میں لیے چلتا ہوں، 1839یا 1840میں ہندوستانی پنجاب کے ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے ایک گاؤں قادیان میں مرزا غلام مرتضیٰ بیگ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام غلام احمد رکھا گیا، جو بعد میں مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے مشہور ہوا، مرزا قادیانی تقریباً 69 سال کی عمر پا کر 26 مئی 1908کو لاہور میں مرض ہیضہ میں مبتلاہوکر اگلے جہان چلا گیا۔ مرزا قادیانی نے پہلے بتدریج”مجدد” ،” مہدی” ،”مسیح موعود” ہونے کا دعوے کیے ، اور بعد میں صریحاً اپنے آپ کو “نبی” اور “رسول” کہنے لگا، صرف یہی نہیں ،بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ حضرت محمد صلی اﷲ علي ہ وسلم کا دوسرا ظہور ہے ، اور جس نے میرے اور حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان فرق کیا۔ اس نے مجھے پہچانا ہی نہیں، اس نے کہا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علي ہ وسلم نے دو بار دنیا میں مبعوث ہونا تھا، ایک بار وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین پر تشریف لائے ، اور دوسری بار میری شکل میں قادیان میں ان کا ظہورہوا ،وغیرہ۔
(حوالے طلب کرنے پر پیش کیے جا سکتے ہیں)
مرزا قادیانی نے 1880 تا 1884 اپنی پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘کے چار حصے شائع کیے ۔اس کتاب میں اگرچہ اس نے بالوضاحت کوئی ایسی بات نہ لکھی، جس سے اس پر کفر کا فتویٰ لگے ، لیکن ایسی گول مول باتیں اورایسے الہٰام لکھے، جنہیں پڑھ کر اُس وقت کے زیرک اور صاحبِ بصیرت علماء نے بھانپ لیا کہ یہ شخص کس چیز کی بنیاد رکھنے جا رہا ہے ، اسی خطرے کو بھانپتے ہوے ’’براہین احمدیہ‘‘ کے شائع ہونے کے فوراً بعد1301 ھ میں لدھیانہ کے علماء نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ دے دیا، جبکہ کچھ دوسرے علماء نے ’’براہین احمدیہ ‘‘میں لکھی باتوں کو بے دینی اور لا مذہبیت تو کہا، لیکن صریحاً کفر کا فتویٰ نہ دینے میں ہی احتیاط سمجھی، لیکن جب مرزا قادیانی نے اپنی اگلی کتابیں ’’فتح اسلام‘‘ ، ’’توضیح المرام‘‘ اور’’ ازالۂ اوہام‘‘ وغیرہ لکھیں تو ان محتاط علماء کو بھی اپنی احتیاط ترک کرنا پڑی اورممتاز اہل حدیث عالم مولانا محمد حسین بٹالویؒ نے جو مرزا کے ہم مکتب بھی رہے تھے ،ایک استفتاء لکھ کر مختلف علاقوں کے مفتیان کے پاس بھیجا اور تمام علاقوں کے معروف مفتیان نے مرزا کی کفریہ تحریرات کی بناء پر متفقہ طور پر اسکے خلاف کفر کا فتویٰ دیاجو مولانا بٹالویؒ نے شائع کردیا، اسی طرح انہی دنوں لاہور کے ایک عالم مولانا غلام دستگیر قصوریؒ نے بھی علماء حرمین اور دوسرے علماء سے مرزا کے خلاف کفر کا فتویٰ لیا جو بوجوہ مولانا بٹالوی کے فتوے کے شائع بعد ہو سکا ۔
7 مئی1907کو خود مرزا قادیانی نے اپنے مریدوں کے لیے ایک اشتہار شائع کیا، جس میں اس نے لکھا کہ :
“اگر تم اس گورنمنٹ (یعنی انگریز کی حکومت۔ ناقل) کے سایہ سے باہر نکل جاؤ ۔ایسی سلطنت کا بھلا نام تولو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے گی، ہر اسلامی سلطنت تمہارے قتل کے لیے دانت پیس رہی ہے ، کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔”
“تمام پنجاب اور ہندوستان کے فتوے ،بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے فتوے تمہاری نسبت یہ ہیں کہ تم واجب القتل ہو۔”
(’’مجموعہ اشتہارات‘‘،از: مرزا قادیانی ، جلد 2 صفحہ 709 جدید ایڈیشن)
یہ اقتباس مرزا قادیانی کی طرف سے اس بات کی تائید ہے کہ اس کی زندگی میں ہی تمام دنیا کے مسلمان اس بات پر متفق تھے کہ وہ اور اس کے ماننے والے کافر ہیں ۔
لہٰذا یہ کہنا کہ مرزا قادیانی اور اس کی جماعت (قادیانی/ لاہوری) کو 1974 میں کافر قرار دیا گیاتھا، درست نہیں ہے، شرعی و مذہبی طور پر کافر تو وہ اس وقت سے قرار دیے جاچکے تھے جب مرزا نے کفریہ دعوے کیے تھے ، چونکہ پاکستان بننے کے بعد مرزا کی جماعت قادیان چھوڑ کر پاکستان میں آ گئی اور قادیانی لوگوں کو دھوکہ دیتے چلے آ رہے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہیں تواس دھوکے کا سد باب کرنے کے لیے پاکستان کے مسلمانوں کی تحریکات کے نتیجے میں ان کے غیر مسلم ہونے کے فیصلے کی توثیق پاکستان کی قومی اسمبلی نے کردی اوراسے پاکستانی آئین کا حصہ بنادیاگیا۔ دوسرے لفظوں میں 1974 میں قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کو قانونی حیثیت دی گئی، جبکہ شرعی طور پر وہ پہلے ہی سے غیر مسلم تھے۔ قادیانیوں کے اس وقت کے سربراہ مرزا ناصر کو اپنے دفاع کا بھرپور موقع دیا گیا اور پاکستان کی اس وقت کی قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر سوال و جواب کی متعدد مجلسیں ہوئیں اور اس کے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ایسے عقائد رکھنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے اور یہ جو لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یہ سراسر دھوکہ دیتے ہیں ۔
آج اپنے آپ کو “سکالر” سمجھنے والے چند لوگ یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے ؟ کچھ فیس بکی لکھاری اس پر مضمون لکھتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے قانون میں قادیانیوں کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں، یہ ان قادیانیوں کی وکالت کرتے ہیں، جنہوں نے آج تک آئینِ پاکستان کو قبول نہیں کیا، جو آج بھی دھڑلے سے اپنے آپ کو مسلمان بلکہ “اصلی مسلمان”کہتے ہیں اور اپنے علاوہ سب کو کافر کہتے ہیں۔ جی ہاں،حیران نہ ہوں۔ شاید کوئی قادیانی یا قادیانی نواز کہے کہ “قادیانی تو کسی کو کافر نہیں کہتے ” توآنکھیں کھول کر یہ حوالے پڑھیں:
مرزا قادیانی پر ہونے والی نام نہاد وحی اور الہٰامات کو ایک مجموعہ “تذکرہ” کے نام سے شائع کیا گیا ، جس میں مرزا قادیانی لکھتا ہے :
“خدا تعالی نے میرے پرظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔ ” (تذکرہ، صفحہ 519 طبع چہارم)
غور کریں مرزا قادیانی اپنے خدا کی وحی بتا رہا ہے کہ جس نے بھی میرے دعووں کوقبول نہیں کیا ،وہ مسلمان نہیں ہے۔ قادیانیوں کے بلا اجرت وکیل بھی سوچیں کہ کیا وہ مرزا قادیانی کو ” مہدی” ،”مسیح موعود” اور “نبی و رسول” مانتے ہیں؟ اگر نہیں مانتے تو مرزا کے فتوے کے مطابق وہ مسلمان نہیں ہیں ۔
ایک اور جگہ مرزا قادیانی نے لکھاکہ:
“ان الہٰامات میں میری نسبت یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ، خدا کا مامور، اور خدا کی طرف سے آیا ہے ، جوکچھ کہتا ہے، اُس پرایمان لاؤ، اور اُس کا دشمن جہنمی ہے ۔”
(رسالہ دعوت قوم ، مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 62 حاشي ہ)
یعنی جو مرزا کی بات پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنمی ہے ۔اسی کتاب’’ تذکرہ‘‘ میں مرزاقادیانی نے اپنے خدا کی ایک نام نہاد وحی یوں لکھی ہے کہ :
“جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا، اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا، اور تیرا مخالف رہے گا،وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا ہے ”
(تذکرہ ، صفحہ 280 طبع چہارم)
لیجیے جو مرزا قادیانی کی پیروی نہ کرے اور اس کی بیعت میں داخل نہیں ہوا ،وہ خدا اوررسول کا نافرمان ٹھہرا ۔آگے چلیں، مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین کے بارے میں لکھاہے کہ :
“جو میرے مخالف تھے، اُن کا نام عیسائی، یہودی اور مشرک رکھا گیا۔”
(نزول المسیح ، مندرجہ: روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 382)
یعنی جو بھی مرزا کا مخالف ہے اور اس کے دعووں کو قبول نہیں کرتا ۔وہ مرزاکے نزدیک مسلمان نہیں بلکہ یہودی ، عیسائی اور مشرک ٹھہرتاہے ۔
مرزا قادیانی نے اپنے مخالفین کو گالیاں بھی دیں ہیں، ایک نمونہ پیش خدمت ہے :
“ہمارے دشمن بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور اُن کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔” (نجم الہدی ، مندرجہ روحانی خزائن جلد :14 ۔صفحہ 53)
اب قادیانیوں کے وکیل اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر مرزا قادیانی کے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے سربراہ مرزا بشیرالدین محمود کا یہ بیان پڑھیں کہ:
“کُل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (یعنی اس کے مطابق مرزا قادیانی۔ ناقل) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرے عقائد ہیں۔”
(آئینۂ صداقت :مصنف: مرزا بشیر الدین محمود ۔ مندرجہ انوار العلوم جلد 6 صفحہ 110)
یہی مرزا محمود دوسری جگہ لکھتا ہے :
“ہمارا فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں (یعنی غیر قادیانیوں ۔ ناقل) کو مسلمان نہ سمجھیں، کیونکہ وہ ہمارے نزدیک خدا تعالی کے ایک نبی کے منکر ہیں۔”
(انوار خلافت: مصنف مرزا بشیرالدین محمود ۔ مندرجہ انور العلوم جلد 3 صفحہ 148)
وہ تمام اینکرز، وہ تمام فیس بکی علّامے ، جو قادیانیوں کی وکالت کرتے نہیں تھکتے،اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے مرزا قادیانی کو مسیح موعود مان کراُس کی بیعت کی ہے ؟ اگر نہیں کی تومرزا محمود کے فتویٰ کے مطابق وہ دائراہ اسلام سے خارج ہیں۔کیا وہ مرزا قادیانی کو اﷲ کا نبی مانتے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ بقول مرزا محمود: اﷲ کے ایک نبی کے منکر ہوئے اور کافر ٹھہرے ۔
واضح رہے کہ مندرجہ بالا تمام تحریرات 1974ء سے بہت پہلے زمانہ کی ہیں، اب میرا سوال یہ ہے کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے پر پیچ و تاب کھانے والے دانشور کیایہ بتا سکتے ہیں کہ مرزا قادیانی اور اس کے بیٹے کو تمام مسلمانوں کو “کافر” اور “دائرۂ اسلام” سے خارج کرنے کا حق کس نے دیا تھا؟
بات سوچنے کی ہے ۔مرزا قادیانی کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں میں سے صرف ایک ہی مسلمان ہو سکتاہے ، ذرا سوچیں کہ مسلمان ہونے کے لیے اﷲ کے تمام انبیاء پر ایمان رکھنا ضروری ہے ، مثال کے طورپر ایک آدمی کہے کہ میں کلمہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پڑھتا ہوں، نماز، روزہ، حج زکوٰۃ کوبھی مانتا ہوں، اﷲ کے تمام نبیوں کو بھی مانتا ہوں، لیکن (مثال کے طور پر) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ کا نبی نہیں مانتا تو ایسا شخص کسی طرح مسلمان نہیں ہو سکتا،کیونکہ اس نے اﷲ کے ایک نبی کا انکار کیا ہے۔ اب غور کریں کہ اگر تو مرزا قادیانی اﷲ کا نبی ہے (جیسا کہ قادیانی کہتے ہیں) تواس کا انکار کرنے والے وہ تمام لوگ جنہوں نے اسے نبی نہیں مانا اوراسے جھوٹا اور کذاب سمجھتے ہیں، مسلمان نہیں رہ سکتے اور اگر وہ کذاب ہے اور دعویٔ نبوت میں جھوٹا ہے تو اسے نبی ماننے والے مسلمان نہیں ہو سکتے،کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ مرزا کو نبی ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں ہی مسلمان ٹھہریں ۔
سب سے پہلے تو قادیانیوں کی وکالت کرنے والے اینکرز اور فیس بکی دانشور یہ فیصلہ کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں؟ مرزا قادیانی کو نبی مانے والوں میں، یا اسے جھوٹااور کذاب سمجھنے والوں میں؟ ہمارا حسن ظن ہے کہ وہ مرزا قادیانی کو نبی نہیں مانتے ،بلکہ جھوٹا ہی سمجھتے ہوں گے۔ لہٰذا مرزا قادیانی اور اس کے بیٹے کے مندرجہ بالا فتووں کی رو سے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور یہ فتوے 1974 سے بہت پہلے کے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ 1974 کو رَونے کے بجائے پہلے قادیانی جماعت سے پوچھا جائے کہ ان کے گرو مرزا قادیانی اور اور اس کی جماعت کو کس نے حق دیا تھا کہ وہ تمام غیر قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کہیں؟ جب یہ جواب مل جائے تو پھر 1974 پر آ جائیں ، اورقادیانیوں سے کہیں کہ اب ہم بتائیں گے کہ انھیں کن وجوہات کی بناء پر غیر مسلم قرار دیا گیا ۔
اب رہی بات قادیانیوں کے بنیادی حقوق کی تو اگر اِن حقوق سے مراد یہ ہے کہ قادیانیوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے کفریہ عقائد کو اِسلام بنا کر پیش کرتے رہیں، اور اپنے آپ کو “اصلی مسلمان” کہتے رہیں، تو معاف کیجیے گا کہ یہ حق انھیں نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ خنزیرکے گوشت پر “بکرے کے گوشت” کا لیبل لگا کر فروخت کرنے، یا کسی حرام مشروب پر “زم زم” کا لیبل لگا کر بیچنے کی اجازت کسی طرح نہیں دی جا سکتی اور اگر حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو آئین پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کو حاصل ہیں تو وہ حقوق قادیانیوں کو ضرور ملنے چاہیں، بشرطیکہ وہ دوسرے غیر مسلموں کی طرح ریاست کے آئین کو تسلیم کریں اور تسلیم کریں کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ ریاست کسی ایسے شہری کو اُس کے حقوق دینے کی پابند نہیں جو ریاست کے دستور کو نہ مانتا ہو ۔نیز ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنے مذھب کی تبلیغ کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ چہ جائیکہ مرتدوں اور زندیقوں کو ایسی اجازت دی جائے ۔
قادیانیوں اور دوسرے کافروں میں فرق:
سب سے اہم بات یہ ذہن میں رہے کہ قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں میں بہت بڑا فرق ہے ، عیسائی، یہودی، سکھ یا ہندو اپنے آپ کو کبھی بھی مسلمان کہہ کر پیش نہیں کرتے ، لہٰذا وہ عام کافر ہیں، لیکن قادیانی یا تو مرتد ہوں گے ،یا زندیق،جو اسلام ترک کرکے قادیانی ہوئے وہ مرتدہیں اورجو قادیانیوں کے گھر میں پیدا ہوئے اور اپنے مذھب کو اسلام کہنے پر مصر ہیں اور ساتھ ہی قادیانی عقائد کو بھی گلے سے لگائے ہوئے ہیں ۔وہ زندیق ہیں اور اسلام میں “مرتد و زندیق” کے احکام عام کافروں سے الگ ہیں۔ لہٰذا یہ دلیلیں دینا کہ قادیانیوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی آزادی دی جائے ، انھیں بھی مسلمانوں کے شعائر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے ۔یہ درست نہیں ہے ،کیونکہ دنیا میں جعل سازی کی اجازت کوئی بھی قانون نہیں دیتا ۔ مثال کے طور پر کوکا کولا کمپنی کو پتہ چلے کہ کوئی اس کے نام سے جعلی مشروب بنا رہا ہے اور لیبل تو کوکا کولا ہے لیکن اندر جو چیز ہے، وہ اصلی نہیں تو قانون ایسی جعل ساز فیکٹری کو بند کرنے کا پابندہے ۔اگر دنیا میں کسی کمپنی کے ٹریڈ مارک کی اتنی اہمیت ہے تو کیا دین اس سے بھی گیا گزرا ہے کہ کوئی بھی اپنے کفریہ عقائد کو “اصلی اسلام” بنا کر پیش کرے اور اسے کھلی اجازت دے دی جائے ؟
آخری گزارش:
قادیانیوں سمیت کسی بھی غیر مسلم کو قتل کرنا، یا قتل کی ترغیب دینا، یا قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اُن کے گھر جلانا، انھیں ہراساں کرنا ، کسی طرح بھی درست نہیں۔ اگر کسی نے کو جرم کیا ہے تو اسے سزا دینے کے اختیار ات بھی صرف ریاست کو حاصل ہیں۔
نوٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے قادیانی کتابوں کے حوالوں کے ہم ذمہ دار ہیں اور طلب کرنے پر اصل کتابیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
٭……٭……٭

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.