تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ احرار پانچویں قسط

تالیف: مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ

مُعَنوَن
یہ تاریخ میں ان احرار شہد اء اور خاموش کارکنوں کے نام معنون کرتاہوں جنھوں نے اپنی زندگی کو جماعت احرار کے لیے مٹی میں ملا کر مٹی کر لیا لیکن کبھی نام و نمود کی خواہش نہ کی جماعت کے لیے جل کر راکھ ہوجانے والے نوجوانو! تمہاری کیا ہی بات ہے ہم نے تمہاری گمنامی سے ناموری حاصل کی بخداتم ہی خدا کے حضور میں نامور ہو دراصل ہم گمنام ہیں!
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیْمِ
عرضِ حال
فرشتہ خصلت غریب پرقیامت گزرجائے کوئی نہیں پوچھتا ۔شیطان سیرت امیر کے سردرد کی خبر پاکر لوگ پیٹ پکڑے آتے ہیں اور گھر بیٹھے بھی پیر شہید مناتے ہیں۔ یہی حال سرمایہ دار اور غریب جماعتوں کا ہے مجلس احرار قربانی کے کارناموں کی زندہ تاریخ ہے مگر مفلس کا ایثار سرمایہ دار دنیا میں بے توقیر ہے ۔ سردیوں کی چاندنی رات اور جنگل کے شگفتہ پھول کی طرح اس پر نگاہ ڈالنے کی کسی کو فرصت کہاں لیکن جنگل کا پھول اور سردیوں کی چاندنی رات ذوقِ نظارہ کے لیے کم دعوت نہیں ۔مجلس احرار کو دنیا ہزار نظر انداز کرے مگر اس کی جاذب تاریخ کو پڑھ کر ہر شخص مرحبا کہنے پر مجبور ہوگا۔ میں ایسی پریشان حالی میں اس کو لکھنے بیٹھا ہوں کہ مضمون کے ساتھ پورا نصاف نہیں کرسکا مصلحت وقت کے پیش ِنظر بعض حصے تشنہ تکمیل ہیں ۔ قانون کی تلوار گردن کے بہت قریب لٹک رہی ہے۔ ایسے حال میں اسی تحفے کو دوست کی طرح قبول فرمائیں بعض ضروری افراد اور احباب کا ذکر رہ گیا ہے اور بعض واقعات نظرانداز ہوگئے ہیں ۔ ذرا حالات پرسکون ہولیں تو شاید جماعت کا کوئی اور دوست یا خود میں ہی فرصت پاؤں تو کبھی تکمیل کی کوشش ہوجائے، جماعتی ریزولیوشن بطور ضمیمہ شامل کرنے کا ارادہ تھا مگر کاغذ سونے کے تول بکنے لگا ہے حجم بڑھ گیا تو اشاعت اور خریددونوں مہنگے سودے ہوں گے۔
زبان کو جہاں تک ہو سکا سادہ رکھا ہے ۔جہاں تک ممکن ہوا قانون سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سنسر شدہ حصوں کو جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے۔ اس لیے بعض جگہ سے عبارت بے ربط سی ہوگئی ہے۔ ربط پیدا کرنے کی بھی کوشش نہیں کی تاکہ حکومت کو کوئی اعتراض باقی نہ رہے۔ جماعت کے لیے جماعتی تاریخ بے حدضروری ہے، تاکہ گزشتہ تجربوں کی روشنی میں آئندہ کے کام کو درست طور سے کیا جائے۔
لوگوں کی سنتے جائیے کہ احرار کا پروگرام ہمیں سمجھ نہیں آتا۔ پوچھو کہ انھیں کس جماعت کا پروگرام سمجھ میں آتا ہے۔ لیگ کا کوئی نصب العین معین نہیں پاکستان ابھی تک شرمندہ معنی ہے ۔یہ سکیم اور پاکستان کا نقشہ ابھی بطن شاعر ہی میں ہے، جناح پاکستان کی رٹ لگاتے ہیں۔ سرسکندر تحریک پاکستان کو شرانگیز قرادیتے ہیں۔عجیب اودھم مچاہوا ہے ۔ یہی ذہنی طوائف الملو کی کانگرس میں موجود ہے ۔ اس کے سو راج کی کوئی سکیم مرتب نہیں جس کا جوجی آئے ہانکتا ہے۔ ہاں ایک مذہبی سے گروہ کی وہاں حکمرانی ہے ۔ ۹کروڑ مسلمانوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔کانگریس کا پوناریزولیوشن ڈومی نین سٹیٹس سے بھی کم درجہ قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ کیا ہندوستان کا معاملہ بچوں کا کھیل ہے؟ دنیا میں سب سے زیادہ دشوار مسئلہ ہندوستان کے امن و آزادی کا مسئلہ ہے احراری ایک ایسی اسلامی جماعت ہے جو کسی یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمارا جماعتی نعرہ یہ ہے کہ ملک آزاد ہو جس میں غریب آسودہ ہوں۔ اقتصادی مساوات کے بغیر آزادی بے معنی چیز ہے۔ وہ چند سرمایہ داروں کی آزادی ہے جہاں امیرقانون پر حکومت کرتا ہے اورجہاں قانون غریب کو چکی میں پیستا ہے۔ پس احرار ایسی آزادی کے تصور کے دشمن ہیں اس سلسلے میں احرار قائدین کے خطبات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
اقتباسِ خطبہ استقبالیہ، مولانا مظہر علی اظہر، (احرار کانفرنس ۱۹۳۱ء لاہور)
’’ہندوستان کے مدعیانِ قوم پرستی کو ابھی تک یہ سبق پڑھائے جانے کی ضرورت ہے کہ ’’ دنیا امیروں کی جولان گاہ نہیں اس میں غریبوں کابھی حصہ ہے‘‘بلکہ اگر حق رائے دہی اور نظام حکومت کی ضرورت ہے تو غریبوں کو۔ امیر تو خود اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اپنے لیے حفظان صحت کا انتظام کرسکتے ہیں۔ جائیداد کی حفاظت کے لیے پہرہ دار مقرر کر سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کو تعلیم دے سکتے ہیں ۔ لیکن غریب ہی ہیں جنھیں نہ آج تک تعلیم دی گئی ہے۔ نہ ان کے لیے حفظانِ صحت کا بندوبست کیا گیا نہ ان کی روز مرہ زندگی ہی انسانوں کی زندگی کہلا سکتی ہے۔ بلکہ امیروں کے اکثر کتے لاکھوں اور کروڑوں غریب انسانوں سے بہتر زندگی بسر کررہے ہیں۔
اگر اسی نظام حکومت کو قائم رکھنا ہے جو سرمایہ داری کی شان اپنے اندر رکھتا ہے اور غریب کو کچل کچل کر امیر کو مالامال کرنے میں منہمک ہے تو برطانوی کارتوس اور بم کچھ عرصہ تک یقینا ابھی غریبوں کو خاموش رکھ سکیں گے اور ہندو اور سکھ سرمایہ پرستی اسی امید پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ مگر نوع انسانی کے غریب لیکن محنت کش افراد ہمیشہ کے لیے قعرمذلت میں نہیں رہ سکتے اگر پنجاب میں غریب طبقہ میں مسلمانوں کی نمائندگی زیادہ ہے تو باقی صوبوں میں غریب ہندوؤں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے قوم کے بہترین افراد کو جو شب و روز محنت کرتے ہیں اور اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے بھی اکثر محروم رکھے جاتے ہیں ۔جنھیں نہ گرمی میں شملہ، ڈلہوزی اور مری کی ٹھنڈی ہوائیں نصیب ہوتی ہیں۔ نہ سردی میں دہکتی ہوئی انگیٹھیوں کے آگے بیٹھنا مل سکتا ہے۔ نہ بادوباراں کے موسم میں ہی کہیں سرچھپا کر بیٹھنے ہی کی توفیق ہوتی ہے۔ انھیں ہمیشہ اپنے اغراض کے لیے استعمال کرنا انھیں شرف انسانیت سے محروم رکھنا ۔ احسن تقویم میں خلق کی ہوئی دنیا کو اسفل ِسافلین میں رہنے پر مجبور کرنا بالآخر آج کل کے سرمایہ دار اور فوقیت یافتہ طبقہ کے لیے ہی نہ صرف خطرناک بلکہ مہلک ثابت ہوگا۔ آج وقت ہے کہ ہر طبقہ کو فراخ حوصلگی سے مواقع ترقی دیئے جائیں۔ غریبوں، کمزوروں ،جاہلوں بلکہ گناہ گاروں کی خبر گیری کی جائے۔ تاکہ وہ آسانی سے خواص انسانی حاصل کرکے مادروطن کے لیے زینت اور فخر کا باعث ہوں ۔ لیکن اگر حکومت کی مشینری اس لیے چلائی جاتی ہے کہ غریب محنت کرتے اور سرمایہ دار عیش میں رہے۔ مقروض کمائے اور قرض سب کچھ سود میں اُڑالے جائے۔ عوام الناس بیکار ہوں اور جرم و گناہ کی زندگی بسر کریں او رامراء ورؤسا انھیں سزا دینا ہی اپنا فرض سمجھیں۔ ان کی مشکلات کو حل کرنے کی دردسری اپنے ذمہ نہ لیں۔ تو جماعتی جنگ کے سوا کوئی چارہ کارنہ رہے گا۔
ہم اب بھی آزادی وطن کے لیے تہ دل سے کو ششیں کریں گے لیکن ہماری کوششیں غریبوں، مفلسوں ، محنت کشوں، مظلوموں اور ستم رسیدوں کی آزادی وخوشحالی اور فارغ البالی کے لیے ہوں گی۔ ہم نئی بادشاہتیں نئے راج،نئی نوابیاں اور نئے ساہوکار سے دیکھ کر خوش نہیں ہوسکتے ۔ہم خود دولت اور امیری کے دلدادہ نہیں نہ آئندہ امیرانہ ٹھاٹھ سے زندگی بسر کرنا ہمارا مقصد ہے۔ اس لیے جہاں ہم نے آج تک برطانوی ملوکیت او رسرمایہ داری کا ساتھ دینا ضعف ایمانی سمجھا ہے اسی طرح ہندوستانی سرمایہ داری کے ہاتھ میں کھیلنا بھی ہمارے نزدیک جائز نہیں۔ اگر ہمارے سرمایہ دار بھائی ہمیں اپنے پھندے میں نہ پھنستا دیکھ کرجو ش غضب میں آئیں تو ہم مردانہ وار مسکراکر اپنی راہ چلتے جائیں گے۔
اقتباس خطبہ صدارت:مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی(رحمتہ اﷲ علیہ)
میرے نزدیک ہندوستان کی تمام مشکلات کا حل صرف ایک ہے کہ ہندوستان کے تمام سمجھ دار قوم پرست کسانوں اور مزدوروں کی تنظیم کریں اور ہندوستان میں بجائے ایک سرمایہ دار حکومت کے غرباء کی حکومت قائم کریں۔ میں اگر چہ کانگریسی ہوں اور میں نے ہمیشہ کانگریس کے جھنڈے تلے کام کیا ہے۔ مگر مجھے اس کے کہنے میں پس و پیش نہیں ہے کہ کانگریس کی محنت اور قربانی کا نتیجہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان کی حکومت انگریزی سرمایہ داروں کے ہاتھ سے نکل کر ہندوستان کے سرمایہ داروں کے ہاتھ دے دی جائے۔ بلکہ ڈومینین سٹیٹس کی شکل میں تو جو حکومت ہندوستان پر قائم ہوگی۔ اس میں ہندوستانی اور انگریز سرمایہ دار مل کر یہاں کے غرباء کو کچلنے کی کوشش کریں گے۔
اقتباس خطبۂ صدارتصاحبزادہ فیض الحسن (اسلام اور سوشلزم)
’’لیکن مشکل یہ پیش آئی کہ انسانی حرص وآز کی کارفرمائیوں نے اس قدرتی معاہدے اور اشتراک عمل کی پروانہ کرتے ہوئے تمدن کی خوش گوار فضا کو محشر ستان فساد بنا دیا۔ پیداوار کی وہ تقسیم جو عام ہونی چاہیے تھی ۔ بعض افراد تک محدود ہو کر رہ گئی۔ سرمایہ محنت سے بازی لے گیا قوت خرید کی غیر مساوی تقسیم مصیبت بن گئی۔ سوسائٹی عموماً دو طبقوں میں بٹ گئی۔ سرمایہ دار دائمی عزت اور تمام مسرت کا مالک بن گیا۔ اور مزدور اس کے ہاتھ میں کٹ پتلی اور آلہ کاربن کر رہ گیا۔ قومیں بھی اس مرض میں گرفتار ہوگئیں۔جہاں افراد ایک دوسرے کے حقوقِ زندگی کو پامال کرنے لگے وہاں قومیں بھی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے لگیں۔
پیداوار کی غیر معتد ل تقسیم ہی اس شرو فساد کا باعث ہے اور اس کا صحیح کنٹرول دنیائے انسانیت کی اس سب سے بڑی مصیبت کا علاج ہے۔ اس صحیح کنٹرول کو ہم دوسرے لفظوں میں مساوات کہہ سکتے ہیں۔ سوشلزم نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک نظر یہ پیش کیا ہے جو میرے نزدیک کیپٹل ازم فسطائیت وغیرہ رائج الوقت نظریوں سے بہتر ہے لیکن ہنوزوہ سائنٹی فک حیثیت نہیں رکھتا کیوں کہ کتابوں اور پلیٹ فارموں پرتو اس کے محاسن بیان ہو چکے ہیں لیکن ہنوز عملی زندگی میں تجربہ کی کسوٹی پر اس کا پرکھنا باقی ہے۔‘‘
اقتباس خطبۂ صدارت، شیخ حسام الدین بی۔ اے رحمتہ اﷲ علیہ (مسلمانوں کی اقتصادی پستی)
حضرات آپ کو معلوم ہے کہ اقتصادیات میں آپ کا درجہ صفر کے قریب ہے ۔صرف پنجاب ہی میں مسلمان آبادی پر ڈیڑھ ارب کے قریب ہے قرض جس کا سود سولہ کروڑ سے زاید ہے۔ پس ایسی حالت میں جب کہ ایک قوم اتنے گراں بار قرض کے بوجھ سے دبی پڑی ہو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کا اقتصادی پہلو مستقبل قریب میں کوئی خوشگوار صورت اختیار کر سکتا ہے۔ کس طرح اس کے پنپنے کے وسائل پر کوئی لمحہ خرچ کیاجاسکتا ہے۔ جب وہ خود اسی بوجھل زندگی کی بیڑیوں سے اس حد تک مانوس ہوچکی ہو کہ بجائے اتار کے پھینک دینے کے وہ الٹی اس کو چھاتی سے لگائے ہوئے ہو یاد رکھو اگر تمہارے یہی لیل و نہار ہیں اگر ذلت و گمنامی سے تمہیں اسی طرح اُنس ومحبت رہے گی۔ اگر قرض کو اتارنے کی بجائے تمہارے روزانہ مشاغل اس کو بڑھانے والے رہیں گے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان کی سونا اگلنے والی زمین تم پر اس حد تک تنگ ہوجائے کہ اپنی تمام وسعتوں کے باوجود سرچھپانے کے لیے ایک چپہ بھر زمین بھی ایسی نہ رہے گی جسے تم اپنا کہہ سکو۔ شہروں کی آبادیاں جو کل تک مسلمانوں کے قبضہ و تصرف میں تھیں ایک ایک کر کے نکل رہی ہیں۔ جائیدادیں بک گئیں۔ زمینیں نیلام ہو گئیں۔ تجارت پر تمہارا قبضہ نہیں۔ کارخانوں میں مزدور کی حیثیت سے دوسروں کے محتاج پس ایسے حالات میں سیاسی آزادی بھی من حیث الجماعت کوئی فائدے کی چیز ہوسکتی ہے؟ ہر گز نہیں ۔بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا جس کو کہ ہم اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں ۔ کہ سرمایہ دار طاقتیں چند انسانوں کو خرید کر غریب وفاقہ پرست قوم پر من مانے طریق پر حکومت کریں گی۔ جسے غریب نہایت سادہ لوحی سے نمائندہ حکومت کہے گا۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ جمہور جو قرض کے بوجھ سے دباہوانہ ہو اس حد تک طاقتور ہوا کرتا ہے کہ اس کے نمائندے اس کو کبھی دھوکا دے کر مخالفین کے ہاتھوں میں فروخت نہیں کرسکتے۔ پس سیاسی آزادی قوموں کے لیے اسی صورت میں مفید ہو سکتی ہے جبکہ اقتصادی آزادی سے قومیں مالامال ہوں ۔میں حیران ہوں کہ میری قوم نے کبھی سنجیدگی کے ساتھ اپنے گردوپیش کے حالات کی طرف توجہ نہیں دی۔
پاکستان
پاکستان کے متعلق ہر روز ہم سے ہماری پوزیشن پوچھی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایسے پاکستان کو ہم پلیدستان سمجھتے ہیں جہاں خود غرضوں نے زراندوزی کی قابلیت کو معیار قراردے کر دوسروں کو ضروریات زندگی سے محروم کردیا ہو۔ ایسے اکھنڈ ہندوستان کو پاکھنڈ ہندوستان سمجھتے ہیں جہاں سوسائٹی میں سیاسی اور اقتصادی نابرابری ہو اور غریب نان ونفقہ کے محتاج ہوں۔ اسلام سورت النحل کے مطابق کسب معاش کی مختلف قابلیتوں کو تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن صحیح قابلیت کو اخلاق کی کسوٹی پر پرکھتا اور کسب معاش کی زیادہ استعداد رکھنے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ معذور دل اور کمزوروں کی طرف رزق لوٹادیں تاکہ سب برابر ہوجائیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ کسب معاش کی استعداد اور قابلیت کس میں تھی؟ مگر آپ کی اقتصادی زندگی کتاب کے اصول پر بسر ہوئی ۔یعنی کم از کم ضرورت کا سامان رکھ کر باقی سب قوم کی نذر ہوتا رہا۔ اگر مسلم لیگ کے پاکستان میں یہ دستور زندگی ہوگا ہر احرار اس کا حامی ہوگا۔ ورنہ پاکستان کا ہر سرمایہ دار مدعی سمجھ لے کہ اسلام کسی وطنی اور جغرافیائی تقسیم کا قائل نہیں۔ مسلمان کا وہی وطن ہے جہاں اس کا ضمیر آسودہ اور مطمئن ہو ۔نماز اور روزہ کی توہر کفرستان میں بھی اجازت ہے۔ باقی سیاسی اور اقتصادی پروگرام جومذہب کاجزو لانیفک ہے۔ کہاں ہے ایسا پاکستان جس میں مساوات اسلامی قائم ہو؟ مسلم اور غیر مسلم پر ظلم نہ ہو بحیثیت انسان سب کو اقتصادی حقوق برابر حاصل ہوں جہاں مساوات نہیں وہاں پاکستان نہیں۔
پاکستان کا مدعی کہتا ہے کہ پاکستان میں مسلمان راج کرے گا مگر بتاؤ وہ مسلمان کیسا ہوگا سود کو جائز سمجھنے والا ہوگا، غریب کو بھوکا ننگا دیکھنے کے باوجود روپیہ کو بنک میں رکھنے والا؟ اپنی لڑکی کو خوشی سے غیروں کے حوالے کرنے والا ، وکیلوں کی طرح جھوٹ تصنیف کر کے سرمایہ فراہم کرنے والا تونہ ہوگا ؟اگر یوں ہوگا تو سوچو کس مسلمان کو ایسے راج سے دلچسپی ہوسکتی ہے ؟ہمیں اسلامی پروگرام کے باغی مگر نام نہاد مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اسلام کے باغی پاکستان سے ہم اس ہندو، ہندو ستان کو پسند کریں گے جہاں نماز روزہ کی اجازت کے ساتھ اسلام کے باقی عدل و انصاف کے پروگرام کے مطابق نظام حکومت ہوگا۔ یعنی ہر شخص کو صرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم، صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اور فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی زندگی کی پیروی میں محض ضروریات زندگی مہیاکی جائیں گی اور کسی کو کسی دوسرے پر سیاسی یا اقتصادی فوقیت نہ ہوگی ۔ جن لیگیوں اور کانگرسیوں کو سیاسی اور اقتصادی مساوات سے گھن آتی ہے وہ سن لیں کہ وہ ہمارے دینی بھائی ہیں نہ وطنی بھائی۔ وہ لیٹروں کا ذہن رکھتے ہیں ۔ ان کا اور احرار کا ساتھ نہیں نبھ سکتا۔
سب کو علم ہے کہ حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ کا رل مارکس کی پیدائش سے ۵۸ سال پہلے فوت ہوئے ۔ ان کے قول کے مطابق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ امراء اور سلاطین کی لوٹ کھسوٹ سے عوام کو بچایا جائے ۔ قیصرو کسریٰ کو اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام اور امیرانہ رسم و رواج کو برباد کیا جائے اور لوگوں کو امتیازی زندگی بسر کرنے سے منع کیا جائے (حجتہ اﷲ البالغہ: ص ۶۴)
گویا نظامِ اسلامی چلانا اور امراء اور سلاطین کی لوٹ کھسوٹ سے لوگوں کو بچانا پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کامشن تھا، پس اگر محمد علی جناح اسلام کے اقتصادی اور سیاسی نظام کے خلاف کسی سرمایہ داری کے نظام کو چلائے تو نفع کیا؟ اور اگر جواہر لعل اور گاندھی خلفائے راشدین کی پیروی میں سوسائٹی میں نابرابری کے سارے نقوش کو مٹائے چلے جائیں تو بطور مسلمان کے ہمیں نقصان کیا ۔پس پاکستانیوں سے احرار کہتے ہیں کہ تم اسلام کے سیاسی اور اقتصادی مساوات کے پروگرام کا یقین دلاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔جب کہ ۶۰؍ فیصدی ہندو اور سکھ تمہارے ساتھ ہوں گے۔اسی اکھنڈ ہندوستانیوں سے کہتے ہیں پہلے تم بھی سیاسی اور اقتصادی برابری کا دعویٰ پیش کرو ۔ساٹھ فیصدی میں پچانوے فی صد مسلمان ہمارے ساتھ ہوں گے۔ ورنہ احرار کا صاف اعلان ہے کہ کانگرس اور لیگ کی موجودہ لڑائی کوہم ملک کے لیے مبارک سمجھتے ہیں ۔ تاکہ ان دوسرمایہ دارانہ نظاموں کی ٹکر میں غریبوں کابھلا ہو۔
مجلس احرا ر کا ہر دستور عمل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرتب کیا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے مسئلے پر غور کرنے سے قبل ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اسلام دنیا میں کسی قسم کی جغرافیائی تقسیم یا وطنوں کا تعین کرنے نہیں آیا۔ بلکہ اسلام ایک عالمگیر تحریک ہے جو زبان ومکان کی قیود سے بالاتر ہے۔ اسلام کی آمد کا مقصد ایک نظام حیات کی طرف دنیا کو دعوت دینا تھا او ر اس طرح تمام دنیا کو ایک رشتہ اخوت ومودت میں پرونا تھا۔ جب کبھی دنیا کے کسی حصے نے اسلام کے نظام کو اپنایا ہے اسلام نے اپنے دروازے اس پروا کر دیئے ہیں اور جب کبھی کسی خطے میں اسلام کا بقانا ممکنات میں سے ہوگیا ہے اس خطے کو نظرانداز کردیا گیا ہے خواہ وہ مکہ ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن اسلام نے کبھی کسی علاقے کو مستقل طور پر نظر انداز نہیں کیا بلکہ متروک علاقے کو اپنے قریب لانے کی اس علاقے سے باہر رہ کر پہلے سے زیادہ کوشش کی ہے یعنی اسلام ملکوں کی کسی دائمی اور ناقابل تغیر تقسیم کا قائل نہیں۔ زمین کا جو ٹکڑا مشرف بہ اسلام ہوا وہ اسلامی عالمگیر برادری میں شامل ہوگیا اور زمین کے باقی حصوں میں اسلام پھیلانے کی کوششیں کبھی ٹھنڈی نہیں پڑیں ۔ اس اصول کو مدنظر رکھ کر اگر پاکستان کے مسئلے پر غور کیا جائے تو اس عقدہ کاجسے لاینحل سمجھا جارہا ہے صحیح حل فوراً ذہن میں آجاتا ہے۔
اسلام دنیا میں حکومت الٰہیہ اور خلافت ربانی قائم کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد راست بازی، خوش اخلاقی اور عدل و انصاف پر ہو۔ اسلام کی آمد کا مقصد صرف یہی ایک ہے اور اس کے سوا اسلام کا پیغام کچھ نہیں۔ جو شخص اسلام میں وطن کے جواز کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا ہے وہ اپنی اس کوشش میں یقینا ناکام رہے گا۔
مسلمانوں کے لیے حکومت الٰہیہ کا قیام اولین حیثیت رکھتا ہے اور رہنے سہنے کے لیے جگہ کی تلاش ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت الٰہیہ کا قیام مسلمان کی زندگی کا اولین مقصد ہے اور زمین کے کسی حصہ پر رہنا اس مقصد کے لیے دنیا کے کسی حصہ کو نہیں چھوڑ سکتے کہ وہاں ہمارے پڑھے لکھے آرام طلب نوجوانوں یا تعیش پرست سرمایہ داروں کے لیے عزت کی جگہ نہیں ۔اگر ہم کسی خطہ کو چھوڑیں گے تو وہ بھی عارضی طور پر جیسا کہ مکہ کی ہجرت سے ظاہر ہے کہ حالات سازگار ہونے پر مسلمان واپس مکہ آگئے تھے تو صرف اس لیے کہ وہاں حکومت الٰہیہ کاقیام ممکنات میں سے ہوگیا تھا۔
اسی صول پر احرار کاربند ہیں اور ہر مسلمان کو اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ دنیا کے کسی حصے میں حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے جب کبھی کوشش ہوگی ہماری ہمدردیاں اور ہمارا دلی تعاون ان کو ششوں کے ساتھ ہوگا اور ہم حتیٰ الامکان ان کوششوں میں شریک کارہوں گے۔ خواہ یہ کوشش چین میں ہو یا پنجاب میں یا بنگال میں یا کسی ایک شہر میں یا کسی ایک گاؤں میں بلکہ کسی شہر کے کسی ایک چھوٹے سے چھوٹے محلے میں بھی اگر کسی وقت حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے کوشش کی گئی تو ہم یقینا ان کوششوں کا ساتھ دیں گے اور اگر ہماری کوششوں سے کسی چھوٹے سے قصبہ کی ایک چھوٹی سی گلی میں بھی حکومت الٰہیہ قائم ہو جائے تو ہم اسے اپنے لیے عاقبت میں سرخ روئی کا باعث سمجھیں گے۔
ہم سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پہلے یہ بتاؤ تقسیم ہند کے قائل ہو؟ہم اس سوال کاجواب دینے سے قبل سائل سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا تم حکومت الٰہیہ کے قائل ہو؟اگر وہ حکومت الٰہیہ کا قائل ہے اور اس کے لیے کوشش کرنے کو تیار ہے تو وہ جان لے کہ ہم ہندوستان تو ایک طرف رہا شہروں کی بھی تقسیم کے قائل ہیں تاکہ حکومت الٰہیہ کسی بھی جگہ قائم ہوسکے ۔ اگر اس کے نزدیک تقسیم ہنداولین اور حکومت الٰہیہ کاقیام ثانوی حیثیت رکھتا ہے تو ہم اسے بتائے دیتے ہیں کہ ہمارا اور اس کا تعاون نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ وہ وطن بنانا چاہتا ہے اور ہم وطنی تقسیم کے قائل نہیں ۔ہم تو صرف ایک ہی تقسیم کے قائل ہیں اور وہ ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔
مسٹر جان گنتھر اور احرار:
دنیا کی تحریکات سے متعلق سب سے زیادہ معلومات رکھنے والا اندورن ایشیا کا شہرہ آفٖاق مصنف جان گنتھر احرار کے ذہن کے متعلق لکھتا ہے:
’’مسلمانوں کی ایک اور شاخ کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے احرار پنجاب میں بایاں بازو ہیں اور وہ کانگرس کے ساتھ ہیں وہ عجب مجموعہ اضداد ہیں۔ ایک طرف وہ مذہبی اعتبار سے فرقہ پسند فدائی ہیں لیکن ساتھ ہی سیاسی انتہا پسند ہیں وہ مذہب کے ذریعے عوام میں اثر پیدا کرتے ہیں۔‘‘
حالات کا جائزہ لینے والے کہتے ہیں کہ کم علم عوام تک پہنچنے کا یہی بہتر طریقہ ہے۔
تحریکات عالم کو سمجھنے والا اور سب سے ثقہ شخص مسٹر گنتھر احرار کو ایک عجیب و غریب مجموعہ قرار دیتا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیے کیوں کہ مغرب نے مذہب پرست لوگوں کو سیاسی انقلابی نہیں پایا اور نہ یورپ میں کبھی سیاسی انتہاپسند طبقہ مذہب کا علم نہایت مضبوطی کے ساتھ تھامے رہا ہے۔ یہ شرف صرف اسلام ہی کو حاصل ہے اور مجلس احرار موجود ہ دور میں صحیح روایات اسلام کی بہترین جانشین ہے۔ ہمارا عمل ہمار نظام کار اور ہماری تاریخ اس بات کابین ثبوت ہیں کہ جہاں ہم مذہبی معاملات میں عوام کی رہنمائی کرتے ہیں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے اور جہاں ہمارے رہنماؤں اور رضاکاروں نے ختم نبوت ،مدح صحابہ او رشاتمِ رسول راج پال کی تحاریک میں نمایاں اور اہم حصہ لیا ہے وہیں ہمارے رضاکار سیاسی میدان میں بھی ملک کی کسی ترقی پسند سیاسی جماعت سے پیچھے نہیں رہے ۔یہ چیز ایک مغربی آنکھ کے لیے یقینا ایک عجوبہ ہوسکتی ہے مگر ہمارے لیے شرف ومباہات کا باعث ہے یہ سب کچھ اس نبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ادنیٰ ساکرشمہ ہے کہ اس کے نام لیواؤں کی ایک جماعت ایسی آج بھی موجود ہے جسے دیکھ کر مغرب کے مفکر انگشت بدنداں ہیں کہ ایک طرف تو یہ لوگ مذہب کا دامن نہیں چھوڑتے اور دوسری !اقتصادی مساوات اور سیاسی آزادی کے علم بردار اور ان مقاصد کی خاطر قربانی کرنے والوں میں سب سے پیش پیش ہیں۔ زمانہ آج اسی عجیب و غریب مجموعہ کا مطالبہ کررہا ہے۔ صرف سیاست ’’یا‘‘ صرف مذہب کی تحریکیں ناکام ہو چکی ہیں ۔ یا ناکام ہوجائیں گی۔لیکن مذہب و سیاست کا جو امتزاج آج سے ساڑھے تیرہ سوسال قبل قائم کیا گیا تھا اس کی زندہ مثال آج دنیا کے سامنے موجود ہے او رخداوند عزوجل کا جتنا بھی ہم احرار شکر گذار ہوں کم ہے کہ اس کی عنایا ت بے غایات اور انعام واکرام کے طفیل اس صدی میں اسلام کے صحیح لائحہ عمل یعنی ’’اجتماعِ مذہب و سیاست‘‘ کار بند ہونے کا شرف صرف ہم غریب احرار کو حاصل ہوا ہے ؂
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
نوٹ: کتاب کے آخر میں ایک ریزولیوشن درج ہے یہ میرے ذاتی خیالات ہیں منشاء اس سے یہ ہے کہ تمام دوستوں کو اس مرتبہ ریزولیوشن پر غور و خوض کرنے کا موقعہ ملے او روہ اپنے خیالات کی روشنی میں اس کی ترمیم و تنسیخ کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.