تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

دعوتی واصلاحی پیغام

عطاء محمد جنجوعہ 

(قسط نمبر 4)

متواتر احادیث سے حضور کا خاتم النبیین ہونا ثابت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے حسین وجمیل گھر بنایا لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس عمارت کے اردگرد گھومتے ہیں، اس کی عمدگی پر اظہار حیرت کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ اینٹ کی جگہ پر کیوں نہ کردی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘(صحیح بخاری: ۳۵۷۵)
سلف صالحین اس امر پر متفق ہیں۔
’’اگر اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوسکتا ہے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا‘‘ (صحیح بخاری: ۶۱۹۴)
امت محمدیہ کا کوئی فرد چاہے ہاشمی خاندان سے نسبت رکھتا ہو، خواہ وہ کتنا ہی صاحب علم، زہد وتقویٰ کا حامل کیوں نہ ہو۔ جس کے اعمال صالحہ میں خلوص وﷲیت کا جذبہ کوٹ کر بھرا ہوا ہو۔ اہل سنت کے نزدیک اس کی عزت واحترام بجا لیکن وہ نبی کے امتیازی مرتبہ کا حامل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی خاتم النبیین، خاتم المعصومین اور خاتم الوحی ہے اور قیامت تک آپ کے علاوہ کسی اور کی بلامشروط اطاعت امت پر فرض نہیں۔ قرب الٰہی اور اپنے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع میں مضمر ہے۔
اہل سنت میں خلفاء محدثین، ائمہ کرام کا تصور تو ہے کہ انہوں نے رب ذوالجلال اور رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام مخلوق کو پہنچائے اور سمجھائے اس لیے ان کی دینی خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن وہ کسی امام اور محدث کو نبی کے امتیازی اوصاف کا حامل نہیں سمجھتے۔
غالیوں کے نزدیک ائمہ کرام کے مرتبہ کا جدا گانہ تصور ہے۔ وہ اہل سنت کے نظریہ خلافت پر تنقید کرتے ہیں کہ تمہارے خلفاء ثلاثہ کو مہاجرین وانصار نے منتخب کیا ہے جبکہ ہمارے ائمہ کو اﷲ نے خود نامزد کیا ہے۔ وہ قرآنی آیات تطہیر کی رو سے اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء ثابت کرتے ہیں۔ ائمہ کی اطاعت فرض تو درکنار وہ ان مجہتدین کی اطاعت کو بھی فرض قرار دیتے ہیں۔ جو ان کے ائمہ کرام سے فیض حاصل کرتے رہے۔ غالیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب ائمہ کو ضرورت محسوس ہوتی ہے تو روح القدس ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں۔
اس قسم کے نظریات ایران میں شائع ہونے والی کتب میں صراحت سے موجود ہیں چونکہ ان تک عوام الناس کی رسائی مشکل امر ہے۔ میں ایسی کتاب کا حوالہ پیش کرتا ہوں جو پاکستان میں آسانی سے دستیاب ہوسکتی ہے۔
شیعہ کے نزدیک ’’فخر الاولین والا ٓخرین رئیس المحد ثین عالم ربانی حضرت علامہ‘‘ باقر المجلسی الا صفہانی اپنے رسالہ لیلیہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ثم لا بد ان تعتقد فی النبی والائمۃ انھم معصومون من اول العمرالیٰ آخرہ من صغائر الذنوب وکبائرھا وکذا جمیع الانبیاء والملائکۃ وانھم اشرف المخلوقات جمیعاً وانھم افضل من جمیع الانبیاء وجمیع الملائکۃ وانھم یعلمون علم ماکان وعلم مایکون الی یوم القیامۃ‘‘ (اعتقادات امامیہ، ص ۵۷ طبع مکتبہ سبطین کوٹ فرید سرگودھا۔ )
’’جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ائمہ علیہم السلام کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ اول عمر سے لے کر آخر تک (الغرض مہد سے لحدتک) ہر قسم کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے معصوم ومطہر ہیں اور یہی اعتقاد باقی تمام انبیاء مرسلین وملائکہ ومقربین کے متعلق لکھنا ضروری ہے۔ یہ بزرگوار تمام مخلوقات خداوندی سے اشرف واعلیٰ ہیں اور (سوائے خاتم الانبیاء کے باقی) تمام انبیاء ومرسلین اور ملائکہ مقربین سے افضل ہیں۔ وہ گذشتہ اور قیامت تک کے آیندہ (حتمی) حالات اور واقعات سے باخبر ہیں۔
اس کتاب کی تعریف وتقریظ میں مفتی جعفر حسین سر براہ تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ نے تحریر کیا ہے:
’’رسالہ لیلیہ مجددِ ملت جعفر یہ آیت اﷲ المجلسی کی تصنیف ہے جو عقائد صحیح اثنا عشریہ پر مشتمل ہے اس کا ترجمہ العلامۃ الحجۃ مولانا محمد حسین نے فرمایا ہے اور اس پر مفید حواشی بھی تحریر کیے ہیں۔ ہر مومن کو چاہیے کہ وہ اس سے استفادہ کرے اور اسے اپنے عقائد کی بنیاد قرار دے کیوں کہ یہی مذہب شیعہ کے صحیح عقائد ہیں جو اقوال واثارائمہ سے مستنبط ہیں‘‘۔ (ص ۴)
شیعوں کے مجددملت کے مذکورہ عقیدہ سے صاف ظاہر ہے کہ نبوت کے خصوصی اوصاف ائمہ میں یقینا موجود ہیں۔ مزید برآں ان میں چند نمایاں صلاحیتیں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جن کی بنا پر وہ جمیع انبیاء کرام سے افضل ہیں۔ علامہ باقر مجلسی نے جمیع انبیاء کرام کے بعد کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا البتہ مترجم نے بریکٹ میں (سوائے خاتم الابنیاء) درج کیا ہے۔
مجہتد محمد حسین ڈھکو امام کے تقرر کی وضاحت کرتے ہیں:
’’جس طرح نصب تقررنبی لوگوں کے بس کا روگ نہیں، اسی طرح نصب خلیفہ وامام بھی ان کے اختیار میں نہیں بلکہ نبی کے تقرر کی طرح خداوند عالم کے قبضہ قدرت میں ہے‘‘ (اثبات الامامت، ص۱۹)
آپ کے بقول نبوت کی طرح امامت کا تقرر اﷲ کے قبضہ میں ہے تو نبوت کادروازہ بند کرکے امامت کا دروازہ کھولنے کا کیا مقصد؟
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: یأَ یّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوَْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّ وْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ) (النساء: ۵۹)
اس آیت کی روشنی میں اﷲ اور رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے اور امام کی غیر مشروط کیوں؟
اگر ائمہ کرام پر وحی کا نزول جاری رہتا ان کااجتہاد معصوم عن الخطاء ہوتا تو عام مسلمانوں کی امام سے تنازعہ کی صورت پیدا نہ ہوتی۔ اگر نبی کی طرح امام پر وحی کا سلسلہ جاری رہتا تو امام کی بجائے اﷲ اور رسول کی طرف پلٹنے کا حکم کیوں ہے؟ خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ اگر اﷲ کی طرف سے امام کے تقرر کا سلسلہ جاری رہتا تو اﷲ امت محمدیہ پر ذمہ داری نہ ڈالتا تم بہترین امت ہو جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔
(کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ) (آل عمران: ۱۱۰)
صدر موتمر علماء شیعہ پاکستان محمد حسین نجفی اصول امامت کی وضاحت کرتے ہیں:
’’آیا امامت اصول میں شامل ہے یا فردع میں داخل؟ حقیقت امر یہ ہے کہ امامت اصول مذہب سے ہے کیونکہ جو چیز اس قدر اہم ہوجس کے وجود کے ساتھ دین کی بقاو دوام وابستہ ہو اور اس کے بغیر بعثت رسول کی غرض وغایت بلکہ تمام انبیاء ومرسلین کی نبوتیں ورسالتیں اکارت وبرباد ہوتی ہوں تو یقینا وہ چیز اصول سے ہوگی نہ فردع سے۔ (اثبات الامامت ص ۱۸)
اس تحریر کی روشنی میں اگر امامت اس قدر اہم تھی جس کے بغیر بعثت رسول کی غرض اکارت وبرباد ہوجانا یقینی تھا تو ان ائمہ کرام کے نام قرآن میں مذکورہ کیوں نہیں؟
٭ شیعہ صاحبان انبیاء کی طرح ائمہ کی بعثت، عصمت وجوب اطاعت اور نزول وحی کے قائل ومعتقد ہیں۔ تو ذہن میں سوال جنم لیتا ہے کہ اگر نبوت اور امامت کے اوصاف میں یکسانیت ہے تو ان میں امتیازی فرق کون سا ہے۔
٭ نبوت کا دروازہ بند کرکے انہی اوصاف حمیدہ کی حامل امامت کا دروازہ کھولنے میں کیا حکمت ہے۔
٭ اگر ائمہ اثناء عشریہ بھی انبیاء کرام جیسے اوصاف کے حامل ہیں تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کا تاج پہنا نے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
اہل سنت خلفاء راشدین کی عصمت بعثت ونزول وحی کا عقیدہ ہرگز نہیں رکھتے۔ تعجب ہے کہ وہ منبررسول کے حق دار بن گئے اور نبوی اوصاف کے حامل ائمہ خلافت کی ذمہ داری سے محروم کیوں ہو گئے؟
اﷲ سبحانہ نے گزشتہ انبیاء کا قرآن حکیم میں تذکرہ کیا ہے۔ بقول شیعہ ان سے برتر واعلیٰ اوصاف کے حامل ائمہ کرام سچی پیش گوئی قرآن میں کیوں نہیں کی گئی۔ قرآن میں متقی لوگوں کی علامات بیان کی گئی ہیں۔
(وَالَّذِیْنَ یَؤَ مِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰ خِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ) (البقرہ :۴)
’’اور جو لوگ کہ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس چیز کے جو اتاری گئی ہے طرف تیری اور جواتاری گئی ہے پہلے تجھ سے اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں۔‘‘
چند غور طلب پہلو ہیں:
اگر ائمہ اثنا عشریہ پر بد ستوروحی آتی رہی تو اﷲ نے مومنوں کو قرآن میں گزشتہ ابنیاء کرام پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ائمہ پر اترنے والی وحی پر ایمان لانے کا ارشاد قرآن میں کیوں نہیں دیا؟
قرآن حکیم اﷲ احکم الحاکمین کی لاریب کتا ب ہے۔ اہل السنۃ کا عقیدہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔ آج تک اس میں نہ کسی آیت کا اضافہ ہوا ہے نہ کمی، جس حالت میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم چھوڑ کر اس دنیا سے تشریف لے گئے اسی حالت میں موجود ہے۔
اہل سنت کے برعکس غالیوں کے نزدیک موجودہ قرآن اصلی نہیں، اس کا بہت بڑا حصہ حذف کردیا گیا۔ وہ قرآن جو اﷲ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام لے کر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے۔ اس میں سترہ ہزار آیات تھیں۔ چنانچہ شیعہ مجہتدین کا موقف ہے کہ اگر قرآن اصلی حالت میں ہوتا تو اس میں ائمہ کرام کے حقوق وفضائل ومناقب کا بیان ضرور ہوتا اور بارہویں امام کے غائب اور نمودار ہونے کا ذکر ہوتا۔ شیعہ محدثین وفقہاء نے اپنی کتب میں اصل قرآن کی روئیداد کچھ اس طرح بیان کی ہے۔
’’رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبی کی وصیت کے مطابق حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے قرآن جمع کرکے مہاجرین وانصار پر پیش کیا تو عمر ؓ مہاجرین وانصار کے عیوب ونقائص پر مبنی آیات دیکھ کر کہنے لگے، علی اسے واپس لے جاؤ۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں تو علی علیہ السلام کہنے لگے میں قرآن اس لیے لایا تھا کہ تم پر حجت قائم ہوجائے، اب میرے جمع کردہ قرآن کو صرف ائمہ کرام ہی ہاتھ لگاسکیں گے جو میری نسل سے ہوں گے۔ جب قائم (بار ہواں امام) غار سے نکلے گا تو وہ قرآن اسی کے پاس ہوگا۔ وہ لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دے گا۔‘‘ (احتجاج طبرسی، ص ۷۶، مطبوعہ ایران، ۱۳۰۲،بحوالہ وسنۃ ص ۹۴تا ۹۵)
شیعہ سلطان المتکلمین علامہ محمد حسین نے احسن لفوائد فی شرح العقائد میں تحریر کیا ہے:
’’حضرات ائمہ طاہرین صلوت اﷲ علیہم اجمعین نے بھی اسی قرآن کی تصدیق وتوثیق فرمائی ہے۔ تمام امت اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید وہ برحق کتاب ہے جس میں ہرگز کوئی شبہ نہیں۔‘‘ (ص ۴۸۱)
علامہ مذکورنے خود صحت کا اقرار کیا تا ہم تحریف کے قائل طبقہ کی خوب وکالت کی۔
’’ہمارے جو علماء کرام اس نظریہ (تحریف) کے قائل ہیں وہ بھی اس نظریہ کی صحت پر دلائل رکھتے ہیں۔ ذیل میں ان کے چندادلہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
قائلین تحریف کی پہلی دلیل:
یہ روایات اس قدر کثیر التعداد ہیں کہ ان سب کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ مجلسی رحمہ اﷲ نے مراۃ العقول میں ان کے تو اترکا ادعا فرمایا اور اس قدر صریح الدلالہ ہیں کہ ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔
دوسری دلیل: خلیفہ سوم کے عہد میں کسی کے پاس کچھ اجزاء قرآن مجید ہوں مگر اس کی قرآنیت پر دوگواہ موجودنہ ہوں لہٰذا ان کا لایا ہوا جزقبول نہ کیا گیا ہو۔
تیسری دلیل: جن لوگوں کو ان جامعین قرآن کے ایمان میں ہی کلام ہے اور ان کے مساعی وجہود کو کسی جذبہ دینی پر محمول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں…… باقی رہایہ خیال کہ اس طرح موجودہ قرآن سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ یہ خیال غلط ہے کیونکہ یہ اعتماد اس لیے ختم نہیں ہوتا کہ حقیقی محافظان اسلام وقرآن یعنی ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اس کے قرآن ہونے کی تصدیق کردی ہے اور جہاں جہاں جامعین نے تحریف کی تھی ان مقامات کی نشاندہی بھی فرمادی ہے۔ لہٰذا اس نظریہ کے قائل بھی موجودہ قرآن پر دوسرے مسلمانوں کی طرح ایمان رکھتے ہیں۔
چوتھی دلیل: پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے جو کچھ بھی پہلی امتوں میں واقع ہوا ہے بعینہ وہ میری امت میں بھی واقع ہوگا۔
پانچویں دلیل…… جامع قرآن کی کوئی خاص غرض پوشیدہ تھی جس کے تحت اس قدر اہتمام کیا گیا تھا اور وہ غرض قانون شریعت کی کتاب میں تحریف وتغیر کرکے دین اسلام کو متغیرو متبدل کرنا ہی ہوسکتی ہے۔
(جاری ہے)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.