مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہ اﷲ
(قسط نمبر 24)
استدعا: بحضور اعلیٰ حضرت والی ٔ تخت وتاج عباسیہ ریاست بہاول پور
عالی جاھا! حضور والا کی نظر بالغ نے یہ دیکھ لیاہو گا کہ ہندوستان کی سیاست پہلے بھاپ کے کندھوں پر سفر کرتی تھی۔ اب بجلی کی سی تیزی سے ترقی کررہی ہے ۔ حضور جو زمانے کے حال اور رعایا کی نبض سے واقف ہیں یہ بھی جانتے ہیں کہ رعایا کے نظم ونسق میں مناسب حصہ لینے کی خواہش مدتوں سے عوام کے سینے میں کروٹیں لے رہی ہے اور اس خواہش کا اظہار وفتاً فوقتاً عرض داشتوں کی صورت میں ہوتا رہا مگر ہر التجاء کا جواب قریب قریب باوقار خاموشی سے دیا گیا۔ ہم نے محض ادب و احترام کے مقتضیات کے پیش نظر کسی اجتماعی تحریک میں حصہ نہ لیا۔ قیاس کیا کہ آج نہیں تو کل ہماری قسمتوں میں خوشگوار تبدیلی پیداہوجائے گی اورر یاست کی حدود کے قریب انگریزی علاقہ میں جو انقلاب کی رودوڑرہی ہے حکام ریاست خودبخود اس سے بہترین نتائج اخذ کر کے رعایا کی قدرتی خواہشات کو نظرانداز نہ کریں گے۔ لیکن مدت کے انتظار کے بعد بھی ہمارے خوشگوار خوابوں کی کوئی خوش کن تعبیرنہ نکل سکی۔
عالی جاہا! فطرت ہر چند دنیا کے واقعات کی طرف انگلیوں سے اشارہ کر کے کہہ رہی تھی کہ قربانی کے بغیر حقوق کا ملنا مشکل ہے لیکن ہم نے حضور والا سے طبعی عقیدت او ردل بستگی پر زندہ رہنے کی کوشش کی۔ او رحضور کے حکام نے غلطی سے یہ سمجھا کہ ہم تن آسان اور قربانی سے پہلو تہی کرنے والی قوم ہیں۔کوئی روٹھے تو اسے کوئی منائے جس رعایا نے روٹھنا نہ سیکھا ہو اسے منانے کی کوئی تحصیل حاصل کیوں کرے؟
حضور سے ہمیں اب بھی عقیدت ہے۔ سرکار نے تو پہلے حکومت کے شعبے تقسیم کر کے حکام کے سپر د کیے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ اختیارات عوام کو مل جاتے تو حضور والا سے زیادہ خوشی کسی کو حاصل نہ ہوتی۔ مصیبت صرف اتنی ہے کہ حکومت جس کے ہاتھ میں ہو وہ دوسروں کو اس میں شریک کرنا پسند نہیں کرتا۔ حضور والا کے ملازم بھی ان انسانی کمزوریوں سے بالا نہیں۔ جو اختیارات حضور والا نے ازراہ رعایا پروری ان کو دیئے ہوئے ہیں وہ ان کو بخوشی خود ہر گز نہ چھوڑیں گے۔ بلکہ لاعلمی اور عملی مشکلات کااظہار کر کے انتقال حقوق کے خلاف نئی نئی دلیلیں پیش کریں گے۔ حضور مسلمان والی ملک ہیں۔ خوب جانتے ہیں کہ خدا کی مخلوق حکام کی کھیتی نہیں۔حکام کا عمل امت کے مشورے اور منشا کے خلاف ہوتو یہ اسلام کے منافی ہے۔ یہی ذمہ دار حکومت کی بنیاد ہے۔ ہماری مذہبی روایات اور رفتار زمانہ اس امر کے داعی ہیں کہ آزاد اسمبلی کا قیام ریاست میں فوراً عمل میں لایا جائے۔ سرکار والا کے ملازم اس مطالبے کے خلاف یہ کہیں گے کہ ریاست پس ماندہ ہے۔ فرسودہ طریق حکومت میں تبدیلی کے سب سے قوی دلیل بھی ریاست کی پس ماندہ حالت ہے۔ چند افسران پر لاکھوں بندگان خدا کی فلاح قربان نہیں کی جاسکتی۔ صوبہ سرحد اصطلاحات سے پہلے کیسا پس ماندہ علاقہ تصور ہوتا تھا لیکن عوام کی بے پناہ خواہش کے سامنے حکومت برطانیہ کو بھی جھکنا پڑا۔ اس پس ماندہ صوبہ سرحد میں ذمہ دار حکومت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ لیکن ہم خارجی اثرات کی بحث میں کیوں پڑیں؟ ہم اس امرکا صاف اظہار کرتے ہیں کہ ہماری امیدیں حضور والا سے وابستہ ہیں۔ ایسے ذمہ دار طرز حکومت کے لیے جس کی بنیاد رائے دہندگی بالغاں پر رکھی جائے۔ بے پناہ خواہش عوام کے دلوں میں موجود ہے۔ جہاں حضور کی ذات ستودہ صفات کا ادب ہمارے ذمہ ہے۔ اسی طرح رعایا کی خواہشات کا احترام ہماری تمنا ہے۔ ہم اس یقین کے ساتھ کہ ہماری تمنا کو ٹھکرایا نہ جائے گا بصد ادب گذار ش کرتے ہیں کہ:
۱۔ریاست میں ایسی ذمہ دار انہ حکومت کی فوری تشکیل کا اعلان فرمایا جائے جس میں ہر بالغ کورائے دینے کا حق ہو۔ وزاراء عوام کے نمائندوں میں سے چنے جائیں اور یہ وزراء بھی نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہوں۔
۲۔تمام بجٹ آزاد اسمبلی کے سامنے پیش ہو اور عوام کے منتخب شدہ ممبروں کو اس کے منظور کرنے کم کرنے اور مسترد کرنے کے پورے اختیارات ہوں۔
۳۔ نیز اس اسمبلی کو بہتر نظم ونسق کے لیے پہلے قوانین اور قاعدے بدلنے اور نئے قواعدوقانون بنانے کے مکمل اختیارات ہوں۔
۴۔ ہر سرکاری محکمہ ذمہ دار وزراء کے ماتحت ہو۔
ہماری ریاست کی حالت صوبہ سرحد کی قبل از اصلاحات کی حالت سے پورے طور پر ملتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہم نے حقوق کے لیے قربانی کی بجائے حضور کی ذات والا صفات پر اعتماد کیا اوربدستور اعتماد رکھتے ہیں۔ حالانکہ ہم اپنے گذشتہ معروضات کے بے نتیجہ ہونے کے باعث قدرتی طور سے اندوہ گین ہیں۔ تاہم ہم نے ایجی ٹیشن اور قانون شکنی کی راہ اس لیے اختیار نہیں کی کہ مباداراعی اور رعایا کے درمیان شکر رنجی پیدا ہوجائے۔ ا ب ہم امید رکھتے ہیں کہ حضور والا آزاد اسمبلی کے قیام کا اعلان فرماتے ہوئے ملازمان سرکاری کو ہدایت فرمادیں گے کہ وہ ایسے حالات نہ پیدا ہونے دیں جن سے لوگ مایوس ہو کر وہ راہ اختیار کریں جو صوبہ سرحد کے ستائے ہوئے لوگوں نے کی تھی۔
ہم پورے ادب و احترام سے حضور کی خدمت میں عرض گذار ہیں: رعایا کی مشکلات حد سے گذر چکی ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ غریب لوگ کس طرح مصیبت سے بسراوقات کرتے ہیں۔ موجودہ وزراء کی یہ حالت ہے کہ وہ مسلمان وفد کوحضور کے پیش ہونے بھی نہیں دیتے۔ اس سے زیادہ ہماری بے کسی اور مصیبت کی داستان اور کیا ہوسکتی ہے؟ جب تک وزراء عوام کے سامنے جوابدہ نہ بنائے جائیں جن کو غریب سے غریب اپنے ووٹ کے استعمال سے بنا سکے یا برطرف کر سکے تب تک کون افسر غریبوں کی پکار کو سن سکتا ہے۔
جی ہر چند چاہتا ہے کہ لوگوں کی مالی تباہی اور سیاسی تنزل کی داستان غم کے دفتر حضور کے سامنے کھول کر رکھے جائیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ حضور اپنی رعایا کی تباہ حالی کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ صدیوں کے ا نسانی تجربوں نے ان مشکلات کاجو حل یعنی ذمہ دارانہ حکومت تجویز کیا ہے وہ بھی حضور سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اس لیے ہم آخری بار حضور والا سے درخواست کرتے ہیں کہ فوراً ذمہ دار اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ریاست کا نظم ونسق بہتر ہو کررعایا کی خوش حالی کا باعث ہو اور رعایا حضور والا کے اقبال و درازی عمر کی دعا کرے۔
عرض حال:
کب تک ضبط کروں میں آہ چل مرے خامے بسم اﷲ
یہ بات ایک نہایت حیران کن ہے کہ گورنمنٹ بہاول پور کو جب کبھی اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے تو وہ اسے تمام و کمال ذاتِ شاہانہ کی طرف منسوب کردیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رعایا بہاول پور اگرچہ ان تمام معاملات کے نتائج بد کے شکار بننے سے پہلے ہی آگاہ ہوجاتی ہے لیکن اس کے مداوا کے لیے صرف ذاتِ شاہانہ کے وقار کے پیش نظر کوئی قدم اٹھانے سے مجبور رہتی ہے۔ اور یہی وہ مقصد ہے جسے گورنمنٹ بہاول پور اپنی اورریاست کی ذمہ داری حضور آقائے دولت وولی نعمت دام اقبالہ واجلالہ کے کندھے پر رکھ کر حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اور پھر پبلک کی طرف سے جب کبھی گورنمنٹ کے غلط اقدامات پر ایمان دارانہ احتساب ہوتا ہے تو وہ ذات شاہانہ کے وقار کی آڑ میں ایسے تمام آدمیوں کو جنھیں حکومت کی غلط روی کے متعلق ذرا بھی کچھ کیا ہو مبتلائے مصیبت وآلام کرنے میں اپنے آپ کو قانوناً حق بجانب خیال کرتی ہے۔ اگر آج بھی موجودہ گورنمنٹ کی ابتداء سے اس وقت تک کا جائزہ لیاجائے تو گورنمنٹ کی غلطیوں کی ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جس کے اثرات بدکالاکھوں بند گان خدامختلف اوقات میں شکار ہوتے رہے ہیں۔ہم نہیں چاہتے کہ ہم ان مباحث میں پڑ کر فضا کو تلخ سے تلخ تر بنادیں۔ مگر اس کا علاج ہے کہ حکومت بہاول پور پبلک کے اغراض سے پورے طور پر بے پروا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنی خود غرضیوں کو پورا کرنے پر تل گئی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پبلک میں حکومت کے خلاف ایک جذبہ پیدا ہوجاوے گا۔ اور گورنمنٹ کو پھر ایک دفعہ حضور والا جاہ کے وقار کی آڑ میں پولیس اور فوج کی جمعیت کو حرکت میں لا کر اپنا حکم منوانے کاایک موقعہ ہاتھ آجائے گا۔ ہم خدائے قدوس سے دعامانگتے ہیں کہ وہ ارکان حکومت کو تدبر اور فہم صحیح عطا فرمائے تاکہ وہ بجاطور پر اپنی اس دنیا کی ذمہ داریوں اور آئندہ دنیا کی جواب دہی کا احساس کرسکیں۔ آمین ثم آمین۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جمعیت المسلمین نے دسمبر ۱۹۳۸ء کے آخر میں ’’پبلک کیا چاہتی ہے‘‘ کے عنوان سے معروضات سال ۱۹۳۴ء کی یاد دہانی کے طور پر ایک مختصر پمفلٹ شائع کیا تھا۔ جس کے بعد عالی مرتبت پرائم منسٹر صاحب بہادر سے مختلف اوقات میں تبادلہ خیالات ہوا ۔اور اس معاملے کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد جمعیت المسلمین نے ۶؍مارچ ۱۹۳۸ء کی تحریک کے ذریعے استدعا کی تھی کہ وزارت عظمیٰ ان معروضات کے متعلق یکم اپریل ۱۹۳۹ء تک کوئی آخری اعلان شائع کردے تاکہ اس اعلان کی روشنی میں جمعیت المسلمین اپنے معروضات کے متعلق کوئی آئینی جدوجہد کر سکے۔
مقام شکر ہے کہ وزارت عظمیٰ کی طرف سے وہ اعلان پریس کمیونک کی شکل میں مورخہ یکم اپریل ۱۹۳۹ء کو شائع ہوا۔ اگرچہ گورنمنٹ نے اس امر کا امکان پیدا کردیا ہے کہ اس پر موافق و مخالف خیالات کے اظہار کو آئین وضابطہ کی روشنی میں صحیح خیال کیا جائے گا لیکن کمیونک کے لب و لہجہ سے صاف عیاں ہورہا ہے کہ اعدادو شمار اور حقائق وبصائر کی تائید کے ساتھ بھی مخالف خیال کے اظہار کرنے والے کا گناہ ناقابل معافی ہوگا اور جس کی سزا قلعہ دیر اوڑ کی تنگ وتاریک کو ٹھڑیوں کے سوائے حکومت کے پاس اور کچھ نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ حکومت اپنی فتح و شکست کے جذبہ سے سرشار ہو کر کرے گی مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ارکان حکومت کے قلوب ابھی تک اس قدر مسخ نہیں ہوئے کہ وہ اپنی وضع کردہ پالیسی کو حق بجانب یقینا خیال کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس کو دفتری طور پر تسلیم کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں کہ ان کی سنہری اور روپہلی مصلحتوں کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی منافع ان کے ہاتھ سے نکل جانے کا قوی امکان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت وزراءِ عظمیٰ کی طرف سے جو کمیونک شائع ہوا ہے کیا اس میں پبلک کے اطمینان کا کچھ بھی مواد موجود ہے؟ اس کا اندازہ ان مختلف خیالات سے ہوسکتا ہے جواس وقت پبلک کے مختلف حلقوں سے ظاہر ہورہے ہیں۔ آج ریاست کے ہرفرد کی زبان پر اس کمیونک کا تذکرہ ہے بعض شخص نہایت بلند آہنگی کے ساتھ اگر اسے لغویات کا پلندہ قرار دے رہے ہیں۔ تو کوئی اسے جھوٹ اور اباطیل کی پوٹ کہتا ہے کوئی اسے ’’ویری بوگس تھنگ‘‘ (VERY BOGUS THING)کا لقب دے رہا ہے تو کوئی اسے’’ موسٹ روٹین تھنگ‘‘(MOST ROTTEN THING)کے الفاظ سے یاد کررہاہے۔ کوئی اسے دھوکہ اور فریب سے مثال دے رہا ہے تو کوئی اسے طفل تسلی سے تعبیر کررہا ہے۔ غرضیکہ ادنیٰ شعور کا انسان بھی جو حکومت کی خوشامد اور ذاتی نفع اور ضرر سے بے نیاز ہے، اس کمیونک کو نہایت مابوس کن اور مضحکہ خیزی کا سامان تصور کرتا ہے۔ اور آج بات بات پر حضور سرکار عالی دام اقبالہ وملکہ کو ہماری غداری اور غیر وفاداری کا یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ذات ہمایونی کے دماغ کو پبلک کی طرف سے بدظن کیا جاتا ہے۔ حاشاوکلا خدا گواہ ہے یہ ایک نہایت ہلاک کن فریب ہے۔ آج اس اتہام سے ہمارے آباؤاجداد کی روحیں کانپ رہی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی اولاد سے ممکن ہے جن کے خون کی گواہی باغ وراغ کے لالہ زار ریگستان بہاول پور کا ایک ایک ذرہ دے رہا ہے؟ کیا ان لوگوں سے غداری اور بے ایمانی کی توقع کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ کر ریاست کے اجاڑ اور سنسان بنجروں کو اپنے خون سے سینچا؟ اور پھر اس اتہام کے بالمقابل اپنی وفاداری وجان نثاری کا ڈھول پیٹنا کم از کم ان لوگوں کو قطعاً زیب نہیں دیتا جو یہاں ملازمت کے سلسلہ میں دولت کما کر مستقل طور پر یہاں سے لوٹ جانے والے ہیں۔ آج اس اتہام کو سننے والے بھی ایسے لوگوں کی نادانی پرہنستے ہیں جو اس اتہام کو اپنی طاقت فوج اور پولیس کے مظاہروں،بندوقوں اورمشین گنوں کی نمائش سے لوگوں کے دماغوں میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان لوگوں پر زندگی کے لیے زمین تنگ کررہے ہیں جو ملک کے حقیقی خیر خواہ ہیں۔ جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اس سرزمین کی آغوش کو اپنی موت کے بعد کی زندگی کے لیے چن لیا ہے۔
آج ہم علی الاعلان اس امر کو واضح کر دیتے ہیں کہ بہاولپور کے لوگ عقل وشعور میں ہندوستان کے کسی صوبے کے باشندوں سے کم نہیں ہیں۔ صوبہ سندھ او رپنجاب کے اضلاع مظفر گڑھ او رڈیرہ غازی خاں کی حیثیت سے ان کی حیثیت بدرجہا بہتر ہے۔ وہ اپنے مفاد اور نقصان کو سمجھ کر او راس کا علاج بھی سوچ سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں کوئی طریق کار بھی تجویز کر کے اسے کامیاب بھی بنا سکتے ہیں مگر وہ اس امرسے بخوبی آگاہ ہیں کہ آج کل نظام حکومت کس طرح چلایا جا رہا ہے اور اس میں کیا کیا نقائص ہیں؟ اس وقت بہاو ل پور کی پبلک عملی طور پر موجودہ ارکان وزارت کے متعلق رائے رکھتی ہے۔ صرف اب اگر ضرورت ہے تو اس امر کی کہ ان کو پر سکون احتجاج کی طر ف دعوت دی جائے جس سے اس وقت تک حضور سرکار عالی دام اقبالہ و ملکہ کے وقار کے پیش نظر، جسے حکومت کے ارکان باربار اپنے بچاؤمیں استعمال کرتے رہے ہیں، احتراز کیا جاتا رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حقیقت کو عملی طور پر واضح کر دیا جائے کہ رئیس کا غداراور ملک کا دشمن کون ہے؟ حکومت یا پبلک؟ ہم حکومت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب پبلک زیادہ دیر تک دھوکے میں نہیں رکھی جاسکے گی۔ اسے ملازمتوں کے گورکھ دھندوں میں زیادہ عرصہ تک الجھا یا نہیں جاسکے گا۔اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ان مٹھی بھر ملازموں کی قسمت اور مستقبل لا کھوں انسانوں کی بدنصیبی کا علاج نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت بھوکے ننگے انسانوں کا مستقبل ہے جو چلچلاتی دھوپ او رکڑکڑاتے جاڑے کی تکلیفوں کو برداشت کر کے حکومت کے خزانے کو تو پر کرتے ہیں۔ مگر ان کے اپنے لیے نہ تن ڈھک کپڑا اور نہ پیٹ بھر روٹی ہے۔ آج اس کے افلاس کی یہ حالت ہے کہ اس کی بہوبیٹیوں کا ستر چیتھڑوں سے بھی ڈھکنا مشکل ہے۔ یہ ریاست کے ٹھوس واقعات ہیں کہ مفلس وکنگال کسان نے چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کا معاوضہ حاصل کر کے نکاح کردیا۔ اور اس معاوضے سے آبیانہ مالیہ ادا کر کے حکومت کی داروگیر سے نجات حاصل کی۔ بستیوں میں پھرو، کسان کی کٹھن زندگی کا مطالعہ کرو۔ موٹروں میں بیٹھ کر ڈاک بنگلوں میں ڈیرہ جماکر حکومت کرنے والے اس کی مصیبتوں کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے ان لوگوں کا مستقبل نہیں ہے جو فلک پیمامحلوں کی خاطر غریبوں کے جھونپڑوں کو آگ لگا دینے کے عادی ہیں۔ ہمارے سامنے اس ہلاکت زدہ مزدور کا مستقبل ہے جودن بھر میں ۶؍آنے کے پیسے کماتا ہے جنھیں وہ رات کو مشکل سے چھوٹے چھوٹے بچوں میں پورا کرتا ہے۔
آج حکومت ہمیں اپنے فرضی احسانات جتا کر تسلی دینا چاہتی ہے اسے اعدادو شمار اور ٹھوس واقعات سے واضح کرنا چاہئے کہ اس نے بہاول پور کی پیشہ ورآبادی کے لیے کیا کیا مساعی کی ہیں اور یورپ کی صنعتیں ان کو تباہی کی طرف دھکیلے جارہی ہیں۔ اس وقت سینکڑوں گھرانے بیکاری کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت نے ان کے تحفظ کے لیے کیا کیا ہے؟ دھات اور کپڑا بننے کی صنعتیں ختم ہوگئیں،چمڑا رنگنے والے برباد ہونے والے ہیں،لکڑی کا کام بھی کرتار پور سے ہونے لگا ہے۔ حکومت کے تمام ادارے اپنی ضروریا ت کے لیے بیرونی تاجروں کو ترجیح دیتے ہیں۔
آخر کس احسان پر حکومت اس قدر اترارہی ہے ؟ کیا یہ امر حکومت کے لیے موجب ندامت نہیں کہ ایک سواکروڑ کی آمدنی رکھنے والی ریاست کا تعلیمی بجٹ ڈیڑھ لاکھ پر مشتمل ہو اور جس کی تعلیمی کیفیت یہ ہو کہ ضلع ملتان کی ایک تحصیل کے طالب علموں سے بھی اس کی مجموعی تعداد طلبہ کم ہو؟ ستلج ویلی پراجیکٹ کو بہاول پور کے کسانوں پر احسان جتایا جارہا ہے حالانکہ سکیم نے جو نقصان ریاست کو پہنچایا ہے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ اور پھر قرضہ کی ادائیگی معاہدے میں پبلک اغراض کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کے اثرسے ریاست پچاس سال تک غلامی کے دن بسر کرنے پر مجبور رہے گی۔ اس کا احساس حکومت کے ارکان کو ہو یا نہ ہو مگر ایک موٹی عقل کا انسان جب اس کا تصور کرتا ہے تو یقینا کانپ اٹھتا ہے کہ ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک آج سے پچاس سال بعد تہذیب وتمدن کے کس سٹیج پر ہوں گے جب کہ ریاست اسی سٹیج پر ہوگی جس پر کہ وہ آج ہے۔ (جاری ہے)