تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

مجلس احرار اسلام کے 92سال

سید محمد کفیل بخاری

(29، دسمبر 1929ء دسمبر 2021)

26نومبر 2021ء بروز جمعۃ المبارک مجلس احرار اسلام ملتان نے دارِبنی ہاشم میں ورکرز کنونشن منعقد کیا جس میں احرار ساتھیوں نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع عنایت فرمایا۔ کنونشن میں احرار کے مرکزی رہنما مولانا سید عطاء المنان بخاری، مولانا محمد اکمل (امیر ضلع ملتان) فرحان الحق حقانی(ناظم نشرواشاعت ملتان) ڈاکٹر محمد آصف (مرکزی ناظم دعوت) کے علاوہ ملتان شہر کے مختلف یونٹس کے ذمے داران اور کارکنان نے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے اپنی کارگزاریاں اور مستقبل میں کام کے حوالے سے ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ کنونشن کی اختتامی تقریر میں راقم نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
برعظیم پاک وہند کی جدوجہد آزادی میں جن سیاسی جماعتوں نے اپنے مذہب، قوم اوروطن کے دفاع واستحکام اور بقاء کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور مثالی قربانیاں پیش کرتے ہوئے ایمان وعزیمت کی لازوال داستانیں مرتب کیں اُن میں مجلس احرار اسلام کا نام سرفہرست ہے۔
قیام احرار کے مشورہ میں سب سے پہلا نام محدث العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اﷲ کا ہے۔ آپ کے فرزند وجانشین مولانا محمد انظر شاہ کشمیری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔
’’والد مرحوم حضرت علامہ محمد انور شاہ صاحب نور اﷲ مرقدہٗ کی آرزو تھی کہ پنجاب میں ایک منظم عوامی تنظیم کا قیام عمل میں آئے جو قادیانیت کے محاذ پر سرفرو شانہ کام کرے اور استخلاص وطن کے لیے بھی جدوجہد کرے۔
مجلس احرار اسلام انہی کے ایماء اور اشارہ پر قائم ہوئی۔ انہوں نے اپنے مخلص وفدا کار شاگردوں اور عقیدت مندوں کو مجلس احرار اسلام میں شامل ہونے اور تعاون کرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔
انہوں نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کے متعلق یہ سمجھا کہ اگر انہیں قادیانیت کے خلاف تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کھڑا کردیا گیا تو یقینی طور پر اسلام کے بہترین سپاہی اور عظیم مجاہد ثابت ہوں گے۔ انہوں نے فتنۂ قادیانیت کے استیصال اور سرکوبی کے لیے یہ مشن ان حضرات کے سپرد کردیا۔
احرار نے جو سب سے بڑی اسلام کی خدمت کی ہے وہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ اور یہ اتنی عظیم خدمت ہے کہ اگر احرار کے دامن میں اور کچھ بھی نہ ہو تو صرف اس محاذ پر انہوں نے جس سراپا اخلاص انداز سے جنگ لڑی وہ دوسری جماعتوں کی بہت سی خدمات پر بھاری ہے۔‘‘ اقتباس انٹرویو
مولانا محمد انظر شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ
سابق سرپرست مجلس احرار اسلام ہند
(پندرہ روزہ ’’الاحرار‘‘لاہور، ج ۱۵،ش ۱۹، جنوری ۱۹۸۶)
مجلس احرار اسلام کو قائم ہوئے 92سال گزر چکے ہیں۔ تقریباً ایک صدی کا سفر طے کرکے آج چوتھی نسل احرار ورکرز کنونشن میں شریک ہے۔ تاریخ کے اس طویل سفر میں کئی جماعتیں بنی اور ختم ہوئیں لیکن مجلس احرار اسلام کی بقا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اخلاص اور سچے نظریات کی بنیاد پر قائم جماعتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
مجلس احرار اسلام کی بنیاد 29دسمبر 1929ء کو لاہور میں رکھی گئی لیکن پہلی احرار کانفرنس ڈیڑھ سال بعد 31جولائی 1931ء کو حبیبیہ ہال لاہور میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی صدارت رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اﷲ نے کی، صدرِ استقبالیہ مولانا مظہر علی اظہر اور سیکرٹری استقبالیہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمھم اﷲ تھے۔ مجلس احرار اسلام کیوں اور کن حالات میں قائم ہوئی اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی تفصیل رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی 31جولائی 1931ء کے اپنے خطبۂ صدارت میں بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’احرار کوئی نئی جماعت نہیں اور نہ نیا نام ہے۔ بلکہ 1919ء سے جن مسلمانوں نے تحریک خلافت اور کانگریس میں حصہ لیا ان کو احرار کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اسی لیے مولانا محمد علی جوہر مرحوم کو رئیس الاحرار کا خطاب دیا گیا تھا۔
1928میں مولا نا شوکت علی وغیرہ نے ذاتی ناراضی کی بنا پر پنجاب خلافت کمیٹی کو غیر آئینی جماعت قرار دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں خلافت کمیٹی کا وجود بمبئی کے دفتر کے باہر کہیں نظرنہیں آتا۔ کیونکہ پنجابی احرار ہی کی قوت عملی کی بنا پر خلافت کمیٹی کا نام ہندوستان میں موجود تھا۔ جب پنجاب خلافت کمیٹی غیر آئینی جماعت قراردی گئی تو اس وقت مولانا ظفر علی خان،خواجہ عبدالرحمن غازی، چودھری افضل حق سابق ایم، ایل، سی، مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا محمد داؤد غزنوی، مولوی مظہر علی اظہر ایڈووکیٹ اور اس خاکسار اور دیگر احباب نے یہ خیال کیا کہ اب مسلمانان پنجاب میں کام کرنے کے لیے مجلس احراراسلام کے نام سے ایک باقاعدہ جماعت قائم کی جائے۔ چنانچہ مجلس احرار 1929ء کے ابتدا میں ہی قائم کردی گئی تھی۔ مگر کانگریس کے ساتھ مل کر جنگ آزادی میں کام کرنے کے لیے تمام جماعتی پروگرام کو ملتوی کردیا گیا تھا۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ مجلس احرار کے نظام کو پنجاب میں پھیلایا جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ مجلس احرار پنجاب جس کے صدر ہندوستان کے مشہور ترین رہنما سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری ہیں قائم ہوئی۔ مجلس کے قائم ہونے کے اعلان کی دیر تھی کہ پنجاب کے اکثر ضلعوں میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ اگر ہم صدق دل سے کام کرتے رہے تو میرا یقین ہے کہ عنقریب پنجاب کے ہرگوشہ میں مجلس احرار کا نظام پھیل جائے گا۔
خطبۂ صدارت، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمہ اﷲ
(11جولائی 1931ء لاہور، صفحہ 13-12)
مجلس احرار اسلام اپنے قیام کے ساتھ ہی بیک وقت کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہوگئی۔
انگریزی اقتدار کا خاتمہ اور وطن کی آزادی، مسلمانوں کے ایمانوں کا تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت وتبلیغ، مسلمانوں کے دینی وشہری اور انسانی حقوق کا تحفظ، مسلمانوں پر راجوں مہاراجوں کے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور مسلمانوں کی مدد کرنا، مسلمانوں کی سیاسی ودینی رہنمائی اور بلا امتیاز مذہب وقوم خدمت خلق، مجلس احرار اسلام کی جدوجہد کے عظیم محاذ تھے۔ 1936ء اور 1946ء کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا اور پنجاب میں کئی نشستیں حاصل کیں۔ مفکر احرار چودھری افضل حق اور مولانا مظہر علی اظہر کے علاوہ دیگر رہنما اسمبلی میں پہنچے۔ 1931ء کی تحریک آزادی کشمیر اور 1934ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت کے ذریعے عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ قادیان میں احرار تبلیغ کانفرنس نے احرار کی افرادی قوت میں بہت اضافہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب قادیانی پاکستان کے اقتدار پر شب خون مار کر قبضہ کرنے کی سازشیں کر رہے تھے تو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اوردفاع وطن کے لیے احرار ہی میدان میں اترے۔ تمام دینی سیاسی جماعتوں اور مسالک کو متحد کرکے 1953ء میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت برپا کی۔ ظالم وجابر اور سفاک مسلم لیگی حکمرانوں نے تشدد کے ذریعے تحریک کو کچلا اور دس ہزار مسلمانوں کو امپورٹڈ انگریزی گولیوں سے شہید کیا۔ 1974ء میں شہداء ختم نبوت کا خون بے گناہی رنگ لایا اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین انصاری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی ، مولانا محمد علی جالندھری، نواب زادہ نصر اﷲ خان اور دیگر رہنماؤں نے پرچم احرار بلند کرتے ہوئے جماعت کی قیادت کی۔ تحریک ختم نبوت کی پاداش میں 1953سے 1962تک احرار خلاف قانون جماعت رہی۔ 1962ء میں پابندی ختم ہوئی تو پھر قافلۂ احرار کی شیرازہ بندی وقیادت ابناء امیر شریعت کے حصے میں آئی۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری۔ مولانا سید عطاء المحسن بخاری، مولانا سیدعطاء المؤمن بخاری اور حضرت پیرجی سید عطاء المہیمن بخاری رحمھم اﷲ نے اپنے اپنے عہد میں احرار کی قیادت کی اور حق تو یہ ہے کہ بعض اپنوں اور بیگانوں کے پیہم ستم اور نامہربانیوں کا پوری جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کرکے بقاء احرار کا حق اداء کردیا۔ فروری 1976ء میں (ربوہ) چناب نگر میں مسلمانوں کے پہلے تبلیغی مرکز مسجد احرار تعمیر کرنے کا کارنامہ بھی ابناء امیر شریعت ہی نے انجام دیا۔
ہماری عظیم قیادت آج ہم میں موجود نہیں لیکن اُن کی تاریخ کا حسین ماضی رہنمائی کے لیے ہمارے سامنے ہے۔ آج یہ بارِ امانت ہمارے نا تواں کندھوں پر ہے۔ اپنی بے بضاعتی کے باوجود ہم نے علم احرار بلند رکھا ہے اور اپنی زندگیاں جماعت کے لیے وقف کردی ہیں۔ ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ جب تک زندہ ہیں، احرار کے منشور، اغراض ومقاصد اور نصب العین کی خدمت کرتے رہیں گے۔ اسی پر جیئیں گے اور اسی پر مریں گے۔ ہم اپنے اسلاف کی اوراح کے سامنے فخر کی ساتھ پیش ہوں گے، ان شاء اﷲ
احرار کارکنو! پورے عزم وحوصلے کے ساتھ جادۂ حق پر مستقیم رہو۔ خلوص نیت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضاء اور حضور خاتم الانبیاء سیدنا محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت کے حصول، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اسلام کی تبلیغ ودعوت اور اﷲ کی مخلوق کی خدمت کے لیے پر امن جدوجہد کرتے رہو۔ کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَونَ اِنْ کُنْتُمْ مُومِنین۔ اورتمہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن ہو
نیند کے ماتو اٹھو! ظلمت لگی ہے ہار نے                        زندگی کا صُور پھو نکا ہے، مجلس احرار نے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.