تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

صدر محترم جناب ممنون حسین کی خدمت میں ایک ضروری عرضداشت

باسمہ سبحانہ

صدر محترم جناب ممنون حسین کی خدمت میں ایک ضروری عرضداشت

بگرامی خدمت عزت مآب جناب ممنون حسین صاحب، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جناب عالی!
گزارش ہے کہ ہم چند کارکنان تحریک ختم نبوت آنجناب کی توجہ اس عرضداشت کے ذریعہ ایک اہم ترین قومی اور دینی مسئلہ کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ اس پر غور فرما کر اسلامیانِ پاکستان کے جذبات کی پاسداری کی کوئی صورت ضرور نکالیں گے۔
پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے 1974ء میں ملت اسلامیہ کے ایک دیرینہ مطالبہ کو منظور کرتے ہوئے مفکرِ پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دے کر جہاں مسلمانوں کے متفقہ اور اجماعی عقیدہ? ختم نبوت کے تحفظ کا اہتمام کیا تھا وہاں ملک میں متحرک ایک ایسے گروہ کی سرگرمیوں کو بھی اس کے اصل دائرے میں محدود کر دیا تھا جسے علامہ محمد اقبالؒ نے ملت اسلامیہ سے الگ ایک خود ساختہ مذہبی گروہ او ریہودیت کا چربہ قرار دیا تھا اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اس گروہ کے بارے میں اس خطرہ کی نشاندہی کی تھی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کا یہ گروہ پاکستان میں وہ پوزیشن حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک و قوم کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہونے پائے۔
یہ دستوری فیصلہ دینی اور شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر جمہوری بھی تھا کہ منتخب پارلیمنٹ نے طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ فیصلہ صادر کیا تھا اورا سے ملک کی رائے عامہ، تمام مذہبی مکاتبِ فکر، اعلیٰ عدالتوں اور عالمِ اسلام کے علمی و دینی مراکز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ مگر قادیانیوں نے یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس فیصلے پر عملدرآمد کے اقدامات کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی جو اب تک مسلسل جاری ہے اور اسے پاکستان کے اسلامی تشخص اور نظریاتی بنیادوں کے مخالف بین الاقوامی عناصر، لابیوں اور اداروں کی مسلسل حمایت بلکہ پشت پناہی حاصل چلی آرہی ہے۔
قادیانیوں کے اسی انکار اور ہٹ دھرمی کے باعث 1984ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ انہیں اسلام کا نام اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات و شعائر کے استعمال سے قانونا روک دیا گیا تھا اور یہ آرڈیننس ملک کی منتخب اسمبلی سے منظور ہو کر ملک کے قانون کا حصہ بن گیا تھا۔ تب سے آج تک صورتحال یہ ہے کہ قادیانی گروہ اس دستوری اور قانونی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس کے خلاف عالمی سطح پر لابنگ اور منفی پروپیگنڈہ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اسلام و پاکستان کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کے اس فیصلے پر عملدرآمد کا تقاضا کرنے والے دینی حلقوں کی کردار کشی میں مصروف ہے۔ قادیانیوں کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ دستور و قانون کو تسلیم کیے بغیر پاکستان میں اپنی سابقہ پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور وہ مراعات اور مزعومہ حیثیت حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کریں جس کا خدشہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں ظاہر کیا تھا۔
یہ صورتحال ملک کے محبِ وطن حلقوں کے لیے تشویش و اضطراب کا باعث ہے اور دستور و قانون کی بالادستی اور حاکمیت کے بھی منافی ہے۔ ان حالات میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ دستور و قانون سے قادیانیوں کے انحراف و انکار کا نوٹس لیا جاتا اور پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں ان کی منفی سرگرمیوں کا حکومت کی طرف سے تعاقب کیا جاتا۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مذکورہ بالا جائز توقعات کے برعکس ریاستی طور پر قادیانیوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کے اقدامات سامنے آرہے ہیں جن میں قادیانیوں کے پاکستانی ہیڈ کوارٹر چناب نگر میں ان کے بھٹو دور میں قومیائے جانے والے تعلیمی اداروں کی واپسی اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سنٹر فار فزکس کو معروف قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام کے نام سے موسوم کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔
ملک و قوم اور دین و ملت کے ساتھ آنجناب کی محبت اور قومی سیاست میں آپ کے شفاف کردار کے باعث یہ بات ہمارے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سنٹر فار فزکس کو ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام سے موسوم کرنے کا حکم نامہ آنجناب کے دستخطوں سے جاری ہوا ہے جس کا آنجناب سے شکوہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر عبد السلام کی ذاتی لیاقت و صلاحیت کا سوال نہیں بلکہ ملک و قوم کے ساتھ ان کے طرزِ عمل اور رویہ کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ایک سائنس دان کے طور پر پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے روکنے کے لیے ان کا کردار کیا رہا ہے؟ آپ اس سلسلہ میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ہی دریافت کر لیتے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ پھر مختلف مواقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے بارے میں ڈاکٹر عبد السلام کے منفی ریمارکس بھی توجہ طلب ہیں کیونکہ کسی قومی اعزاز کا استحقاق صرف کسی شخص کی ذاتی لیاقت و صلاحیت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس کی قومی خدمات کو بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور محض مبینہ ذاتی صلاحیت و قابلیت کے عنوان سے ایک شخص کو اتنے بڑے قومی اعزاز سے بہرہ ور کر دینا ایسا ہی لگتا ہے جیسے 1757ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنگال پر قبضہ کی راہ ہموار کرنے والے میر جعفر کو اس کی ذاتی قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر خدانخواستہ پاکستان کے کسی قومی اعزاز کا مستحق قرار دے دیا جائے۔
جنابِ صدر! ہم وطنِ عزیز پاکستان کے شہری ہیں، عقیدہ? ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کے کارکن ہیں، اور آپ کے بارے میں ہر لحاظ سے حسنِ ظن رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ درخواست کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں کہ آنجناب دستور و قانون کے محافظ ہونے کے حوالہ سے قادیانیوں کے بارے میں حکومتی پالیسیوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور انہیں دستور و قانون کے دائرے میں لانے کے لیے بحیثیت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان مؤثر کردار ادا کریں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ
پاکستان کے اسلامی تشخص
دستور و قانون کے تقاضوں اور
اسلامیانِ پاکستان کے جذبات
کی پاسداری کے جذبہ کے ساتھ ان گزارشات کو سنجیدہ توجہ سے نوازیں گے اور اپنے تاثرات و اقدامات سے ہمیں بھی باخبر فرمائیں گے۔ شکریہ!

کاپی ٹو :

1جناب وزیر اعظم پاکستان اسلام آباد
2جناب وفاقی وزیر داخلہ اسلام آباد
3جناب وفاقی وزیر تعلیم اسلام آباد

منجانب: اراکین متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان
بذریعہ عبد اللطیف خالد چیمہ
سیکرٹری جنرل مجلس احرار اسلام پاکستان
69 – سی، حسین سٹریٹ، نیو مسلم ٹاؤن، وحدت روڈ، لاہور
0300-6939453
16-01-2017

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.