تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سیّد عطاء المحسن بخاریؒ ۔۔۔ اک ضرب یداللّٰہی 

پروفیسر قاضی محمد طاہر علی الہاشمی 

بارہ سال قبل ۳؍شعبان المعظم ۱۴۲۰ ھ، مطابق ۱۲؍نومبر ۱۹۹۹ء بروز جمعۃ المبارک امیر مجلس احرار اسلام ابن امیر شریعت، پیکرِ جرأت و حمیّت اور شفیق مکرّم سید عطاء المحسن بخاری بعمر ۶۳ برس رحلت فرما گئے تھے۔
’’شاہ جی‘‘ کی جامع اوصاف اور ہمہ گیر شخصیت گوناگوں کمالات کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک پختہ حافظِ قرآن، مستند قاری، جیّد عالم دین، محقق، وسیع المطالعہ، ماہرِ تاریخ، قدیم و جدید علوم پر عمیق نظر رکھنے والے نابغۂ روزگار دانشور، اپنی طرز کے منفرد ادیب و شاعر، غیّور و خود دار صحافی، ممتاز کالم نگار،دینِ حق کے نہایت ہی جری، پُرجوش و بے باک مبلّغ و داعی اور بلند پایہ خطیب تھے۔
علاوہ ازیں موصوف کے آئینۂ اخلاق میں زہد و عبادت، امانت و دیانت، اخلاص و خشیّت، اصابتِ رائے، اتّباعِ سنّت، جوش قبولِ حق، انکسار و عاجزی، تواضع و فیّاضی ، عفو و درگزر، ’’اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ‘‘اور ’’حلم و اناۃ‘‘ کی صفات کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
مؤخر الذّکر صفت کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبد قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
’’اِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ الْحِلْمُ وَ الْاَنَاۃُ‘‘(صحیح مسلم شریف)
آپ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ کو پسند ہیں یہ تحمل اور صبر ہیں۔
’’حِلم‘‘ سے مراد وہ بردباری اور تحمل ہے جس میں عقل و فراست بھی شامل ہو جب کہ ’’اناۃ‘‘ ایک وسیع المعانی لفظ ہے اس میں صبر و سکون اور وقار و تحمّل کی خوبیاں شامل ہوتی ہیں۔ یہ دونوں خوبیاں جس میں پائی جائیں وہ نرمی و شفقت کا پیکر ہوتا ہے۔ بڑے مصائب کے سامنے کوہِ گراں اور صبر و استقلال کا مجسمہ ہوتا ہے۔
نیز یہ صفات اسے غیظ و غضب سے محفوظ رکھتی ہیں۔ ایسا شخص خفّت اور جلد بازی کا شکار نہیں ہوتا اور اسے قلبی سکون اور ذہنی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ الحمد للہ شاہ جی کو مذکورہ صفات میں سے وافر حصہ ملا ہے۔
موصوف کی زندگی کی سب سے نمایاں خصوصیت سراپا مقصدیت اور اس کے مطابق مشغولیت تھی اور اللہ تعالیٰ کا اپنے کسی خاص بندہ پر یہ خاص الخاص فضل ہوتا ہے کہ اسے کسی اچھے اور بڑے کام کی صلاحیت بخشی جائے پھر اس کام کی لگن اس کے دل میں لگا کر اس میں اس کو مشغول بھی کر دیا جائے۔
شاہ جی کی تربیت، خاندانی ماحول اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ان کی عظیم جدّو جہد سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خاص عنایت ان کی رفیق تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی حد درجہ انہماک و مشغولیت اور مجاہدہ و ریاضت کی زندگی تھی۔
وہ جس راستے پر چلنے کو حق سمجھ لیتے پھر کسی کا بات سننا یا نہ سننا،ماننا یہ نہ ماننا، کسی کا ساتھ دینا یا نہ دینا، کسی کی رضا مندی یا ناراضگی، کسی کی تسکین یا ملامت حتیٰ کہ کوئی زلزلہ یا طوفان بھی ان کے پائے استقامت میں کوئی لرزش نہیں ڈال سکتا تھا۔
کفر و ضلالت، الحاد و دہریت، سبائیت و قادیانیت، اعدائے صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم، اور بالخصوص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ’’نادان مخالفین‘‘ کے خلاف ہر محاذ پر ’’صورتاً و حقیقتاً‘‘ شدید ترین مزاحمت ہی ان کا مشن و مسلک تھا۔ وہ ’’الحبّ للہ‘‘ اور ’’البغض للہ‘‘ پر مکمل طور پر عمل پیرا تھے۔ صدائے اسلام کے ساتھ اس طرز عمل اور مزاحمت نے انہیں ’’وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غلْظَۃٌ‘‘ (التوبہ:۱۲۳) کا بھی مصداق بنا دیا تھا۔ یعنی مخالفین اسلام اور اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم تمہارے طرز عمل سے محسوس کر لیں کہ تمہارے اندر ان کے لیے موالات، دوستی اور محبت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی بلکہ جس طرح وہ من حیث القوم تمہارے اور تمہارے دین کے دشمن ہیں اسی طرح تم بھی من حیث الجماعت ان کے اور ان کے دین کے دشمن بنو۔ اب تک وہ تمہارے دل میں اپنے لیے بڑا نرم گوشہ پاتے تھے اس وجہ سے ان کو توقع تھی کہ واپنے مقاصد کے لیے تم کو برابر استعمال کرتے رہیں گے اب یہ حالت یکسر ختم ہونی چاہیے۔
شاہ جی کے مخالفین ان کی تقریر و تحریر سے جان گئے تھے کہ ان کے دل میں ان کے لیے محبت و مؤدت یا نرم گوشہ نہیں بلکہ فرمانِ الٰہی کے تحت ان کے دل میں غلظت اور سختی پائی جاتی ہے۔ والفضل ما شہدت بہ الاعداء۔
اس مقصد کے حصول او ر اپنے مشن کو عام کرنے کے لیے ’’شاہ جی‘‘ نے ابلاغ کے دونوں ذرائع یعنی تحریر و تقریر سے خوب کام لیا ہے۔ تحریر کا حلقۂ اثر محدود و مخصوص لیکن مستقل اور دائمی ہے جس سے صرف ’’خواندہ‘‘ طبقہ ہی مستفید ہو سکتا ہے۔ مگر ’’قلم‘‘ زمان و مکان کی مسافتوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ گزشتہ صدیوں کے علوم و فنون سے حال و مستقبل کو روشن کرتا ہے اور دور دراز علاقوں میں جنم لینے والے اولوالعزم حکما ء و فضلاء کے افکار و نظریات کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچاتا ہے۔
تعلیم اور تبلیغ بالقلم اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ اسی لیے اس کی جلالتِ شان کو ظاہر کرنے کے لیے اس کی قسم کھائی گئی بلکہ ’’وَ مَا یَسْطُرُوْنَ‘‘ فرما کر علم کے ان جواہر پاروں کی بھی قسم کھائی گئی ہے جو نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس کی زینت بنتے ہیں۔
شاہ جی نے اپنا مشن قارئین تک پہنچانے کے لیے ’’قلم‘‘ جیسے بڑے اور مؤثر ہتھیار سے بھی خوب کام لیا ہے۔ روزنامہ’’خبریں‘‘ اور ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان کے قارئین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ روزنامہ ’’خبریں‘‘ کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد صاحب موصوف کی کالم نگاری کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
’’سید عطاء المحسن بخاری ایک مکمل کالم نگار تھے۔ زبان، لغت، اصطلاحات، روز مرّہ محاورے، ضرب الامثال، سلاست اور روانی میں جو کمانڈ انہیں حاصل تھی وہ میں نے کسی اور کالم نگار میں نہیں دیکھی۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کا اظہار پوری جرأت کے ساتھ کرتے تھے۔ انہوں نے کالم نگاری کو بطور پیشہ کے نہیں بلکہ بطور مشن کے اختیار کیا تھا۔ وہ ایک عرصے تک ’’خبریں‘‘ کے لیے بلامعاوضہ لکھتے رہے۔ وہ اپنے فکر و نظریہ اور مؤقف کے ساتھ بہت مخلص تھے۔‘‘ ( ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ ملتان۔ نومبر ۲۰۰۸ء ، صفحہ:۵۲)
علاوہ ازیں ان کے قلم سے ’’دین میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام اور حیثیت، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ اور دگیر متعدّد چھوٹی بڑی تالیفات اور مقالات نکلے جن میں سے بعض کو ’’بخاری اکیڈمی‘‘ دار بنی ہاشم مہربان کالونی ملتان نے کتابی صورت میں بھی شائع کیا ہے۔
جہاں تک ابلاغ کے دوسرے ذریعے ’’تقریر و خطابت‘‘ کا تعلق ہے تو اس میں تو انہیں موروثی ملکہ حاصل تھا۔یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ تقریر کا دائرہ انتہائی وسیع اور عمومی ہے لیکن خاص وقت اور ماحول سے مشروط ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مؤثر اور فیصلہ کن ذریعہ اظہار ہے جس سے ہر خاص و عام فیض یاب ہوتا ہے۔
شاہ جی فنِ خطابت کے تیور شناس تھے۔ ان کی خطابت میں بلا کی تاثیر تھی۔ ان کا انداز بیاں بلاشبہ اس حکمِ الٰہی کی تعمیل تھا کہ:
’’وَ قُلْ لَہُمْ فِیْ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغاً۔ ان سے ایسے انداز میں باتیں کریں جو ان کے دل میں اتر جائیں۔ (النساء:۶۳)
خطابت میں کلمۂ حق کا اظہار ان کا طرّہ امتیاز تھا جب کہ دوران تقریر ان کی مسحور کن تلاوت قرآن اس پر مستزاد ہے۔ مقام شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شاہ جی کو ہر شعبے میں دین کے دفاع اور اس کے ابلاغ کی توفیق عطا فرمائی۔ انہوں نے تحریر و تقریر کے ذریعے باطل فرقوں اور اسلام دشمن قوتوں بالخصوص انتہا پسند سیکولرسٹوں، لبرل فاشسٹوں، قادیانیوں، سبائیوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کو ہر میدان میں تسلسل کے ساتھ للکارا۔
ان کی تقریر میں نمایاں طور پر ’’جمال و جلال‘‘ کا حسین امتزاج محسوس ہوتا تھا۔ دورانِ تقریر حسب موقع چہرہ پر آثار جلال اور ایسا جوش ظاہر ہوتا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ کوئی جرنیل اپنی فوج کو خطاب کر رہا ہے۔
میں ۱۹۶۳ء تا ۱۹۷۲ء جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں زیر تعلیم رہا ہوں۔ اس دوران میں متعدد مرتبہ ایک عام سامع کی حیثیت سے جانشین امیر شریعتؒ مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ اور مولانا سید عطاء المحسن شاہ بخاریؒ کی تقاریر سننے کا اتفاق ہوا لیکن سب سے پہلی ملاقات ۱۹۷۲ء میں ’’بخاری اکیڈمی‘‘ ملتان میں ہوئی۔
مجھے کسی کام کے سلسلہ میں ملتان جانا پڑا وہیں حضرت امیر شریعتؒ کی قبر کی زیارت کا داعیہ پیدا ہوا تو میں مقامی ساتھی کی معیّت میں ’’جلال باقری‘‘ قبرستان پہنچ گیا تو وہاں ایک چار دیواری کے باہر لکھا ہوا تھا:’’خطیبِ ملّت، بطلِ حُرّیت امیرِ شریعتؒ کی آخری آرام گاہ‘‘اندر بالکل کچی قبر تھی۔ دعا کے بعد واپسی پر راستے میں کچہری روڈ پر کتابوں کی ایک دکان (جو بخاری اکیڈمی سے موسوم تھی) میں شاہ جی سے مفصل ملاقات ہوئی۔ پھر اس کے بعد طویل عرصہ تک تعطل رہا۔
۱۹۸۵ء میں حویلیاں کے ایک بریلوی نما رافضی پیر سید محمود شاہ محدث ہزاروی نے اپنی تقاریر میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو العیاذ باللہ باغی، طاغی، ظالم، منافق اور کافر کہنا شروع کیا تو اس کے خلاف A۔۲۹۸ کے تحت ایک مقدمہ ۸ سال (۱۹۸۵ء ۔۱۹۹۲ء) تک ایبٹ آباد کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا جو بالآخر ’’مجرم‘‘ (ملزم) کی موت کی وجہ سے داخل دفتر ہو گیا۔ مذکورہ مقدمہ کی طویل پیروی کے دوران ملزم کی طرف سے میرے خلاف ترہیب و تخویف کاہر حربہ استعمال کیا گیا نیز ایبٹ آباد، کوہاٹ اور کراچی کی عدالتوں میں بہت سے جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور ثابت قدمی کی عظیم نعمت سے نوازتے ہوئے آٹھ برس تک مختلف عدالتوں میں اس جلیل القدر اور مظلوم صحابی کے دفاع کی توفیق عنایت فرمائی۔
حضرت شاہ جی کو میں نے اس صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے بہت ہی ہمت افزائی فرمائی۔ چنانچہ وہ میرے نام اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ:
’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع کے سلسلہ میں آپ جن مشکلات سے دوچار ہیں یہی بات اہل حق کا ورثہ ہے۔ آپ نے یہ وراثت سنبھال لی ہے۔ اللہ آپ کو استقامت عطا فرمائے اور آپ کی حفاظت و نصرت فرمائے۔ آمین
اپنی کامیابی کے لیے سات دن روزانہ ۴۱ مرتبہ سورۃ یٰسین شریف کا ختم کرائیں یقیناًاللہ کی رحمت متوجہ ہو گی اور دشمن خائب و خاسر ہو گا۔‘‘ اس کے بعد تادمِ واپسیں ہمیشہ مجھے ان کی سرپرستی حاصل رہی۔
موصوف نے میری کتاب ’’اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کون؟‘‘ کی تقریب رونمائی میں ۱۸؍دسمبر ۱۹۹۴ء کو بمعیّت برادر محترم جناب سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری اور مولانا ابو ریحان عبدالغفور سیالکوٹیؒ علالت کے باوجود طویل سفری صعوبتیں برداشت کر کے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت فرمائی۔ملاحظہ ہو (ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوت‘‘ ملتان۔ جنوری ۱۹۹۵ء، صفحہ: ۲۵۔۲۶)
موصوف نے میری کتاب ’’فرقہ مسعودیہ۔۔۔نام نہاد جماعت المسلمین کا علمی محاسبہ‘‘ پر حمیّت دینی سے بھرپور جامع تبصرہ از خود فرمایا۔ مسعود احمد امیر جماعت المسلمین کا ایک اقتباس نقل کر کے فرماتے ہیں کہ:
’’پڑھئیے اور اپنے دائیں بائیں پھیلے ہوئی کروڑوں دین کا کام کرنے والے مسلمانوں سے جدا کرنے کی اس تہذیبی یلغار کی خوبیوں پر عش عش کیجئے اور اس غبن فاحش کی داد دیجئے کہ یہی وہ پیرایہ بیان ہے جو ’’دجل‘‘ کی زد میں آتا ہے۔ اسی کو دجل کہتے ہیں جو حقیقت کے چہرے غبار سے اٹ دے یا شفاف پانی میں طین گھول کے اس کے حسن کو کجلا دے، گدلا دے اور اس کے بعد مسعود احمد صاحب اُمّت کے تمام افرادِ کار کو کافر، بے ایمان، جاہل، فرقہ باز اور نہ جانے اس قارونِ لغت نے اپنی پاکستانی لغت کا کون کون سا لفظ ہے جو چپکانے کی کوشش نہیں کی۔ اصلاح اُمّت کا دعویٰ لے کر اٹھے اور پوری اُمّت کو گمراہی اور کھلی گمراہی میں دھنسی ہوئی قرار دیا۔
حضرت قاضی محمد طاہر الہاشمی زید فضلہ وعلمہ پوری اُمّت مسلمہ کی طرف سے مبارک باد کے مستحق اور شکریہ کے لائق ہیں جنہوں نے اس نام نہاد ’’جماعت المسلمین‘‘ کا علمی محاسبہ اور تعاقب کر کے پوری اُمّت پر واضح کیا کہ یہ جماعت، جماعت المسلمین نہیں بلکہ جماعت المسلمین کو کافر، ملحد، زندیق کہنے والی جدید ’’جماعت الکافرین‘‘ ہے۔ مرزائیوں، سبائیوں کے بعد اس جماعت الکافرین کا درجہ ہے۔۔۔
میں صمیم قلب سے قاضی صاحب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس زنگی کو کافور کہنے کی بجائے ایمان و یقین سے بہت دور ثابت کیا اور ہم ایسوں کو اس کفر ساز ادارے کے کافر گروں کے فسوں سے محفوظ کیا اور اس دجّالی فتنہ کے چہرے سے نقاب سرکایا ہے۔ اللہ تعالیٰ قاضی صاحب سے راضی ہو اور اس سے بہتر خدمت سرانجام دینے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے آمین۔‘‘ (ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوت‘‘ ملتان۔ جون۱۹۹۶ء، صفحہ: ۵۴۔۵۵)
۱۹۹۸ء میں مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی زیر ادارت ماہنامہ الاشرف کا ’’قرآن نمبر‘‘ شائع ہوا جس پر ماہنامہ نقیب ختم نبوت دسمبر ۱۹۹۸ء کے شمارے میں تائیدی و تحسینی تبصرہ شائع ہوا۔
یہ تبصرہ پڑھ کر میں نے شاہ جی کو خط لکھا کہ اس نمبر میں ڈاکٹر سید رضوان ندوی صاحب کا بھی ایک مضمون شامل ہے جنھوں نے صفحہ:۱۱۷تا ۱۳۸ یعنی ۲۲ صفحات پر پھیلے ہوئے اس مضمون میں جا بجا صحابہ رضی اللہ عنہم کی شدید ترین توہین کی ہے تو شاہ جی اپنے جوابی مکتوب میں فرمایا:
’’آپ کا مؤقر گرامی نامہ شرف صدور لایا۔ میری بے خبری میں یہ سب کچھ ہوا محمد کفیل سلمہ بھی سفر پر چلے گئے۔ میری بادیہ پیمائی اس بے چارے کے حصے میں آئی ہے اس لیے بھائی حبیب الرحمن صاحب(فاضل مبصّر و معاون مدیر ماہنامہ نقیبِ ختم نبوت) کی سرسری نظر ’’قرآن‘‘ پر جم گئی اور قرآن کریم کے فضائل و مناقب کے علاوہ کہیں نہ گھوم سکی۔
میں عنقریب نشان زد صفحات اور دیگر مرکبات کا مشاہدہ کر کے تھوڑی بہت خدمت کروں گا۔ جن اسلاف کا ذکرِ حسرت آپ نے کیا ہے وہ تو مشترکہ غم ہے۔ مجھ جیسا کوچہ گرد بھلا اس منصب کے لائق کہاں ’’تاہم گندم اگر بہم نرسد بھس غنیمت است۔‘‘
امید ہے آپ کا حلقۂ احباب، اعزہ تمام خیر و عافیت سے ہوں گے۔ فقیر کا سب کو سلام پہنچے۔‘‘
بعد میں شاہ جی نے ڈاکٹر رضوان ندوی کے مضمون کے جواب کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی۔ چنانچہ میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں ۱۹ صفحات پر مشتمل مفصل و مدلّل جواب لکھا جسے محترم بھائی جناب سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری نے کمال مہربانی سے نقیبِ ختم نبوت مارچ ۱۹۹۹ء کے شمارے میں از صفحہ:۲۸ تا ۴۶ ۔ ایک ہی قسط میں شائع کر دیا۔
جب میرا یہ مضمون مولانا محمد اسلیم شیخوپوری صاحب کی نظروں سے گزرا تو انہوں نے اپنے تأثرات مجھے براہِ راست خط میں بھیجنے کے بجائے بہ عنوان ’’اعتذار‘‘ مدیر نقیب ختم نبوت کو برائے اشاعت ارسال کر دیے جسے جولائی ۱۹۹۹ء کے شمارہ میں میں صفحہ:۶۰۔۶۱ پر شائع کر دیاگیا۔ یقیناً یہ ’’اعتذار‘‘ مولانا محمد اسلم شیخوپوری صاحب کی اخلاقی جرأت ہی کی نہیں بلکہ ان کے علم و فضل، زہد و ورع، خوف وخشیّت اور تقویٰ و طہارت اور سب سے بڑھ کر ان کی ’’ایمانی صلابت‘‘ کی عظیم دلیل ہے۔ اس ’’اعتذار‘‘ میں موصوف نے مجھے براہ راست مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان کے ذیقعدہ ۱۴۱۹ھ کے شمارہ میں آپ کا مضمون ’’تردیدِ اصلاحی یا توہینِ صحابی‘‘ پڑھا۔ میں آپ کے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہوں اور مضمون کے مندرجات سے متفق ہوں۔ واقعتا ڈاکٹر رضوان ندوی صاحب نے اپنے مقالہ میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ ہمارے اکابر کے عقائد اور تاریخی حقائق کے منافی ہیں۔‘‘
شاہ جی نے میری دو کتابوں ’’تذکرۂ خلیفۂ راشد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ اور ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا علمی تجزیہ‘‘ پر جاندار اور زور دار مقدمہ بھی تحریر فرمایا۔
تذکرۂ خلیف�ۂراشد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جب طبع ہو کر آئی تو ان دنوں شاہ جی چناب نگر (ربوہ) میں سالانہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس کے اہتمام میں مصروف تھے۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ۱۰؍اگست ۱۹۹۵ء ، ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۴۱۶ھ کو اس پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ وہیں میں نے کتاب شاہ جی کی خدمت میں پیش کی۔ کتاب دیکھ کر ان کی خوشی دیدنی تھی، بہت دعاؤں سے نوازا۔ جب میں نے کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت دی تو بلا تأمل فرمایا:
’’انشاء اللہ ضرور شریک ہوں گا۔ یہ بات بطورِ تحدیثِ نعمت کہتا ہوں اور اس میں کوئی تعلّی و تکبر نہیں ہے۔ ملک میں اس مظلوم صحابی کے دفاع کی تحریک ہم نے ہی شروع کی ہے۔ ہم نے ہی اس ملک میں سب سے پہلے ’’یومِ معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ منانے کی داغ بیل ڈالی۔ میں نے ہی پہلی مرتبہ (۱۷؍رجب المرجب ۱۳۸۱ھ ، ۲۵؍دسمبر ۱۹۶۱ء کو) ملتان میں پہلے ’’یومِ معاویہ رضی اللہ عنہ ‘‘کے تاریخی اجتماع کا انتظام و انصرام کیا تھا۔ جس میں بھائی جان (حضرت سیّد ابو معاویہ ابوذر بخاریؒ ) نے تاریخی خطاب فرمایا تھا۔ نتیجتاً پابندیاں عائد ہوئیں، جیل گئے۔ طعن و تشنیع کے تیر برسے، اپنوں و بیگانوں سے گالیاں کھائیں، ساتھیوں کو پٹوایا، گھروں پر گولیوں کی بارش ہوئی۔ آگ لگائی گئی، دس بارہ چوریاں ہوئیں، قاتلانہ حملے ہوئے، ہم مسلک حلقوں نے مکمل سماجی بائیکاٹ کیا۔ یہ سب کچھ تو ہماری وجہ سے ہوا لہٰذا اس کتاب کی تقریب رونمائی میں کوئی مانع پیش نہ آ گیا تو ضرور شرکت کروں گا۔‘‘
لیکن جوں ہی تقریب کے انعقاد کی تاریخ (۶؍ستمبر ۱۹۹۵ء) قریب آئی موصوف بوجہ علالت طویل سفر اختیار نہ فرما سکے تو تقریب کے لیے اپنا تحریری مضمون جناب سید محمد کفیل شاہ صاحب بخاری کے توسط سے بھجوایا جسے انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ کے طور پر تقریب رونمائی میں پڑھ کر سنایا۔ بعد میں مدیر نقیب ختم نبوت نے اسی پس منظر اور تعارف کے ساتھ افادۂ عام کی غرض سے بہ عنوان:’’چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر۔۔۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عین حق اور معیار حق ہیں۔‘‘ نقیب ختم نبوت کے اوراق کی زینت بنایا۔ شاہ جی اس مضمون میں فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے مذہبی و مسلکی معاشرے کا عام رجحان یہ ہے کہ دیوبندی علما، بریلوی علما، غیر مقلّد علما اپنی اپنی تحقیقات میں اور اپنی اپنی ترجیحات میں جو لکھ دیں جو کہہ دیں وہ مستند و معتبر ہے اور اگر ان کی اس رائے سے اختلاف کیا جائے یا اس کو غلط کہہ دیا جائے تو الزام لگا دیا جاتا ہے کہ یہ شخص بزرگوں کا گستاخ ہے اور یہ تہمت لگانے والے خصوصاً وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو موحّد، یگانۂ عصر اور یکتائے روزگار کہتے اور منواتے ہیں حالانکہ وہ لوگ اعلیٰ درجہ کے اسلاف پرست اور بزرگ پرست ہیں اور بزرگوں کا فکری بت بنا کر اس کی پرستش سے بھی باز نہیں آتے۔ عالم یہ ہے کہ اس بزرگ پرستی اور اسلاف پرستی میں ہمارے دیوبندی اور اہل حدیث بھائی ، بریلوی بھائیوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں اور بزرگوں کے ایسے ایسے قصّے سناتے ہیں اور ایسی ایسی کرامات بتاتے ہیں کہ وہ ہندوؤں کے ڈپلیکیٹ دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس سے ان کی غرض شخصیت سازی ہے اور شخصیت کا ایک ایسا دائرہ بنانے کی مذموم کوشش ہے جس میں معتقدین و متوسلین گِھر کے رہ جائیں اور گُھٹ کے مر جائیں اور یہی اس کاوشِ نامسعود کی منشا ہوتی ہے۔ حالانکہ عقائد، فرائض، واجبات، سنن یا دیگر دینی احکام کے علاوہ دین میں توسّع موجود ہے خصوصاً تاریخی روایات یا تاریخی آرا و قصص کے بارے میں۔
مثلاً سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بزرگ پرستوں اور اسلاف پرستوں کے ترکشِ طعن و تشنیع کا کمزور سے کمزور تیر یہ ہے کہ:
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشاجرات میں آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا ورنہ لا ینحل عُقدہ ہے اس کو حل کیے بغیر اہل سنت والجماعت کا مؤقف نکھر کے سامنے نہیں آتا۔‘‘
اس میں پھر بزرگوں اور اسلاف پرستوں کا آپس میں اختلاف ہے۔ خیالی بت پوجنے والا ایک گروہ کہتا ہے کہ:
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف عنادی تھا۔‘‘
دوسرا گروہ جو محض بزرگوں کی لکیر کا نابینا فقیر ہے کہتا ہے کہ:
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ اختلاف اجتہادی خطا ہے۔‘‘
مزے کی بات یہ ہے کہ کہنے والے سب کے سب تقریباً عجمی ہیں۔ یہ نابینا بزرگ جس شخصیت گرامی کے اجتہاد کو خطا یا عناد کہتے ہیں وہ اللہ کے چنے ہوئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ کے رسول نے ان کا تزکیہ کیا، ان کے ظاہر و باطن کو اجالا، ان کی عدالت کی تصدیق کی، ان کو راشد و ہادی بنایا، ان کو مؤمن حقیقی کہا، ان کو مصلحین و فائزین کہا، ان کی آخرت پر اللہ کی رضا کی مہر لگا دی۔ اور جن لوگوں کو یہ معیار بناتے ہیں ان کی عاقبت کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ان کے دنیا کے اعمال تولے جائیں گے پھر فیصلہ ہو گا۔ جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبتِ بلند کے عوض تولے جائیں گے۔ پھر کون ہے جو آفتابِ رسالت کے ایسے ماہِ مبین کے سامنے عجم کے چراغ جلا سکے۔
دیوبندی علما یا بریلوی علما یا سلفی علما معیارِ حق نہیں بلکہ معیارِ حق تو صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔ یہ سارے عجمی طبقے بتاتے، پڑھاتے یہی ہیں کیونکہ ان کا رزق اسی اظہارِ عقیدت سے وابستہ ہے مگر جونہی ان کی اس ژولیدہ فکر کی تردید کی جاتی ہے۔ ان عجمی سکّہ بند ڈبوں اور ڈبہ پیروں کو تنقید کی سان پر چڑھایا جاتا ہے تو یہ اعجام و اسقام بزرگی دہائی ڈال دیتے ہیں۔
میں پوچھتا ہوں کیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو حق سمجھ کے خلافت دی یا عنادی و خاطی سمجھ کے؟ ان کی خلیفہ رسول سمجھ کے بیعت کی یا بادشاہ سمجھ کے؟
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد وہ واحد صحابی ہیں جن کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام طبقات نے بیعت کی۔ کیا انہوں نے بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو عنادی یا خاطی سمجھ کے بیعت کی؟ کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد مطلق نہ تھے؟ کیا ان کے اجتہاد کے سامنے کسی عجمی غیر مجتہد کی بات کو معتبر و مستد مانا جائے گا؟ کیا یہ دیوبندی، بریلوی، غیر مقلّد مسلمان، بڑے یا چھوٹے کسی مرجوح القول صحابی کے مقابلے میں بھی معتبر و مستند ہیں؟ میں پوچھتا ہوں کہ صحابی کے اجتہاد کے مقابلے میں ائمہ اربعہ کے اجتہاد کو بھی فوقیت دی جا سکتی ہے؟
تمہارے عجمی سازشی بزرگوں کی بات نہ مانی جائے تو بزرگوں کی گستاخی ہو جاتی ہے اور تم عجمی مریدین اور تمہارے عجمی بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجتہاد و اجماع سے روگردانی بھی کریں تو تمہارا کچھ نہیں بگڑتا، تمہارا ٹائٹل نہیں بدلتا؟ جو ہفوات تم عجمی لوگ کہتے ہو یہی کوئی اور لکھے تو وہ شیعہ، رافضی، ملحد، زندیق لیکن تم دیوبندی، بریلوی، سلفی جو چاہے کہتے لکھتے رہو تم پکّے اہل سنت والجماعت؟
’’سنت‘‘ تو ان کے رشد و ہدایت کو تسلیم کرنا ہے صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے کہ ان کی اتباع کرو اور بغیر دلیل پوچھے اتباع کرو۔ تم یہ سب رویّے چھوڑ کر، سنت مبارکہ ترک کر کے پھر سنّی کے سنّی اور تابع دار سنّی؟ جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت و مزاحمت کر کے پھر بھی اہل سنت والجماعت؟ واہ ری جماعت تیرا کیا کہنا؟
یاد رکھو! تم سنّیوں کے جتنے بھی طبقات شائستہ یا ناشائستہ ہیں تم تمام عنادی خاطی۔ تمہارے بزرگ گرگ باراں دیدہ عنادی وخاطی، باطل، فاسق، ضالّ اور مضلّ ہیں۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیعت کرنے والے تمام صحابہ و تابعین حق، بلکہ عینِ حق اور معیارِ حق ہیں۔ یہی ہمارا ایمان ہے۔ اس پرہم سختی سے قائم ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہماری قرآنی شخصیات ہیں جب کہ تمہاری شخصیات عجمی، سازشی اور منحرف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غیر مشروط اتباع، احترام اور دفاع کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘آمین(ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوت‘‘ ملتان۔ اکتوبر ۱۹۹۵ء ، صفحہ:۱۳۔۲۴،۲۱)
موصوف اپنے ایک دوسرے مضمون ’’اہل سنّت والجماعت کون؟‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’اہل سنّت والجماعت کا ٹائٹل اپنے سینہ پر سجا کے جو لوگ دشمنوں کی بولی بولتے ہیں۔ وہ کہتے، لکھتے اور اصرار کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کابیعت نہ کرنا ان کی ’’خطائے اجتہادی‘‘ ہے۔ اور یہ کہنے لکھنے والے تمام کے تمام غیر مجتہد ہیں۔ تنقید کرتے ہیں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم، مجتہدِ مطلق پر۔۔۔ ایں چہ بو العجبی است؟
نابینا، بینا پر نقد و جرح کرتا ہے، غیر مجتہد، مجتہد مطلق کے اجتہاد کو خطا کہتا ہے۔ میں ان نابینوں سے پوچھنے کا حق رکھتا ہوں کہ علمائے عجم! آپ کسی عجمی سازش کا صید زبوں تو نہیں ہو گئے؟ جو اس قسم کے ’’اول فول‘‘ تک نوبت پہنچی ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے خطا پر صلح کی؟ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ایک خاطی کی بیعت کی؟ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما ایک خطا کار کے پاس جایا کرتے تھے؟
سیدنا معاویہ رضی للہ عنہ و سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی صلح پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام طبقات جمع ہو گئے۔ کیا صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک ’’خطا کار‘‘ پر اجماع کیا؟ اس سال کا نام عام الجماعت رکھا گیا۔ کیا یہ عام الجماعت خطا پر قائم ہوا تھا؟ اگر یہ تمام خطا پر جمع ہوئے تو کیا یہ عدل ہوا؟ تمام اہلِ سنّت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عدول ہونے پر متفق ہیں لہٰذا عدول پر الزام عائد کرنے والے غیر عادل ہوئے۔ غیر عادل، عادل پر تنقید کرے یہ کہاں کا اصول ہے؟ کیا یہ اصول اہل سنت نے وضع کیا ہے؟ پھر سوال ہو گا کیا اہل سنت صحابہ رضی اللہ عنہم پر تنقید کے لیے اصول وضع کرنے کے مجاز ہیں؟ اگر اہلِ سنّت اصول وضع کرنے کے مجاز ہیں تو دیگر غیر اہل سنّت مجاز کیوں نہیں، پھر تو ہر کہتر و مہتر کو اصول وضع کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کا حق مل جاتا ہے اور یہی حق سید ابوالاعلیٰ مودودی نے استعمال کیا ہے تو اس پر چیخنے چلّانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اب خصوصاً بزعم خود نام نہاد دیوبندی علما بہت ہی زیادہ چیں بہ چیں ہیں تو کیوں؟ سید مودودی پر تنقید و جرح کو تو آپ کارِ ثواب سمجھیں اور آپ پر تنقید کی جائے تو گستاخی۔۔۔یہ دوہرا معیار، یہ آپ کے دو رُخ اسے عجمی سازش تو کہا جائے گا، حق نہیں۔۔۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیار حق ہیں تو پھر آپ اور آپ کے تمام عجمی علما یقیناًمعیارِ حق نہیں۔ معیارِ حق تو درکنار آپ حق بھی نہیں۔ آپ صریحاً باطل ہیں اور دوغلے ہیں۔ آپ مودودی کے خلاف زبان دارزی کریں تو یہ کہہ کر کہ صحابہ معیارِ حق ہیں اور آپ ہرزہ سرائی کریں تو آپ ’’علمائے حق‘‘
حق تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس ہے، معیارِ حق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں اور آپ معیارِ باطل ۔ معیارِ حق کے مقابل معیارِ باطل کو رد کر دیا جائے گا اور میں آپ کو اور آپ کے متوسلین کو علی وجہ البصیرت رد کرتا ہوں۔ آپ کو مردود قرار دیتا ہوں۔
جھوٹے تقدّس اور تقدّس کی چند ظاہری رسموں پر کار بند لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کا حق رکھتے ہیں تو میں مسلکِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قائل ان ’’متقدمین‘‘ پر تنقید کا حق کیوں نہیں رکھتا؟ میں ان پر چارج لگاتا ہوں کہ انہوں نے دوغلے پن کا مظاہرہ کیا اور معیارِ حق الاپتے ہوئے خود کو معیارِ حق سمجھ لیا۔
یہ ’’متقدمین‘‘ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم کو خاطی کہیں تو گستاخی نہیں اور میں ان کو باطل و مردود کہوں تو گستاخ؟ کیا تم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑے ہو؟ کیا تمہاری جھالر عرشی کرنوں سے مزین کی گئی ہے؟ تم عیسائیوں کے رہبان سے کم تو نہیں ہو۔ انہوں نے تعلیمات مسیح مقدس کو غتر بود کیا اور اپنی دساست کو دین مسیحی کہا۔۔۔ تم نے مؤقف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غلط کہا اور اپنی جہالت کو مؤقف علی رضی اللہ عنہ کہا اور منوانے کی ناپاک سعی کی کہ اہل سنّت والجماعت کا مؤقف صدیوں سے یہی ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مؤقف کی نفی کر کے آپ اب بھی اہل سنّت اور اہل جماعت ہیں، جب آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کے مؤقف کو خطا کہہ دیا تو آپ اہل جماعت کیسے رہے؟ آپ تو جماعت سے خارج ہو گئے اور اصل ’’خارجی‘‘ تو آپ ہیں اور آپ ’’عجمی خارجی‘‘ ان ’’عرب خارجیوں‘‘ سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اللہ پاک امت کی رکھوالی فرمائے اور آپ کی دساستوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ وَ مَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْز۔
یاد رکھیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مؤقف کو حق و صواب ماننے والے ہی اہل سنّت والجماعت ہیں۔ اس کو خطا کہنے والے اہل سنّت والجماعت ہرگز نہیں۔ وہ ’’صورتاً‘‘ سنّی ہیں مگر ’’حقیقتاً‘‘ خارجی، ناصبی اور سبائی ہیں۔ ابلّغکم مقام الصحابۃ والجماعۃ۔۔۔واعلم بفضل اللّٰہ ما لا تعلمون۔ (ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوت‘‘ ملتان۔ دسمبر ۱۹۹۵ء ، صفحہ:۶۔۷)
شاہ جی نے اپنی وفات سے صرف تین ماہ قبل دفاع معاویہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں اپنی زندگی کا آخری مضمون لکھ کر دشمنانِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ چنانچہ وہ زیرِ عنوان:’’سرخیل راشدین، امیر المؤمنین، خلیفۃ المسلمین، امام المتقین، اموی خلیفہ راشد، قائد انام، فاتح روم و شام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ناقد ہندوستانی و پاکستانی مولوی‘‘
رقم طراز ہیں کہ:
’’پاکستان کے ایسے مولوی جو نادانستہ شیعوں کے حلیف بنے ہوئے ہیں عمداً یہ ہفوات مسلسل چھاپ رہے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے ممدوح ہیں جو ناصبی ہیں یا یوں کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدح ناصبیت کے زمرے میں آتی ہے اور دلیل سے محروم یہ گفتگو ان مولویوں کے ہاں عام ہے اور حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ان مکروہ لوگوں کا لب و لہجہ اور رویہ بھی نہایت سوقیانہ ہوتا ہے۔
ایسے پیوست زدہ رافضیوں کے حلیف مولویوں سے پوچھتا ہوں کہ کیاشاہ ولی اللہ، امام طحاوی، ابوبکر بن جصاص۔۔۔ سیدنا عمر، سیدنا معاویہ، سیدنا عبداللہ بن عباس، سید نا عمر بن سعد رضی اللہ عنہم سے بہتر ہیں؟ ان کی آرا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آرا سے بہتر ہیں؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا علم ان لوگوں سے بہتر نہیں؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مردم شناسی کیا بعد کے بزرگوں سے بہترنہیں؟ فضائل کے اعتبار سے کیا وہ پوری امت سے بہتر نہیں؟ جواب یقیناًاثبات میں آئے گا۔ میں پوچھتا ہوں پھر ان کی رائے، ان کی بات، ان کی اصابتِ فکر پر تم کو اعتماد کیوں نہیں؟ شیعوں والے فکر کی اشاعت کی غلاظت اپنے سر کیوں اٹھاتے ہو؟ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کا نام آتے ہی تمہیں صحابہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باتیں بھولنے لگتی ہیں اور چند ہندوستانی بزرگ تمہاری آنکھ کا سرمہ بن جاتے ہیں۔
’’کیا ہندوستانی علما کامزعومہ اتفاقِ رائے اور پاکستانی علما کا ان کی اقتدا کرنا یہ ضروری ہے؟ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بات پر اعتماد و اتفاق اور اس کی اقتدا ہم سب کے لیے ضروری ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آرا پر کسی ایرے غیرے کی رائے کو فوقیت دینا فکری حرام کاری نہیں تو اور کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی خوشبو ہوتی ہے اور تمہاری باتوں میں ایرانی تعفّن ہوتا ہے۔ ‘‘
’’جھوٹے تقدّس کی کِرم خوردہ بیساکھیوں کے سہارے زندہ رہنے والے تفاخر سے اپنی شخصیت کا دبدبہ جماتے ہیں کہ فلاں حضرت مدنی کا مرید ہے ، فلاں حضرت رائے پوری کا منظورِ نظر ہے، فلاں دیوبندی ہے۔ یہ ہے اور وہ ہے۔
انہوں نے کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارا کی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مریدِ مصطفی ہیں، مکّی ہیں، مدنی ہیں، دمشقی ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نسبتِ بیعت ہی تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی سند ہے۔۔۔
تم مؤرخین کے در عجم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شخصی پہچان کی بھیک مانگتے ہو تمہیں شرم آنی چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآنی شخصیات ہیں تاریخی شخصیات نہیں ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعارف و تصدیق قرآن سے مانگیں تاریخ سے نہیں۔ قلم توڑ دیے لیکن تمہاری میلی آنکھ قرآنی سرمہ سے مجلّٰی نہ ہوئی۔ اگر قرآن سے دل و دماغ منوّر ہو چکے ہوتے تو سید مودودی کی طرح آپ کو تاریخ کے صیدِ زبوں کھانے کی کیا ضرورت تھی؟
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
اس رد و کد کے بعد میں پوچھتا ہوں کیا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مریدِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں؟ ان کا تزکیہ و تطہیر حضور علیہ السلام نے نہیں کی؟ ان کے تقویٰ کو اللہ نے نہیں پرکھا؟ ان کا رشد منصوص و مؤکدِ قرآنی نہیں؟
عجم کے چند مخصوص عجمیوں کے کہنے سے ان کی ہدایت و رشد، تقویٰ و صفا سب مشکوک ہو جائے گا؟ دلّی و جہلم کی روندی ہوئی سرزمین کے نو مسلموں کے کہنے سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حلقۂ یاراں کو باطل کہا جائے گا؟باغی کہا جائے گا؟ گناہ گار کہا جائے گا؟ ضالّ و مضلّ کہا جائے گا؟ صورتاً باغی ہیں حقیقتاً نہیں کی راگنی الاپی جائے گی؟ اگر ان کے لیے یہ ’’القاب‘‘ ضیاقۂ عجم ہیں تو میں آپ سب کا ہم عصر ہوں، آپ کو جانتا ہوں، پہچانتا ہوں، مجھ پہ ظاہر ہے آپ کا باطن۔ میں کہہ سکتا ہوں آپ غلام، آپ کے والد ماجد غلام، آپ تمام باطل، تمام مرتکب کبائر، خوابوں کے ذریعے دوشیزائیں ہتھیانے والے صورتاً بھی گندے اور حقیقتاً گلے سڑے متعفّن لاشے، ایرانی دسترخوان کاچچوڑ کھانے والے۔ فرمایے اب کیسے مزاج ہیں؟ طنطنۂ تقدّس زمین بوس ہوا کہ نہیں؟ قدرِ عافیت معلوم ہوئی؟ یہ ہے آپ کی قیمت۔(ماہنامہ’’نقیب ختمِ نبوت ملتان۔ اگست ۱۹۹۹ء ، صفحہ:۹۔۱۱)
مذکورہ مضمون میں صفحہ:۱۲ تا ۱۴ پر شاہ جی نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ایمان، ’’طلقاء‘‘ اور ’’باغی‘‘ جیسے الزامات پر اپنے مخصوص انداز میں خوبصورت بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’صدرِ اوّل کے واقعہ و حادثۂ فاجعہ پر دلیل (کے طور پر) صدیوں بعد کے ایک فقیہ کی رائے کو پیش کرتے ہیں اور یوں ’’رئیس المہکّکین‘‘ کا تمغہ سینے پر سجائے پھرتے ہیں اور بڈھی میراثن کی طرح انگلی بڑھا بڑھا کے دکھا دکھا کے کہتے پھرتے ہیں ہم نے جو لکھا ہے بڑی ’’تہکیک‘‘ سے لکھا ہے۔۔۔ اس کو کوہتے ہیں دین ملّا فی سبیل اللہ فساء۔۔۔ آپ جیسے ہیزم کش آذوقۂ نار ہیں اور آپ جیسوں کا علاج سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا درّہ ہے۔‘‘
شاہ جی نے اگرچہ ہر فتنے کا مقابلہ کیا ہے لیکن ان کا خاص موضوع عقیدہ ختمِ نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کے استیصال کے ساتھ ساتھ شیعی اور ’’سنّی‘‘ حملوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع اور مسلک اہل سنت والجماعت کی حفاظت اور شیعی مذہب کی ضلالتوں کو واضح کر کے حجت حق قائم کرنا تھا اور یہ وہ موضوع ہے جو برّصغیر کے خاص تاریخی حالات کی وجہ سے اکابر علما و مصلحین کی علمی اور دینی کوششوں کا صدیوں سے خاص موضوع رہا ہے،جس شخص نے اس موضوع سے متعلق ان اکابر کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور وہ شاہ جی کے کام سے بھی واقف ہے تو اس کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ موصوف نے اس موضوع کو اپنے پیش رو اکابر کے اسلوب طرز اور مسلک کے مطابق پہلے سے کئی گنا زیادہ نکھارا۔ متقدمین اکابر نے رافضیت کی تردید حضرت ابوبکر سے حضرت علی رضی اللہ عنہم تک محدود رکھی اور دفاع سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ’’بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا کیونکہ اس سلسلہ میں آخری حد تک اعتدال و توازن اور حفظِ مراتب کا برقرار رکھنا ہر عالم، محقق یا مؤرخ کا کام نہیں ہے۔ اس لیے ان حضرات اور عوامی مقررین نے خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کو عوامی لحاظ سے مشن کے طور پر اپنانے سے گریز کیا۔ حالانکہ قدح صحابہ کی سب نامراد کوششوں اور تحریکوں کو روکنے اور جام کرنے کا واحد ذریعہ مدحِ صحابہ خاص طور پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کو تحریری و تقریری طور پر بطور مشن اجاگر کرنا اور اپنانا ہے۔ جیسا کہ مشہور محدّث امام ابوداؤد کے استاذ ربیع بن نافع نے صدیوں پہلے قدح صحابہ کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ:
’’معاویۃ بن ابی سفیان ستر لأصحاب محمد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فاذا کشف الرجل الستر اجتری علیٰ ما ورآء ہ‘‘ (البدایہ والنہایہ ، جلد:۸، صفحہ:۱۳۹)
’’معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پردہ ہیں جب کوئی شخص اس پردے کو کھول دے گا تو اس پردہ کے پیچھے جو لوگ ہیں ان پر بھی وہ جرأت کے گا۔‘‘
دشمنانِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تو ہدف یہ پردہ تھا ہی مگر صد افسوس کہ اپنوں نے بھی اس پردہ کو تار تار کرنے میں دشمن کا پھرپور ساتھ دیا۔
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں بھی ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
شاہ جی کی دشمنانِ معاویہ رضی اللہ عنہ پر انتہائی تیز و تند اور بے لاگ تنقید سے وہ نام نہاد سنّی جن کی عروق میں سبائیت کے جرثومے سرایت کر چکے ہیں ضرور چیں بہ جبیں ہوں گے لیکن اگر ’’اکابر‘‘ کی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر حسبِ ذیل ’’نوازشات‘‘ پیشِ نظر رہیں تو شاہ جی کی تنقید یقیناًمنطقی اور جذبۂ ایمانی کا نتیجہ محسوس ہوگی۔
’’ابو سفیان کے بیٹے کا تذکرہ کر کے ہماری مجلس کو گندا نہ کرو‘‘
’’معاویہ سود کھاتا تھا اورحلق تک جہنم میں ہے، اس گدھے نے ایک رکعت وتر کہاں سے لی؟‘‘
’’اہانت لفظ معاویہ سے ماخوذ ہے کیونکہ وہ ’’عویٰ‘‘ سے مشتق ہے اور وہ بھیڑیے اور کتے کا بھونکنا ہے‘‘
’’حضرت معاویہؓ کو تمکینِ دین حاصل نہ تھی، معاویہؓ کو سنیوں میں کوئی ایک بھی خلیفہ راشد نہیں سمجھتا‘‘
’’ابن عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ راشد علی المرتضیٰ اور امیرِ شام کا مقابلہ ہی کیا’’چراغ مردہ کجا شمع آفتاب کجا‘‘
فأین الثریا وأین الثرٰی؟

و أین معاویۃ من علی؟
’’حضرت معاویہؓ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں اگر صفِ نعال میں بھی جگہ مل جائے تو ان کے لیے سعادت اور باعثِ فخر ہے‘‘
’’حضرت معاویہ نصّ صریح کے مطابق باغی اور باطل تھے‘‘
’’حضرت معاویہ نصّ قرآنی کے مخالف، باغی، خاطی تھے اور ان کا مؤقف غلط تھا‘‘
ایک عالمی شہرت یافتہ مبلّغ اسلام لکھتے ہیں کہ:
’’درجے کے لحاظ سے معاویہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے ناخن کے بھی برابر نہیں تھے، معاویہؓ کی خطا تھی یہ اجتہادی خطا وغیرہ سب سابقے لاحقے ہیں۔‘‘
’’یزید بیٹیوں اور بہنوں سے صحبت کرنے کے ساتھ ساتھ شرابی اور تارک صلوٰۃ بھی تھا۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے نرمی سے نصیحت فرمائی کہ کم از کم دن بھر میں ایسی باتوں سے صبر کر لیا کرو، جب رات آتی ہے تو رقیب کی آنکھ بند ہو جاتی ہے کتنے فاسق ہیں کہ دن عبادت میں گزارتے ہیں اور رات لذت و عیش میں گزارتے ہیں۔‘‘
اپنوں کی طرف سے اس توہین و تبرّا کے علاوہ ہاشمی واموی رقابت پر مشتمل موضوع واقعات اس پر مستزاد ہیں۔
ان حالات میں ابنائے امیر شریعتؒ حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاریؒ اور مولانا سید عطاء المحسن بخاریؒ بلکہ پورے خانوادہ امیر شریعتؒ کے اکابر و اصاغر کشتیاں جلا کر میدانِ عمل میں کود پڑے اور پوری جرأت و بہادری کے ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتہائی منظم طریقے کے ساتھ دفاعِ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بھرپور تحریک چلا کر جہاں اربابِ عزیمت کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا اضافہ کیا وہاں اصحابِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے ایک مضبوط بند باندھ دیا تا کہ نہ کوئی اس دروازہ سے داخل ہوں اور نہ وہ سقیفہ بنی ساعدہ تک پہنچ سکے۔
انہوں نے برصغیر کی دینی جماعتوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مجلس احرار اسلام کے منشور میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ’’خلافتِ راشدہ‘‘ کے مثالیہ کے طور پر پیش کر کے اس کی دینی تاریخی اور سیاسی حیثیت کو واضح کیا۔ سخت تعجب ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے نادان مخالفین خود تو اپنے پیروں کے ’’خلیفہ ارشد‘‘ اور ’’مرشد عالم‘‘ بن بیٹھے مگر جسے رب نے راشد قرار دیا اور جو باجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ مقرر ہوا، اسے نہ صرف یہ کہ خلیفہ راشد ماننے سے صاف انکار کر دیا بلکہ اس پر طعن و تشنیع کر کے باقی صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی تنقید کا دروازہ کھول دیا۔
خانوادہ امیرِ شریعتؒ نے برِصغیر کی تاریخ میں پہلی بار ’’مسجد معاویہ‘‘ کے نام سے مسجد تعمیر کی اور تیرہ صدیوں کے بعد تجدید اسمائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تحریک چلا کر ہزاروں بچوں کے نام سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر ’’معاویہ‘‘ رکھوائے بلکہ جانشین امیر شریعتؒ اور خاندانِ بنو ہاشم کے گل سرسبد، حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر عطاء المنعم شاہ بخاری نے خاندانی عصبیت کے جاہلی بُت کو توڑ کر برّصغیر کے سادات کی تاریخ میں پہلی بار اپنے بچوں کے نام ’’سید محمد معاویہ‘‘ اور ’’سید محمد مغیرہ‘‘ رکھے۔
دوسری طرف خود کو پیرانِ طریقت اور علمائے حق کہلانے والوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننے کے باوجود اپنے بچوں کا نام معاویہ رکھنے اور رکھوانے سے گریز کیا۔
خانوادہ امیرِ شریعتؒ نے تحریک ’’تجدید اسما ء صحابہ رضی اللہ عنہم‘‘ اور ’’دفاع معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ کی تحریک چلا کر درحقیقت مدحِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تمام تحریکوں کو افرادی اور فکری قوت بخشی جس کی وجہ سے آج پورے ملک کے طول و عرض میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام اور ’’حق معاویہ۔۔۔برحق معاویہ رضی اللہ عنہ‘‘ کا نعرہ گونج رہا ہے اور تاقیامِ قیامت گونجتا رہے گا۔ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔
بلاشبہ حضرت مولانا سید ابومعاویہ بخاریؒ تحریک دفاع صحابہ کرام خصوصاً سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مجدّد ہیں زندگی بھر اس مشن پر قائم رہے حتیٰ کہ نشتر ہسپتال ملتان میں عیادت کے لیے حاضر ہونے والے مولانا ابوریحان عبدالغفور سیالکوٹی کو یہ وصیت فرمائی کہ ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دفاع اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے لہٰذا ان کا خوب دفاع کیا کرو، معاویہ نام عام کرو۔‘‘ (ماہنامہ ’’نقیب ختمِ نبوت‘‘ ملتان۔ اکتوبر، نومبر ۱۹۹۷ء، صفحہ:۱۰۸)
حضرت سید عطاء المحسن بخاریؒ بھی اس تحریک کے روح ورواں تھے۔ عملی زندگی کے آغاز سے لے کر تا دمِ واپسیں اس تحریک کو بامِ عروج پر پہنچایا اور قائدانہ کردار ادا کر کے آج سے بارہ سال قبل ۳؍شعبان المعظم ۱۴۲۰ھ، ۱۲؍نومبر ۱۹۹۹ء بروز جمعۃ المبارک بعمر ۶۳برس عالم دنیا سے عالم برزخ کی طرف منتقل ہو گئے۔
یوں بھی حضرت امیرِ شریعتؒ کی رحلت کے بعد ۳۸ برس تک مسلسل شاہ جیؒ نے جس مقدّس مشن کی خاطر آگ اور خون کے سمندر سے گزر کر ایثار و قربانی کی جن عظیم روایات کو زندہ کیا تھا اس عظیم مشن کو ان کے مخلص اور جاں نثار سربکف رفقائے فکر اور کارکنانِ احرار جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب تک یہ مقدّس مشن جاری ہے اور ان شاء اللہ تاقیامِ قیامت جاری رہے گا، ’’شاہ جی‘‘ کی خدمات اور ایثار و قربانی کی عظیم روایات اور نام بھی زندہ وجاوید رہے گا۔
وہ میرا شعلۂ جبیں موجۂ ہوا کی طرح
دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.