تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی مکتوب نگاری

نوراللہ فارانی

فن مکتوب نگاری کے مختلف پہلووں پر ہر حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔زیر نظر مضمون میں فن مکتوب نگاری کی تاریخ پرلکھنے اور مختلف ادوار کی تعین کیے بغیر تطویل سے پہلو تہی کرتے ہوئے،مجاہدآزادی خطیب اعظم سید عطاءاللہ شاہ بخاری کی مکتوب نگاری پرکچھ عرض ومعروض کرناچاہتےہیں.
عنوان کی حد تک موضوع کے حدود کی رعایت رکھتے ہوئے صرف یہ لکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔کہ اردو زبان کے مکتوباتی سرمایے کی تاریخ دوسو سترہ سال قدیم ہے۔اردو زبان کااب تک سب سے قدیم دستیاب شدہ مکتوب 1803ء کا تحریر کردہ ہے۔جس کی مکتوب نگار فقیرہ بیگم اور مکتوب الیہ میرزا محمد ظہیر الدین علی بخت اظفری دہلوی (1758ء ،1818ء) تھے۔یہ خط “واقعات اظفری” کے نسخہ دانش گاہ ٹیوبنگن جرمنی میں شامل ہے۔1

اب تک کی معلومات کے مطابق “سیدی وابی ” میں شائع شدہ خطوط کے علاوہ شاہ جی کے تقریبا تیس کے قریب خطوط دستیاب ہیں۔ جو مختلف کتب،رسائل اور تذکروں کی زینت ہیں۔ جن کے بعض چیدہ چیدہ اقتباسات اور ایک دو خطوط کی مکمل عبارت پر ہماری یہ تحریر محیط ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مکتوبات مکتوب نگار کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ امیر شریعتؒ کی زندگی ایک عوامی زندگی اور کھلی کتاب کی مانند ہے۔مگر باایں ہمہ ایک انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو جاننا ایک مشکل امر ہے۔ کیونکہ کسی انسان کی زندگی کے جتنے پہلونمایاں اور عام لوگوں کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ پہلو اخفاء کے پردے میں ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی شخصیت کے سوانح وافکار اور کردار نگاری میں ان کے خطوط کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔کیونکہ خطوط میں کسی شخصیت کی زندگی کے بعض پوشیدہ گوشے ان کے اپنے ہی قلم سے احساسات، جذبات ، میلانات، اور افکار کی صورت میں بڑی بے تکلفی سے رقم ہو جاتے ہیں جو بڑے حسین، نمایاں اور صاف نظر آتے ہیں۔
حضرت امیر شریعتؒ کے خطوط کی دنیا محدود ہے، ضرورت پیش ہوئی خط کا جواب لکھا وہ بھی جتنا ہوسکا مختصر لکھا اوربس۔ کیونکہ آپ لکھنے لکھانے سے طبعی طور پر متنفر تھے، تحریر کو فتنہ سے تعبیر کرتے۔مولانا ظہور احمد بگوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
“فتنہ تحریر سے بہت ڈرتا ہوں اس لیے کچھ لکھنا مناسب نہ سمجھا۔” 2
“لکھنے لکھانے کا شوق کبھی نہ تھا البتہ خطوط کا جواب سفر وحضر دونوں صورتوں میں خود لکھتے، غیرضروری خط وکتابت سے اجتناب کرتے۔” 3
شاہ جیؒ کے اولین سوانح نگار خان غازی کابلی لکھتے ہیں:
“سفروحضر دونوں حالتوں میں ایک سوٹ کیس اپنے پاس رکھتے ہیں۔جس میں پہننے کے لیے کپڑوں کے علاوہ ریلوے ٹائم ٹیبل اور ادویہ، احباب کے خطوط، لفافے اور پوسٹ کارڈ بھی ہوتے ہیں۔فرصت کے وقت احباب کے خطوط کا جواب لکھتے ہیں۔” 4

خان غازی کابلی قاری محمد سعید عظیم آبادی کے ساتھ شاہ جی کے خط وکتابت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“قاری موصوف شاہ صاحب کے بچپن کے ساتھی ہیں،اور پٹنہ میں آپ کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔۔۔بخاری صاحب آپ کو ایسی طرزوانداز میں خطوط لکھتے ہیں۔جن سے قاری صاحب کے علاوہ اور کوئی شخص لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔” 5

آپ کے مکتوب الیہم اکثر آپ کے خاندان والے، دوست واحباب،تحریک میں شامل اپنے فکر ونظریہ کے افراد ہوتے۔آپ کے دستیاب خطوط میں بعض حضرات کے ساتھ آپ کے خط وکتابت کا پتہ چلتا ہے۔آپ کے نام مولانا ابوالکلام آزادؒ کے تین خطوط “سیدی وابی” میں چھپ چکے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد کے ساتھ عقیدت ومحبت کے لازوال رشتے کے علاوہ خط وکتابت کا رشتہ بھی استوار تھا۔ مگر افسوس آپ کے لکھے اکثر خطوط دستیاب نہیں۔
آپ کے خطوط کا ایک مجموعہ جناب نعیم آسی مرحوم نے دسمبر 1981ء کو مسلم اکادمی سیالکوٹ سے”مکاتیب امیر شریعت” کے نام سے شائع کیا تھا۔باب اول میں آپ کے نو خطوط۔ باب دوم میں امیر شریعتؒ کے دو آٹوگراف بیان القرآن اور ایک منی آرڈر پر دستخط شامل ہیں۔ باب سوم میں آپ کے بعض چیدہ اشعار اور آخر میں ایک ضمیمہ ملحق ہے، جس میں دو مکتوب شامل ہیں۔پہلا مکتوب مولانا احمد علی لاہوریؒ بنام شاہ جیؒ دوسرا مکتوب مولانا سید حسین احمد مدنیؒ بنام شاہ جیؒ درج ہیں۔
نعیم آسی مرحوم نے اس مجموعہ میں شاہ جیؒ کے مکتوبات کی جمع آوری کے لیے متعدد حضرات کے ساتھ جنہیں شاہ جی یا ان کے متعلقین کا قرب حاصل تھا، رابطہ کیا۔جن میں سے خان غازی کابلی ،نواب زادہ نصراللہ خان، عبداللہ ملک )لاہور(چودھری ثناءاللہ بھٹہ )لاہور(مسعود شورش ابن شورش کاشمیری،جانباز مرزا،ڈاکٹر سید محمد عبداللہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔مگر بقول نعیم آسی مرحوم کے “افسوس ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔” 6
مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر “مکاتیب امیر شریعت” پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“مرتب نے زیادہ جستجو، تحقیق اور کاوش سے کام نہیں لیا کئی غیر مطبوعہ خطوط کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا )ہے(۔” 7

عبداللہ ملک نعیم آسی کے نام 20جنوری 1979ء کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
“میرے پاس سے بہت سے مکتوبات تلاشیوں کے زمانوں میں ضائع ہوگئے” 8
مولانا محمد علی کاندھلوی ایک زمانہ میں کاروان احرار کے راہی تھے۔نعیم آسی کے دریافت کرنے پر بتایا :
“میرے پاس شاہ صاحبؒ کے تین مکتوبات تھے۔تقسیم کے موقع پر ضائع ہوگئے۔” 9
شورش کاشمیری سی ایل کاوش کے نام اپنے ایک مکتوب جس میں انہوں نے اپنے نام اکابر ومشائخ کے مکتوبات کی ایک اجمالی فہرست درج کی ہے اور یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ یہ تمام مکاتیب ایک مجموعہ کی صورت میں شائع کرنا چاہتا ہوں۔اس میں انہوں نے شاہ جی کے 12 مکاتیب کا ذکر کیا ہے۔10

امیر شریعتؒ کی صاحبزادی ام کفیل بخاری نے بھی اپنی کتاب “سیدی وابی” میں دوسرے باب کی صورت میں امیرشریعتؒ کے کل تیس (23) خطوط زمانی ترتیب کے ساتھ شامل کئے ہیں۔جوکہ پہلی دفعہ اس کتاب میں شائع ہوئے۔
“پہلا خط حضرت امیرشریعت کا اپنی والدہ ماجدہ رحمہا اللہ کے نام ہے۔انیس خطوط اپنی بیٹی )جنہیں وہ “بٹیا جی” کہتے( کے نام ہیں۔جن میں چودہ خطوط تحریک ختم نبوت 1953ء کے ایام اسیری میں سنٹرل جیل سکھر اور سنٹرل جیل لاہور سے تحریر کردہ ہیں۔جب کہ پانچ خطوط 1954ء میں رہائی کے بعد کے ہیں۔ایک خط اپنی اہلیہ کے نام،ایک منہ بولی بیٹی کے نام اور ایک سمدھی کے نام۔” 11

شاہ جی کے جیل سے لکھے گئے دستیاب خطوط میں شاہ جی کا اپنے چند دوستوں،ہم عصروں مجلس احرار کے کارکنوں اور اپنے فرزندان ذی وقار کے نام خطوط لکھنے اور بھیجنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔لیکن آفسوس وہ مکتوبات قیمہ بھی میسر نہیں۔
شورش کا شمیری لکھتے ہیں:
“ایک زمانہ میں قیدی کو تین ماہ بعد ایک خط لکھنے اور دو ماہ بعد ایک خط وصولنے کا حق ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا جبر تھا۔نتیجةً بہت سے قیدی بیرنگ خط لکھتے جو بیرونی سنسرشپ کی وجہ سے پکڑے جاتے اور ان کی سزا کا موجب ہوتے، شاہ جیؒ نے اس کا توڑ پیدا کیا۔پنڈت کرپا رام برہم چاری کے نام سے اپنے احباب کو دیناج پور جیل سے اکثر خط لکھتے رہے اور یہ نام سید عطاءاللہ شاہ بخاری کا ترجمہ یا بدل تھا۔” 12

امیر شریعت بیشتر خطوط کے جوابات خود اپنے ہاتھ سے لکھتے۔آخر عمر میں شدت علالت کے سبب ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے اپنے صاحبزادوں سے املا کرواتے تھے۔
خط کی پیشانی پر سب سے پہلے دائیں جانب بالعموم مقام اقامت تحریر کرتے۔اکثر وبیشتر دستیاب خطوط کی پیشانی پر سکھر جیل،سنٹرل جیل لاہور،بریلی ،امرتسر، مظفرگڑھ سٹیشن،امرتسر گلوالی گیٹ، خان گڑھ، لاہور، سیالکوٹ، ملتان شہر کے الفاظ ملتے ہیں۔کبھی گاڑی میں جواب لکھنے کی نوبت آتی تو سب سے اوپر دائیں جانب “چلتی گاڑی” کے الفاظ لکھتے۔گویا خط کی ابتداء مقام سکونت واقامت سے کرتے۔مقام اقامت کے نیچے تاریخ لکھتے کبھی کبھار یہ ترتیب الٹ بھی ہوجاتی۔جیل سے لکھے ہوئے اکثر خطوط میں تاریخ کے بعد ان کا نام لکھا ہوا ملتا ہے۔
حضرت امیر شریعت مکتوب الیہ کو اس کے مقام ومرتبہ کے مطابق مخاطب کرتے۔القابات عموماً سادہ مختصر تملق اور خوشامد سے پاک ہوتے۔آپ عموماً مکرمی ومحترمی،عزیزی اور عزیزم جیسے القابات لاتے،قریبی احباب اور بڑوں کے لئے اپنائیت،محبت وعقیدت سے معمور القابات لاتے، جیسے برادرم،برادرِ محترم المقام ماسٹرجی! میرے قاضی جی! میرے حضرت جی )مولانا حسین احمد مدنیؒ کے لیے(وغیرہ۔
خط کے اختتام پر دعاگو، والسلام مع الاکرام، والدعا، جیسے الفاظ لکھتے۔ اپنے بڑوں کے نام لکھے خطوط کے آخر میں ” حضرت کی دعاؤں کا محتاج ہوں” یا محتاجِ دعا تحریر فرماتے۔کبھی کبھی ” غریب الدیار” یا فقیر لکھ کر دستخط ثبت فرماتے۔بعض خطوط میں دستخط کے بعد تاریخ درج ہے۔

شاہ جی کے سب سے تفصیلی اور آپ کی زندگی کے نشیب وفراز اور سوانحی خدوخال کے بعض اشاروں پر مشتمل خطوط “سیدی وابی” کے خطوط ہیں۔ان خطوط پر ام کفیل بخاری کی علمی ادبی اور معلوماتی تحشیہ و تعلیقات خاصے کی چیز ہے جس سے ان خطوط کے بعض مرموز مقامات اور اجمال پر مشتمل جملوں کی تفصیل اور بعض اہم واقعات کی طرف واضح اشارات ملتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ان تمام مکتوبات کے عکس بھی اس کتاب میں شامل ہیں
ان خطوط میں لطف ومحبت، رافت ومودت کے وہ تمام رنگ موجود ہیں۔ جو کسی نجی خطوط میں ہونے چاہیئے۔
اس کے علاوہ قلبی کیفیات، گھریلو حالات، بیماریوں کا تذکرہ ، بین السطور جیل کے ماحول اور جیل کی فضا پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے۔اور بھی بہت سے پہلو ان خطوط کے آئینے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ان خطوط میں بعض ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا تذکرہ بھی موجود ہے، جس کو عام طور پر اتنے بڑے لیڈر نہ اپنی تحریر میں ذکر کرتے ہیں اور نہ خاطر میں لاتے ہیں۔ لیکن شاہ جی کے اعلی اخلاق اور متواضعانہ طبیعت کا اندازہ لگائیے کہ وہ اپنے خطوط میں گھر کے آس پاس کے غریب ہمسایوں کے حال احوال ان کی خیروعافیت کی خبرگیری، ان کے گھر قرآن پڑھنے والے بچوں، محلہ کے نمازیوں حتی کہ گھر کام کاج کرنے والے خادم کو سلام مسنون کہتے ہیں۔
سکھر جیل سے لکھتے ہیں:
“جو شخص مجھے کو سلام کہے اسے تم بھی میری طرف سے سلام کہلادو۔ محسن میاں اور مومن جی اور پیر جی سلمہم اللہ تعالی کو دعائیں اور دیدہ بوسیاں۔ سکینہ کو، ازدہاری،) اِزدہار۔محلہ کی ایک بچی جو امیر شریعت کی اہلیہ سے قرآن پاک پڑھتی تھی۔(کریم بخش، محمد فاروق سب کو پیار، وسو کو پیار، اس کی ماں کو دعائیں، وسو کے بابا کو سلام۔” 13

ایک اور پیار بھرا انداز سلام پہنچانے کا ملاحظہ کیجئیے۔
سکھر جیل سے اپنی بیٹی کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
“اپنے بھائیوں کو قرآن سنانے پر میری طرف سے مبارک باد کہو۔ دعائیں پہنچاؤ اور دیدہ بوسی کرو۔اپنے چچا صاحب کو میری طرف سے سلام مسنون کہہ دینا اور بچی کے انتقال پر اظہار تعزیت کردینا۔ اپنی امی اور خالہ کو السلام علیکم کہہ دو اور امید ہے کہ آپ کی خالہ جی دعاؤں میں لگی رہتی ہوں گی۔ سب بچوں کو دعائیں۔ مسجد میں نمازیوں کو محسن کی معرفت سلام مسنون۔ حافظین اور شاہ صاحب کو، خصوصا ودُّو اور افضل )گھر کام کاج کرنے والا خادم( کو سلام مسنون۔ باقی کل پرسان حال کو سلام بھجوادینا۔” 14

ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
“عزیزی افضل سلمہ کو السلام علیکم اور دعائیں۔” 15

امیر شریعت کے خطوط میں ان کی شخصیت۔ صداقت، اخلاص، شفقت ومحبت، عاجزی فرتنی و انکساری، خدا کی ذات پر مکمل اعتماد، عزم واستقامت نہ جانے کن کن صورتوں میں نظر آتی ہے ۔
کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں:
“میرے متعلق تمہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ کہ مسبب حقیقی کے سوا میں ساری کائنات سے کٹ چکا ہوں۔ میرے لیے دنیا میں، دنیا والوں سے کوئی امید، کوئی آرزو باقی نہیں۔ اللہ بس باقی ہوس۔ہاں اللہ تعالی قادر مطلق ہیں۔؎
یفعل مایشاء ہے شان اس کی
یحکم ما یرید آن اس کی 16

رہائی سے پہلے لاہور جیل سے اپنی بیٹی کے نام آخری خط میں بھی یہی بات کچھ اس انداز سے لکھتے ہیں:
“باقی یفعل اللہ مایشاء، ساری کائنات سے کٹ کر صرف اسی ایک ذات سے عقیدتاً جڑا ہوا ہوں اوربس۔ان شاءاللہ تعالی آپ لوگ بھی اسی رنگ میں رہیں تو بہتر ہے۔” 17

سنٹرل جیل لاہور سے ایک خط میں لکھتے ہیں:
“میرے متعلق بے فکر رہیں۔اللہ تعالی اور رسول علیہ السلام کی رضا چاہیے۔” 18

7 مئی 1953ءسکھر جیل سے لکھے ایک خط میں لکھتے ہیں:
“باقی میں تم لوگوں کے متعلق پریشان نہیں ہوتا۔فطرت کے تقاضوں میں بے بسی ہوتی ہے۔اسے پریشانی نہیں کہنا چاہیے۔” 19

“انابت الی اللہ کی ضرورت ہے اللہ تعالی مجھ کو اورتم لوگوں کو اس کی توفیق بخشیں اور بس، باقی ہوس۔” 20

بچوں سے پیار ومحبت کا ایک انداز ملاحظہ کیجیئے۔
اپنی صاحبزادی کے نام ایک مکتوب میں رقم طراز ہیں:
“بانو کو گود میں لے کر میرے منہ سے پیار کرو اور کہو یہ نانا ابا کا پیار ہے اور تم خود اس سے پیار لو اور کہلواؤ کہ یہ اباجی کا پیار ہے۔” 21

پاکستان کی آزادی کے چھ دن بعد 20اگست 1947ء کے ایک مکتوب میں نذر محمد اور ملک اللہ دتہ کے نام اس وقت کے حالات کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا ہے۔اس مکتوب میں اپنے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں:
“سکھ قوم کی خباثت کو انگریز کی اور ہندو کی تائید حاصل ہے اور وہ تباہی مچا رہی ہے۔اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ باقی رہے۔میرا ایک مکان خاک میں مل چکا ہے ۔دوسرا جس میں مَیں رہتا تھا ابھی تک موجود ہے۔میری زندگی کی ساری کمائی یعنی میری کتابیں اور سامانِ زندگی وہیں ہے،اللہ کے حوالے ہے، ابھی تک کوئی صورت سامان برآمد کرنے کی نظر نہیں آتی۔ پہلے بھی فقیر ہی تھا لیکن اب سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں ہے۔” 22

عاجزی، فروتنی اور انکساری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔
اپنی بیٹی کے نام لاہور جیل سے آخری خط میں جواب لکھنے میں تاخیر پر معذرت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں آپ لوگوں سے معافی مانگتا ہوں کہ میری غفلت کی وجہ کر آپ سبھوں کو تکلیف پہنچی۔ خدا جانے کیوں میرے ہاتھ رک گئے۔ کچھ تو رہا ہونے والوں کی وجہ سے کہ ان کی زبانی خیریت معلوم ہو ہی جائے گی اور کچھ کیا، بس کچھ بھی نہیں۔ اپنی ہی تقصیر اور کچھ نہیں۔ اللہ تعالی معافی دیں۔” 23

“قاضی جی! میں تو جیسا نکما ہوں آپ جانتے ہیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو بہت صلاحیتیں عطا کی ہیں اور بہت لوگوں کو آپ سے فائدے پہنچتے رہتے ہیں۔” 24

اس نوعیت کا ایک اور پیراگراف آپ کے ایک مکتوب سے پیش ہے جس میں وہ اپنے ایک شعر جو آپ کے مجموعہ کلام “سواطع الالہام”میں چھپا تھا کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا احمد علی لاہوریؒ کے نام لکھتے ہیں:
“میرے وہم میں بھی ذم کاپہلو نہیں تھا۔چونکہ آپ فرماتے ہیں شعر سے ذم کا پہلو نکلتا ہے۔آپ کے ارشاد کے بعد میں اس شعر کی کوئی تاویل نہیں کرنا چاہتا اور استغفراللہ پڑھتا ہوں۔آپ بھی میرے حق میں دعا کریں اللہ تعالی مجھے معاف کردے۔” 25

 ڈاکٹر زاہد منیر عامر خط کے اس اقتباس کے حوالے سے لکھتے ہیں:

“اب شاہ جی کی عظمت کا اندازہ کیجئے کہ اتنا بڑا آدمی جس کے عقیدت مند بے شمار ہوں، اور جو اپنی للکار سے فرنگی ایسے سامراج کو للکار چکا ہو۔ جس کی ساری زندگی اسلام اور وطن کی خدمت و آزادی کے لیے صرف ہوئی ہو، کسی غرور ونخوت کا اظہار نہیں کرتا تاویل کی ضرورت نہیں تھی اگر وہ محض اپنے شعر کا پس منظر بیان کردیتے تو بھی حقیقت کی وضاحت ہوسکتی تھی مگر وہ کسی تعبیر وتشریح کے چکر میں پڑے بغیر صاف الفاظ میں استغفراللہ پڑھتے ہیں اور دعا کے لیے التجاء کرتے ہیں۔” 26

آپ کے خطوط میں سلاست، بے تکلفی، لطافت، بے ساختگی اور سادگی، اخلاص سوز وگدازلفظ لفظ سے عیاں وبیاں ہیں۔بعض خطوط میں شگفتگی کی آمیزش ہے یہ انداز دیکھئے۔
“غذا میں صرف شوربہ، ایک پھلکا اور کچھ گوشت ہے، باقی صبح کوچاۓ، ایک دو ٹوسٹ، دوانڈے بس! یعنی بڑا پرہیزگار ہوگیا ہوں۔” 27

جیل میں امیر شریعتؒ کی بیماری اور شدید بیماری کی جھوٹی خبر گھر والوں کو پہنچی اسی جھوٹی خبر کے حوالے سے صاحبزادی کے استفسار کے جواب میں جیل سے ایک خط میں لکھتے ہیں:
“ہاں تو میری صحت اچھی ہے اور بالکل اچھی ہے۔ جو خبر آپ کو ملی ہے، وہ ابھی تک ہمیں نہیں ملی۔ واللہ اعلم آپ کو کہاں سے ملی ہے؟۔” 28

مجید لاہوری معروف صحافی ادیب اور مزاح نگار تھے۔کراچی سے “نمکدان” کے نام سے ہفت روزہ جاری کیا۔تو شاہ جیؒ سے نمکدان کے حوالے سے تاثرات لکھنے کی فرمائش کی۔شاہ جی نے نمکدان کے حوالے سے مختصر تاثرات لکھ بھیجے۔جو ہفت روزہ ” نمکدان” کے 15 اکتوبر 1949ء کے شمارے میں “کان نمک” کے زیر عنوان شائع ہوئے۔
شاہ جیؒ اس تاثراتی مکتوب میں ان کے موٹاپے پر چٹکی لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“میں بہت خوش ہوں کہ آپ کا نکمدان فواحشات سے پاک ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اسے ترقی دے۔ہم اسے گھر میں بھی پڑھ لیتے ہیں۔رہی آپ کی کراچی میں مکان نہ ملنے کی شکایت تو کراچی والوں نے کوئی ایسا مکان نہیں بنایا جس کے دروازے سے آپ داخل ہوسکیں۔” 29

جب شاہ جیؒ نے اپنی خداداد زورِ خطابت سے انگریز کے کاسہ لیس پیروں اور گدی نشینان کو للکارا، لتاڑا اور طنزیہ جملے کسے۔اس کے نتیجے میں ان کو اپنا مکروہ کاروبار ٹپ ہوتا ہوا نظر آیا، تو انہوں نے جوش غضب سے آپ پر طرح طرح کے فتوے لگائے آپ کو کافر مشرک اور گستاخ کہا لیکن کوئی مائی کا لعل امیر شریعت کو فرنگی کی مخالفت کرنے سے باز نہ رکھ سکا۔
مولانا ظہور احمد بگویؒ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
“رہ گیا کفر وایمان کا معاملہ تو میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔فرنگی کی مخالفت کرنے کے بعد ایمان کہاں سلامت رہ سکتا ہے۔” 30

اپنی متحرک زندگی کا حوالے دیتے ہوئے بسلسلہ علاج قیامِ لاہور کے زمانہ (اکتوبر 1957ء)کے ایک مکتوب میں اپنی صاحبزادی کے نام لکھتے ہیں:
” بٹیا جی میرا بستر تو کھلتا ہی نہ تھا۔ اب میری غفلتوں کی سزا مل رہی ہے کہ بستر کھلا پڑا ہے۔” 31

اسی نوعیت کا ایک اور پیراگراف بھی ملاحظہ کیجئیے:
” تو بٹیا جی! جب اباجی خواب میں مل لیتے ہیں۔تو پھر سکون قلب حاصل ہونا چاہیے نہ کہ اداسی، پہلے بھی میں کونسا گھر ہی میں تم لوگوں کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ جِیہا کِلّے بَدّھا جِیہا چوراں کھڑیا۔” 32

جناب عبداللہ ملک کے نام شاہ جی کا ایک مکتوب آپ کے بہترین خطوط میں شمار ہوتا ہے۔نعیم آسی مرحوم اس خط کے حوالے سے لکھتے ہیں:
“شاہ جی کے اس خط کو ” سُخنے چند بہ نژاد نو” کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اسلوب کے اعتبار سے یہ شاہ جیؒ کا بہترین خط ہے۔” 33
لیجئیے شاہ جی کا یہ پورا خط پیش ہے۔
عزیزم عبداللہ ملک سلمہ
خوش رہو، جیتے رہو، آباد رہو اور شاد رہو۔زندگی کے شب وروز اس طرح بسر ہوتے ہیں۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے کہ اس کے لیے اضطراب ہو نہ بیتے ہوۓ دنوں کا افسوس ہے اور نہ حال سے کوئی شکوہ۔مستقبل کی فکر ہی کیا۔جو لوگ مستقبل کے لیے جی رہے ہیں ان سے پوچھئے؟ اپنا تو بس چل چلاؤ ہے گور کنارے بیٹھا ہوں ۔دیکھیے کب بلاوا آجاۓ۔ اب اس کے سوا کوئی مشغلہ نہیں رہا کہ اپنے اللہ سے صبح شام بھیک مانگتا ہوں۔ وہی پالنہار ہے۔وہی آخری سہارا ہے۔اس کے ہاں عفو درگزر کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا خدا ہمارا خدا ہے
سزا گناہوں کی دے چکا ہے۔جزا پیشمانی کی دے گا۔تمہارے لیے دن رات دعا کرتا ہوں۔اب چمن اور اس کی شاخیں،تم نوجوانوں کی باغبانی کے سپرد ۔جب تک جیٔو وضع داری سے جیٔو کہ یہی ایمان کی نشانی اور حاصلِ زندگانی ہے۔
والسلام دعا
عطاءاللہ شاہ بخاری 34

ڈاکٹر زاہد منیر عامر لکھتے ہیں:
“اس خط کے انداز بیاں سے جہاں شاہ جی کی تحریر کے حسن کا پتہ چلتا ہے وہاں اس آزردگی کا بھی احساس ہوتا ہے جس سے انہیں آخر عمر میں پالا پڑا “مستقبل کی فکر ہی کیا” اور ” گور کنارے بیٹھا ہوں دیکھیئے کب بلاوا آجائے” ایسے فقرات ہیں جن کا طویل پس منظر ہے اور یہ اقوال ان کیفیات کی غمازی کرتے ہیں جن سے شاہ جی کو گزرنا پڑا۔” 35

شورش کاشمیریؒ کے نام شاہ جی کا ایک خط جس کے سطر سطر سے شاہ جیؒ کی وسیع الظرفی، اعلی اخلاق،شرافت ونجابت مترشح ہوتے ہیں۔ملاحظہ کیجیئے:
برادرم
السلام علیکم ورحمة اللہ
آزاد میں تاثیر سے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے یا لکھا جارہا ہے وہ قلم کی عریانی ہے تاثیر چونکہ سول اینڈ ملٹری گزٹ میں لکھ رہے ہیں اور فرضی نام سے لکھ رہے ہیں۔ لہذا باتیں بھی ان کی فرضی ہیں۔ سچ ہوتا تو نقاب نہ اوڑھتے۔ بہرحال انہیں لکھنے دو۔ ضرور ان کے جی میں کوئی چیز ہوگی۔ تم اپنے قلم یا زبان کے لیے اللہ و رسولﷺ کے سامنے جواب دہ ہو۔
دنیا نے کس سے اب تک انصاف کیا ہے کہ تم سے کرے گی۔؏
سبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
جو شخص گالی دے اس کا جواب گالی نہیں دعا ہے کہ اُسوۂ حسنہ ہے۔ ان لوگوں کے متعلق یہی سوچ کر صبر کرو کہ بیمار ہیں۔یہی لوگ تھے جنہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا پر افتراء باندھا اور حضور کا دل دکھایاصفائی کے کٹہرے میں قرآن کھڑا نہ ہوتا تو ان کا فتنہ چہرۂ نبوت کو غمگین کر چکا تھاآخر مفتری خائب وخاسر ہو گئے۔ تم کیا اور ہم کیا؟ جب لوگ بہتان باندھنے، افتراء گھڑنے اور گالی بکنے پر آجائیں تو اپنے تئیں اللہ کے سپرد کردو۔خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
آئندہ تاثیر سے متعلق کوئی تحریر نہ آئے۔ میری خواہش بھی ہے اور ہدایت بھی۔ قلم وزبان تمہارے نہیں خدا کی امانت ہے۔ جو شخص ان میں خیانت کرتا ہے وہ اللہ کی خوشنودی سے محروم ہوجاتا ہے۔ گھر میں سلام کہنا۔ بچی سلمہ کو دعا۔
دعاگو
عطاءاللہ شاہ بخاری
خان گڑھ 45۔4۔27 (36)
آپ خط ضرورت کے تحت تحریر فرماتے اس لیے آپ کے خطوط )لوازمات خط کے علاوہ( ہر طرح کی ملمع سازی، تکلف اور طوالت سے پاک مدعا نگاری اور مقصدیت تک ہی محدود ہیں۔بعض خطوط میں تو مدعا کے علاوہ ایک لفظ بھی زائد نہیں۔مدعا نگاری کی اس خوبی سے متصف ایک خط جس میں شوخی وشگفتگی کی بھی آمیزش ہے ملاحظہ کیجیئے۔
عزیزم مولوی احمد دین !
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
“گھی لے کر پہنچو،جوتے تیار ہیں۔”
والسلام
عطاءاللہ شاہ بخاری 37

جب سردار عبدالرب نشتر گورنر پنجاب تھے۔ملتان کا دورہ کیا اور شاہ جیؒ سے ملاقات کیے بغیر چلے گئے۔ ان دنوں شاہ جیؒ بیمار تھے۔واپسی کے بعد حیدر آباد سندھ سے شاہ جیؒ کے نام عیادت کا خط لکھا،شاہ جیؒ نے جواب میں ارتجالاً ایک شعر کہا اور یہی شعر عبدالرب نشتر کے خط کے جواب میں بطور جواب لکھ بھیجا۔ملاحظہ فرمائیں کتنا خوب صورت جامع اور صرف مدعا پر مشتمل جواب ہے جس سے محبت آمیز شکوہ بھی مترشح ہو رہا ہے۔ ؎
نوشتی نامۂ از حیدر آباد
بملتان جانِ زارم را ندیدی 38

ایک سفارشی خط کا یہ نادر،البیلا اور سچائی پر مشتمل انداز کتنا پیارا ہے۔
“ہرچند فقیر کو آپ سے کوئی سابقہ نیاز تو حاصل نہیں لیکن ایک نوجوان کی ضرورت کے احساس سے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔اگر یہ کام آپ کے ہاتھوں ہوگیا تو گویا یہ کام آپ نہیں کریں گے بلکہ خدا کرے گا۔اور اگر خدا کو منظور نہ ہوا تو ظاہر ہے یہ کام آپ نہیں کر سکتے۔” 39

پاکستان کے حصول اور بعد حصول کے آپ کا موقف بڑا واضح اور روز روشن کی طرح عیاں اور بیاں ہے۔
24دسمبر 1947ء کے ایک مکتوب میں ماسٹر تاج الدین انصاری کے نام لکھتے ہیں:
“میری آخری رائے اب یہی ہے کہ ہر مسلمان کو پاکستان کی فلاح وبہبود کی راہیں سوچنی چاہئیں۔اور اس کے لیے عملی قدم اُٹھانا چاہیئے۔مجلس احرار کو ہر نیک کام میں حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیۓ۔اور خلاف شرع کام سے اجتناب۔” 40

مجھے ان کے خطوط میں ان کی شخصیت کا جو پہلو سب سے زیادہ واضح اور روشن نظر آیا وہ آپ کی عاجزی، انکساری وفروتنی اور خالق کائنات پر کامل یقین وایمان ہے۔
آپ کے مکاتیب سادہ، سلیس، طوالت سے محفوظ بے ساختہ اور دھیمے انداز کے چھوٹے چھوٹے جملوں سے مرکب ہیں۔اور یہی خطوط کا حسن ہے۔پروفیسر خورشید الاسلام لکھتے ہیں:
” خط حسن اتفاق کا نام ہے اور حسن اتفاق ہی سے یہ ادب کی ایک صنف ہے، اچھے خط ادبی کارنامہ ہوتے ہیں۔۔۔خط چھوٹی چھوٹی باتوں سے بنے جاتے ہیں۔اور چھوٹی چھوٹی باتوں ہی میں دنیا کا لطف ہے۔” 41

مصادر ومراجع:

1۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئیے:ڈاکٹر شاداب تبسم ،اردو مکتوب نگاری سرسید اور ان کے رفقاء کے خصوصی حوالے سے

2۔بگوی، انوار احمد، تذکار بگویہ، طبع 2014ء جلد سوم،ص 116

3۔شورش کاشمیری، سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ۔۔۔سوانح وافکار،لاہور، مطبوعات چٹان،88میکلوڈ روڈ،طبع اگست 2006ء،ص64

4۔خان غازی کابلی، حیات بخاری،احرار فاونڈیشن پاکستان، طبع سوم 2003ء، ص96

5۔خان غازی کابلی، حیات بخاری،احرار فاونڈیشن پاکستان، طبع سوم 2003ء، ص100

6۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص26

7۔ چٹان ،ہفت روزہ ،4تا11 اکتوبر 1982ء

8۔نعیم آسی،مکاتیب امیر شریعت،سیالکوٹ، مسلم اکادمی مجاہد روڈ،طبع اول دسمبر 1981ء،ص26

9۔نعیم آسی،مکاتیب امیر شریعت،سیالکوٹ، مسلم اکادمی مجاہد روڈ،طبع اول دسمبر 1981ء،ص28

10۔چٹان ، ہفت روزہ، لاہور،شورش کاشمیری نمبر، یکم نومبر 1976ء،ص31

11۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص۔47

12۔شورش کاشمیری،سید عطاءاللہ شاہ بخاری۔۔۔سوانح وافکار، لاہور، مطبوعات چٹان ،88میکلوڈ روڈ،طبع اگست 2006ء، ص 86

13۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص223

14۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص261

15۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص322

16۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص269

17۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص288

18۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص283

19۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص231

20۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،30 مارچ 1953ء بیٹی کے نام سکھر جیل سے خط

21۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص321

22۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعتؒ، لاہور، مکتبہ تبصرہ،1976ء، ص308۔309

23۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص288

24۔نورالحق قریشی، قاضی احسان احمد شجاع آبادی ص:505 قاضی احسان احمد شجاع آبادی کے نام مکتوب

25۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعتؒ، لاہور، مکتبہ تبصرہ،1976ء، ص421

26۔نقیب ختم نبوت،ماہنامہ، امیر شریعت نمبر،جنوری 1992ءجلد اول،ص617

27۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص298

28۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص288

29۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص115

30۔بگوی، انوار احمد، تذکار بگویہ، طبع 2014ء جلد سوم،ص 116
31۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص302

32۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص215 سکھر جیل سے بیٹی کے نام خط

33۔نعیم آسی،مکاتیب امیر شریعت،سیالکوٹ، مسلم اکادمی مجاہد روڈ،طبع اول دسمبر 1981ء،ص 77

34۔ “چٹان” ہفت روزہ ،15 جنوری، 1962ء ص_32

35۔ نقیب ختم نبوت،ماہنامہ، امیر شریعت نمبر،جنوری 1992ءجلد اول،ص:618

36۔ ہفت روزہ “چٹان”8 اکتوبر 1973ء

37۔اس خط کا پس منظر یہ ہے کہ مولانا احمد الدین صاحب )موضع میاں علی(ضلع شیخوپورہ نے بتایا کہ ہم ایک دفعہ شاہ جیؒ کی خدمت میں ملتان حاضر ہوئے، وہاں ایک شخص کا ملتانی جوتا بہت پسند آیا۔شاہ جیؒ نے فرمایا ایسے جوتے بنانے والا ہمارے قریب ہی رہتا ہے۔ہماری خواہش پر شاہ جیؒ نے اسے بلوا بھیجا۔ ہم نے پاؤں کا ماپ دے دیا۔دوسرے دن جب واپس ہونے لگے تو ہم نے عرض کیا شاہ جی! آج کل خالص گھی ملنا دشوار ہے۔ہم آپ کے لیے جب آۓ تو گھر کاگھی لیتے آئیں گے۔شاہ جیؒ نے منظور کرلیا۔کچھ دنوں بعد شاہ جیؒ کا خط ملا۔
(سید امین گیلانی، بخاری کی باتیں،لاہور، ادارہ تالیفات ختم نبوت،ص11)

38۔ام کفیل بخاری، سیدی وابی ،ملتان، بخاری اکیڈمی دار بنی ہاشم مہربان کالونی،2013ء،ص 155بتغیر یسیر

39۔اردو ڈائجسٹ دسمبر 1983ء

40۔جانباز مرزا، حیات امیر شریعتؒ، لاہور، مکتبہ تبصرہ،1976ء، ص311۔312

41۔پروفیسر خورشید الاسلام، تنقیدیں،علی گڑھ،ایجوکیشنل بک ہاؤس ۔طبع 1977ء، ص9

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.