مولانا محمد مغیرہ
مرکزی ناظم تبلیغ مجلس احرار اسلام پاکستان
ابتدائیہ:
اﷲ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لیے انبیاء ورسل کا سلسلہ شروع کیا اور جن کو نبی یا رسول بنایا گیا وہ نفوس قدسیہ ہر اعتبار سے ممتاز تھے وہ انسان ہی تھے مگر ظاہری و باطنی طاقت و قوت، کردار و گفتار، احوال و واقعات ایسے کہ فرشتے بھی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکے۔ ساری کائنات کے انسان اپنے تمام مراتب کے باوجود اکٹھے ہو جائیں تو بھی کسی ایک نبی و رسول کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ پھر ان انبیاء و رسل میں یقینا باہمی مراتب ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں تِلْکَ الرُّسُلُ فُضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْض۔البقرہ ،۲۵۳( یہ پیغمبر، ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔) ہرنبی و رسول اپنی جگہ ایک شان و مقام رکھتا ہے اور اپنی شان میں ممتاز ہے۔ اس مقدس جماعت میں سے ایک عالی مرتبہ کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں جو بنی اسرائیل کے آخری نبی و رسول تھے۔ جنہوں نے اپنی رسالت کے زمانہ میں یہ اعلان کیا اور خوش خبری دی کہ میرے بعد ایک نبی و رسول آنے والا ہے جس کا نام احمد ہے۔ وہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے رسول ہیں، ہمارے آقا حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لیس بینی وبینہ نبی‘‘ کہ میرے اور عیسیٰ کے درمیا ن کوئی نبی و رسول نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایک خصوصی شان عطا فرمائی ہے کہ آپ باپ کے بغیر پیدا کیے گئے جس کا اﷲ کے آخری کلام میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: (جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ)
جب فرشتے نے حضرت مریم سے کہا کہ اﷲ تجھے بیٹا عطا کرنے والے ہیں تو مریم نے کہا اَنّٰی یَکُونُ لِی غُلَامٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا۔سورۃ مریم، آیت: ۲۰ (کیسے ہو گا میرا لڑکا حالانکہ نہ تو مجھے کسی بشر نے چھوا ہے نہ میں بدکردار ہوں) چونکہ آدم و حوّا کی تخلیق کے بعد سے قانونِ الٰہی ہے کہ اِنَّا خَلَقْنٰٰکُم مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثیٰ۔ سورۃ حجرات، آیت: ۱۳ (ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عور ت سے پیدا کیا) جس کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مریم نے فرمایا کہ مجھے کیسے بچہ ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں پھر یہ کہ میں بدکار بھی نہیں۔ مریم کے جواب میں پھر کہا گیا کہ کَذَالِکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَّلِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃَ لِّلنَّاسِ وَّرَحْمَۃَ مِّنَّا وَکَانَ اَمْراً مَّقْضِیَّا۔سورۃ مریم، آیت: ۲۱ (کہ تجھے کسی بشر نے چھوا نہیں کسی بشر کے چھوئے بغیر) ایسے ہی ہو گا اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا میرے لیے بن باپ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں آسان ہے اور ہم لوگوں کے لیے اس کو اپنی نشانی بنانا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے رحمت بھی اور یہ ایسا کام ہے جو طے ہو چکا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے مثل قرار دیا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَم (سورۃ آل عمران، آیت: ۵۹ (بلا شبہ عیسیٰ کی مثال اﷲ کے ہاں ایسے ہی ہے جیسے آدم کی) کہ جیسے آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ایسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کے ذریعے بن باپ کے پیدا کیا۔ اﷲ کے آخری کلام قرآن مجید میں جا بجا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن مریم کہا گیا ہے کہ اگر آپ کے والد ہوتے تو بیٹے کو ہمیشہ باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا ہے کیونکہ کسی کو پکارنے کے مسئلہ میں قانونِ الٰہی یہی ہے کہ أُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِم ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہ۔ سورۃ الاحزاب، آیت: ۵(ان کو ان کے باپ کے نام سے ہی پکارو یہ اﷲ کے ہاں زیادہ مبنی بر انصاف ہے) قرآن مجید میں اولاد کو ہر جگہ والد اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَا (سورۃ بنی اسرائیل، آیت: ۲۳) کے الفاظ کے ساتھ ہو رہا ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بَرًّا بِوَالِدَتِی۔سورۃ مریم، آیت: ۳۲ (اپنی والدہ کا مطیع) سے حکم بھی اسی طرف مشیر ہی نہیں بلکہ بالکل واضح بات ہے کہ اگر والدہ کے ساتھ والد بھی ہوتے تو یہاں بھی والدین کا لفظ ہوتا۔ اسی وجہ سے امر واقعہ یہ ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں کوئی مسلمان مفسر نہیں جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کا انکار کیاہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدائش کا عقیدہ بدیہاتِ اسلام میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایک خصوصی مقام یہ عطا فرمایا کہ آپ کو جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا جس کی قرآن مجید کی آیت بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزاً حَکِیْمَا۔ سورۃ النساء، آیت: ۱۵۸ (بل کہ اﷲ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اﷲ زبردست حکمت والا ہے) سمیت کئی آیات اور بیسیوں احادیثِ رسول علیہ السلام شہادت دے رہی ہیں کہ اب تک آپ آسمان پر ہی موجود ہیں اور معراج کی رات حضور علیہ السلام نے اسی جسم عنصری سے آپ سے ملاقات کی۔ جس کی تفصیل واقعہ معراج میں واضح طور پر موجود ہے۔ آپ قیامت سے پہلے زمین پر نزول فرمائیں گے اور تقریباً چالیس سال بحیثیت خلیفۂ رسول آخر صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں وقت گزاریں گے۔ نزول کے بعد جو اہم فرائض سرانجام دیں گے۔ ان میں سرفہرست یہ کہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور ان کے نزول کے بعد اس کرہ ارض پر سوائے دینِ اسلام کے کوئی دین کوئی ملت باقی نہیں رہے گی۔ آپ کے دور میں مال کی اتنی فراوانی ہو گی کہ دنیا میں موجود ہر ایک شخص غنی ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ زکوٰۃ و صدقات کے دینے والے، کسی مستحق شخص کو ڈھونڈتے پھریں گے مگر کوئی وصول کرنے والا نہ ہو گا۔ آپ کا دور ایسا پاکیزہ ہو گا کہ لوگوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ کینہ اور حسد کرنے سے پاک ہو جائیں گے۔ آپ حج اور عمرہ کریں گے اور دجّال کو قتل کریں گے۔ انتقال فرما جانے کے بعد روضۃ الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں مدفون ہوں گے۔
= ابتدائی طور پر مرزا قادیانی بھی مسلمانوں کی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان تمام عقائد کا قائل تھا، اُن کو آسمانوں پر زندہ مانتا تھا اور ان کے نزول کا بھی قائل تھا۔ جس کا اس نے اپنی کتابوں میں بارہا ذکر کیا۔ چند باتیں اس سے متعلق باحوالہ پیشِ خدمت ہیں:
۱۔ ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدیٰ وَ ِدیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۔
آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اس کا وعدہ دیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے سے ظہور میں آئے گا جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا (روحانی خزائن، جلد: ۱، ص: ۵۹۳)
۲۔ وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لیے قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے۔
(روحانی خزائن، جلد: ۱، ص: ۴۰۱)
۳۔ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ صداقت کا اول درجہ اس کو حاصل ہے انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ (روحانی خزائن جلد: ۳، ص: ۴۰۰)
اس کے علاوہ کئی جگہوں پر مرزا قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر ہونے اور قیامت سے پہلے زمین پر نزول فرمانے کے بارے لکھا ہے مگر جب مرزا قادیانی پرشیطان کا غلبہ ہوا اور اس کے ساتھ مراق اور مالیخولیا نے بھی دماغ کو آ گھیرا تو پینترا تبدیل کرلیا اور یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ وہ خود ہی عیسیٰ اور مسیح ہے۔ اور عیسیٰ ابن مریم فوت ہو گئے ہیں۔ جب صحیح راستہ سے ایک بار بھٹک گیا تو اسلام کی صاف اور واضح باتوں کے ماننے کی بجائے ہر جگہ پر شکوک و شبہات پیدا کرنے شروع کر دیے۔ کبھی نبوت کے جاری ہونے اور اور ختمِ نبوّت کے عقیدے میں شکوک و شبہات، کبھی مہدی کے دعویٰ کرنے اور کبھی مہدویت میں شکوک و شبہات پیدا کرنے شروع کر دیے۔ یعنی اسلام کی بہت سی بنیادی باتوں کو مشکوک اور مشتبہ بنا دیا۔ اسی لائن پر چلتے ہوئے جب وفات مسیح علیہ السلام کا تخیل دماغ میں پیدا ہو گیا تو اس کے دلائل کی ضرورت بھی سامنے آئی اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے جہاں بھی اس کے دماغ سے بن پڑا، اور جہاں کہیں اس کے دجل کا ہاتھ پڑگیا تحریف کا نشتر چلانے سے گریز نہ کیا۔ پہلے تین آیات اور پھر تیس آیات قرآنیہ کا دعویٰ کر دیا کہ ان سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے۔ ان تیس آیات میں ہر ایک آیت کو اپنے مقاصد مذمومہ کے لیے استعمال کرنے میں اگر واضح اور بدیہی جھوٹ بولنا پڑا تو بھی گریز نہیں کیا۔ اور ان تیس آیات کو پیش کر کے ہر جگہ دلیل بناتے، آیت کی ایسی تشریح کی کہ اس کی مثال پچھلی تیرہ صدیوں میں نہیں ملتی اور ایسی بے بنیاد باتیں کہیں کہ جیسے معاذ اﷲ ان آیات کا نزول مرزا پر اب ہو رہاہے کہ جو اس کے جی میں آیا ویسے ان کا مفہوم بناتا چلا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان آیات کا نزول مکہ یا مدینہ میں حضور علیہ السلام پر ہوا۔ اور ان آیات کے معانی سے سب سے زیادہ واقف خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تھے۔ یہ آیات قرآنیہ صحابہ تابعین ائمہ مجتہدین مفسرین امت سب نے سمجھیں اور سمجھائیں خصوصاً حضرت ابن عباس جو امت محمدیہ کے سب سے بڑے مفسر سمجھے جاتے ہیں، حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ جن سے قرآن کا علم حاصل کرنے کا خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا اور دیگر اجلّہ صحابہ بھی شامل ہیں۔ تیرہ سو سال میں کسی ایک مسلمان نے بھی اگر یہ مطلب سمجھا ہو اور کسی ایک بھی عالم سے ان آیات قرآنیہ کے ذریعے وفات مسیح پر دلیل پکڑنا ثابت ہو تو مرزا قادیانی کی بات کچھ بنتی بھی لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ حضرت ابن عباس سے رضی اﷲ عنہ سمیت تیرہ صدیوں کے تمام مفسرین نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان پر حیات جسمانی اور قیامت سے پہلے ان کا نزول علی الارض تسلیم کیا ہے اور اسی کو امت کا متفقہ عقیدہ بتایا ہے۔ ان تمام کے سامنے یہ آیات موجود تھیں مگر کسی کو اس طرف توجہ نہ ہوئی۔ بداہۃً معلوم ہوتا ہے کہ اگر آج ان آیات سے وفات مسیح پر کوئی تمسک کرتا ہے تو وہ گمراہ ہے اور اپنی گمراہی پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسی ہندی کی چندی کرتا ہے۔
مرزاقادیانی کے پاس سوائے وساوس کے اور کچھ بھی نہیں۔انہیں شیطانی وساوس پر ہی مرزا قادیانی نے اپنے دھرم کی عمارت کھڑی کی ہے اور یہی شیطانی وساوس سے بنی عمارت قادیانیت کی آماجگاہ ہے۔ اس وقت اسی طرح اس کے پیروکار قادیانیوں کے پاس مرزا غلام قادیانی کے پیدا کردہ وساوس کے علاوہ کچھ بھی نہیں البتہ ان وساوس کو بظاہر مضبوط اور دلکش بنا کر پیش کرنے کا عمل ان کو مرزا قادیانی سے ورثہ میں ملا ہے۔ جب یہ شیطانی وساوس پھیلائے جا رہے تھے تو اس وقت کے علماء نے خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا علمی فریضہ انجام دیا اور مرزا کے پیدا کردہ ایسے تمام شکوک و شبہات کو اسلام کی حقانیت سے دور کیا۔ قادیانی ظلمتوں سے تاریک ہونے والے قلوب کو روشنی بخشی اور مرزا قادیانی کے ہر وسوسہ کو علمی طور پر پاش پاش کیا۔ مرزا قادیانی کی پیدا کردہ کوئی بات ایسی نہ چھوڑی جس کا قرآن و سنت سے رد نہ کیا ہو۔ وفات مسیح علیہ السلام پر مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ تیس آیات کے جواب میں بھی علماء نے ایک ایک وسوسہ کا مسکت جواب دیا۔ اس فریضے کے ادا کرنے میں کامیاب ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے اور علمی خزانے بعد میں آنے والے لوگوں کے ورثہ میں چھوڑ گئے۔ آج کی قادیانیت صرف مکھی پہ مکھی مارتے چلی جا رہی ہے نہ تو کوئی نئی تحقیق ہے نہ نئی دلیل۔ اس لیے رد قادیانیت کے لیے پچھلے علماء حق کے معارف کا مطالعہ بہت ضروری ہے چنانچہ دفاع ختم نبوت اور رد قادیانیت کے عنوان پر کام کرنے والا ہر مبلغ و مناظر جب تک اپنے اسلافِ صالحین کے چھوڑے ہوئے علمی ورثہ کو بنیاد نہ بنائے اس وقت تک رد قادیانیت کے میدان میں اتارو نہیں ہو سکتا۔ جتنا علمی کام رد قادیانیت پر ہو چکا ہے اس کی مثال نہیں۔ آج کا مناظر ختم نبوت یا مبلغ ختم نبوت جو کچھ بھی اس عنوان پر تحریراً یا تقریراً پیش کرے گا بہت حد تک وہ سابقہ بزرگوں کی محنتوں کا ثمر اور انہیں کے فیض سے استفادہ ہوگا۔ ہاں بات کو پیش کرنے کا انداز اور ذوق اپنا اپنا ہو سکتا ہے۔
= مجلس احرار اسلام کی طرف سے چیچہ وطنی میں منعقدہ ختم نبوت کورس میں مجھے حیات مسیح علیہ السلام کے عنوان پر قدرے تفصیلاً گفتگو کا موقع ملا۔ جس میں مرزا قادیانی کی طرف سے وفات مسیح پر پیش کردہ تیس آیات کا جواب بھی تھا۔ جس کی تیاری کے لیے میں نے حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’کلمۃ اﷲ فی حیات روح اﷲ‘‘، حضرت مولانا عبداللطیف مسعود رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’رفع ونزول مسیح‘‘ مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب ’’رد قادیانیت کے ذرّیں اصول‘‘، سے استفادہ کر کے کچھ نوٹس تیار کیے جو بعد میں جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں منعقد ہونے والے ختم نبوت کورس میں بھی میرے کام آئے اور اب سالہا سال سے وہ نوٹس مجلس احرارِ اسلام کے مرکزی دفتر دارِ بنی ہاشم ملتان میں منعقد ہونے والے دس روزہ ختم نبوت کورس میں میرے ساتھ رہتے ہیں۔ ابتدا میں تو مروجہ قدیم طریقے سے بات لکھوائی جاتی تھی مگر بعد میں اس کوکتابت کروا کر ہر سال فوٹو سٹیٹ کاپیاں شرکاء میں تقسیم کی جاتی رہیں تاکہ لکھنے کی زحمت اور اس میں خرچ ہونے والے وقت سے بچا جاسکے۔ اس میں موجود دلائل و معارف انھی اکابر رحمہم اﷲ کی کتب سے حاصل کردہ ہیں۔ کسی جگہ کوئی اضافہ ہے تو بھی انہیں کا فیض ہے ۔ البتہ ترتیب ذوقی ہے۔ اس کتاب میں اگر کوئی خیر اور بھلائی ہے تو وہ انہی اکابرکے فیض اور اﷲ کی رحمت کی طرف منسوب کرنی چاہیے اور اگر کوئی غلطی ہے تو اسے میری کوتاہی خیال کرنا چاہیے۔ قارئین اس کی نشان دہی فرمائیں تو اصلاح کی پوری کوشش کی جائے گی۔(ان شاء اﷲ)
حیاتِ سیدنا مسیح علیہ السلام
مرزا قادیانی کی طرف سے وفاتِ مسیح کے باطل عقیدے پر پیش کردہ تیس آیات کا مکمل و مدلّل جواب
آیات:
آیت نمبر۱: یٰعِیْسیٰ اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ۔سورۃ آل عمران، آیت: ۵۵
’’یعنی اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور پھر عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں او ر کافروں کی تہمتوں سے پاک کرنے والا او رتیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں ۔‘‘( خزائن جلد ۳،ص ۴۲۳)
گو کہ ازالۂ اوہام میں اس آیت کو وفات مسیح پر پیش کرنے میں صرف ترجمہ کرنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے مگر مرزا قادیانی نے مختلف جگہوں پر مختلف انداز سے تبصرہ کر کے کوشش کی ہے کہ اس آیت سے وفات مسیح ثابت ہو۔ مثلاً :
(۱) ’’علم نحو‘‘ میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو ہمیشہ اس جگہ توفی کے معنیٰ مارنے اور روح قبض کرنے کے آتے ہیں۔ (خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۱۶۲)
(۲) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے تیئیس مقامات میں لفظ توفی کو قبض روح کے موقع پر استعمال کیا ہے اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توفی کا ایسا نہیں جس کے بجز قبض روح اور مارنے کے اور معنیٰ ہوں۔ (خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۹۰)
(۳) اور احادیث میں جہاں کہیں توفی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنیٰ مارنا ہی آیا ہے جیسے کہ محدثین پر پوشیدہ نہیں اور ’’علم لغت‘‘ میں یہ مسلّم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں کہیں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنیٰ توفی کے نہیں آتے۔
(خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۹۰)
(۴) اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدائے تعالیٰ پر فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنیٰ پر بھی اطلاق پایا گیا ہے۔ یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اﷲ جلّ شانہ کی قسم کھا کر اقرا ر صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کر لوں گا۔ (خزائن، جلد: ۳، ص: ۶۰۳)
(۵) اب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے انی متوفیک پہلے لکھا اور رافعک بعد اس کے بیان فرمایا ہے جس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد از وفات ہوا۔
(خزائن، جلد: ۳، ص: ۳۳۰)
(۶) قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کیے گئے ہیں لیکن حال کے متعصب مُلاّ جن کو یہودیوں کی طرز پر یحرفون الکلم عن مواضعہٖکی عادت ہے اور مسیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لیے بے طرح ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور کلامِ الٰہی کی تحریف و تبدیل پر کمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خدا تعالیٰ کے ان چار ترتیب وار فقروں میں دو فقروں کی ترتیب طبعی سے منکر ہو بیٹھے۔
(خزائن، جلد: ۳، ص: ۶۰۸۔۶۰۷)
(۷) کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جواہرات مرصع کی طرح اپنے اپنے محل پر چسپاں ہیں۔
(خزائن، جلد: ۳، ص: ۶۱۲)
یہ وہ فرمودات ہیں جو مختلف جگہوں پر انی متوفیک کو ذکر کرنے کے بعد مرزا قادیانی ذکر کرتا ہے اور زور دیا ہے کہ اس آیت سے وفات مسیح علیہ السلام ثابت ہو رہی ہے۔ لیجئے نمبر وار جواب پیش خدمت ہیں۔
جواب نمبر ۱: یہ قاعدہ مرزا قادیانی کا اپنا ذاتی، اختراعی اور من گھڑت ہے، نحو کی کوئی کتاب روئے زمین پر ایسی موجود نہیں جس میں یہ قاعدہ منقول ہو مرزا قادیانی حسبِ عادت جھوٹ بول رہے ہیں۔ مرزا قادیانی تو اب دنیا میں نہیں رہے البتہ مرزا قادیانی کی اُمّتِ کاذبہ نحو کی کسی چھوٹی بڑی کتاب سے یہ قاعدہ دکھائیں منہ مانگا انعام لیں۔
جواب نمبر ۲: یہی قاعدہ مرزا قادیانی کے اپنے الہام میں ٹوٹ رہا ہے ملاحظہ کیجیے۔
۱۔ انی متوفیک ورافعک الی۔ ’’میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔‘‘ (خزائن، جلد: ۱، ص: ۶۲۰)
۲۔ براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یا عیسیٰ انی متوفیک جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنیٰ کھلے یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس وقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہود ان کے مصلوب کرنے کے لیے کوشش کر رہے تھے اور اس جگہ بجائے یہود ہنود کوشش کر رہے ہیں اور الہام کے یہ معنیٰ ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موت سے بچاؤں گا۔ (خزائن، جلد: ۱۲، ص: ۲۳)
ان جگہوں پر مرزا قادیانی نے متوفیک کے معنیٰ کیے ہیں:
(۱)میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا۔ (۲) ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا۔
ان جگہوں پر مرزا قادیانی کا اپنا الہامی اختراعی قاعدہ اپنے ہاتھوں چکنا چور ہو رہا ہے۔ ان جگہوں پر لفظ توفی ہے خدا فاعل ہے اور مرزا مفعول بہٖ ہے اور مرزا قادیانی کے اختراعی قاعدہ کی تمام شرائط پائی جا رہی ہیں مگر موت کے معنیٰ نہیں کیے جا رہے۔ اﷲ تعالیٰ کی قدرت کہ مرزا قادیانی کا اپنا اختراعی قاعدہ ان کے اپنے ہاتھوں چکنا چور ہو رہا ہے۔ ’’ قرار صرف سچائی کو ہے‘‘
جواب نمبر ۳: مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ ’’اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توفی کا ایسا نہیں جس کے بجز قبض روح اور مارنے کے اور معنی ہو سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ جب کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر لفظ توفی موجود ہے مگر معنیٰ موت نہیں۔ ذیل میں چند آیات پیش خدمت ہیں اور اس کا ترجمہ بھی ہم اپنی طرف سے نہیں بلکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد جو مرزا قادیانی کے بیٹے اور قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ بھی ہیں کی لکھی ہوئی تفسیر صغیر کے ترجمہ سے پیش کر رہے ہیں تاکہ مخالفین کی کج روی کا علاج بالمثل بھی ساتھ ساتھ ہو ۔ ملاحظہ ہو:
۱۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْن۔َ(بقرہ: ۲۸۱)
پھر ہر ایک شخص کو جو کچھ اس نے کمایا ہو گا پورا (پورا) دے دیا جائے گااور ان پر (کوئی) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
۲۔ وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۔(آل عمران: ۲۵)
ہر شخص نے جو کچھ کمایا ہو گا (اس دن) وہ اسے پورا پورا دے دیا جائے گا اوران پر (کچھ بھی) ظلم نہیں ہو گا۔
۳۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ (النساء: ۱۷۳)
پھر جو لوگ مومن تھے اور انہوں نے نیک (ایمان کے مناسب حال) عمل کیے تھے انہیں وہ ان کے پورے پورے بدلے دے گا۔
۴۔ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔(آل عمران: ۱۸۵)
اور تمہیں صرف قیامت کے دن (ہی) تمہارے (اعمال کے) پورے پورے بدلے دیے جائیں گے۔
۵۔ یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْن۔(النحل: ۱۱۲)
جس دن ہر شخص اپنی جان کے متعلق جھگڑتا ہوا آئے گا اور ہر شخص نے جو کچھ کیا ہو گا (اس کا اجر) اس پورا پورا دیا جائے اور اور ان پر (کسی رنگ میں بھی) ظلم نہ کیا جائے گا۔
۶۔ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۔(مطفّفین: ۲)
جو تول کر لیتے ہیں تو خوب پورا کر کے لیتے ہیں۔
ان مذکورہ پیش کردہ تمام آیات قرآنیہ میں توفی کا معنیٰ موت نہیں بلکہ ان مذکورہ آیات میں لفظ توفی اپنے حقیقی معنیٰ اخذ الشئی وافیاً(کسی چیز کو پورا پورا لے لینا) میں ہے اور وہ بھی مرزا قادیانی کے بیٹے اور قادیانی جماعت کے دوسرے خلیفہ کی زبانی۔ جس سے واضح طور پر مرزا قادیانی کا کیا ہوا دعویٰ کہ ’’اوّل سے آخر تک قرآن شریف میں کسی جگہ لفظ توفی کا ایسا نہیں جس کے بجز قبض روح اور مارنے کے معنیٰ ہوں‘‘ غلط ثابت ہوا۔ ایسا ہی مرزا قادیانی کا کہنا کہ ’’احادیث میں جہاں کہیں توفی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنیٰ مارنا ہی آیا ہے‘‘ یہ بھی غلط دعویٰ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ پڑھیے آنکھوں کو ٹھنڈک بخشیے اور مرزا قادیانی کا جھوٹا دعویٰ لاچاری سے دم توڑتا ہوا دیکھیے۔ الفاظ حدیث مبارکہ یہ ہیں۔
عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ واذا رمی الجمار لا یدری احد مالہ حتی یتوفٰہ اللّٰہ یوم القیامۃ (الترغیب والترہیب، ص: ۲۰۵، باب ما جاء فی فضل الحج)
ترجمہ: جب جمرہ رمی کیا جائے نہیں جانتا کوئی آدمی کہ اس کے لے کیا ثواب ہے یہاں تک کہ پورا انعام دے گا اسے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن۔
ایسے ہی اس حدیث میں مرزا کے اختراعی قانون کی تمام شرائط موجود ہیں مگر معنیٰ موت نہیں لیا جا سکتا اس کا دعویٰ کہ ’’احادیث میں جہاں کہیں توفی کا لفظ کسی صیغہ میں آیا ہے اس کے معنیٰ مارنا ہی آیا ہے ‘‘ بھی غلط ثابت ہوا۔
نوٹ: توفی کا مادہ وفیٰ ہے اور اس کا حقیقی (ما وضع لہ) معنیٰ کسی چیز کا پورا لینا ہے جب کہ مجازی طور پر نیند اور موت کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوا ہے مگر کسی قرینہ کے سبب۔ نیز امام رازی اپنی شہرہ آفاق تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ توفی کی تین قسمیں ہیں۔
(۱)موت (۲) نیند (۳) اصعاد الی السماء یعنی آسمان پر اٹھانا
اس لیے علماء سابقین نے اس آیت میں تینوں معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے انی متوفیک میں تینوں معانی کو بیان کیا ہے۔ اکثر مفسرین نے توفی کا حقیقی معنیٰ پورا پورا لینا بیان کیا ہے جبکہ بعض نے نیند اور بعض نے اس سے موت معنیٰ مراد لیا ہے اگر اس کا نیند معنیٰ کیا جائے تو پھر اس طرح کیا جائے گا اے عیسیٰ میں تجھے سلاؤں گا اور اسی حالت میں تجھے آسمان پر اٹھاؤں گا۔ اور اگر اس آیت میں توفی کا معنیٰ موت لیا جائے تو پھر آیت قرآنیہ میں عمل تقدیم و تاخیر جاری کیا جائے گا کہ رفع اور تطہیر (الیٰ آخرہ) کا وقوع پہلے ہوگا اور موت نزول علی الارض کے بعد واقع ہو گی اور اسی آخری بات کو یعنی آیت میں تقدیم و تاخیر کے عمل کو جاری کرنے پر مرزا قادیانی سیخ پا ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ متوفیک میں معنیٰ موت ہیں پہلے اس کو ذکر کیا گیا اور وقوع بھی موت کا پہلے ہو گا عمل تقدیم و تاخیر تحریف قرآنی ہے اور مولویوں نے تحریف قرآنی پر کمر باندھ لی ہے کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جواہر مرصع کی طرح اپنے محل پر چسپاں ہیں۔
جواب نمبر۴: مرزا قادیانی کا غصہ تو قبر میں جا کر ٹھنڈا ہو چکا ہو گا مگر جو کچھ انہوں نے کہا ہے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر مرزائی مربّیان بھی اپنی گفتگو میں لاف زنی کرتے ہیں یہ سراسر غلط بیانی ہے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر ایسا ہوا ہے کہ ظاہری ترتیب میں ایک جملہ پہلے مذکور ہے جب کہ عملاً اس کا وقوع بعد میں ہوتا ہے۔ مثلاً:
(۱) وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ۔
(سورۃ بقرہ، آیت: ۴۳)
(۲) وَ اسْجُدِیْ وَ ارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ۔(سورۃ آل عمران، آیت: ۴۳)
(۳) مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا۔(سورۃ جاثیہ، آیت: ۲۴)
(۴) وَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطۃ۔(سورۃ بقرہ، آیت: ۵۸)
قُوْلُوْا حِطَّۃٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًاً۔(سورۃ اعراف، آیت: ۱۶۱)
(۵) وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَ۔(سورۃ نساء، آیت: ۱۶۳)
ان مذکورہ پیش کردہ آیات پر کچھ تفصیل، تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
ٓٓآیت نمبر (۱) میں پہلے ذکر ہے نماز کا پھر حکم زکوٰۃ کا اور پھرحکم ہے رکوع کرنے کا اگر مرزا قادیانی کی بات کو ہی (جو بے اصل ہے) سامنے رکھا جائے تو اس آیت پر ترتیب وار عمل نہیں ہو سکتا۔
آیت نمبر (۲) میں سجدہ کا حکم پہلے اور رکوع کا بعد میں جبکہ تمام مسلمان بلکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ رکوع عملاً پہلے ہے اور سجدہ بعد میں ہے۔
آیت نمبر (۳) میں لفظی ترتیب دنیا کی زندگی میں موت کو پہلے ذکر کر رہی ہے اور حیات کو بعد میں جبکہ انسان پہلے زندہ ہوتا ہے تب ہی اس پر موت آتی ہے۔
آیت نمبر (۴) میں ایک جگہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سورہ بقرہ میں ادخلوا الباب سجداً پہلے ہے اور قوالوا حطۃ بعد میں ہے جبکہ یہی قصہ جب سورۃ اعراف میں بیان ہوا تو قوالوا حطۃ پہلے ہے اور ادخلوا الباب بعد میں ہے۔
آیت نمبر (۵) میں پیش کردہ آیت کو آپ ایک نظر دیکھیں آیت کی ترتیب میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام حضرت ایوب علیہ السلام یونس علیہ السلام ہارون علیہ السلام سلیمان علیہ السلام پر مقدم ہیں جبکہ پورا دینِ محمدی قرآن و حدیث اس پر متفق ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے آقا حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ سب انبیاء و رسل سے آخر میں ہیں اور ان سے ایوب علیہ السلام یونس علیہ السلام ہارون علیہ السلام سلیمان علیہ السلام بعثت میں مقدم ہیں مگر مرزا قادیانی کی بات مانی جائے تو عیسیٰ علیہ السلام ان پر مقدم مانے جائیں گے۔ مگر مرزا قادیانی کی بات کا نہ ماننا ہی بہتر ہے کہ جس نے مرزا قادیانی کی اتباع کی وہ سیدھا جہنم پہنچا۔
حاصلِ کلام :
گوکہ مرزا قادیانی کا اٹھایا ہوا اعتراض ابھی پیش کردہ تفصیلی جواب سے ٹوٹ چکا ہے مگر مقصد افہام و تفہیم ہے اس لیے نہایت ہی آسان اور سادہ لفظوں میں عرض گزار ہیں کہ جناب مرزا قادیانی آپ علماء کو طعنہ نہ دیں کہ مولویوں نے کلامِ الٰہی کی تحریف و تبدل پر کمر باندھ لی ہے ہم اپنی تمام تر مبنی پر حقیقت علمی باتیں چھوڑتے ہیں مہربانی کریں اور آنجناب اپنے فرمان ’’قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کیے گئے ہیں‘‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحیح لفظی ترتیب سے ترجمہ کریں کہ آپ کے بقول متوفیک کا پہلے نمبر ہو پھر آپ کے فرمان کے مطابق رفع روحانی ہو پھر تطہیر من الکفار ہو۔ مگر آپ بھی اپنے بیان کردہ ہٹ دھرمی پر مبنی اصول کے مطابق ترتیب طبعی کے مطابق ترتیب قائم نہیں رکھ سکتے کیونکہ مرزا قادیانی کا خیال ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کشمیر کی طرف ہجرت کرنے کے بعد یعنی واقعہ صلیب سے کئی سال بعد کشمیر میں ہوئی یعنی ’’مطہرک من الذین کفروا‘‘ کا وقوع پہلے ہوا جب کہ موت اور رفع روحانی بعد میں ہوا۔
حالانکہ ترتیب طبعی میں تطہیر من الکفار تیسرے نمبر پر ہے اس لیے مرزا قادیانی اپنے فرمودات کے مطابق ترتیب طبعی قائم نہ رکھ سکے اور اپنے فتویٰ کے مطابق کلامِ الٰہی میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ ملاحظہ فرمائیں:
مگر بعد اس کے کہ مسیح صلیب پر چڑھایا گیا اور شدت درد سے ایک ایسی سخت غش میں آ گیا کہ گویا وہ موت ہی تھی بہرحال پیلا طوس رومی کی کوشش سے مسیح ابن مریم کی جان بچ گئی…… بعد اس کے مسیح اس زمین سے پوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آ گیا اور وہیں فوت ہوا اور تم سن چکے ہو کہ سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے۔ (خزائن، جلد: ۱۹، ص: ۵۷)
وضاحتی نوٹ:
توفی کا مادہ وفیٰ ہے اور اس کا حقیقی ما وضع لہ معنی اخذ الشئی وافیاً جبکہ مجازی طور پر نیند اور موت پر بھی استعمال کیا گیا ہے حسب قرینہ کہ اگر اس جگہ لیل یا منام کا لفظ موجود ہے تو وہاں اسی قرینہ کے مطابق توفی سے مراد نیند، معنیٰ ہو گا اور اگر کسی جگہ لفظ موت ہو تو پھر توفی سے معنیٰ موت لیا جائے گا۔ اور دونوں قرائن موجود نہیں ہیں تو وہاں حقیقی معنی اخذ الشئی وافیا ہی لیا جائے۔ لیکن مرزا قادیانی کا کہنا کہ جہاں بھی توفی کا لفظ موجود ہے وہاں سوائے قبض روح اور موت کے اور کوئی معنیٰ ہے ہی نہیں یہ انتہائی جہالت اور ہٹ دھرمی ہے۔
۲۔ بعض دفعہ بات کرتے کرتے قادیانی کہہ دیتے ہیں کہ ہر جگہ توفی سے مراد موت ہے مگر جب عیسیٰ علیہ السلام کے لیے لفظ توفی بولا جائے تو جھٹ مولوی معنیٰ موت کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس وسوسے کے جواب میں قرآن مجید سے تقریباً ۶۵ قرآنی آیات پیش خدمت ہیں جن میں مادہ وفیٰ مختلف صیغوں میں موجود ہے اور حسبِ قرینہ اس کا معنیٰ کیا جا رہا ہے یقینا کسی قرینہ کی وجہ سے کئی جگہوں پر موت یا نیند بھی معنیٰ کیا جا سکے گا لیکن ایسا بھی ہو گا کہ نیند، موت دونوں معنیٰ نہیں ہو سکیں گے بلکہ کسی چیز کا پورا پورا لینا معنیٰ ہو رہا ہو گا ان آیات کا ترجمہ مسلمان علما کے تراجم اور قادیانی تفسیر صغیر از مرزا بشیر الدین خلیفہ دوم قادیانیت یا ایسے ہی مرزا طاہر (خلیفہ چہارم قادیانیت) کے ترجمہ سے دیکھ سکتے ہیں۔
جس سے یہ بات آپ کے سامنے کھل کر آ جائی گی کہ مرزا قادیانی کا کہنا کہ جہاں بھی قرآن مجید میں لفظ توفی ہے وہاں سوائے قبض روح اور موت کے اور کوئی معنیٰ نہیں۔ کس قدر جھوٹ پر مبنی ہے۔
۱۔ وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ ۔(بقرہ: ۴۰)
۲۔ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۔(بقرہ: ۱۷۷)
۳۔ وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًاً۔(بقرہ: ۲۳۴)
۴۔ وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِھِمْ۔(بقرہ: ۲۴۰)
۵۔ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔(بقرہ: ۲۷۲)
۶۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۔(بقرہ: ۲۸۱)
۷۔ فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰھُمْ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْہِ وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْن۔(آل عمران: ۲۵)
۸۔ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ۔(آل عمران: ۵۵)
۹۔ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصَّلِحٰتِ فَیُوَفِّیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ۔(آل عمران: ۵۷)
۱۰۔ بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَ اتَّقٰی فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔(آل عمران: ۷۶)
۱۱۔ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْن۔(آل عمران: ۱۶۱)
۱۲۔ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ۔(آل عمران: ۱۸۵)
۱۳۔ فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار۔(آل عمران: ۱۹۳)
۱۴۔ فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ ۔(النساء: ۱۵)
۱۵۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ۔ (النساء: ۹۷)
۱۶۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْھِمْ اُجُوْرَھُم۔ (النساء: ۱۷۳)
۱۷۔ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْد۔ (مائدہ: ۱)
۱۸۔ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔(مائدہ: ۱۱۷)
۱۹۔ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ۔(انعام: ۶۰)
۲۰۔ حَتّٰی ․ٓ اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْن۔(انعام: ۶۱)
۲۱۔ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔(انعام: ۱۵۲)
۲۲۔ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا۔(نعام: ۱۵۲)
۲۳۔ حَتّٰی اِذَا جَآءَ تْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ قَالُوْٓا اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ۔(اعراف: ۳۷)
۲۴۔ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ھُم۔(اعراف: ۸۵)
۲۵۔ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْن۔( اعراف: ۱۲۶)
۲۶۔ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ۔(انفال: ۶۰)
۲۷۔ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ۔(انفال: ۵۰)
۲۸۔ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہ۔(توبہ: ۱۱۱)
۲۹۔ وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ۔(یونس: ۴۶)
۳۰۔ وَ لٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ۔(یونس:۱۰۴)
۳۱۔ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا۔(ہود: ۱۵)
۳۲۔ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْط۔(ہود: ۸۵)
۳۳۔ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ۔(ہود: ۱۰۹)
۳۴۔ وَ اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ۔(ہود: ۱۱۱)
۳۵۔ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْٓ اُوْفِی الْکَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْن۔(یوسف: ۵۹)
۳۶۔ وَ جِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَیْنَا۔(یوسف: ۸۸)
۳۷۔ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْن۔(یوسف: ۱۰۱)
۳۸۔ الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاق۔(رعد: ۲۰)
۳۹۔ وَاِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ۔(رعد: ۴۰)
۴۰۔ الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ۔(نحل: ۲۸)
۴۱۔ الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُم۔(نحل: ۳۲)
۴۲۔ وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُر۔(نحل: ۷۰)
۴۳۔ وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّم۔(نحل: ۹۱)
۴۴۔ یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَت۔(نحل: ۱۱۱)
۴۵۔ وَ اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلًا ۔(الاسراء: ۳۴)
۴۶۔ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ۔(الاسراء: ۳۵)
۴۷۔ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ۔(حج: ۵)
۴۸۔ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۔(حج: ۲۹)
۴۹۔ یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیہِمْ اللّٰہُ دِیْنَہُمُ الْحَقّ۔(نور: ۲۵)
۵۰۔ حَتّٰی․ٓ اِِذَا جَآئَہ‘ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰہُ حِسَابَہٗ۔(نور: ۳۹)
۵۱۔ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ۔(شعراء: ۱۸۱)
۵۲۔ قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُم۔(سجدہ: ۱۱)
۵۳۔ لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۔(فاطر: ۳۰)
۵۴۔ اِِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔(زمر: ۱۰)
۵۵۔ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ۔(زمر: ۴۲)
۵۶۔ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۔(زمر: ۷۰)
۵۷۔ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمّیً۔(غافر: ۶۷)
۵۸۔ فَاِِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ۔(غافر: ۷۷)
۵۹۔ وَلِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا وَلِیُوَفِّیَہُمْ اَعْمَالَہُمْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ۔(احقاف: ۱۹)
۶۰۔ فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ۔(محمد: ۲۷)
۶۱۔ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا ۔(فتح: ۱۰)
۶۲۔ وَاِِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی ۔(النجم: ۳۷)
۶۳۔ ثمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰی ۔(النجم: ۶۱)
۶۴۔ یُوفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا ۔(دہر: ۷)
۶۵۔ الَّذِیْنَ اِِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۔(مطفّفین: ۲)
آیت نمبر۲: بل رفعہ اللّٰہ الیہ۔
یعنی مسیح ابن مریم مقتول و مصلوب ہو کر مردود اور ملعون لوگوں کی موت سے نہیں مرا جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھا لیا۔ جاننا چاہیے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے ’’ورفعناہ مکانا علیا‘‘ یہ آیت حضرت ادریس علیہ السلام کے حق میں ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کے یہی معنیٰ ہیں کہ ہم نے ادریس کو موت دے کر مکان بلند میں پہنچا دیا۔ کیونکہ اگر وہ بغیر موت کے آسمان پر چڑھ گیا تو پھر بوجہ ضرورت موت جو ایک انسان کے لیے لازمی امر ہے یہ تجویز کرنا پڑے گا کہ یا تو وہ کسی وقت اوپر ہی فوت ہو جائیں اور یا زمین پر آ کر فوت ہو مگر یہ دونوں شق ممتنع ہیں کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جسم خاکی موت کے بعد پھر خاک میں داخل کیا جاتا ہے اور خاک ہی کی طرف عود کرتا ہے اور خاک ہی سے حشر ہو گا اور ادریس کا پھر زمین پر آنا اور دوبارہ آسمان سے نازل ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں لہٰذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو جیسا کہ مقربین کے لیے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علّیین تک پہنچائی جاتی ہیں ’’فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر‘‘ (خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۲۳)
جواب:
اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
۱۔ مرزا قادیانی نے اپنی من مانی بات ثابت کرنے کے لیے پوری آیت پیش کرنے کے بجائے آیت کے درمیان کا ایک ٹکڑا ذکر کیا یہ ایسے ہے جیسا کہ کوئی قرآن مجید سورۃ نساء کی آیت۴۳ کا یہ ٹکڑا ’’لا تقربوا الصلوٰۃ‘‘ ذکر کرے اور نماز نہ پڑھنے پر دلیل بنائے کہ قرآن مجید میں نماز سے روکا گیا ہے کوئی عقل مند بھی اس دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو گا ایسے ہی مرزا قادیانی نے آیت کا ایک ٹکڑا ’’بل رفعہ اللّٰہ الیہ‘‘ ذکر کیا اور پھر کمال یہ ہے کہ لفظی ترجمہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ مرادی معنیٰ وہ بھی منشاء حق کہ مخالف کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو‘‘ حالانکہ عربی لغت کا ابتدائی طالب علم بھی یہ جانتا ہے رفع کا حقیقی معنیٰ اٹھانا اور اوپر لے جانا ہے اور اس کا مجازی معنیٰ بلندی درجات ہے اگر رفع اجسام کا ہے تو معنیٰ حقیقی مراد لیے جائیں گے جیسے رفعنا فوقکم الطور۔(بقرہ:۶۳) اللّٰہ الذی رفع السمٰوت بغیر عمد ترونہا۔(رعد: ۲) اور اگر رفع اعمال، درجات ہو تو وہاں مجازی معنیٰ مقصود ہو گا جیسے ورفعنا لک ذکرک۔(الم نشرح: ۴) نرفع درجٰت من نشاء۔(یوسف: ۷۶) تو واضح ہوا کہ رفع کا معنیٰ تو اٹھانا بلند کرنا، اوپر لے جانا ہی ٹھہرا جیسی چیز ہو گی ویسے ہی اس کا رفع ہو گا۔ اس مختصر سی وضاحت کے بعد دیکھتے ہیں بل رفعہ اللّٰہ الیہ کو پوری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھاجائے تو کیا اس صورت میں اس ٹکڑے کے وہ معنیٰ کیے جا سکتے ہیں جو مرزا قادیانی نے کیے ہیں۔
پوری آیت:
’’وقولہم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللّٰہ و ما قتلوہ و ما صلبوہ ولکن شبہ لہم ان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللّٰہ الیہ و کان اللّٰہ عزیزا حکیما‘‘
اور ہم اس آیت کا ترجمہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ مرزا قادیانی کے دست راست اور مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد قادیانی جماعت کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی کا کیا ہوا ترجمہ پیش کرتے ہیں پڑھیے اور مرزا قادیانی کی سعی نامراد اوردھوکہ دہی پر داد دیجیے۔ حکیم نور الدین لکھتے ہیں:
’’اور کہنا یہودیوں کا کہ ہم لوگوں نے عیسیٰ مسیح رسول اﷲ مریم کے بیٹے کو قتل کیا اور ان لوگوں نے نہ مارا اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اس کو لیکن قتل اور سولی دینے کا شبہ ہوا ان کو اور ہر آئینہ جن لوگوں نے اختلاف کیا اس میں وہ اس کے متعلق شک میں ہیں اور ان لوگوں کو کچھ بھی یقینی علم نہیں مگر گمان کی پیروی اور نہ مارا اس کو ازراہ یقین بلکہ اﷲ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘
(فصل الخطاب، ص: ۳۱۳۔۳۱۴)
حکیم نور الدین کے ترجمہ ذکر کرنے کے بعد ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے حسبِ عادت دھوکہ دہی سے کام لیا اور دھوکہ آخر دھوکہ ہے کبھی تو اس سے پردہ اٹھے گا۔ اور یہاں پر تو مرزا قادیانی کے خلیفہ حکیم نور الدین کے ہاتھوں ہی پردہ فاش ہو گیا کہ رفع کا معنیٰ عزت کی موت کرنا مرزا قادیانی کی دھوکہ دہی ہے۔
۲۔ اگر آپ تھوڑی سے توجہ کریں تو آپ خود اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ یہاں رفع کا معنیٰ عزت کی موت نہیں کیا جا سکتا۔ شروع آیت میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نام مذکور ہے اور پھر آگے ہے ما قتلوہ۔ما صلبوہ۔ما قتلوہ یقینااور ان جگہوں پر ضمیروں کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کا جسم مبارک ہی ہے کیونکہ جسم ہی قتل کیا جاتا ہے اور جسم ہی کو صولی پر لٹکایا جاتا ہے تو رفعہ کی ضمیر کا مرجع بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم ہی ہو گا۔نیز یہودی جسم عیسیٰ کے قتل کرنے کے مدعی تھے جس کی نفی کی گئی اور اسی جسم سے متعلق کہا گیا کہ اسی جسم عیسیٰ کو اﷲ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ اگر رفع سے مراد جسم کی بجائے روح ہو اور رفع بمعنیٰ موت ہو جیسے مرزا قادیانی کر رہے ہیں تو پھر قتل اور صلب کی نفی کرنا بے معنیٰ ہو گا نیز رفع سے اگر روحانی رفع بمعنیٰ موت ہو تو کان اللّٰہ عزیزا حکیما(النساء: ۱۵۸) کے جملہ کی یہاں ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس قسم کی ترکیب ایسے موقع پر کی جاتی ہے جہاں کوئی زبردست اور غیر معمولی کام ہوا ہو۔
اس لیے مرزا قادیانی کا کہنا کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو ہر حال میں غلط ہے۔ اس کو کوئی بھی عقل مند درست اور صحیح نہیں کہہ سکتا۔
انتباہ: مرزائی مربّین جب رفع کی لغوی تحقیق کے سامنے لاجواب ہو جاتے ہیں تو بجائے ماننے کے عقلی سوالات شروع کر دیتے ہیں۔
سوال: عیسیٰ علیہ السلام انسان ہوتے ہوئے آسمان پر کیسے جا سکتے ہیں کہ آسمان و زمین کے درمیان کئی ناری کُرّے ہیں جن سے گزرنے کی انسان تاب نہیں لا سکتا۔
جواب: (۱) مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
بل حیاۃ کلیم اللّٰہ ثابت بنص القرآن الا تقرأ فی القرآن ما قال اللّٰہ تعالیٰ عز و جل فلا تکن فی مریۃ من لقاۂٖ وانت تعلم ان ہذہ الاٰیۃ نزلت فی موسیٰ فہی دلیل صریح علی حیاۃ موسیٰ علیہ السلام لانہ لقی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم والا موات لا یلاقون الاحیاء ۔
ترجمہ: بلکہ حضرت کلیم اﷲ (موسیٰ علیہ السلام) کی حیات قرآن کی نص سے ثابت ہے۔ کیا تم قرآن میں پڑھتے نہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’فلا تکن فی مریۃ من لقاۂٖ‘‘ (تو اُس کی ملاقات کے بارے میں شک نہ کر) اور تمھیں معلوم ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پس یہ آیت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر صریح دلیل ہے۔ کیونکہ انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور مردے زندوں سے ملاقات نہیں کیا کرتے۔
(خزائن، جلد:۷، ص: ۲۲۱)
جواب (۲) ایضاً مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
ہذا موسی فتی اللّٰہ الذی اشار اللّٰہ فی کتابہٖ الیٰ حیاتہ و فرض علینا ان نؤمن بانہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین۔
ترجمہ:یہ موسیٰ علیہ السلام اﷲ کے وہ طاقت ور بندے ہیں کہ اﷲ نے اپنی کتاب میں ان کی حیات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہم پر فرض کیا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ وہ آسمان میں زندہ ہیں فوت نہیں ہوئے اور مردوں میں سے نہیں۔
(خزائن، جلد: ۸، ص: ۶۹)
ان دو حوالہ جات کے ذکر کرنے کے بعد واضح ہے کہ مرزا قادیانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر مانتے ہیں ہم مرزائیوں سے کہتے ہیں کہ جیسے موسیٰ علیہ السلام مرزا قادیانی کے بقول آسمان پر چلے گئے اور ناری کُرّوں سے گزر گئے ایسے عیسیٰ علیہ السلام بھی گزر گئے۔ ما ہو جوابکم فہو جوابنا۔
جواب (۳) بڑی حیرانی ہے کہ آسمان پر عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے پر اعتراض ہے کہ ناری کُرّوں سے انسان کا گزرنا محال ہے مگر جب مرزا قادیانی ماننے پر آئے تو ایک کافر کا کرتہ (چولا) کا آسمان سے اترنا مان لیا نہ معلوم وہ کیسے ناری کُرّوں سے بچ کر زمین پر آ گیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
بعض لوگ انگد کے جنم ساکھی کے اس بیان پر تعجب کریں گے کہ یہ چولہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور خدانے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا مگر خدا تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں پر نظر کر کے کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس کی قدرتوں کی کسی نے صد بست نہیں کی۔ (خزائن، جلد: ۱۰، ص: ۱۵۷)
کیوں بھائی گرو نانک کا چولہ جب مرزا قادیانی آسمان سے اترنے کے لیے اﷲ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں پر نظر کر کے مان رہے ہیں۔ تو عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے لیے خدا تعالیٰ کی قدرتیں معاذ اﷲ مرزا قادیانی کو بھول جاتی ہیں۔
سوال۲: بل رفعہ اللّٰہ الیہ میں الیہ کی ضمیر کا مرجع اﷲ تعالیٰ ہیں مگر اس سے کیسے ثابت ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ آسمان پر ہیں اﷲ تعالیٰ کی تو صفت یہ ہے کہ فأینما تولّوا فثم وجہ اللّٰہ (بقرہ: ۱۱۵) تم جس طرف منہ کرو گے ادھر ہی اﷲ کا رخ ہے۔
جواب (۱)أ أمنتم من فی السماء ان یخشف بکم الارض۔(مُلک: ۱۵)
ترجمہ: کیا تم آسمان میں رہنے والی ہستی سے اس بات سے امن میں آ گئے ہو کہ وہ تم کو دنیا میں ذلیل کر دے (ترجمہ از تفسیر صغیر، مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد) اس جگہ آسمان میں رہنے والی ہستی اﷲ تعالیٰ ہی ہیں۔
جواب (۲)
مرزا قادیانی خود بھی اﷲ تعالیٰ کو آسمان پر مانتے ہیں ، صرف دو حوالے ملاحظہ فرمائیے۔
(الف) الا یعلمون ان المسیح ینزل من السماء بجمیع علومہٖ۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ مسیح (علیہ السلام) آسمان سے اپنے تمام علوم کے ساتھ نازل ہوں گے۔ (خزائن، جلد: ۵، ص: ۴۰۹)
اس جگہ پر مرزا قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا مان رہے ہیں۔ آسمان پر گئے تھے تو اتر رہے ہیں؟
(ب) لیکن وہ خدا جو آسمان پر ہے جو دل کے خیالات کو جانتا ہے۔ (خزائن، جلد: ۱۵، ص: ۴۹۹)
آیت نمبر: ۳
تیسری آیت جو حضرت عیسیٰ ابن مریم کے مرنے پر کھلی گواہی دے رہی ہے یہ ہے فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم یعنی جب تونے مجھے وفات دی تو تو ہی ان پر نگہبان تھا۔ ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ تمام قرآن شریف میں توفی کے معنیٰ یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا جیسا کہ اﷲ جل شانہ فرماتا ہے کہ ولکن اعبد اللّٰہ الذی یتوفٰکماور پھر فرماتا ہے حتی اذا جاء تہم رسلنا یتوفونہم۔(الجز و نمبر۸، سورۃ الاعراف) اور پھر فرماتا ہے توفتہ رسلنا ایسا ہی قرآن شریف کے تئیس مقام میں برابر توفی کے معنیٰ اماتت اور قبض روح ہے لیکن افسوس کہ بعض علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رو سے اس جگہ توفیتنی سے مراد رفعتنی لیا ہے اور اس طرف ذرہ خیال نہیں کیا کہ یہ معنیٰ نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہے پس یہی تو الحاد ہے جن خاص معنوں کا قرآن کریم نے اوّل سے آخر تک التزام کیا ہے ان کو بغیر کسی قرینہ قویہ کے ترک کر دیا گیا ہے توفی کا لفظ نہ صرف قرآن کریم میں بلکہ جا بجا احادیث نبویہ میں بھی وفات دینے اور قبض روح کے معنوں پر ہی آتا ہے چنانچہ میں نے غور سے صحاح ستہ کو دیکھا تو ہر ایک جگہ جو توفی کا لفظ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے یا کسی صحابی کے منہ سے تو انہیں معنوں میں محدود پایا گیا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی کوئی ایسا توفی کا لفظ نہیں ملے گا جس کے کوئی اور معنیٰ ہوں۔ میں نے معلوم کیا ہے کہ اسلام میں بطور اصطلاح کے قبض روح کے لیے یہ لفظ مقرر کیا گیا ہے تا روح کی بقاء پر دلالت کرے افسوس کہ بعض علماء جب دیکھتے ہیں کہ توفی کے معنیٰ حقیقت میں وفات دینے کے ہیں تو پھر دوسری تاویل پیش کرتے ہیں کہ آیت فلما توفیتنی سے پہلے یہ آیت ہے واذ قال اللّٰہ یٰعسیٰ اَءَ نت قلت للناسالخ اور ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھا نہ زمانہ استقبال کا اور پھر ایسا ہی جو جواب حضرت عیسیٰ کی طرف سے یعنی فلما توفیتنیوہ بھی بصیغہ ماضی ہے اور اس قصہ سے پہلے جو بعض دوسرے قصے قرآن کریم میں اسی طرز سے بیان کیے گئے ہیں وہ بھی انہیں معنوں کے مؤید ہیں مثلاً یہ قصہ واذ قال ربک للملٰئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ کیا اس کے یہ معنیٰ کرنے چاہئیں کے خدا تعالیٰ کسی استقبال کے زمانہ میں ایسا سوال کرے گا تو سوا اس کے قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے اور وہ حدیثیں بھی اس کی مصدق ہیں کہ موت کے بعد قبل از قیامت بھی بطور باز پرس سوالات ہی کرتے ہیں۔ (روحانی خزائن، جلد:۳، ص: ۴۲۵)
مرزا قادیانی کی طرف سے وفات مسیح پر پیش کی جانے والی یہ تیسری آیت ہے مگر مرزا قادیانی نے حسبِ عادت پوری آیت ذکر کرنے کے بجائے آیت کا ایک ٹکڑا پیش کیا اور اس پر ایک لمبی تقریر پیش کر دی۔ مرزا قادیانی کی پوری تحریر سے چند باتیں قابلِ غور ہیں۔
۱۔ مرزا قادیانی کا اصرار ہے کہ توفی کا معنیٰ پورے قرآن شریف میں روح کو قبض کرنے اور جسم کو بے کار چھوڑ دینے کے ہیں۔
۲۔ مثال کے طور پر اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قرآن کی چند آیات پیش کی ہیں کہ ان میں توفی کا معنیٰ موت ہی ہے اور بتانا یہ چاہتے ہیں کہ جب ان آیات قرآنیہ میں توفی سے معنیٰ موت ہے تو ایسے ہی قرآن میں جہاں کہیں بھی توفی کا لفظ ہو تو وہاں معنیٰ موت ہی ہو گا۔
۳۔ اس جگہ توفیتنی کا معنی رفعتنی (تو نے مجھے اُٹھا لیا) کرنا الحاد اور تحریف ہے۔
۴۔ فلما توفیتنی (جو ماضی کا صیغہ ہے) سے پہلے جو آیت ہے اذ قال اللّٰہ یعیسیٰ اس میں بھی’’ قال‘‘ ماضی کا صیغہ ہے اور پھر اس جگہ قال کے شروع میں لفظ اذ موجود ہے جو ماضی کے لیے خاص ہے جس سے واضح ہے کہ فلما توفیتنیکے نزول کے وقت یہ ماضی کا قصہ تھا۔
جواب شق نمبر۱: کیا توفی کا معنیٰ پورے قرآن شریف میں روح کو قبض کرنے اور جسم کو بے کار چھوڑنے کے ہیں اس پر ہم تفصیل کے ساتھ وفات مسیح پر مرزا قادیانی کی پیش کردہ پہلی آیت کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
جواب شق نمبر ۲:جو آیات مرزا قادیانی نے پیش کر کے باور کروایا ہے کہ ان آیات میں توفی کے موت معنیٰ ہیں لہٰذا باقی جہاں کہیں قرآن میں لفظ توفی ہو گا وہاں بھی معنیٰ موت ہی ہوں گے یہ ان کی جہالت اور کج روی کا ثبوت ہے مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ آیات میں تو واضح طور پر توفی کا معنیٰ موت کرنے کے قرائن موجود ہیں اس سے دوسرے معنیٰ کی نفی کرنا کیسے درست مانا جا سکتا ہے۔
جواب شق ۳: مرزا قادیانی کا کہنا کہ’’ فلما توفیتنیکا معنیٰ رفعتنی کرنا الحاد و تحریف ہے‘‘ یہ اُن کی جہالت کی دلیل ہے۔ جبکہ بڑے بڑے علماء مفسرین نے یہی معنیٰ کیا ہے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
فلما توفیتنی یعنی قبضتنی ورفعتنی الیک۔(تفسیر مظہری)
توفیتنی قبضتنی الیک بالرفع۔(تفسیر بحر المحیط)
فلما توفیتنی ای رفعتنی الی السماء۔(تفسیر نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور)
فلما توفیتنی رفعتنی من بینہم۔(تفسیر ابن عباس)
فلما توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الی السماء۔(تفسیر روح المعانی)
فلما توفیتنی فالمراد منہ وفاۃ الرفع الی السماء۔(تفسیر کبیر)
اس کے علاوہ بھی اگر آپ سابقہ مفسرین مرحومین کے تفاسیر کا مطالعہ کریں تو آپ کو اسی معنی کی تائید ملے گی۔
مذکورہ مفسرین میں اُمت کے سب سے بڑے مفسر سیدنا ابن عباس کی تفسیر ابن عباس میں بھی یہی مرقوم ہے تو کون ہے جو ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے مخالف خیال رکھے۔ ان حضرات کو ملحد ومحرف کہنا اپنے آپ کو ملحد و محرف بنانا ہے۔
جواب شق ۴: (الف) فلما توفیتنی صیغہ ماضی کا ہے اور اس آیت کے شروع میں لفظ اذ ہے جو ماضی کے لیے خاص ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ فلما توفیتنیکے نزول کے وقت یہ ماضی کا قصہ تھا۔
جناب بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ تو نبی و رسول کا ہے مگر علمی کمال یہ ہے کہ آنجہانی کو آیت کے سیاق و سباق کا بھی پتہ نہیں۔ حالانکہ واضح طور پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق خود بتلا رہا ہے کہ اس آیت کا تعلق قیامت کے دن سے ہی ہے اور یہ سارا واقعہ یوم یجمع اللّٰہ الرسل فیقول ما ذا اجبتم قالوا لا علم لنا(مائدہ: ۱۰۹) سے شروع ہو کر قال اللّٰہ ہٰذا یوم ینفع اللّٰہ الصادقین صدقہم(۱۱۹) پر مکمل ہو رہا ہے۔ جس طرح یوم یجمع اللّٰہ الرسل کا تعلق بھی قیامت کے دن سے ہے۔ ایسے ہی واضح طورپر یہ بات سامنے آئی کہ فلما تو فیتنی کا قول بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا قیامت کے دن ہوگا۔ باقی رہی یہ بات کہ تو فیتنی اور اذ قال اﷲ یعیسیٰ ماضی کے صیغے میں اور معنیٰ مستقبل کیوں کیے جائیں تو ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ علم بلاغت کا یہ اصول ہے کہ جو امر یقین الوقوع ہو۔ اس کو ماضی کے صیغہ سے ذکر کردیا جاتاہے تاکہ اس کا قطعی ہونا واضح ہوجائے جس کی قرآن مجید میں کئی مثالیں موجود ہیں:
ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الی ربھم ینسلون۔(یٰسین: ۵۱)
ولو تریٰ اذ وقفوا علی النار فقالوا یلیتنا نرد ولانکذب بآیات ربنا و نکون من المومنین۔(انعام:۲۷)
ولو تریٰ اذا وقفو علی ربھم الیس ہذا بالحق قالو بلیٰ و ربنا(انعام: ۳۰)
ولو تریٰ اذا المجرمون ناکسوا راؤسھم عند ربھم۔(سجدہ: ۱۲) ولو تریٰ اذ فزعوافلات فوت و اخذوا من مکان قریب و قالو آمنا بہ (سباء: ۵۱)
مذکورہ پیش کردہ آیات میں سے پہلی آیت کا تعلق قیامت کے برپا ہونے سے ہے اور باقی آیات کا قیامت کے دن پیش آنے والے واقعات سے ہے۔ مگر ان آیات میں مضارع کے بجائی ماضی کے صیغے ذکر ہوئے ہیں باقی رہا لفظ ’’اذ‘‘ کہ وہ ماضی کے لیے خاص ہے اور پھر اس پر مرزا قادیانی کی ضد یہ بھی مرزا قادیانی کی جہالت کا بیّن ثبوت ہے شاید کسی جگہ اتنا ہی لکھا دیکھ لیا ہو گا او روہی لکھ دیا جب کہ نحو کی کتب میں جہاں تفصیلات موجود ہیں وہاں علماء نحو نے یوں تحریر کیا ہے اذ الکائۃ للماضی……قد تجیٔ للمستقبل۔(لفظ) اذ ماضی کے لیے ہے مگر کبھی کبھی مستقبل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اذ الأغلال فی أعناقہم والسلاسل یسحبون۔(شرح جامی، بحث اسماء ظروف)
جواب (۲)
(الف) مرزا قادیانی خود بھی ایک جگہ ہمارے اس موقف کی تائید کر رہے ہیں لکھتے ہیں:
’’جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہو گی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی پر لاتے ہیں تاکہ اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن مجید میں اس کی بہت سی نظیریں ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الیٰ ربہم ینسلون۔‘‘ اور جیسا کہ فرماتا ہے: ’’اذ قال اللّٰہ یعیسیٰ ابن مریم اَ ءَ نت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ۔قال اللّٰہ ہٰذا یوم ینفع الصادقین صدقہم۔
ترجمہ: بلاشبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ جواب یعنی ’’فلما توفّیتنی‘‘یو م حساب کو دیں گے جس دن مخلوق کو اُٹھایا جائے گا اور وہ حاضر ہوں گے۔
(روحانی خزائن، جلد: ۲۱، ص: ۱۵۹)
(ب) نیز مرزا قادیانی لکھتے ہیں ان عیسیٰ یجیب بہذا الجواب یوم الحساب یعنی فلما توفیتنی فی یوم یبعث الخلق و یحضرون۔(روحانی خزائن، جلد: ۲۲، ص: ۶۶۵)
قارئین محترم: مرزا قادیانی کے ان مذکورہ دونوں حوالوں سے مرزا قادیانی کے اٹھائے ہوئے شبہات ان کے اپنے ہاتھوں چکنا چور ہو رہے ہیں۔
مرزائی حضرات وساوس اور شبہات پیدا کرنے کے بڑے ماہر ہیں۔ ان کی طرف سے ایک وسوسہ ملاحظہ ہو:
امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنی صحیح بخاری جلد: ۲، ص: ۶۶۵ پر آیت فلما توفیتنی کے تحت ایک حدیث لائے ہیں جس کا آخری حصہ ہے:
وانہ یجاء برجال من امتی فیؤخذ بہم ذات الشمال فاقول یا رب أصحا بی فیقال انک لا تدری ما احد ثوا بعدک فاقول کما قال العبد الصالح و کنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم فیقال ان ہٰؤلاء لم یزالوا مرتدین علیٰ اعقابہم منذ فارفتہم۔
ترجمہ: میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے اور ان کو بائیں جانب (یعنی دوزح کی جانب) لے کر چلیں گے۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے ساتھی ہیں جس پر جواب میں کہا جائے گا کہ تمھیں نہیں معلوم کہ تمھارے بعد انھوں نے نئی نئی باتیں (بدعتیں) نکالیں (اس پر) میں کہوں گا جو عبدصالح (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا کہ کنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم اور کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب سے تم ان سے جداہوئے یہ لوگ ایڑیوں کے بل اسلام سے پھرتے رہے۔
قادیانی استدلال:
اس حدیث سے واضح ہے کہ میں بھی وہی کہوں گا جو عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اور یقیناً اس آیت میں یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے فلما توفیتنی تو حضور علیہ السلام بھی فلما توفیتنی ہی کہیں گے تو حضور علیہ السلام کے فلما توفیتنی کے فرمانے میں یقینا موت معنیٰ کیے جائیں گے تو عیسیٰ علیہ السلام کے فرمان فلما توفیتنی میں بھی یہی موت کے معنیٰ ہی کیے جائیں ۔
جواب نمبر۱:
مرزائیوں کا یہ وسوسہ تار عنکبوت سے زیادہ طاقت ور نہیں ہے۔ ان کا اعتراض اس وقت تھا اگر حدیث میں یہ جملہ یوں ہوتا : اقول ما قال العبد الصالح کہ میں وہی بات کروں گا جو عبد صالح (حضرت مسیح علیہ السلام) نے کہی۔ حالانکہ ایسے نہیں بلکہ یوں اقول کما قال العبد الصالح ہے۔ عربی گرامر کے ابتدائی طالب علم کو بھی اس کا علم ہے کہ ’’ما‘‘ اور ’’کما‘‘ میں فرق ہے ۔ ’’ما‘‘ اسماء موصولہ میں سے ہے جب کہ ’’کما‘‘ میں ’’ما‘‘ کے ساتھ تو حرف تشبیہ ہے یہی حرف تشبیہ مرزائیوں کے اس وسوسہ کا علاج شافی ہے کیونکہ حرف تشبیہ کے ساتھ دو چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ مگر دونوں میں تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہوتی جیسے کما بدانا اوّل خلق نعیدہ۔(انبیاء: ۱۰۴) (جیسے ہم نے اول مرتبہ پیدا کیا ویسے ہی دُہرائیں گے۔) اس آیت میں دوسری تخلیق کو پہلی تخلیق سے مشابہت دی جارہی ہے تو پہلی مرتبہ تو والدین کے ذریعے تخلیق ہوئی۔ کیا قیامت کے دن بھی ایسے ہی ہوگی ۔ حالانکہ ایسے نہیں ایسے ہی قرآن مجید میں ہے:کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم(بقرہ: ۱۸۲) (تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلوں پر فرض کیے گئے۔)
اور مرزا قادیانی بھی ایسے لکھ رہے ہیں:
یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پوری پوری تطبیق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کا نام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں۔ مثلاً ایک بہادر انسان کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور شیر نام رکھنے میں یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ شیر کی طرح اس کے پنجے ہوں اور ایسے ہی بدن پر ریشم ہو اور ایک دُم بھی ہو بلکہ صرف صفت شجاعت کے لحاظ سے ایسا اطلاق ہو جاتا ہے اور عام طور پر جمیع انواع استعارات میں یہی قاعدہ ہے۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۱۳۸)
مماثلت ہمیشہ من وجہ مغایرت کو چاہتی ہے یہ ممکن نہیں کہ ایک چیز اپنے نفس کی مثیل کہلائے بلکہ مشبہ اور مشبہ بہٖ میں کچھ مغایرت ضروری ہے۔
(روحانی خزائن، جلد: ۱۷، ص: ۱۹۳)
اس پوری تفصیل سے اس بات کا سمجھنا آسان ہو گیا
جوابنمبر۱: قول مشبہ ہے جبکہ کما قال العبد الصالح و کنت علیہم شہیدا ما دمت فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم مشبہ بہ ہے (اور نحوی کلیہ جس کی مرزا قادیانی سے بھی تائید پیش کی گئی) کے باعث اس جگہ مغایرت کا ہونا ضروری ہے لہٰذا حضور علیہ السلام کی توفی سے مراد طبعی وفات شریفہ ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی سے بھی موت مراد لینا جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جواب (۲)۔اعتراض کرنے والا یا سوال کرنے والا جب سوال کرتا ہے تو اکثر و بیشتر جواب دینے والا خارجی طور پر جواب دینے کے درپے ہو جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے پہلے سوال ہی کو دیکھا جائے کہ ممکن ہے اسی سوال ہی میں جواب موجود ہو۔ قادیانیوں نے جو حدیث بخاری سے سوال اخذ کیا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن اپنی نافرمان امت کے حالات معلوم ہونے پر کہوں گا اقول کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیدا ما دمت فیہم۔فلما توفیتنی (الخ) اس جگہ توفی سے جیسے حضور علیہ السلام کی موت طبعی مراد ہے ایسے ہی حضرت مسیح علیہ السلام کی توفی سے بھی موت ہی مراد یقینی ہے۔
اس کے خارجی جوابات اپنی جگہ مگر اسی فلما توفیتنی والی آیت کو آپ ذرہ توجہ سے پڑھیں تو اس آیت میں یہ بھی موجود ہے تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک۔(مائدہ: ۱۱۶) اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام نے لفظ نفس اپنے لیے بھی استعمال کیا اور یہی لفظ انہوں نے اپنے کلام میں اﷲ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال کیا لیکن کوئی صاحب ایمان دونوں جگہوں پر نفس کا معنیٰ ایک ہی مراد لے گا ہرگز نہیں یہی لفظ نفس عیسیٰ علیہ السلام نے جب بولا اپنے لیے تو معنیٰ مفہوم اور۔ اور یہی لفظ جب اﷲ تعالیٰ کے لیے تو اس کا معنیٰ مفہوم اور ہو گا۔ ایسے ہی توفی عیسیٰ علیہ السلام کی الگ اور حضور علیہ السلام کی الگ اس کو ایک سمجھنا کم علمی ، کج روی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس حدیث سے صرف اتنی بات معلوم ہوئی ہے کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چلے جانے کی وجہ سے الگ ہوئے اور اپنے بعد قوم میں پیدا ہونے والی گمراہی سے بے تعلق ہیں ایسے ہی حضور علیہ السلام اپنی وفات شریفہ سے لوگوں سے جدا ہو گئے اور آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد لوگوں نے کیا کیا جس سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بری ہیں۔
اعتراض:
جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ قادیانی وساوس اور شبہا ت پیدا کرنے کے ماہر ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وساوس ہی اصل ان کی پہچان ہے۔ آیت مذکور پیش کر کے ساتھ کہنے لگ جائیں گے کہ اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام سے ان کی اُمت کے بگڑنے کے بارے اور ان کے احوال کے بارے میں پوچھا جانے کا ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ مجھ کو علم نہیں۔ اگر ان کو زندہ آسمان پر مانا جائے اور قرب قیامت ان کا نزول علی الارض مانا جائے تو پھر یقینا عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی امت کے بگڑنے کا علم ہو جانا چاہیے تھا مگر بارگاہ ایزدی میں وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے علم نہیں میں بے خبر ہوں حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت مسیح کو جھوٹا تصور کیا جائے۔ معاذ اﷲ
قارئین یہ سوال سننے کے بعد بعض لوگ اس زیرِ بحث آیت کو سمجھنے کی طرف توجہ کرنے کے بجائے پریشان ہو جاتے ہیں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
آپ قرآن مجید کی آیت کی طرف توجہ فرمائیں بار بار پڑھیں الفاظ سوالیہ یہ ہیں:
اَ ءَ نْت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ قال سبحٰنک ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق۔(مائدہ: ۱۱۶)
اس آیت میں سوال قول کا ہے کہ تو نے لوگوں سے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر مجھے اور میرے ماں کو معبود بناؤ تو جواب بھی اسی کا قول کا ہو گا کہ ما یکون لی ان اقول ما لیس لی بحق کہ میرے مناسب نہیں کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں۔ امت کے بگڑنے کے علم کا نہ سوال ہو گا اور نہ جواب۔ مذکورہ زیرِ بحث آیت سے قطعی یہ سوال نہیں اخذ ہوتا بلکہ یہ سوال قادیانیوں کے دماغی خلل کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے۔
آیت۴: چوتھی آیت جو مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ آیت ہے کہ ان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہاور ہم اسی رسالہ میں اس کی تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۲۵)
دوسری جگہ پر مرزا قادیانی نے کسی سائل کا جواب دیتے ہوئے اسی آیت پر یوں لکھا:
اور پھر اما الجواب سے مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
’’کہ سائل کو یہ دھوکہ لگا ہے کہ اس نے اپنے دل میں خیال کر لیا ہے کہ آیت فرقانی کا منشا یہ ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب کے فرقوں کا اس پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم کر لیں کہ آیت موصوفہ بالا کے یہی معنیٰ ہیں جیسا کہ سائل سمجھا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ زمانہ صعود مسیح اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو جس قدر اہل کتاب دنیا میں گزرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہوں حالانکہ یہ خیال بالبداہت باطل ہے ہر ایک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر اب تک واصل جہنم ہو چکے ہیں اور خدا جانے آئندہ بھی کس قدر کفران کی وجہ سے آتشی تنور میں پڑیں گے اگر خدا کا یہ منشا ہوتا کہ وہ اہل کتاب فوت شدہ مسیح کے نازل ہونے کے وقت اس پر ایمان لاویں گے گہ ان سب کو اس وقت تک زندہ رکھتا جب تک کہ مسیح آسمان سے نازل ہوتا لیکن اب مرنے کے بعد ان کا ایمان لانا کیونکر ممکن ہے۔‘‘ (جلد: ۳، ص: ۲۸۸)
ایک جگہ پر مرزا قادیانی اسی آیت سے متعلق یوں تحریر کرتے ہیں:
’’بعض لوگ شرمندے سے ہو کر دبی زبان یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اور وہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آویں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مومنوں کی فوج میں داخل ہو جائیں گے لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۲۸۹)
جواب: قارئین محترم اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
نمبر ایک آیت کے الفاظ لیومنن کا معنیٰ ’’بہٖ‘‘ اور ’’قبل موتہٖ‘‘ میں ضمیر کا مرجع کیا ہے۔
نمبر۲: مرزا قادیانی کی طرف سے اس کے تحت مذکورہ باتوں کا لکھنا
نمبر۱: آیت میں موجود لیومنن۔صیغہ واحد مذکر غائب موکد بانون ثقیلہ کہ اس کے شروع میں لام تاکید ہے اس سے دو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ چونکہ یہ مضارع کا صیغہ ہے اور مضارع میں زمانہ حال و مستقبل دونوں کا احتمال ہوتا ہے اور مضارع پر موکد بانون ثقیلہ لگانے سے مستقبل کے لیے خاص کر دیا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ مضارع کے جس صیغہ میں نون ثقیلہ لگا دیا جائے تو اس فعل میں قطعیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس جگہ پر اس پر لام مفتوح برائے تاکید ہے گویا اس سے تاکید در تاکید کا فائدہ ہوا۔ جو عربی گرائمر کے ابتدائی طالب علم سے بھی کوئی مخفی بات نہیں ہے اور تمام اہل فن اس پر متفق ہیں اور قرآن مجید میں جہاں بھی ایسے صیغہ جات سے کوئی بات بیان کی گئی ہے تو ہر جگہ یہی مفہوم ہے۔ مثلاً
ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ۔(آل عمران: ۸۱) ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔لنجزین الذین صبروا اجرہم باحسن ما کانوا یعملون۔(نحل: ۹۶) فلنحیینہ حیاتا طیبہ۔(نحل: ۹۷) لندخلنہم فی الصٰلحین۔(عنکبوت: ۹)
باقی رہا اس آیت میں بہ اور موتہٖ کی ضمیر کے مرجع کا مسئلہ تو پھر آپ قولہم انا قتلنا المسیح سے یکون علیہم شہیدا۔تک توجہ سے دیکھیں تو تقریباً بہٖ اور موتہٖ کے علاوہ باقی ضمیریں تو آیت کے شروع میں موجود اسم ظاہر کی طرف لوٹیں ان دو ضمیروں کا مرجع کوئی دوسرا کیوں تلاش کیا جائے اور یہی جمہور مفسرین کا مذہب ہے۔ اس پر دو حوالے پیش خدمت ہیں۔ (۱) تفسیر المحیط میں ہے ’’والظاہر ان الضمیرین فی بہ وموتہ عائدان علی عیسیٰ وہو سیاق الکلام۔اور ایسے ہی امام برہان الدین (متوفی: ۸۸۵ھ) نے اپنی تفسیر نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور میں یوں تحریر فرمایا ہے: ’’لیؤمنن بہٖ ای بعیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام قبل موتہٖ ای موت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام۔
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ ’’ زمانہ صعود مسیح اور اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو جس قدر اہل کتاب دنیا میں گزرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہیں مسیح کی موت سے پہلے تو لازم تھا کہ ان سب کو اس وقت تک زندہ رکھا جاتا جب تک کہ مسیح آسمان سے نازل ہو تے۔
مرزا قادیانی کی اس عبارت میں ایک ایک لفظ مغالطہ پر مبنی ہے اور مغالطہ دینا مرزا قادیانی کی عادت ہے۔ اس آیت میں تو صرف اتنا ہے کہ جو نزول مسیح کے وقت اہل کتاب ہوں گے وہ ایمان لے آئیں گے۔ اس سے تمام اہل کتاب اوّل تا آخر کہاں مراد ہیں اگر یہی مفہوم لیا جائے جو مرزا قادیانی لے رہے ہیں تو پھر قل یا اہل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بیننا و بینکم(آل عمران۶۴) میں تمام اہل کتاب ابتداء سے انتہاء تک مراد ہوں گے؟ نہیں بلکہ جو اس وقت موجود تھے انہیں کو مخاطب کیا گیا ہے۔
واذ قال عیسیٰ ابن مریم یٰبنی اسرائیل انی رسول اللّٰہ الیکم۔(صف:۶)
کیا اس آیت میں عیسیٰ ابن مریم تمام بنی اسرائیل کو فرما رہے ہیں کہ میں تم سب بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں یا جو اس وقت موجود تھے بات واضح ہے۔ کہ جو اس وقت موجود تھے یقینا انہی سے فرما رہے ہیں۔ مگر مرزا قادیانی ……خود تو مراق کے مریض تھے ہی مگر اوروں کو بھی اس مرض میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے ہی مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ ’’بعض لوگ شرمندے سے ہو کر دبی زبان میں یہ تاویل پیش کرتے ہیں اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے۔ کس قدر لغو ہے۔ ساری امت کے اکابر علماء مفسرین اسی بات کے قائل ہیں کہ جب مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اس وقت جو اہل کتاب ہونگے وہی ان پر ایمان لائیں گے۔
آیت نمبر: ۵
ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقہ کانا یاکلان الطعام۔
یعنی مسیح صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے نبی فوت ہو چکے ہیں ماں اس کی صدیقہ ہے جب دونوں زندہ تھے تو طعام کھایا کرتے تھے، یہ آیت بھی صریح نص حضرت مسیح کی موت پر ہے کیونکہ اس آیت میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ مریم طعام نہیں کھاتے ہاں کسی زمانہ میں کھایا کرتے تھے۔ جیسا کہ کانا کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے جو حال کو چھوڑ کر گزشتہ زمانہ کی خبر دیتا ہے اب ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مریم طعام کھانے سے اس وجہ سے روکی گئی کہ وہ فوت ہو گئی اور چونکہ کانا کے لفظ میں جو تثنیہ کا صیغہ ہے حضرت عیسیٰ بھی حضرت مریم کے ساتھ شامل ہیں اور دونوں ایک ہی حکم کے نیچے داخل ہیں لہٰذا مریم کی موت کے ساتھ ان کی موت بھی ماننی پڑی کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں ہرگز یہ بیان نہیں کیا گیا کہ حضرت مریم تو بوجہ موت طعام کھانے سے روکی گئیں لیکن ابن مریم کسی اور وجہ سے اور جب ہم اس آیت مذکورہ بالا کو اس دوسری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھیں کہ ما جعلنٰہم جسدا لا یاکلون الطعام جس کے یہ معنیٰ ہیں کہ کوئی ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا کہ زندہ تو ہو مگر کھانا نہ کھاتا ہو تو اس یقینی اور قطعی نتیجہ تک ہم پہنچ جائیں گے کہ فی الواقع حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں کیونکہ پہلی آیت سے ثابت ہو گیا کہ وہ کھانا نہیں کھاتے اور دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ جب تک یہ جسم خاکی زندہ ہے طعام کھانا اس کے لیے ضروری ہے اس سے قطعی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ زندہ نہیں۔ (خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۲۶)
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے کے لیے کچھ باتیں زیادہ کر دی ہیں مثلاً پہلے نبی فوت ہو چکے ہیں، اس آیت میں کوئی لفظ بھی نہیں جس کا یہ معنیٰ ہو، دوسرا یہ کہ جب وہ زندہ تھے تو طعام کھایا کرتے تھے یہاں جب وہ زندہ تھے کس لفظ کا ترجمہ ہے۔
ہاں کانا یاکلان الطعام۔جس کا معنی یہ ہے وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ یعنی جس طرح دوسری مخلوقِ خدا کھاتی ہے وہ بھی کھاتے تھے جس سے مقصود صرف یہ ہے کہ وہ مخلوق تھے خود الٰہ نہ تھے یہاں وفات و حیات کا ذکر تک نہیں، باقی مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ کانا ماضی کا صیغہ ہے لہٰذا دونوں زمانہ ماضی میں کھانا کھاتے تھے۔ اب مریم بھی نہیں کھاتی توہ فوت ہو گئی ایسے ہی مسیح کی موت بھی ماننا پڑی کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک حکم میں شامل تھے۔
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ کانا ماضی کا صیغہ ہے لہٰذا یہ قصہ بھی ماضی کا ہو گا اب عیسیٰ کھانا نہیں کھاتے یہ ان کا اپنا اٹکل پچو ہے۔ ذرا توجہ کرو قرآن میں ہے کہ:
(۱) کان اللّٰہ علی کل شئی قدیراً
(۲) ما کان اللّٰہ لیضل قوماً بعد اذ ہداہم(توبہ: ۱۱۵)
(۳) ما کان المؤمنون لینفروا کافۃ (توبہ: ۱۲۲)
(۴) ما کان للنبی والذین آمنوا (توبہ: ۱۱۳)
مثال نمبر (۱) اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
مثال نمبر (۲) اﷲ تعالیٰ کی شان سے یہ بعید ہے کہ ایک قوم کو ہدایت دے اور پیچھے گمراہ کر دے یہاں بھی کان ہے مگر ماضی کا معنی نہیں ہے۔
مثال نمبر (۳)مناسب نہیں کہ مسلمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں کان ماضی ہے مگر معنی استقبال ہے۔
مثال نمبر (۴) مسلمانوں اور نبی کو لازم نہیں، کیا یہ معنیٰ ہوں لازم نہیں تھا۔ (ترجمہ دوبارہ دیکھ لیں)
ایسے ہی دوسری بات کہ مریم کے طعام نہ کھانے کی وجہ موت ہے اور مسیح کے طعام نہ کھانے کی وجہ بھی موت ہی ہو کیونکر۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ دو شخصوں کا ایک مشترکہ فعل سے جدا ہونا مختلف اسباب سے ہو، مثلاً زید اور عمر اکٹھے لاہور ہتے تھے زید نے تعلیم چھوڑ دی اور عمر، ولایت چلا گیا، اب لاہور میں رہائش دونوں کا مشترک فعل ہے مگر لاہور سے نکلنے کے مختلف اسباب ہیں۔ ایسے ہی مریم کا کھانا نہ کھانا موت کی وجہ سے ہے اور مسیح کا نہ کھانا دنیا سے آسمانوں پر چلے جانے کی وجہ سے ہے اگر یہی طرز استدلال اپنایا جائے تو یہ بھی سنیے کہ قرآن میں ہے ’’قل فمن یملک من اللّٰہ شیئاً ان اراد ان یہلک المسیح ابن مریم وامہ و من فی الارض جمیعا۔(المائدہ: ۱۷) اور کہہ سکتا ہے کوئی کہ نہ جمیع من فی الارض ہلاک ہوا اور نہ ہی مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو ہلاکت ہوئی جیسے جمیع من فی الارض آج موجود ہے ایسے ہی مسیح اور اس کی والدہ بھی زندہ ہیں۔ کیا قادیانی یہ استدلال مان لیں گے؟ باقی مرزا قادیانی نے کیونکر سمجھ لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھانا نہیں کھاتے البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ طعام تبدیل ہوا کھانا کھانا ختم نہیں ہوا۔
کیا یہ سچ ہے کہ ماں کے پیٹ میں انسان کی غذا خون ہے جب پیٹ سے باہر آتا ہے تو اس کی غذا خون ختم ہو کر دودھ شروع ہو جاتی ہے اور پھر چند مہینوں بعد دودھ پر گزارہ مشکل ہو جاتا ہے تو دودھ بحیثیت غذا ختم ہو جاتا ہے روٹی غذا کی جگہ آ جاتی ہے اس لیے ایک غذا کے تبدیل ہونے سے کسی کی موت ثابت نہیں ہوتی تو حضرت مسیح آسمانوں پر ہیں جو آسمان والوں کی غذا وہی ان کی غذا۔ زمین پر رہنے والے اولیاء اﷲ بھی ذکرِ الٰہی سے سرور اور قوت حاصل کرتے ہیں اور کئی کئی دن روٹی نہیں کھاتے مگر زندہ رہتے ہیں۔ نیز زمین پر جو غذا ہے وہ آسمان سے نازل ہوتی ہے وفی السماء رزقکم۔(ذاریات: ۲۲) وینزل لکم من السماء رزقا۔(مومن: ۱۳) نیز زمین پر غذا دینے والا بھی رب ہے اور آسمان پر بھی رزق اسی کے ذمہ ہے کیا اﷲ تعالیٰ قادر مطلق نہیں کہ وہ کسی کو جب چاہے جہاں چاہے وہاں کے ماحول کے مناسب رز ق دے۔
خَلَتْ کا معنیٰ:
خلت، خلا یخلو سے ہے جس کا معنیٰ حقیقی گزرنا ہے اس کا معنیٰ حقیقی موت ہے ہی نہیں اور اگر کسی جگہ پر خلا کا لفظ موت کے لیے استعمال ہوا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ موت کے معنیٰ کے لیے حقیقتاً وضع بھی کیا گیا ہے۔ نیز موت کا لفظ حقیقتاً موت ہی کے لیے وضع کیا گیا ہے مگر وہ بھی کبھی کبھی اپنے حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی پر ہوتا ہے جیسے اللّٰہم باسمک اموت واحیا۔اب یہاں اموت موت سے ہے معنیٰ حقیقی موت ہی ہے اگر یہاں معنیٰ موت نہیں ہے تو پھر خلت جو حقیقتاً معنیٰ موت کے لیے وضع ہی نہیں کیا گیا تو اس کو کیسے موت کے معنیٰ میں لیا جائے اس کا لفظی معنیٰ گزرنا ہے اور زندوں مُردوں دونوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے۔
(۱) واذا خلوا الیٰ شیاطینہم۔(بقرہ: ۱۴)( جب وہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہا ہوتے ہیں)
زندوں کے لیے استعمال ہوا ہے یہاں معنیٰ موت نہیں کیا جا سکتا تو پھر اس کا معنیٰ موت کیسے ہوا۔
(۲) سنۃ اللّٰہ التی قد خلت فی عبادہٖ۔(مومن: ۸۵)(اﷲ کا دستور ہے جو اس کے بندوں میں جاری ہے۔ کیا یہاں سنت اﷲ ’’فوت ہو گئی‘‘ معنی کیا جا سکتا ہے۔
(۳) واذا خلوا عضّوا علیکم الانامل من الغیظ۔(آل عمران: ۱۱۹)
جس وقت اکیلے ہوتے ہیں تو مارے غصہ کے تجھ پر انگلیاں کاٹتے ہیں، یہاں بھی زندوں پر استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ کئی مقامات ہیں جہاں موت کا معنیٰ ہو ہی نہیں سکتا۔ بہرحال یہاں صرف مطلق خلو گزرنا مراد ہے یہاں سے چلے گئے آگے ان کا کیا ہے اس کا بیان اس لفظ کے معنیٰ میں شامل نہیں ہے وہ اس کے دائرہ مفہوم سے خارج ہے حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق دیکھیں تو صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف ان کی الوہیت کا انکار مقصود ہے جو کھاتا پیتا ہو وہ کیسے معبود ہو سکتا ہے۔
آیت نمبر: ۶ ۔و ما جعلنٰہم جسداً لا یأکلون الطعام۔
اور در حقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح کی موت پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام کے نہیں رہ سکتا یہی سنت اﷲ ہے تو پھر حضرت مسیح کیونکر اب تک بغیر طعام زندہ موجود ہیں اور اﷲ جل شانہ فرماتا ہے ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا۔اور اگر کوئی کہیں کہ اصحاب کہف بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ان کی زندگی بھی اس جہاں کی زندگی نہیں مسلم کی حدیث سو برس والی ان کو بھی مار چکی ہے بے شک ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اصحاب کہف بھی شہدا کی طرح زندہ ہیں (جلد: ۳، ص: ۴۲۷)
اس کے جواب میں تین باتیں پیش خدمت ہیں
(۱) اس آیت میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ کوئی جسم ایسا نہیں جسے طعام کی ضرورت نہ ہو ہر جسم کو طعام کی ضرورت ہے مگر اس کا مفہوم یہ نہیں کہ فلاں وقت تک یا فلاں مدت تک کھانا ضروری ہے اگر نہیں کھائے گا تو مر جائے گا وہ مدت اس آیت کے کس لفظ سے سمجھ آ رہی ہے حضور علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ایکم مثلی انی ابیت یطعمنی و یسقینی(الحدیث) نیز اصحاب کہف کا تذکرہ قرآن میں واضح موجود ہے کہ ۳۰۹ سال تک بغیر کھائے پئے زندہ رہے جب اٹھے تو ایک آدمی کھانا لینے کے لیے گیا اب وہ ۳۳۰ سال تک بغیر کھائے پئے زندہ رہے ان کو موت نہیں آئی۔ نیز مرزا قادیانی سمجھتے ہیں کہ غذا صرف روٹی سالن ہے جب کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ذکر اذکار بھی اپنی جگہ پر غذا کا کام دے رہے ہیں تو وہاں بھی کھانا پینا تو پایا گیا۔
(۲) و لن تجد لسنت اللّٰہ تبدیلا۔(احزاب: ۶۲) مرزا قادیانی کا حال بھی عجیب ہے کہ اب یہ سنت اﷲ ہو گیا کہ بغیر کھانے کے زندہ نہ رہنا کیاخدا اپنے قانون کو تبدیل کرنے پر قدرت رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر رکھتا ہے اور یقینا رکھتا ہے تو پھر وہ آپ کے بقول اپنے قانون کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق تبدیل بھی کر سکتا ہے، کیا یہ بات صحیح نہیں کہ اﷲ نے آگ کے لیے قانون بنایا ہے کہ وہ جلائے مگر قرآن کہتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گلزار کردیا گیا۔ نیز مرزا قادیانی خود بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ عباد الرحمن اس قدر زور سے صدق وفا کی راہوں پر چلتے ہیں کہ ان سے دنیا بے خبر ہے اور ان سے خدا تعالیٰ کے وہ معاملات ہوتے ہے جو دوسروں سے وہ ہرگز نہیں کرتا جیسا کہ ابراہم علیہ السلام چونکہ صدق اور خدا تعالیٰ کا وفادار بندہ تھا اس لیے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ نے اس کی مدد کی جبکہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اس کے لیے سرد کر دیا۔ (خزائن جلد: ۲۲، ص: ۵۲)
اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کوئی کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور حضرت عیسیٰ نہیں کھاتے پیتے تو پھر اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندے حضرت عیسیٰ سے بھی وہ معاملہ ہے جو دوسروں سے ہرگز نہیں ہے ان کو بغیر کھائے پئے زندہ رکھا ہوا ہے اور اس سے سنت اﷲ کی تبدیلی میں کوئی حرج نہیں، نیز مرزا قادیانی سمجھ بیٹھے ہیں جیسے ان کا گزر ان مقویات گوشت مرغ بادام والی غذا کے بغیر نہیں ہو سکتا ایسے مسیح بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔
(۳) مرزا قادیانی کا کہنا کہ اصحاب کہف زندہ ہیں مگر شہداء والی زندگی ان کو حاصل ہے بہت بڑی فحش غلطی ہے کس قدر غضب کی بات ہے کہاں قرآن و حدیث یا تاریخ میں ہے کہ اصحاب کہف کفار سے لڑے اور کفار کے ہاتھوں مارے گئے کہ ان کو شہیدوں کی مانند زندگی عطا ہوئی، قرآن تو صاف لفظوں میں دنیا کی زندگی ان کے لیے بیان کرتا ہے مگر صد حیف مرزا پر۔ ایسے ہی سارا دھرم ہے جو جی میں آیا لکھ مارا۔
آیت نمبر: ۷۔و ما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أ فان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم۔
محمد صلی اﷲ علیہ و سلم صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہو گئے ہیں اب کیا اگر وہ بھی فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو ان کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا جس کی وجہ سے تم دین سے پھر جاؤ۔
اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اگر نبی کے لیے ہمیشہ زندہ رہنا ضروری ہے تو کوئی ایسا نبی پہلے نبیوں میں سے پیش کرو جواب تک موجود ہے اور ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ رہتے تو پھر یہ دلیل جو خدا تعالیٰ نے پیش کی صحیح نہیں ہو سکی۔ (جلد: ۳،ص: ۴۲۷)
مرزا قادیانی اس آیت کو پیش کر کے دو طرح سے وفات مسیح ثابت کر رہے ہیں:
۱۔ محمد صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہو گئے۔
۲۔ ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ رہتے تو پھر یہ دلیل جو خدا تعالیٰ نے پیش کی ہے صحیح نہیں ہو سکی۔
اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
جواب (۱) (الف) کسی بھی کلام کے عموم سے کسی خاص جزئی پر استدلال کرنا خلاف حقیقت ہے کیونکہ عموم کی دلالت اپنے افراد پر نہایت کمزور ہوتی ہے۔ خصوصاً ایسے موقع پر جبکہ کسی خاص جزئی کا حکم کسی مستقل دلیل سے الگ ثابت ہو چکا ہو۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج۔(دہر:۱)
یہاں واضح موجود ہے کہ تمام انسانوں کو اﷲ تعالیٰ نے نطفہ سے پیدا کیا ہے مگر اس عموم میں حضرت آدم و حوّا وعیسیٰ ابن مریم شامل نہیں ہیں۔
(ب) ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس۔(روم: ۴۱)
اس جگہ بیان ہوا کہ تمام انسانوں کے اعمال ظہر الفساد فی البر والبحر کا سبب ہیں جب کہ اولیاء صالحین کے بما کسبت تو فساد کو ختم کرنے کا سبب ہیں۔
(ج) لأملئن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔(ہود: ۱۱۹)
یہاں بھی اگر عموم مراد ہو تو اﷲ کی پناہ اس لیے کسی کلام کے عموم سے کسی خاص جزئی سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
جواب (۲)اگر کلامِ الٰہی پر غور کیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ اگر اس آیت سے مراد صرف وہی ہوتی جو مرزا قادیانی نے کہی ہے تو مقام کے تقاضا کے مطابق قرآن کے الفاظ قد خلت من قبلہ الرسل افان مات أو قتل انقلبتم علی اعقابکم کی بجائے عبارت اس طرح زیادہ موزوں تھی قد ماتت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکممگر ایسا نہیں تو ظاہر ہے کہ ضرور کوئی وجہ ہے کہ قد خلت کہا گیا قد ماتت نہیں کہا گیا۔
جواب (۳)مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ’’ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہے تو یہ دلیل جو خدا تعالیٰ نے پیش کی ہے صحیح نہیں ہو سکتی‘‘۔ سوائے جہالت، ہٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ دلیل وفاتِ مسیح پر خدا تعالیٰ نے پیش نہیں کی بلکہ مرزا قادیانی نے خود ہی یہ کہہ دیا کہ یہ دلیل خدا تعالیٰ نے وفاتِ مسیح پر پیش کی ہے اگر بالفرض والمحال یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دلیل ہے تو ’’پھر ذرا یہ فرما دو کہ اگر نبی کے لیے ہمیشہ زندہ رہنا ہے تو کوئی ایسا نبی پہلے نبیوں میں سے پیش کرو جواب تک زندہ موجود ہے‘‘ کلام اﷲ کے کس لفظ کا ترجمہ ہے۔
جواب (۴) ترجمہ( سب نبی فوت ہو چکے ہیں) میں’’سب‘‘ کس لفظ کا ترجمہ ہے؟۔ بلا شبہ یہ ترجمہ غیر منقول، خلافِ قاعدہ اور صریح غلط ہے۔ غالباً مرزا قادیانی نے ’’الرسل‘‘ پر موجود الف لام کو برائے استغراق فرض کر کے یہ ترجمہ کیا ہے کہ تمام رسول فوت ہو چکے ہیں اور کوئی رسول بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر ذرا توجہ کی جائے تو بات بالکل واضح ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت خود حضور صلی اﷲ علیہ وسلم زندہ تھے۔ تو ’’الرسل‘‘ (تمام رسول ) سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پاک کو کس قانون کے تحت خارج کرتے ہیں۔
جواب (۵) اس آیت میں دو لفظ ہیں جو مرزا قادیانی کی بنیاد ہیں۔ (۱) قد خلت (۲) الرسل پر الف لام استغراقی ہے، خلت کے بارے میں واضح ہو چکا ہے کہ یہ لفظ خلا یخلو سے ہے جس کے معنیٰ ما وضع لہ موت نہیں اور الرسل پر الف لام استغراقی لینا کسی اعتبار سے درست اور صحیح نہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم خود زندہ تھے تو پھر کیسے الرسل پر الف لام استغراقی مان لیا جائے۔ استغراق کا مفہوم یہ کہ جمیع افراد اس میں شامل ہوں۔
قارئین محترم جو کچھ اوپر مذکور ہوا ان تمام گزارشات کو پیش کرنے کے باوجود بھی اگر کوئی قادیانی مربّی مرزا قادیانی کی طرح ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے اور خلت کا معنیٰ موت کرنے اور الرسل پر الف لام استغراق کا ہونے پر ہی مُصر ہو تو اس کا علاج بالمثل کریں۔ جو درج ذیل ہے کہ مرزا قادیانی خلت کا معنیٰ موت نہیں کر رہے۔ مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔(الخ)
یعنی مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے۔ (روحانی خزائن، جلد: ۶، ص: ۸۹)
یہاں مرزا قادیانی خلت کا معنیٰ موت نہیں کر رہے جبکہ لفظ خلت موجود ہے
نیز مرزا قادیانی لکھتے ہیں کہ بہت سے نبیوں کی وفات کا خدا تعالیٰ نے ذکر بھی نہیں کیا۔ (روحانی خزائن، جلد: ۱۴، ص: ۳۸۷)
اب سنائیں کہ زیرِ بحث آیت میں الرسل پر الف لام کا استغراقی لیا جائے تو یقینا سارے نبیوں کی وفات اس میں داخل ہے جبکہ مرزا قادیانی نے واضح لکھا کہ بہت سے نبیوں کی وفات کا خدا نے ذکر بھی نہیں کیا تو مرزا قادیانی کے ہاتھوں خود الرسل پر الف لام کے استغراقی ہونے کی بات ختم ہو رہی ہے اس لیے آپ ہٹ دھرمی چھوڑیں اور یہاں پر الف لام کے استغراقی ہونے پر مصر نہ ہوں۔ ہاں اس آیت میں الرسل پر الف لام جنسی مراد ہے۔
آیت نمبر: ۸۔و ما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افان متّ فہم الخٰلدون۔
یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو زندہ اور ایک حالت پر رہنے نہیں دیا پس اگر کوئی مر گیا تو یہ لوگ باقی رہ جائیں گے، اس آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمام لوگ ایک ہی سنت اﷲ کے نیچے داخل ہیں اور کوئی موت سے نہیں بچا اور نہ آئندہ بچے گا اور لغت کی رو سے خلود کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت پر رہے کیونکہ تغیر موت اور زوال کی تمہید ہے پس نفی خلود سے ثابت ہوا کہ زمانہ کی تاثیر سے ہر ایک شخص کی موت کی طرف حرکت ہے اور پیرانہ سالی کی طرف رجوع اور اس سے مسیح بن مریم کا بوجہ امتددا زمانہ اور شیخ فانی ہو جانے کے بعد فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے۔ (روحانی خزائن جلد: ۳،ص: ۴۲۷)
قارئین: اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں،
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح آسمانوں پر زندہ ہیں اور قیامت سے پہلے زمین پر نازل ہوں گے پھر بعد اس کے وفات پائیں گے مسلمان اس بات کے قائل ہی نہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے تو مرزا قادیانی نے کیسے سمجھ لیا کہ وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس آیت کو پیش کر کے خلود کا رد کرنے لگے۔
(۲) اس آیت میں ایسا کوئی بھی تذکرہ نہیں جس سے مسیح ابن مریم علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ ہو۔
(۳) مرزا قادیانی نے اس آیت کے مفہوم عام سے بطور سنت اﷲ کے وفات مسیح پر استدلال کیا ہے حالانکہ حضرت مسیح علیہ السلام سنت اﷲ میں داخل ہی نہیں بلکہ وہ آیت اﷲ ہیں، اس لیے سنت اﷲ کہہ کر اس آیت کو حضرت مسیح کی وفات پر پیش کرنا صحیح نہیں۔
(۴) مرزا قادیانی کی وجہ استدلال، خلود کے مفہوم میں داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہنا اور نفی خلود سے ثابت ہے کہ ہر شخص کی حرکت موت کی طرف ہو رہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم بوجہ امتدادِ زمانہ اور شیح فانی ہو جانے کے فوت ہو گیا ہے، یہ بالکل مرزا قادیانی کے مذہب کے خلاف ہے، کیونکہ وہ تو اس بات کے قائل ہیں نہیں کہ اتنا لمبا عرصہ سے آسمان پر ہیں یا تو وہ پہلے اس بات کو مانیں کہ وہ آسمانوں پر اتنا لمبا عرصہ رہنے اور شیخ فانی ہو جانے کے بعد امتداد سے ضعف آ کر فوت ہو گئے جب یہ آپ کا مذہب ہی نہیں تو پھر اس طریقہ سے استدلال کرنا چہ معنی دارد؟ ہاں پہلے اس بات کو تسلیم کریں کہ وہ ایک لمبا زمانہ تک زندہ رہے پھر یہ استدلال پیش کیجیے لیکن ساتھ یہ بھی کوئی حد بطور کلیہ کے ذکر کریں کہ اتنی لمبی مدت تک کوئی شخص شیخ فانی ہو جاتا ہے اگر آپ کو معلوم ہو تو فرمائیں۔
آیت نمبر: ۹۔ تلک امۃ قد خلت لہا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون
اس وقت سے جتنے پیغمبر پہلے ہوئے ہیں یہ ایک گروہ تھا جو فوت ہو گیا ان کے اعمال ان کے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے اور ان کے کاموں سے تم نہیں پوچھے جاؤ گے، (جلد: ۳، ص: ۴۲۸)
توجہ کی جائے تو مرزا قادیانی کا اس آیت سے استدلال تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ تلک اسم اشارہ ہے اور اس کا مشار علیہ ایک یہ آیت ہے جس میں ابراہیم یعقوب اسماعیل اسحٰق علیہم السلام کا ذکر ہے کہ جب کہ دوسری جگہ اس سے ما قبل میں یہ ام تقولون ان ابراہم سے وما اﷲ بغافل عما تعملون جو تلک کا مشار الیہ ہے اب جس جماعت کا ذکر پہلے ہے جن کو اس جگہ اُمّت کہا گیا اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر تک نہیں ہے نیز مرزا قادیانی سے سوال ہے کہ (اس وقت سے جتنے پیغمبر پہلے ہوئے ہیں) یہ کن الفاظ کا ترجمہ ہے۔
آیت نمبر: ۱۰۔وأوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ما دمت حیا۔
اس کی تفصیل ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں ، ( خزائن جلد: ۳، ص: ۳۳۱) اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انجیلی طریقۂ نماز پڑھنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یوں ہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ آئیں گے تو برخلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھا کریں گے۔ (خزائن جلد: ۳، ص: ۴۲۸) نیز اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ (احکام شرعیہ) کا بجا لانا محال ہے اور جو شخص مسیح کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع الجسد آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس کو اس آیت موصوفہ کے منشا کے موافق یہ بھی ماننا پڑے گا۔ تمام احکام شرعی جو انجیل اور تورات کی رُو سے انسان پر واجب العمل ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح پر اب بھی (بوجہ موجود فی السماء ہوں گے) واجب ہے کہ تو اپنی والدہ کی خدمت کرتا رہ پھر آپ ہی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کی والدہ سے جدا کر دے اور تا حیات زکوٰۃ کا حکم دیوے اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایسی جگہ پہنچا دے جس جگہ نہ وہ آپ زکوٰۃ دے سکتے ہیں نہ زکوٰۃ کے لیے کسی دوسرے کو نصیحت کر سکتے ہیں اور صلوٰۃ کے لیے تاکید کرے اور جماعت مؤمنین سے دور پھینک دیوے جن کی رفاقت تکمیل صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے کیا ایسا اٹھائے جانے بجز بہت سے نقصان عمل اور ضائع ہونے حقوق العباد اور فوت ہونے خدمت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کچھ اور بھی فائدہ ہوا۔
(جلد: ۳، ص: ۳۳۱۔۳۳۲)
اس مذکورہ بالا عبارت میں چند باتیں قابل توجہ ہیں:
(۱) انجیلی طریقہ نماز پڑھنے کی وصیت کی گئی تھی۔
(۲) حضرت یحییٰ ان کی نماز کی حالت میں ان کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردہ جو ہوئے۔
(۳) جب دنیا میں عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو بر خلاف اس وصیت کے امتی بن کر مسلمانوں کی طرح نماز پڑھا کریں گے۔
(۴) ان تمام تکلیفا ت شرعیہ کاآسمان پر بجا لانا محال ہے۔
(۵) تا حیات والدہ کی خدمت کی تاکید کی تھی تو وفات مریم کے بعد اس حکم کی تعمیل کیسے ممکن ہے۔
(۶) عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ خود ہی تا حیات نماز و زکوٰۃ کا حکم دے اور خود ہی اس ماحول سے دور کر دے پھر خدمت والدہ کا حکم دے اور پھر خود ہی والدہ کو موت دے کر اس کی تعمیل میں مانع پیدا کر دے۔
اب نمبر وار ان سب پیدا کردہ مشکلات کے حل کی طرف توجہ دیں:
جواب شق ۱:قرآن میں یہ الفاظ موجود ہیں اوصانی بالصلوٰۃ (مریم: اس میں صرف یہ ہے کہ مجھے نماز کی وصیت کی گئی ہے۔ لیکن یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ انجیلی طریقہ پر وصیت کی گئی ہے۔ دوسرا یقینا نماز کا طریق ان کا وہی تھا جو انجیلی تھا جب شرعیت محمدیہ کا دور آیا انجیلی دور ختم ہوا تو آپ یقینا نماز انجیلی کی بجائے محمدی نماز پڑھتے ہوں گے اب زمین آسمان میں شریعت محمدی کا دور دورہ ہے۔
جواب شق ۲: مرزا قادیانی کی بہت بڑی جرأت اور دلیری ہے ایسی بات کرنا، کوئی ذی عقل ایسی بات نہیں کر سکتا، پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا مرزا قادیانی آسمان پر گئے کہ ان کو معلوم ہوا کہ یحییٰ علیہ السلام یونہی پڑے رہتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل باطل ہے کیونکہ وہ کسی کا آسمان جانا محال جانتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اس پر کوئی روایت موجود ہے تو کوئی قادیانی بتائے ، تیسری بات یہ ہے کہ یہ تمسخر ہے اس کا جو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب میں دوسرے آسمان پر پہنچا اچانک عیسیٰ علیہ السلام کھڑے تھے جبریل نے کہا کہ یہ یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں ان کو سلام کرو اور میں نے سلام کیا، تو مردہ جو ہوئے کہنا تمسخر نہیں تو اور کیا ہے مرزا قادیانی کو علم ہی نہیں کہ انبیاء کا درجہ کتنا بلند و ارفع ہے گو کہ مرنے کے بعد تکلیفی احکامات سے سبکدوش ہو جاتا ہے مگر انبیاء علیہم السلام جن کے جسم میں عبادت الٰہی ہے وہ مرنے کے بعد بھی عبادات میں مشغول رہا کرتے ہیں۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لیے وہ پڑے ہی نہیں رہتے بلکہ وہ بھی عبادات میں مشغول رہا کرتے ہیں۔
جواب شق ۳: اگر مرزا قادیانی میں کوئی عقل کا ذرہ ہوتا تو کسی کو راہ سے بھٹکانے کی کوشش نہ کرتے۔ یہ پریشانی تو ان کو ہوئی مگر دیکھو تو سہی اس کا حل قرآن مجید میں موجود ہے کہ ’’واذ أخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم‘‘ الیٰ آخرہ۔ مفہوم کہ ہم نے تمام نبیوں سے یہ عہد لیا تھا کہ جب میرا آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آئے تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا جب تعمیل حکم خداوندی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت محمدی کی متابعت کر کے اسی طریقہ پر نماز پڑھیں گے تو پھر وصیت خداوندی کے برخلاف کیسے ہو گیا۔ نیز حضور علیہ السلام نے فرمایا اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے ایک نبی دوسرے نبی کی تابعداری میں کیا حرج ہے سابقہ نبی کتنے گزرے ہیں۔
جواب شق ۴: صلوٰۃ و زکوٰۃ وغیرہ تمام احکام تکلیف شرعی سے متعلق ہیں۔ اور ان کا محل تعمیل دار دنیا ہے نیز احکام شرعیہ کی ادائیگی اسباب پر موقوف ہے جب تک سبب نہ ہو گا وہ حکم شرعی لاگو نہ ہو سکے گا مثلاً نماز کے لیے حکم ہے اقیموا الصلوٰۃ مگر ساتھ یہ بھی کہ کانت علی المومنین کتابا موقوتا (النساء: ۵۳) بھی ہے وقت ہو گا تو اقیموا الصلوٰۃ موجود ہے مگر لازم ہو گا جب ظہر کا وقت ہوا ایسے ہی زکوٰۃ کہ اس کے لیے مال نصاب کے مطابق ہونا ضروری ہے دوسرا سبب یہ ہے سال اس پر گزر جائے تب جا کر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے تمام انبیاء علیہم السلام کے پاس کبھی ذاتی مال جمع نہیں ہوا جب مال جمع ہی نہیں ہوا تو پہلا سبب ہی معدوم ہوا تو اس پر زکوٰۃ کیسے واجب ہو گی، اب آسمان پر محال ہونے کی بات تب کریں جب آپ دنیا میں اس کو انبیاء علیہم السلام کے لیے ثابت کر سکیں کسی نبی کے پاس نہ کبھی مال جمع ہوا نہ زکوٰۃ یہ تو دنیا میں بھی انبیاء علیہم السلام کے لیے ایک محال ہو گیا آپ کو آسمان کی فکر دامن گیر ہے۔ ایسے ہی (۵) کا جواب اس میں آگیا کہ والدہ زندہ ہوتی تو ان کی خدمت ہوتی جب وہ وفات پا گئیں سبب ہی نہ رہا تو حکم کیسے باقی رہا کتنے لوگ ہوں گے خدائی حکم کے مطابق والدین کے ساتھ حسن سلوک ان کے ذمہ ہے لیکن ان کے والدین زندہ نہیں ہیں تو وہ اس حکم کو کیسے بجا لائیں (کوئی ہے عقل کی رتی)
جواب شق: ۶۔یہ عجیب ابلیسی فیصلہ ہے اگر یہی سوچ ہو تو معاذ اﷲ کئی احکامات بے معنیٰ ہو کر رہ جاتے ہیں مثلاً احکام وراثت والدین کے لیے بچوں کے دودھ پلانے کا حکم، مثلاً اگر کسی کے پاس مال نہیں تو ان کی اولاد میں تقسیم وراثت کا مسئلہ ہی نہیں وغیرہ وغیرہ تو تمام احکامات اسباب پر موقوف ہیں جب سبب ہی نہیں تو انسان ہرگز تارک احکام نہ کہلائے گا، اگر ذرہ توجہ کر لی جائے تو بات صاف ہے کہ مرزا قادیانی پر بھی زکوٰہ فرض تھی حج فرض تھا مگر ساری زندگی نہ حج کیا نہ زکوٰۃ دی نہ قربانی دی کبھی رمضان کے روزوں کی مکمل توفیق نہ ہوئی، نیز اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تو زکوٰۃ نہیں دیتا احکام خداوندی بجا نہیں لاتا تو اس سے اس کی وفات کیسے ثابت ہو گئی ذرہ ماحول پر نظر دوڑائیں تو سہی، ہاں یہ بھی یاد رہے کہ آسمان پر فرشتے نماز پڑھتے ہیں عبادت کرتے ہیں تو عیسیٰ علیہم السلام کی نماز و عبادات میں کیا چیزحارج و رکاوٹ ہے۔
آیت نمبر ۱۱: والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیا۔
اس آیت میں واقعات عظیمہ جو حضرت مسیح کے وجود کے متعلق تھے صرف تین بیان کیے ہیں حالانکہ اگر رفع و نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا کیا نعوذ باﷲ رفع و نزول حضرت مسیح کا مورد اور محل سلام الٰہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ سو اس جگہ پر خدا تعالیٰ کا رفع نزول کا ترک کرنا جو مسیح کی نسبت مسلمانوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ صاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ خیال ہیچ اور خلافِ واقعہ ہے۔ بلکہ وہ رفع یومِ اموت میں داخل ہے اور سراسر باطل ہے۔ (جلد: ۳، ص: ۴۳۸)
اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
(۱) یہ آیت وفاتِ مسیح پر پیش کی گئی ہے۔ مگر ان کا یہ عمل اس آیت کو وفاتِ مسیح پر پیش کرنا اپنے گلے پڑتا نظر آ رہا ہے۔ مثلاً اس آیت میں یوم ولادت سے یوم موت تک سلامتی کا ذکر ہے۔ جبکہ مرزا قادیانی کہہ چکے ہیں کہ مسیح صلیب پر چڑھایا گیا اور شدت درد سے ایسی غشی میں آ گیا کہ گویا وہ موت ہی تھی۔(روحانی خزائن، جلد: ۱۹، ص: ۵۷) مسیح ان کے حوالے کیا گیا اس کو تازیانے لگائے گئے جس قدر گالیاں سننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اڑائے جانا اس کے حق میں مقدر تھا سب نے دیکھا۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۲۹۵) اگر اسی کانام سلامتی ہے تو یہ سلامتی کا تصور کس کا پیش کردہ ہے۔
کیا کسی لغت میں سلامتی کے یہ معنیٰ دکھائے جا سکتے ہیں کہ پہلے کوڑے مارے جائیں جن کے صدمات اور ضربوں سے گوشت پارہ پارہ ہو جائے۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پاؤں کے تلووں میں لمبے لمبے کیل ٹھونکے جائیں اور ان سے خون جاری ہو اگر اس کا نام سلامتی ہے تو یہ سلامتی کا تصور کس کا پیش کردہ ہے۔
(۲) اس آیت میں اموت کا لفظ ہے جو مستقبل کا معنیٰ دے رہا ہے۔ اگر اس آیت کے نزول کے وقت اموت کہ ’’میں مر جاؤں گا‘‘ جب بھی مجھ پر سلامتی ہو گی مستقبل کا صیغہ ہے تو یقینا اس وقت ابھی مرے نہیں تھے۔ اس کے بعد اگر مر گئے ہیں تو اس کا ذکر کس جگہ پر ہے۔
(۳) اب اس بات کی طرف جو مرزا قادیانی نے کہی ہے کہ ’’واقعاتِ عظیمہ جو حضرت مسیح کے وجود کے متعلق تھے صرف تین بیان کیے گئے ہیں اگر رفع و نزول واقعات صحیحہ ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا۔‘‘ یہ سوائے دھوکہ کے کچھ بھی نہیں اگر یہی طرزِ استدلال صحیح ہے تو قرآن مجید میں ہے ’’کتب علیکم الصیام‘‘(بقرہ: ۱۸۳) کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں کوئی کہہ سکتا ہے اگر نماز حج زکوٰۃ بھی فرض ہوتے تو ان اس آیت میں ان کا بھی ذکر ہوتا ہے معلوم ہوا کہ وہ فرض ہی نہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے ہیں اگر یہ بات صحیح ہوتی تو اس آیت میں اس کا ذکر ضرور موجود ہوتا۔ تو طرزِ استدلال ایک ایسا باب کھول رہا ہے اس سے کئی قسم کے اعتراض وارد ہو سکتے ہیں اور کئی اہم مسائل میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
نیز احادیث کی کتب میں کئی ایسے واقعات موجود ہیں کہ سائل نے آ کر حضور علیہ السلام سے سوال کیا کہ اسلام کیا؟ جواب میں آپ نے کبھی کلمہ شہادت، کبھی زکوٰۃ اور کبھی حج بیان فرمایا۔ کیا ایسی احادیث کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ اس حدیث میں فلاں رکن کا ذکر نہیں لہٰذا وہ ارکانِ اسلام میں سے نہیں۔ کیا یہ طرزِ استدلال درست ہے؟ حالانکہ اس سے پہلے مرزا قادیانی خود بھی اپنی کتب میں حیاتِ مسیح ان کا آسمان پر جانا پھر قیامت سے پہلے نزول فرمانا لکھ چکے ہیں۔ تو اس آیت سے اس طرزِ طریق پر رفع ونزول کے ذکر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرنا کیسے درست ہے۔ لہٰذا اس آیت سے وفات مسیح علیہ السلام پر استدلال کرنا باطل ہے۔ حقیقت میں یہ پوری عبارت اس قبیل سے ہے جیسا کہا جاتا ہے الحمد اﷲ اوّلہ و آخرہ، بسم اﷲ اوّلہ و آخرہ۔ ایسے ہی یہ آیت ہے کہ سلام علیٰ اوّلہ و آخرہٖ
آیت نمبر ۱۲: و منکم من یتوفیٰ ومنکم من یرد الیٰ ارذل العمر لکیلا یعلم بعدعلم شیئا۔
اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنت اﷲ دو ہی طرح سے تم پر جاری ہے بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہیں جاتے ہیں اور عمر طبعی کو پہنچتے ہیں یہاں تک کہ ارذل عمر کی طرف رد کیے جاتے ہیں اور اس حد تک نوبت پہنچتی ہے کہ بعد علم کے نادان محض ہو جاتے ہیں۔ (خزائن جلد: ۳، ص، ۴۲۸)
جواب: عبارت قرآنی اصل میں پوری آیت کا ایک ٹکڑا ہے پوری آیت تفصیلی کا قدرے خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے۔ اور وہ یہ ہے۔ یہ آیت قیامت کے منکرین کو سمجھا رہی ہے کہ وہ خدا جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے علقہ بنایا پھر مضغہ بنایا ماں کے پیٹ میں جگہ دی پھر پورا بناکر پیدا فرمایا پھر جوان کیا، پھر تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو کوئی بڑھاپے کی طرف لٹایا جاتا ہے۔ پھر اس کو کوئی علم نہیں رہتا۔ یہ آیت خدا تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتی ہے اور اﷲ تعالیٰ ان کو محالات عقلی کے پیش نظر ان کو سمجھا رہا ہے کہ تم محالاتِ عقلی کی طرف کیوں جاتے ہو؟ تم اپنی پیدائش اور زندگی کے مختلف منازل کو دیکھو اﷲ نے کس طرح تمھیں بنایا۔ جوان کیا ،بڑھاپا لائے۔ کیا اب وہ دوبارہ تمہیں زندہ نہیں کر سکتا؟ جیسا کہ تمہاری پیدائش ایک محال تھی اور اﷲ اس پر قادر ہے پھر قیامت کی صبح تمہیں دوبارہ زندہ کرنا قبروں سے اٹھانا بھی محال نہیں اس آیت میں صرف قانونِ فطرت کا بیان ہے۔ وفاتِ مسیح علیہ السلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اس آیت میں ذکر ہے نطفہ سے پیدائش کا۔ مگر مسیح علیہ السلام تو نطفہ سے پیدا نہیں ہوا۔ (جب مسیح علیہ السلام پہلے سے ہی اس قانون سے مستثنیٰ ہے بغیر مس کرنے مرد کے صدیقہ کے پیٹ میں خلافِ قانون پیدا کیا) تو یہ آیت مسیح علیہ السلام کی وفات پر ہر گز پیش نہیں گی جاسکتی۔ پھر علم طب سے یہ بات ثابت ہے کہ ہڈی نطفہ سے بنتی ہے مسیح علیہ السلام میں ہڈی تھی مگر نطفہ سے نہیں۔ یہ خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے ایسا ہی درازی عمر کے باوجود ارذل العمر سے اﷲ کی قدرت سے محفوظ ہیں۔ باقی مرزا قادیانی کا کہنا کہ ’’سنت دو ہی طرح تم پر جاری ہے بعض عمر طبعی سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں( الخ) کن الفاظ کا ترجمہ ہے آیت میں نہ دو کا لفظ ہے نہ طبعی موت کا دو طریق اور طبعی موت مرزا قادیانی نے اپنی طرف سے لگائے ہیں کیونکہ بعض بچے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں بعض حمل ساقط ہو جاتے ہیں۔ اس سے مرزا قادیانی کا پیش کردہ دو کا حصر ٹوٹ رہا ہے۔ نیز مرزا قادیانی کا کہنا کہ بعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں مگر عمر طبعی کی حد بیان نہیں کی عمر طبعی کیا ہوتی ہے؟ کہ اس سے تجاوز کر جائے تو وہ عمر ارذل ہے یہ اﷲ کے علم میں ہے کہ کس کی کتنی عمر طبعی ہے جب عمر مقرر اختتام کو پہنچتی ہے موت آ جاتی ہے خدا کا فرمان ہے۔ اذا جاء اجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون۔(اعراف: ۳۴) (جب اُن کی مقررہ عمر آجائے گی تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہوں گے نہ ہی آگے)اور یہ تجربات سے ظاہر ہے کہ سو سال کی عمر بڑھاپے کی عمر ہے لیکن قویٰ مضبوط اور صحیح ہیں۔
آیت نمبر ۱۳: و لکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین۔
تم اپنی جسمِ خاکی کے ساتھ زمین پر ہی رہو گے۔ یہاں تک کہ اپنے تمتع کے دن پورے کر کے مر جاؤ یہ آیت خاکی جسم کو آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔ کیونکہ لکم جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے۔ اس بات پر بصراحت دلالت کر رہا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر نہیں جا سکتا۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۲۸)
جواب (۱) اس کے جواب میں چند باتیں ہیں۔ مرزا قادیانی نے مذکورہ ترجمہ میں ’’جسم خاکی‘‘ اور ’’مر جاؤ گے‘‘ قرآن کے کس لفظ کا ترجمہ کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ ’’لکم میں لام تخصیص ہے‘‘ کس کے لیے؟ یہ جان بوجھ کر واضح نہیں کیا۔ البتہ لام تخصیص ماننا ہی اس بات کا توڑ ہے کہ یہ آیت وفاتِ مسیح علیہ السلام پر دلالت نہیں کرتی۔
جواب (۲)لکم میں ضمیر کا مرجع آدم حوّا اور شیطان ہیں۔ لکم میں انہی کی تخصیص ہے۔ کیونکہ پس منظر میں ا نہی کا تذکرہ ہے۔ انہیں سے کہا گیا بعضکم لبعض عدو ولکم فی الارض مستقر و متاع الیٰ حین۔ اور اس وقت کہا گیا جب حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تو اس حکم میں ان کو کیونکر شامل کیا جا سکتا ہے۔
جواب (۳)اگر بقول یا بضد مرزا ’’ذریات‘‘ بھی اس سے مراد لی جائے تو پھر بھی ان کی دلیل نہیں بن سکتی۔ کیونکہ دوسری آیات میں یہ بات آئی ہے کہ جنات زمین چھوڑ کر آسمان پر چڑھتے ہیں کہ شہاب ثاقب ان کے پیچھے لگ کر ان کو خاک کر دیتے ہیں حالانکہ ان کا مستقر بھی زمین ہے۔
جواب (۴)اگر عام بھی لیا جائے تو اس لیے وفاتِ مسیح علیہ السلام پر دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ مستقر بمعنیٰ ہیڈ کوارٹر کے ہے جس کو صدر مقام بھی بولا جاتا ہے کسی کا اپنے ہیڈ کوارٹر میں رہنا اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ کسی اور جگہ پر نہ جا سکے اس کی بے شمار مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔
جواب (۵) الیٰ حین کا ترجمہ مرزا قادیانی نے کیا ہے ’’یہاں تک کہ مر جاؤ‘‘ مگر کسی لغت سے حین کا ترجمہ موت نہیں دکھا سکتے۔ اگر بالفرض والمحال موت معنیٰ کر بھی لیا جائے تو مرزا قادیانی کو فائدہ مند نہیں بلکہ پریشانی کا ہی سبب بنے گا۔ کیونکہ اس وقت جو ترجمہ ہو گا کہ موت تک زمین میں رہنا ہے۔ اس سے ثابت ہو گا موت آنے کے بعد زمین پر رہنا ختم۔ اب لاشیں کہاں جائیں گی۔ زمین پر رہنے کا وقت ختم ہو گیا باقی آسمان ہی بچا۔
آیت نمبر ۱۴: و من نعمرہ ننکسہ فی الخلق۔
اگر مسیح ابن مریم کی نسبت سے کہا جائے کہ اب تک جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ایک مدت دراز سے ان کی انسانیت کے قویٰ میں بالکل فرق آ گیا ہو گا اور یہ حالت صرف موت کو چاہتی ہے۔
(روحانی خزائن جلد :۳ ص: ۴۲۹)
جواب: اس کے جواب میں بھی چند باتیں ہیں:
(۱) پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی کوئی قاعدہ کلیہ بیان کریں کہ اصل عمر کی مقدار کتنی ہے جس کو ارذل کہہ سکیں ہم توریت وغیرہ کتب میں یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر نو سو تیس سال، حضرت شیث علیہ السلام کی عمر نو سو بارہ سال، حضرت نوح علیہ السلام کی ہزار، حضرت ادریس علیہ السلام کی تین سو پینسٹھ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک سو بیس سال کی عمریں تھیں مگر ان کی قویٰ میں فرق نہیں آیا۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ کتنی عمر میں قویٰ کمزور ہو جاتے ہیں کئی واقعات ایسے ہیں کہ پچاس یا پچپن سال کی عمر میں دانت ختم، آنکھوں کی بینائی کام کرنا چھوڑ گئی کان موجود ہیں مگر سنائی نہیں دیتا اور تمام اعضاء جواب دے گئے۔ مگر کئی اشخاص ایسے ہیں کہ سو برس کی عمر ہو گئی آنکھیں اور باقی اعضاء پوری آب و تاب سے کام کر رہے ہیں۔ اور وہ روز مرہ کام کاج کرتے ، چلتے پھرتے ہوئے نہیں تھکتے۔
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی اس بات کو مان چکے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا معاملہ مخلوق سے مختلف ہے۔ اگر مرزا قادیانی کا یہ قانون مان لیا جائے تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نبی تھے جن کا معاملہ خداوندی اور لوگوں سے ہٹ کر ہے۔
(۳) یہ قیاس آرائیاں اﷲ تعالیٰ کی قدرت سے ناواقفیت کی بنا پر ہیں۔
(۴) آسمان کے حالات کو زمین کے حالات پر قیاس کرنا بڑی غلطی ہے، آسمان پر رہنے سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی وگرنہ جبرائیل علیہ السلام، حاملین عرش اور دوسرے فرشتے سب کمزور ہو کر تھک گئے ہوتے۔ عرش نیچے گرا دیتے۔ حضور علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معراج کی رات اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ نے واپسی پر یہ ارشاد فرمایا رأیت عیسیٰ علیہ السلام شاباً
(مسند احمد، جلد: ۱، ص: ۳۷۴)
آیت نمبر ۱۵: اللّٰہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا و شیبہ۔
خدا وہ خدا ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا پھر ضعف کے بعد قوت دی پھر قوت کے بعد ضعف اور پیرانہ سالی دی یہ آیت بھی صریح طور پر اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ کوئی انسان اس قانونِ قدرت سے باہر نہیں ہے۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۲۹)
جواب: اس آیت میں بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کا کوئی ذکر نہیں اشارۃ نہ کنایۃ
(۱) اس جگہ سورۃ روم کی آیت ۵۴ کو سامنے رکھ کر توجہ کیجیے کہ وہ لڑکا جو پیدا ہونے پر ہی فوت ہو گیا اور ایک جوان ہو کر فوت ہو گیا اس آیت کا مصداق کیسے بن سکتے ہیں؟ جب عام حالات میں بھی اس آیت کو قانون کلیہ نہیں بنایا جا سکتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کی پیدائش سے تمام زندگی عام لوگوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے اور آیت اﷲ میں ان کا شمار ہوتا ہے ان پر اس آیت کو چسپاں کر کے ان کے لیے اس آیت سے موت پر دلیل پکڑنا کیسے درست ہے۔
(۲) مرزا قادیانی کا کہنا کہ پیرانہ سالی دی اب پیرانہ سالی اور عمر درازی تو اس سے ثابت ہوتی ہے۔ موت ثابت نہیں ہوتی اس لیے اگر دیکھا جائے تو یہ آیت کسی کی موت پر دلیل نہیں بن سکتی تو مسیح علیہ السلام کی موت پردلیل کیسے بن جائے گی۔
(۳) ہمارے عقیدے کے مطابق سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس وقت ثم جعل من بعد ضعف قوۃکے مصداق کے حال ہیں اور نزول کے بعد ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا و شیبہ کی حالت ان پر طاری ہو گی۔
آیت نمبر ۱۶: انما مثل الحیٰوۃ الدنیا کماء انزلناہ من السمآء فاختلط بہ نبات الارض مما یأکل الناس والانعام۔
اس زندگی دنیا کی مثال یہ ہے کہ جیسے اس پانی کی مثال ہے جس کو ہم آسمان سے اتارتے ہیں پھر زمین کی روئیدگی مل جاتی ہے پھر وہ روئیدگی بڑھتی اور پھولتی ہے اور آخر کار کاٹی جاتی ہے۔ یعنی کھیتی کی طرح انسان پیدا ہوتا ہے، اوّل کمال کی طرف رخ کرتا ہے، پھر اس کا زوال ہو جاتا ہے کیا اس قانون قدرت سے مسیح باہر رکھا گیا ہے۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۳۰)
جواب: مرزا قادیانی کا کمال ہے کہ دلیل دے رہے ہیں وفاتِ مسیح علیہ السلام پر مگر ان کو ذرہ برابر بھی خیال نہیں کہ میں کس طرف جا رہا ہوں اس آیت سے تو یہ ثابت ہوا کہ پانی سے کھیتی اور پھل تیار ہوتے ہیں۔ اور پھر کھیتی کاٹ دی جاتی ہے اسی طرح انسان ہے جو اس کو زندگی ملتی ہے بالآخر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے اس کا کوئی بھی انکاری نہیں اختلاف درازیٔ عمر میں چل رہا ہے اب ذرا دیکھتے ہیں کہ کون کون سی کھیتی کتنی مدت میں تیار ہو کر کاٹی جاتی ہے ذرا دیکھو کدو کھیرا اور ترکاریوں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے جلد پک کر کاٹ لی جاتی ہے۔ یہ بھی کھیتی ہے جب کہ گندم، جو کئی مہینوں کے بعد تیار ہوتی ہے پھر کاٹی جاتی ہے اور دیر تک ان کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا ہے یہ بھی کھیتی ہے درختوں میں آڑو کا درخت دو سال میں تیار ہوتا ہے اور پھل دیتا ہے یہ بھی کھیتی ہے۔ آم اور سیب کا درخت دس بارہ سال میں تیار ہوتا ہے اور پھل دیتا ہے۔ یہ بھی ایک کھیتی ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں مشاہدہ میں آئی ہیں کہ کھیتوں کی عمروں میں بھی برابری نہیں اور نہ ہی قانونِ قدرت ہر ایک میں یکساں جاری۔ بعض حیوانات بہت عمر کے ہوتے ہیں ہیں جیسے سانپ اور گوہ اور بعض تھوڑی عمر کے ہوتے ہیں اس مذکورہ مثالِ قرآنی میں وجہ شبہ صرف نشو و نما ہے مگر عمر کی کوئی حد نہیں ایسا ہی انسانوں کی عمریں مساوی نہیں۔ ان میں قانون نشو و نما تو جاری ہے مگر مساوی نہیں، سب میں مشیتِ ایزدی کام کر رہی ہے۔ منشاء حق کے مطابق سب نباتات پھل پھول دے رہے ہیں۔ جب تک حکم ہے پھل دے رہے ہیں آخر ختم ہو جائیں گے مگر یہ ہرگز نہیں کہ سب ایک مدت کے بعد ختم ہو جائیں گے۔ بعض درخت سینکڑوں سال باقی رہتے ہیں بعض چند سالوں میں۔ اس طرح حیوان، انسان نشو و نما میں تو ایک ہی قانونِ قدرت کے تابع ہیں مگر اپنی ہستی قائم رکھنے میں مختلف مدارج ہیں جو مختلف اور متعدد قوانین کے تحت ہیں۔ اسی طرح مسیح علیہ السلام بھی ہیں۔
آیت نمبر ۱۷: ثم انکم بعد ذٰلک لمیتون۔
یعنی اوّل رفتہ رفتہ تم کو کمال تک پہنچاتا ہے اور پھر کمال پورا کرنے کے بعد زوال کی طرف مائل کرتے ہو، یہاں تک کہ مر جاتے ہو۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۳۰)
جواب (۱) اس میں کون سا لفظ ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے۔
جواب (۲)اس کا صاف معنیٰ یہ ہے کہ پھر تم بعد اس کے مرنے والے ہو ۔ اگر اس کو کھینچ کر مسیح علیہ السلام پر لاگو کیا بھی جائے تو اس سے حضرت مسیح علیہ السلام کی موت کی بجائے حیات ثابت ہوتی ہے کہ وہ مرنے والے ہیں۔ ہم بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ یقینا مرنے والے ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
جواب(۳)اگر مرزا قادیانی کے طریق استدلال کو اپنایا جائے تو کوئی جا کر مرزا مسرور سے کہے کہ تم مر چکے ہو ……کیوں جی پھر یہ آیت پڑھ دے اور مرزا قادیانی کا استدلال پیش کر دے اور تکڑا ہو جائے کہ یقینا تم مر چکے ہو۔ کیسا ہے؟ ایسے شخص کو پاگل ہی کہا جائے گا۔ اب آپ مرزا قادیانی کے بارے میں کیا کہتے ہیں وہ کیا تھے؟
آیت نمبر ۱۸:الم تر ان اللّٰہ انزل من السماء ماء (الی)لأولی الالباب۔
اس آیت کا جواب پہلے آیت نمبر ۱۴ میں آ چکا ہے۔
آیت نمبر۱۹: ما ارسلنا من قبلک من المرسلین الا انہم یأکلون الطعام و یمشون فی الاسواق۔
ہم نے تجھ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے ہیں وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں پھرتے تھے۔ اور پہلے ہم بہ نصِ قرآنی ثابت کر چکے ہیں کہ دنیوی حیات کے لزوم سے طعام کا ہے۔ سو چونکہ اب نبی طعام نہیں کھاتے اس سے ثابت ہے کہ وہ سب فوت ہو چکے ہیں جس کلمہ حصر میں مسیح بھی داخل ہیں۔
(روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۳۱)
جواب: اس کے جواب میں چند باتیں پیش خدمت ہیں:
(۱) یہ آیت منکرین نبوت سے متعلق ہے اور ان کا جواب ہے کیونکہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہ نظر حقارت دیکھتے اور کہتے ما لہذا الرسول یأکل الطعام و یمشی فی الاسواق(فرقان: ۷) یہ کیسا رسول ہے کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اﷲ پاک نے فرمایا کھانا پینا بازاروں میں چلنا پھرنا نبوت کے منافی نہیں۔ سارے پیغمبر ایسے ہی تھے وہ کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔ کوئی ہے عقل مند جو یہ کہے کہ یہ آیت وفاتِ مسیح علیہ السلام پر دلیل ہے۔
(۲) یہ بھی وضاحت ہونی چاہیے کیا کھانا پینا اور بازاروں میں چلنا پھرنا انبیاء علیہم السلام کے لیے لازم تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ وقت کھاتے پیتے ہی رہتے ہوں بلکہ یوں کہو کہ ہر نبی اپنے تمام عمر کا ہر لمحہ اپنے کھانا پینے اور بازاروں میں چلتے پھرتے گزارا یقینا کوئی بھی اس آیت سے ایسا مفہوم اخذ کرنے کے لیے تیار نہیں نیز اگر کوئی یہ کہہ دے کہ مرزا مسرور فوت ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے ان کو کبھی بھی کھاتے پیتے نہیں دیکھا کیا اس سے وہ فوت شدہ مانے جائیں گے؟
(۳) مرزا قادیانی کا بار بار کہنا کہ مسیح کھانا نہیں کھاتے اس لیے وہ فوت ہو گئے کیا ہر کسی کی زندگی کے لیے لازم ہے کہ جب وہ کھانا کھائے تو تمام انسانوں کو دکھا کر کھائے جو شخص اس کو کھانا کھاتے نہ دیکھ سکے اس کے نزدیک دوسرا شخص فوت شدہ ہی مانا جائے۔
(۴) معتکف اور صائم کو دیکھ کر یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اب بازاروں میں چلنے پھرنے اور دن کو کھانے پینے کی صفت ختم ہو گئی لہٰذا وہ فوت ہوگئے۔
آیت نمبر۲۰: والذین یدعون من دون اللّٰہ لا یخلقون شیئا و ہم یخلقون اموات غیر احیاء و ما یشعرون ایان یبعثون۔
جو لوگ غیر اﷲ کی پرستش کیے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔ یہ آیتیں کس قدر صراحت سے مسیح اور سب انسانوں کی وفات پر دلالت کر رہی ہیں جن کو یہود و نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنا معبود ٹھہراتے تھے۔ اگر اب بھی آپ لوگ مسیح بن مریم کی وفات کے قائل نہیں ہوئے تو یہ سیدھے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہمیں قرآن ماننے میں کلام ہے۔ قرآن کریم کی آیتیں سن کر پھر وہیں ٹھہر نہ جانا کیا ایمانداروں کا کام ہے۔ (روحانی خزائن، جلد: ۳، ص: ۴۳۱)
جواب: اس کے جواب میں چند باتیں ہیں:
(۱) ترجمہ کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے ’’جو لوگ‘‘ کے لفظ اپنی طرف سے کیے ہیں۔ جبکہ قرآن میں تین باتیں ایسی ہیں جو عموم کا مفہوم رکھتی ہیں کوئی جن و انس، حیوان اس سے باہر نہیں (۱) من دون اﷲ میں کل مخلوق شامل ہے (۲) کسی شئی کا خالق نہ ہونا یہ بھی سب کو شامل ہے (۳) مخلوق ہونا اﷲ کے بغیر سب کو محیط ہے۔ پس ان صفتوں والا اگر کسی قوم کا یا قبیلے کا معبود سمجھا جاتا ہے تو وہ مردود ہے
(۲) اگر توجہ کی جائے تو مرزا قادیانی اس آیت کو وفاتِ مسیح علیہ السلام پر اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ چونکہ عیسائی، عیسیٰ علیہ السلام کو معبود جانتے ہیں اور اس آیت میں صاف موجود ہے والذین یدعون من دون اللّٰہ اور پھر ہے اموات غیر احیاء شامل ہو گئے۔ یہ طریقہ دھوکہ دہی ہے جس سے پردہ چاک کرتے ہیں۔
(الف) جیسے عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو معبود جانتے ہیں ایسے ہی روح القدس کو بھی معبود سمجھتے ہیں ان کے مذہب پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ثالث ثلاثہ کے قائل ہیں، ایک اﷲ تعالیٰ دوسرے مسیح علیہ السلام، تیسرے روح القدس۔ کیا اس آیت سے صرف مسیح علیہ السلام کی وفات ثابت ہوئی یا روح القدس کی بھی۔ اگر روح القدس کی وفات ماننے کے لیے تیار نہیں تو آخر کیوں؟ وہ بھی تو من دون اﷲ میں شامل ہیں۔
(ب) قرآن مجید کی آیت انکم و ما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جہنم۔(انبیاء: ۹۸) جب نازل ہوئی تو مشرکین بغلیں بجانے لگے تالیاں بجائیں اور کہا کہ ہمارے بُت اگر جہنم میں ڈالے جائیں گے تو عیسائیوں کا معبود مسیح بھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ما ضربوہ لک الا جدلا بل ہم قوم خصمون۔ان ہو الا عبد انعمنا علیہ ( زخرف: ۵۸۔۵۹) مسیح کی جو مثال انہوں نے بیان کی ہے ان کا مجادلہ (بے بات کا مجادلہ) ہے یہ لوگ محض خصومت کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں بلکہ وہ (حضرت مسیح علیہ السلام) تو خدا کے بندے ہیں جس پر اﷲ نے نعمت کی ہے۔
مرزا قادیانی نے جو طریقہ استدلال اختیار کیا ہے یہ مشرکین کر چکے اور اس استدلال کی خدا تعالیٰ نے نفی کر دی ہے۔ مرزا قادیانی فیصلہ کریں کہ اب اس کے بعد ان کی استدلال کی کیا حیثیت رہی؟
(۳) اس آیت میں بُت مراد ہیں نہ کہ مسیح علیہ السلام۔ کیوں کہ اموات غیر احیاء بتوں کی صفت ہے جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ تھے (اور زندہ ہیں) بتوں میں کبھی بھی حیات نہیں رہی تو حضرت مسیح علیہ السلام میں مرزا قادیانی کے بقول حیات تھی تو اس میں کیسے شامل ہو گا؟
(۴) اموات غیر احیاء کے الفاظ پر توجہ کر لی جائے کیا من دون اﷲ میں سے جن کو پکارا جاتا ہے یہ اموات غیر احیائحالا ہیں یا مآلا اگر حالاً مراد لی جائے تو یہ باطل ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی نے آج ہی کسی کو معبود بنایا اور معبود صاحب ابھی فوت ہو گئے البتہ مآلاً ہو سکتا ہے آخر مرنا ہے یہ بات صحیح ہے اگر اس اعتبار سے اس آیت میں مسیح علیہ السلام کو بھی شامل کر لیا جائے تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یقینا وہ مرنے والے ہیں مگر اس نے ابھی وفات نہیں پائی۔ اس سے اس وقت وفاتِ مسیح علیہ السلام ثابت نہیں ہوتی۔
(۵) قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج چاند کی بھی پوجا کی جاتی ہے کیا وہ وفات پا چکے ہیں یعنی فنا ہو چکے ہیں ہرگز نہیں، حالانکہ ان کی پوجا کرنے والے اب بھی موجود ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے کیوں اتنی سختی ہے کہ چونکہ وہ معبود بنائے گئے تو وہ فوت ہو گئے۔
آیت نمبر ۲۱: ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین۔
محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اﷲ ہے اور ختم کرنے والا ہے نبیوں کا۔ یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔ پس اس سے بھی بکمال وضاحت ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اﷲ دنیا میں آ نہیں سکتا۔ کیونکہ مسیح ابن مریم رسول ہے اور رسو لی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرائیل حاصل کرے۔ اور ابھی ثابت ہو چکا ہے کہ اب وحی رسالت تا بقیامت منقطع ہے۔ اس سے ضروری طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح ابن مریم ہرگز نہیں آئے گا اور یہ امر خود مستلزم اس بات کو ہے کہ وہ مر گیا۔ اور یہ خیال کہ پھر وہ موت کے بعد زندہ ہو گیا مخالف کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ اگر وہ زندہ بھی ہو گیا تاہم اس کی رسالت جو اس کے لیے لازم غیر منفک ہے اسے دنیا میں آنے سے روکتی ہے۔ ما سوا اس کے ہم بیان کر آئے ہیں کہ مسیح کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اس قسم کا نہیں جیسا کہ خیال کیا گیا ہے بلکہ شہداء کی زندگی کے موافق ہے جس میں مراتب قرب و کمال حاصل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی حیات کا قرآن کریم میں جا بجا بیان کیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے یہ آیت قرآن شریف میں درج ہے والذی یمیتنی ثم یحیین یعنی وہ خدا جو مجھے مارتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے۔ اس موت اور حیات سے مراد صرف جسمانی موت اور حیات نہیں بلکہ اس موت اور حیات کی طرف اشارہ ہے جو سالک کو اپنے مقامات و منازل سلوک میں پیش آتی ہے۔ چنانچہ وہ خلق کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور خالق حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے اور پھر اپنے رفقاء کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور رفیق اعلیٰ کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر اپنے نفس کی محبت ذاتی سے مارا جاتا ہے اور محبوب حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی موتیں اس پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور کئی حیاتیں۔ یہاں تک کہ کامل حیات کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے سو وہ کامل حیات جو اس سفلی دنیا کے چھوڑنے کے بعد ملتی ہے وہ جسم خاکی کی حیات نہیں بلکہ اور رنگ اور شان کی حیات ہے۔ قال اللّٰہ تعالیٰ وان الدار الاٰخرۃ لہی الحیوان لو کانو یعلمون۔(الجزو نمبر ۲۱) (روحانی خزائن جلد۳، ص ۴۳۱،۴۳۲)
اس آیت کے تحت مرزا قادیانی نے جو کچھ لکھا ہے وہ لمبی داستان ہے اصل یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس آیت کے تحت حضور آخری نبی ہیں اگر عیسیٰ زندہ ہیں اور بہ نفس نفیس قیامت سے پہلے آنے والے ہیں تو حضور کے بعد پھر یہ آیت کسی کے آنے کو تسلیم نہیں کرتی، تو وہ کیسے آ سکتے ہیں؟
جواب: اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: و اذ اخذ اللّٰہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب و حکمت ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہٖ و لتنصرنہ قال ا اقررتم و اخذتم علی ذٰلکم اصری قالوا اقررنا۔(آل عمران: ۸۱)
جس کا ترجمہ یہ ہے کہ: اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تمام انبیاء سے وعدہ لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں تو پھر آ جائے تمہارے پاس رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) جو تصدیق کرے جو تمہارے پاس والی کتاب کی اس رسول پر تم ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور میرا عہد قبول کیا تو انبیاء نے کہا ہم نے اقرار کیا۔
اس آیت میں یہ بات واضح ہے کہ جس قدر انبیاء اور رسول حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک گزرے ہیں یہ سب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم محمد رسول اﷲ کی امت میں اپنے آپ کو داخل و شمار سمجھیں گے اور ان پر ایمان لائیں گے۔ اس آیت کی عملی تفسیر معراج کی رات سامنے آئی کہ حضور علیہ السلام نے امامت فرمائی حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء نے آپ کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل کیا اور مقتدی بنے اس آیت کے مفہوم کے مطابق سارے کے سارے انبیاء جب حضور کی امت میں شامل معلوم ہوتے ہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اس میثاقِ ازلی کے ایفاء کے طور پر دنیا میں آنا خلیفۃ المسلمین بننا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلیٰ درجۂ رسالت کا مظہر ہے۔ نہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے درجۂ خاتمیت کے منافی۔
اب اس کے بعد مرزا قادیانی کا لکھنا کہ مسیح کا آپ کے بعد آنا خاتم النبیین کے منافی ہے یہ سمجھ سے بالا ہے کہ وہ کون سے ضرورت آن پڑی کے وہ اپنے لکھے کا انکار کر رہے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید یہ شہادت دیتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں ہیں لہٰذا ان میں سے کسی ایک کا آنا اور خلیفہ بننا بعینہٖ ایسے ہی جیسے سیدنا صدیق و سیدنا فاروق رضی اﷲ عنہما۔ نیز جیسے سیدانا ابوبکر وسیدنا عمر رضی اﷲ عنہما صحابیت کا مقام پا چکے ایسے ہی حضرت مسیح علیہ السلام بھی یہ مقام معراج کی رات پا چکے ہیں کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے معراج کی رات ملنا ثابت ہے۔ اس قضیے کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ہمارے ملک کا بادشاہ دوسرے ملک میں جائے باوجود اس کے کہ وہ ہمارے ملک کا بادشاہ ہے دوسرے ملک والے اس کو پروٹوکول تو باشاہ کا دیں گے لیکن دوسرے ملک میں اس کا کسی قسم کوئی عمل دخل نہیں ہو گا اور نہ اس بادشاہ کے منصب، عزت و وقار میں کوئی کمی آئے گی۔ ایسے ہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے اب وہ امتِ محمدیہ میں آئیں گے تو اس کی مثال ایسے ہی جیسے ایک ملک کا بادشاہ دوسرے ملک میں جائے۔ اور پھر یہ کہ اسی دنیاوی زندگی میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کر چکے ہیں تو وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی بھی ٹھہرے۔ نبوت ان کو پہلے مل چکی اور بنی اسرائیل کے لیے نبوت کے کارہائے نمایاں ادا کرچکے۔ اور حضور کی صحابیت کا شرف اب مل گیا۔ نبوت کا وہ کام ختم کر چکے تو اب صحابی کی حیثیت سے حضور کی امت میں تشریف لائیں گے اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اﷲ عنہما کی طرح حضور کے خلیفہ بھی ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ایک نبی یا رسول کیسے امتی ہو کر آ سکتا ہے کہ یہ خلافِ عقل بات ہے کہ نبوت و رسالت کا مقام اعلیٰ ہے امتی کا مقام کم ہے اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء کی تاریخ میں یہ بات موجود ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی بھی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اُمّتی اور صحابی بھی تھے اور یحییٰ علیہ السلام خود نبی بھی تھے اور زکریا علیہ السلام کے اُمّتی بھی تھے۔
آیت نمبر ۲۲: فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔
یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہو جاوے۔ سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ کیا اگر کسی نبی گزشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہو تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارتوں کے کچھ اور معنیٰ ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہم شکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم آپ ہی فیصل کر چکے ہیں اور ان کے فیصلہ کا ہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے۔ دیکھو کتاب سلاطین و کتاب ملا کی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اترنا کس طور سے حضرت مسیح نے بیان فرمایا ہے۔
(روحانی خزائن، جلد ۳، ص ۴۳۳)
قارئین کرام آیت کا درست ترجمہ یہ ہے : ’’اگر تم کو معلوم نہ ہو تب اہل کتاب سے پوچھو‘‘
اس واضح ترجمہ کے بعد پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ مسئلہ حیاتِ مسیح علیہ السلام پر اہل اسلام کبھی بھی ’’لا تعلمون ‘‘کی پوزیشن میں نہیں رہے بلکہ قرآن مجید سے لے کر احادیث رسول علیہ السلام تک ہر جگہ اس مسئلہ کی اتنی وضاحت موجود ہے کہ کسی کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں دقت ہی نہیں رہی اس واقعہ کی اتنی تفصیل موجود ہے کہ شاید اتنی تفصیل کسی پیش گوئی میں ہو۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم صرف اتمامِ حجّت کے لیے اہل کتاب سے رجوع کرنے میں بخل نہیں کرتے۔
(لیجیے انجیل متی باب: ۲۴، آیت: ۳ پر ہے) جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا اس کے شاگرد اس کے پاس آئے اور بولے کہ یہ کب ہو گا اور تیرے آنے کا اور دنیا کے اخیر کا نشان کیا ہے۔
(آیت: ۴) اور یسوع جواب دے کر انہیں خبردار رہو کہ کوئی تمہیں گمراہ نہ کرے۔
(آیت: ۵) کیونکہ بہتیرے میرے نام پر آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں ور بہتوں کو گمراہ کریں گے۔
انجیل کی اس عبارت سے جو باتیں واضح ہوتی ہیں:
(۱) حضرت مسیح علیہ السلام خود اصالتاً نزول فرمائیں گے کیونکہ مسیح علیہ السلام کے شاگردوں کا سوال ظاہر کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے شاگردوں کو فرمایا کہ میں خود ہی قیامت کے قریب آؤں گا۔
(۲) د وسری بات کہ جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے نیز یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہیں جب ہی تو اصالتاً آنے کا ذکر ہے۔
آیت نمبر: ۲۳
یاٰ ایتہا النفس المطمئنہ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیۃ۔فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔
یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پھر اس کے بعد میرے ان بندوں میں داخل ہو جا جو دنیا کو چھوڑ گئے ہیں اور میرے بہشت کے اندر آ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان جب تک فوت نہ ہو جائے گزشتہ لوگوں کی جماعت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔ لیکن معراج کی حدیث سے جس کو بخاری نے بھی مبسوط طور پر اپنے صحیح میں لکھا ہے۔ ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم فوت شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے لہٰذا حسب دلالت صریحہ اس نص کے مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ضروری طور پر ماننا پڑا۔
(روحانی خزائن، جلد ۳، ص ۴۳۳)
جواب نمبر (۱) اس آیت کا تعلق قیامت برپا ہو جانے کے بعد سے ہے جو لوگ میزان اعمال سے گزر کر کامیابی حاصل کر لیں گے ان کے حق میں یہ آیت ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے۔ یا ایتہا النفس المطمئنۃ۔ارجعی الیٰ ربّک راضیۃ مرضیۃ۔فادخلی فی عبادی۔وادخلی جنتی۔(فجر: ۲۷۔ ۲۸۔ ۲۹)
ترجمہ: اے اطمینان والے نفس اپنے رب کی طرف پھر جا تو اس سے راضی وہ تیرے سے راضی پھر میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلا آ۔
کیا قیامت برپا ہو چکی حساب و کتاب ہو چکا اﷲ فرما رہے ہیں۔ یا ایتہا النفس المطمئنۃ۔
جواب نمبر (۲) مرزا قادیانی نے حسبِ سابق تحریف سے کام لیا ہے اور اپنے من مانے ترجمہ کو حاصل کرنے کے لیے آیت کے نیچے اپنی مرضی کا ترجمہ کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہا ہے۔ مثلاً ’’جو دنیا کو چھوڑ گئے ہیں‘‘ اس آیت میں کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ہے۔ ’’انسان جب تک فوت نہ ہو جائے گزشتہ لوگوں کی جماعت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا‘‘ یہ پورا مفہوم قرآن کی کس آیت یا احادیث کے ذخیرے میں کس حدیث سے اخذ کیا گیا ہے۔
جواب نمبر (۳) ملاقات اور رؤیت کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ زندہ کی زندہ سے ملاقات، یہ تو انسان روزانہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا رہتا ہے۔
۲۔ ایک دوسرے سے روحانی ملاقات جو خواب میں کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ دو آدمی آپس میں ملاقات کر رہے ہیں مگر دونوں فوت ہو چکے ہیں۔
۳۔ ایک طرف سے جسمانی دنیوی زندگی والا دوسری طرف روحانی زندگی میں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبر والوں کو ایک معمولی گناہ غیبت اور پیشاب سے پرہیز نہ کرنے پر عذاب ہو رہا ہے۔
جواب نمبر (۴) معراج والی حدیث کا حوالہ دے کر مرزا قادیانی خود پھنس رہے ہیں کیونکہ اگر مسیح علیہ السلام باقی فوت شدہ انبیاء علیہم السلام میں دیکھے گئے اس لیے ان کو فوت شدہ مانا جائے تو پھر کیا خیال ہے۔ خود حضور علیہ السلام بھی ان میں دیکھے گئے کیا وہ بھی فوت شدہ تھے؟ نیز مرزا قادیانی کا کہنا کہ انسان جب تک فوت نہ ہو جائے گزشتہ لوگوں کی جماعت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا تو مرزا قادیانی سے پوچھا جا سکتا ہے کیا حضور علیہ السلام فوت شدہ تھے کہ وہ فوت شدہ نبیوں میں دیکھے گئے بہرحال مذکورہ بالا تحریر سے واضح ہوا کہ مرزا قادیانی کا اس آیت کو وفات مسیح پر دلیل بنا کر پیش کرنا باطل ٹھہرا نیز حدیث معراج سے استدلال کرنا بھی باطل ٹھہرا۔
آیت نمبر ۲۴: اللّٰہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم۔
(پارہ ۲۱، سورۃ الروم)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنا قانون قدرت یہ بتلایا ہے کہ انسان کی زندگی میں صرف چار واقعات ہیں۔ پہلے وہ پیدا کیا جاتا ہے پھر تکمیل اور تربیت کے لیے روحانی اور جسمانی طور پر رزق مقسوم اسے ملتا ہے پھر اس پر موت وارد ہوتی ہے۔ پھر وہ زندہ کیا جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ان آیات میں کوئی ایسا کلمہ استثنائی نہیں۔ جس کی رو سے مسیح کے واقعات خاصہ باہر رکھے گئے ہوں حالانکہ قرآن کریم اوّل سے آخر تک یہ التزام رکھتا ہے کہ اگر کسی واقعہ کے ذکر کرنے کے وقت کوئی فرد بشر باہر نکالنے کے لائق ہو تو فی الفور اس قاعدہ کلیہ سے اس کو باہر نکال لیتا ہے یا اس کے واقعات خاصہ بیان کر دیتا ہے۔
(روحانی خزائن، جلد۳، ص ۴۳۴)
مرزا کی اس عبارت میں یہ باتیں توجہ طلب ہیں:
(۱)اﷲ تعالیٰ اپنا قانون قدرت یہ بتلاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں صرف چار واقعات ہیں۔
(۲)ان آیات میں کوئی کلمہ استثنائی نہیں جس کی رو سے مسیح کے واقعات خاصہ باہر رکھے گئے ہوں حالانکہ قرآن کریم اوّل سے آخرتک یہ التزام رکھتا ہے کہ اگر کسی واقعہ کے ذکر کرنے کے وقت کوئی فرد بشر باہر نکالنے کے لائق ہو تو فی الفور اس قاعدہ کلیہ سے ان کو باہر نکال لیتا ہے۔
جواب نمبر (۱) :مرزا قادیانی اس آیت کو قانون کلی کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالانکہ یہ آیت قانون کلی نہیں ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان پیدا ہوتے ہی رزق حاصل کیے بغیر فوت ہو جاتا ہے، نیز ثم یحییکممیں حیات کی کسی خاص مقدار کو نہیں مقرر کیا گیاکہ کوئی کتنا زندہ رہے گا۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کو ایک لمحہ کی زندگی میسر آتی تو کسی کو سو سال۔
جواب نمبر (۲) : دوسرا کلیہ بھی بالکل غلط ہے اور قرآنی اسلوب کے خلاف ہے مثلاً قرآن مجید میں: خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب۔(طارق: ۶۔ ۷)
ترجمہ: وہ پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔
توجہ کیجیے انسان کی تخلیق کایہ قانون مطلق ہے مگر حضرت آدم و حوّا حضرت مسیح علیہم السلام اس میں شامل بھی نہیں ان کو لفظاً مستثنیٰ قرار بھی نہیں دیا گیا۔ لہٰذا مرزا قادیانی کی پیش کردہ آیت سے بھی وفات مسیح ثابت نہیں ہو سکتی۔ ہاں ہم مسیح علیہ السلام سے متعلق ان چاروں مراحل کا اعتراف کرتے ہیں اس وقت وہ ثم رزقکم کے مرحلہ میں ہیں پھر آخر میں ثم یمیتکم کے مرحلے میں آئیں گے۔ اگر مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ آیت کی طرف توجہ کی جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر چارگانہ واقعات کے ساتھ الگ الگ حرف ثم لگا ہوا ہے۔ جو یہ بتاتا ہے کہ یہ تمام واقعات کسی شخص پر آن واحد میں نہیں گزرے بلکہ ان سب میں تراخی (دیر اور فاصلہ) اور ترتیب کا ہونا ضروری ہے اور پھر یہ کہ آیت کے ابتدائی جملے ماضی کے ہیں (خلقکم، رزقکم)(روم: ۴۰) جب کہ یمیتکم، یحییکم مضارع ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو مرحلے گزر گئے ہیں جب کہ دو آئندہ ہونے والے ہیں جب پوری آیت کا مفہوم مجموعی زندہ جانداروں کی وفات بالفعل کا مقتضی نہیں ہے بلکہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ سب نے مر جانا ہے تو پھر وفات مسیح علیہ السلام پر اس سے استدلال کرنا چہ معنیٰ دارد
آیت نمبر۲۵: کل من علیہا فان،و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔(پارہ نمبر: ۲۷، سورۃ الرحمن)
یعنی ہر ایک چیز جو زمین میں موجود ہے اور زمین سے نکلتی ہے وہ معرض فنا میں ہے یعنی دمبدم فنا کی طرف میل کررہی ہے۔ مطلب یہ کہ ہر ایک جسم خاکی کو نابود ہونے کی طرف ایک حرکت ہے اور کوئی وقت اس حرکت سے خالی نہیں۔ وہی حرکت بچہ کو جوان کر دیتی ہے اور جوان کو بڈھا اور بڈھے کو قبر میں ڈال دیتی ہے اور اس قانون قدرت سے کوئی باہر نہیں۔ خدا تعالیٰ نے فانٍ کا لفظ اختیار کیا یفنی نہیں کہا تا کہ معلوم ہو کہ فنا ایسی چیز نہیں کہ کسی آئندہ زمانہ میں یک دفعہ واقعہ ہو گی بلکہ سلسلہ فنا کا ساتھ ساتھ جاری ہے لیکن ہمارے مولوی یہ گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اسی فانی جسم کے ساتھ جس میں بموجب نص صریح کے ہر دم فنا کام کر رہی ہے بلا تغیّر و تبدّل آسمان پر بیٹھا ہے اور زمانہ اس پر اثر نہیں کرتا۔ حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی مسیح کو کائنات الارض میں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔
اے حضرات مولوی صاحبان کہاں گئی تمہاری توحید اور کہاں گئے وہ لمبے چوڑے دعوے اطاعتِ قرآن کریم کے۔ ہل منکم رجل فی قلبہ عظمۃ القراٰن مثقال ذرّۃ؟ (روحانی خزائن، جلد۳، ص ۴۳۴)
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری مخلوق فنا ہونے والی ہے مگر کب؟ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مرزا مسرور (قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ) فوت ہو گئے ہیں اور دلیل میں یہ آیت پڑھ دے کیا خیال ہے اس سے مان لیا جائے گا کہ واقعتا مرزا مسرور فوت ہو چکے ہیں؟ یا یہ کہا جائے کہ ساری دنیا فنا ہو چکی ہے اور اس پر یہ آیت پڑھ دی جائے تو واقعتا اس کی بات مان لی جائے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ فنا دو قسم پر ہے (۱) فنا بالفعل (۲) فنا بالقوہ
اس آیت میں فنا بالفعل کا سرے سے تذکرہ ہی نہیں ہے فنا بالقوہ کا تذکرہ ہے کہ یقینا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح علیہ السلام فنا میں آنے والے ہیں مگر اس وقت ان پر فنا نہیں ہے کیونکہ فنا بالفعل کا اس آیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ تو اس سے وفاتِ مسیح علیہ السلام پر استدلال کیسے درست ہے۔
آیت نمبر ۲۶: ان المتقین فی جنّٰتٍ و نہر فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر۔
(پارہ ۲۷، سورۃ القمر)
یعنی متقی لوگ جو خدا تعالیٰ سے ڈر کر ہر ایک قسم کی سرکشی کو چھوڑ دیتے ہیں وہ فوت ہونے کے بعد جنّات اور نہر میں ہیں صدق کی نشست گاہ میں با اقتدار بادشاہ کے پاس۔ اب ان آیات کی رو سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے دخول جنت اور مقعد صدق میں تلازم رکھا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے پاس پہنچنا اور جنت میں داخل ہونا ایک دوسرے کا لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ سو اگر رافعک الیّ کے یہی معنیٰ ہیں جو مسیح خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو بلا شبہ وہ جنت میں بھی داخل ہو گیا جیسا کہ دوسری آیت یعنی ارجعی الیٰ ربک جو رافعک الی کے ہم معنیٰ ہے بصراحت اسی پر دلالت کر رہی ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانا اور گزشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہوجانا اور بہشت میں داخل ہو جانا یہ تینوں مفہوم ایک ہی آن میں پورے ہو جاتے ہیں۔ پس اس آیت سے بھی مسیح ابن مریم کا فوت ہونا ہی ثابت ہوا۔
(روحانی خزائن، جلد۳، ص ۴۳۵)
اس جگہ مرزا قادیانی کی استدلالی عبارت سے یہ باتیں قابلِ ذکر ہیں:
(۱) وہ فوت ہونے کے بعد جَنّات اور نہر میں ہیں۔
(۲) خدا تعالیٰ نے دخول جنت اور مقعد صدق میں تلاز م رکھا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے پاس پہنچنا اور جنت میں داخل ہونا ایک دوسرے کا لازم ٹھہرایا گیا ہے۔
(۳) خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا جانا اور گزشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہو جانا، بہشت میں داخل ہو جانا یہ تینوں مفہوم ایک ہی آن میں پورے ہو جاتے ہیں۔
جواب نمبر (۱)آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے ’’وہ فوت ہونے کے بعد‘‘ کی عبارت خود ہی بڑھا دی ہے جب کہ اس آیت میں ایسے الفاظ نہیں ہیں جن کا یہ ترجمہ ہو مرزا قادیانی یہ الفاظ ’’وہ فوت ہونے کے بعد‘‘ بڑھا کر اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کر کے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی منشاء پوری نہیں کر سکے کیونکہ اس آیت میں قیامت کے بعد متقیوں کے جنت میں داخلے کا ذکر ہے نہ کہ مرنے کے ساتھ ہی جنت میں داخلہ کا ذکر ہے۔
جواب نمبر (۲)مرزا قادیانی کا کہنا کہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایا جانا اور گزشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہو جانا اور بہشت میں داخل ہو جانا یہ تینوں ایک ہی آن میں پورے ہو جاتے ہیں یہ مرزا قادیانی کا اپنا گھریلو تصور ہے۔
جواب نمبر (۳) اگر مقربین میں داخل ہونا وفات کی دلیل ہے تو پھر معراج کی رات حضور علیہ السلام مقربین (انبیاء علیہم السلام) میں داخل ہوئے بوجہ مقربین میں داخل ہونے کے آپ پر بھی موت کا آجانا لازمی ہوتا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تو پھر مسیح علیہ السلام کا مقربین میں صرف داخل ہونا کیونکر ان کی موت کی دلیل ہے۔ نیز اس آیت سے کسی طور پر وفات مسیح علیہ السلام ثابت کرنا درست نہیں کیونکہ اس آیت میں کچھ بھی اشارہ نہیں کہ مسیح بہشت میں داخل ہو گیا جو مرنے کے بعد ہونا تھا۔ بلکہ یہ تو عام وعدہ خداوندی ہے کہ متقی و پرہیز گار لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔
آیت نمبر ۲۷:
ان الذین سبقت لہم منّا الحسنٰٓی اولٰئک عنہا مبعدون لا یسمعون حسیسہا و ہم فی ما اشتہت انفسہم خٰلدون۔
یعنی جو لوگ جنتی ہیں اور ان کا جنتی ہونا ہماری طرف سے قرار پا چکا ہے۔ وہ دوزخ سے دور کیے گئے ہیں اور وہ بہشت کی دائمی لذّات میں ہیں۔ اس آیت سے مراد حضرت عزیر اور حضرت مسیح ہیں اور ان کا بہشت میں داخل ہو جانا اس سے ثابت ہوتا ہے جس سے ان کی موت بھی بپایہ ثبوت پہنچتی ہے۔
(روحانی خزائن، جلد ۳، ص ۴۳۵، ۴۳۶)
جواب: اس کے جواب میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق قیامت برپا ہونے کے بعد سے ہے۔
(۲) دوسری بات کہ اس آیت کا مصداق صرف حضرت مسیح و عزیر علیہما السلام کو ہی بتانا سراسر بد دیانتی ہے۔
(۳) تیسری بات کہ اگر یہی بات مرزا قادیانی کی مان لی جائے کے مرنے کے ساتھ ہی نیکو کار بہشت میں چلے جاتے ہیں تو کیا ہم مرزا قادیانی سے پوچھ سکتے ہیں کہ بہشت زمین پر ہے یا آسمان پر اگر زمین پر ہے تو یہ بالکل باطل ہے اور اگر کہا جائے کہ بہشت آسمان پر ہے تو پھر انسان کا جسد عنصری آسمان پر جانا ثابت ہو گا یہ بات مرزا قادیانی کے پورے مشن کو ہلا کر رکھ دے گی۔ لہٰذا اس آیت سے بھی وفات مسیح علیہ السلام پر دلیل پکڑنا باطل ٹھہرا۔
آیت نمبر ۲۸: این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدہ۔(الجز و نمبر ۵)
یعنی جس جگہ تم ہو اسی جگہ موت تمہیں پکڑے گی اگرچہ تم بڑے مرتفع برجوں میں بود و باش اختیار کرو۔ اس آیت سے بھی صریح ثابت ہوتا ہے کہ موت اور لوازم موت ہر ایک جسم خاکی پر وارد ہو جاتے ہیں۔ یہی سنت اﷲ ہے اور اس جگہ بھی استثناء کے طور پر کوئی ایسی عبارت بلکہ ایک ایسا کلمہ بھی نہیں لکھا گیا ہے جس سے مسیح باہر رہ جاتا۔ پس بلاشبہ یہ اشارۃ النص بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کر رہے ہیں۔ موت کے تعاقب سے مراد زمانہ کا اثر ہے جو ضعف اور پیری یا امراض و آفات منجر الی الموت تک پہنچاتا ہے۔ اس سے کوئی نفس مخلوق خالی نہیں۔
(روحانی خزائن، جلد۳، ص ۴۳۶)
اس کے تحت چند باتیں پیش خدمت ہیں:
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول دیکھا جائے کہ یہ آیت کس پس منظر میں نازل ہوئی اور وہ یہ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہجرت کر کے جب مدینہ تشریف لے گئے کفار مکہ نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا جس کا پتہ چلنے پر کفار کے ساتھ مقابلہ کے لیے تیاری کا حکم فرمایا تو بعض کمزور طبع حضرات نے مقابلہ سے جی چرایا جس پر تنبیہاً کئی آیات نازل ہوئیں ان میں ایک آیت یہ بھی ہے جس میں ہے کہ مقابلہ کرنے سے جی چرا رہے ہو کہ موت نہ آئے۔ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے اگر چہ بلند و بالا برجوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ موت کا لازم ہونا اور بات ہے واقع ہونا اور بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زمانہ سے لوازم موت وارد ہوتے ہیں مثلاً بیماری یا بڑھاپا وغیرہ تو یہ کوئی قانون نہیں ہے بلکہ بعض پیدائش کے ساتھ ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور بعض طبعی عمر پاتے ہیں موت نہ بیماری سے آتی ہے نہ بڑھاپے کی وجہ سے بلکہ اﷲ کے علم میں جو اس کا وقت ہو۔ اسی وقت موت کسی پر آتی ہے۔ باقی مرزا قادیانی کا کہنا کہ زمانہ سے جسم پر لوازم موت وارد ہوتے ہیں یہ کفار کا نظریہ ہے اسلام کا سکھایا ہوا عقیدہ نہیں۔
آیت نمبر ۲۹: ما اٰتٰکم الرسول فخدوہ و مانہٰکم عنہ فانتہوا
یعنی رسول جو کچھ تمہیں علم و معرف عطا کرے وہ لے لو اس جس سے منع کرے وہ چھوڑ دو۔ لہٰذا اب ہم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بارہ میں کیا فرمایا ہے۔ سو پہلے وہ حدیث سنو جو مشکوٰۃ میں ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے ہے اور وہ یہ ہے : و عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعمار امتی ما بین الستین الی السبعین و اقلہم من یجوز ذالک رواہ الترمذی و ابن ماجہ
یعنی اکثر عمریں میری امت کی ساٹھ سے ستر برس تک ہوں گی۔ اور ایسے لوگ کمتر ہوں گے جو ان سے تجاوز کریں۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم اس امت کے شمار میں ہی آ گئے ہیں۔ پھر اتنا فرق کیونکر ممکن ہے کہ اور لوگ ستر برس تک مشکل سے پہنچیں اور ان کا یہ حال ہو کہ دو ہزار کے قریب ان کی زندگی کے برس گزر گئے اور اب تک مرنے میں نہیں آتے۔ بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں آ کر پھر چالیس یا پینتالیس برس زندہ رہیں گے۔ پھر دوسری حدیث مسلم کی ہے جو جابر سے روایت کی گئی ہے اور ویہ ہے:
و عن جابر قال سمعت النّبی صلی اﷲ علیہ وسلم یقول قبل ان یموت بشہر تسئلونی عن الساعۃ و انّما علمہا عند اللّٰہ و اقسم باللّٰہ ما علی الارض من نفس منفوسۃ یاتی علیہا مائۃ سنہ وہی حیۃ رواہ مسلم
اور روایت ہے جابر سے کہا سنا میں نے پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم سے جو وہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ کوئی ایسی زمین پر مخلوق نہیں جو اس پر سو برس گزرے اور وہ زندہ رہے۔ اس حدیث کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص زمین کی مخلوقات میں سے ہو وہ شخص سو برس کے بعد زندہ نہیں رہے گا۔ اور ارض کی قید سے مطلب یہ ہے کہ تا آسمان کی مخلوقات اس ے باہر نکالی جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم آسمان کی مخلوقات میں سے نہیں بلکہ وہ زمین کی مخلوقات اور ما علی الارض میں داخل ہیں۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی جسم خاکی زمین پر رہے تو فوت ہو جائے گا اور اگر آسمان پر جانا تو خود بموجب نص قرآن کریم کے ممتنع ہے۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پیدا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔ (روحانی خزائن، جلد۳، ص۴۳۶، ۴۳۷)
جواب : ہمیں یہ بات منظور ہے اور کسی مسلمان کو یہ کیونکر منظور نہیں ہو گی، آئیے فرامینِ رسول احادیث کی طرف دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حیات سیدنا مسیح علیہ السلام و نزول مسیح سے متعلق کیا فرمایا ہے تو لیجیے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرامین پیشِ خدمت ہیں۔
(۱) حضرت امام حسن بصری سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود سے فرمایا ’’ان عیسیٰ لم یمت و انہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ‘‘ (تفسیر ابن کثیر) حضرت امام حسن بصری روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہود سے فرمایا تحقیق عیسیٰ نہیں مرے اور بے شک وہ تمہاری طرف قیامت سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔
(۲) حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نصاریٰ سے بات کرتے ہوئے فرمایا ’’الستم تعلمون ان ربنا حیی لا یموت و ان عیسیٰ یاتی علیہ الفناء‘‘
ترجمہ: کیا تم نہیں جانتے بے شک ہمارا رب زندہ ہے نہیں مرے گا اور بے شک عیسیٰ علیہ السلام پر فنا آنے والی ہے۔
(۳) عن عبد اللّٰہ ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینزل عیسیٰ ابن مریم الی الارض فیتزوج و یولد لہ و یمکث خمس و اربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا وعیسیٰ ابن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر۔
(باب نزول عیسیٰ مشکوٰۃ، ۴۸۰) (در منثور، جلد: ۲، ص: ۳۶)
ترجمہ: عبداﷲ بن عمر کہتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اترے گا عیسیٰ ابن مریم زمین کی طرف شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی اور ٹھہرے گا پینتالیس سال پھر فوت ہو گا اور دفن کیا جائے گا میرے مقبرے میں پس میں اور عیسیٰ ابن مریم ایک مقبرے سے کھڑے ہوں گے ابوبکر و عمر کے درمیان۔
اب اس کے بعد کسی مرزائی کو کیا حق ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلہ کے خلاف کہے۔ باقی دو حدیثیں جو مرزا نے پیش کی ہیں ان پر بھی اگر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی وفات مسیح پر دلیل نہیں بن سکتی۔
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعمار امتی ما بین الستین الی السبعین واقلہم من یجوز ذالک۔(ترمذی، جلد: ۲، ص: ۱۹۵)
ترجمہ: حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہوں گی اور ایسے لوگ کمتر ہوں گے جو اس سے تجاوز کریں۔
یہ حدیث خود اپنے معنیٰ پر واضح ہے کہ یقینا کچھ لوگ ہوں گے اگرچہ تھوڑے ہی ہوں جن کی عمریں اس سے زیادہ ہوں گی وہ زیادہ کتنی ہوں گی اس کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی پھر عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ساٹھ سے ستر برس کی عمر بنا کر ان کا اسی عمر میں وفات کا مقدر ماننا کیونکر درست ہے۔ ہمارے خیال میں یقینا وہ ان نفوس میں شامل ہیں جو اقلہم من یجوز ذالک میں شامل ہیں۔ اور ساٹھ ستر سے کتنا متجاوز ہوں گے اس سے متعلق حدیث میں کوئی حد نہیں اس حدیث کو وفات مسیح علیہ السلام پر پیش کرنا دھوکہ فریب یا جہالت ہے۔
(۲) مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ دوسری حدیث:
عن جابر سمعت النی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان یموت بشہر تسئلونی عن الساعۃ و انما علمہا عند اللّٰہ اقسم بااللّٰہ ما علی الارض من منفوسۃ تاتی مائۃ سنۃ و فی روایۃ وہی حیۃ۔(مسلم، جلد: ۲، ص: ۳۱۰)
(زیر بحث حدیث کے ضروری حصہ کا ترجمہ پیش خدمت ہے) حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں قسم کھا کر یہ بات کرتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی زمین کے اوپر جاندار کہ اس پر سو برس گزریں اور وہ زندہ ہو۔
حدیث کا ترجمہ خود وواضح کر رہا ہے کہ یہ ان کے لیے ہے جو علی الارض ہیں آپ یہ فرما رہے تھے اس وقت مسیح علیہ السلام زمین پر نہیں تھے تو وہ اس ما علی الارض کے زمرہ میں کیسے آ سکتے ہیں۔
آیت نمبر ۳۰: او ترقیٰ فی السماء قل سبحان ربی ہل کنت الاّ بشراً رسولاً۔
یعنی کفار کہتے ہیں کہ تو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آویں گے۔ ان کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پاک تر ہے کہ اس دار الابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھلا وے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھا اور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اﷲ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو آسمان پر لے جاوے۔ اب اگر جسم خاکی کے ساتھ ابن مریم کا آسمان پر جانا صحیح مان لیا جائے تو یہ جواب مذکورہ بالا سخت اعتراض کے لائق ٹھہر جائے گا اور کلام الٰہی میں تناقض اور اختلاف لازم آئے گا لہٰذا قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں۔ بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰ اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیونکر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر نا حق مسیح ابن مریم کے رفع کے کیوں اور طور پر معنیٰ کیے جاتے ہیں۔ تعجب کہ توفی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جا بجا ان کے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جا ملے جو ان سے پہلے اٹھائے گئے تھے۔ اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیونکر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی تو آسمان میں پہنچے۔ کیا تم قرآن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے و رفعنٰہ مکانا علیاکیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنیٰ نہیں ہیں فانی تصرفون۔
(روحانی خزائن، جلد۳، ص۴۳۷، ۴۳۸)
جواب: دھوکہ و فریب مرزا قادیانی کا شیوہ اور عادت بن چکی ہے جب تک کہ وہ کسی بات میں دھوکہ نہ کریں ان کی بات بنتی ہی نہیں چونکہ ان کا سارا کام ہی بناوٹی ہے۔ وفات مسیح علیہ السلام ثابت کرنے پر یہ ان کی آخری دلیل ہے۔ مگر کمال ہے کہ آیت کے اول و آخر کو ملا کر درمیان کے کئی الفاظ کو بالکل اڑا کر ایک آیت کی صورت میں پیش کیا اور پھر ایسی حرکت کرنے کے باوجود بھی جب ان کا کام پورا نہیں ہوا تو پھر اپنے مقصد براری کے لیے ترجمہ کرنے میں طبع آزمائی کی کہ بات بن جائے۔ لیکن جو ترجمہ کیا وہ پوری آیت کو اگر پڑھا جائے تو اس کا الٹ بن گیا۔ مثلاً مرزا قادیانی نے ترجمہ اس طرح سے کیا ہے:’’یعنی کفار کہتے ہیں تو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایمان لے آویں گے‘‘
جب کہ پوری آیت کو درست طور پر لکھا جائے تو اس کے الفاظ اور ترجمہ اس طرح ہے او ترقی فی السماء و لن نؤمن لرقیک حتی تنزل علینا کتٰبا نقرؤہ۔
’’یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک کہ کوئی کتاب نہ لاؤ جسے ہم پڑھیں‘‘
دھوکہ واضح آشکارا ہو رہا ہے کہ کفار نے کہا کہ تیرے آسمان پر چڑھ جانے سے بھی ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ جب کہ مرزا قادیانی لکھتے ہیں ’’تو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھا تب ہم ایمان لے آئیں گے۔ دھوکہ و فریب کس کو کہتے ہیں۔
قارئین محترم اردو جاننے والے ہر فرد کو یہ دعوت ہے کہ مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ آیت پندرہویں پارے میں موجود سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۹۳ کو اپنی نظروں سے دیکھیں اور مرزا قادیانی کا کیا ہوا ترجمہ پڑھیں آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کی آیت کیا کہہ رہی ہے اور مرزا قادیانی کیا کہہ رہے ہیں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مرزا قادیانی کے باقی دلائل کے کیا خدو خال ہوں گے۔ صداقت صرف اسلام میں ہے اور اسلام میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر ہونا اتنا واضح ہے کہ قرآن و حدیث صحابہ تابعین مفسرین محدثین سب کے سب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کے قائل اور قیامت سے پہلے ان کے نزول علی الارض اور انتقال فرمانے کے بعد روضہ رسول علیہ السلام میں مدفون ہونے میں متفق ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسلام کی حقانیت پر یقین عطاء فرمائے اسلام کے تمام عقائد بشمول حیات سیدنا مسیح علیہ السلام پر ایمان پر استقامت عطافرمائے۔(آمین)
٭٭٭
اچھی کاوش ھے جزاکم اللہ خیرا واحسس الجزاء