تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

انسداد جبری تبدیلی مذہب بل 2021ء غیرآئینی و غیراسلامی ہے، مسترد کرتے ہیں: مولانا سید محمد کفیل بخاری

اسلام آباد (پ ر) مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی امیرمولانا سید محمد کفیل بخاری نے “PROHIBITION FORCED CONVERSION BILL 2021” (انسدادجبری تبدیلی مذہب بل 2021) کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل مکمل طور پر غیر اسلامی، غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق فرد کو مذہب کے اختیار میں مکمل آزادی حاصل ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لانے سے پہلے اس کے لئے لابنگ کررہی ہے، حالانکہ خودآئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سابق چیئرمین بھی اپنے دور میں اس بل کو غیراسلامی اورغیرآئینی قراردے چکے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل بیرونی ایجنڈے پرکبھی ہمارے خاندانی نظام کی بربادی کے لیے گھریلوتشددبل لایا جاتاہے اورکبھی مذہب کامعاشرہ میں متحرک اورمؤثر کردارختم کرنے کے لیے وقف املاک بل لاکرمرضی کے قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ اب تبدیلی مذہب کے عنوان سے اٹھارہ سال سے کم عمرافرادپر قبول اسلام روکنے کے لیے قانون سازی کی مہم جاری ہے جو درحقیقت اسلام مخالف قوانین کو پاکستانی اکثریتی مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے،کیونکہ اگر اس مجوزہ قانون کو موجودہ صورت میںلاگو کیا جاتاہے تو کوئی ایک بھی اٹھارہ سال سے کم عمرِفردقانوناً اسلام قبول نہیں کرسکے گا۔ صاحبزادہ مولاناعزیزاحمد نائب امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ڈاکٹرعمرفاروق احرار مرکزی سیکرٹری اطلاعات مجلس احرار پاکستان، نومسلم ڈاکٹر محمدآصف(سابق قادیانی)، نومسلم محمدعبداللہ(سابق ہندو)، مولانانوراللہ رشیدی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مولاناسید محمد کفیل بخاری نے کہا کہ بل کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھاجائے گا کہ اس نے اپنامذہب تبدیل کیاہے،جب تک کہ وہ شخص اٹھارہ سال یا اس سے بڑا نہ ہوجائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمرکو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کوتبدیل کرنے کا دعویٰ کرتاہے،اُس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھاجائے گا اورنہ اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث افرادکوپانچ سے دس سال تک سزااورجرمانہ ہوگا۔اس بل میں ایسی کڑی شرائط موجودہیں کہ اب کم عمروں کے لیے اسلام قبول کرناعملاً ناممکن بنادیاجائے گا۔ہمارے نزدیک یہ بل جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل نہیں بلکہ اسلام کو قبول کرنے سے جبراً روکنے کا بل ہے۔ یہ درست ہے کہ جبراً کسی شخص کو مسلمان نہیں بنایاجاسکتا لیکن شریعت مطہرہ کی رُوسے جو فردبھی باہوش وحواس، بلاجبرواکراہ اوربارضاورغبت اسلام قبول کرتاہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ اس فردکوقبول اسلام سے روکے۔ اگر جبراً مسلمان بنانادرست نہیں تو بالجبراسلام قبول کرنے سے روکناکہاں کا انصاف ہے۔یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے بھی مترادف ہے۔مجوزہ قانون پاکستان کے آئین کے اصولوں کے برعکس، شریعت اسلامیہ کے منافی اورعدل وانصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔ اسلام ہرعمرکے افرادکے قبول اسلام کا خیرمقدم کرتاہے۔جہاں تک کم عمرافرادکے قبول اسلام کا سوال ہے تو اسلامی تعلیمات اورہماری تاریخ اس کی شاہدہے کہ سیدناعلی المرتضیٰؓ نے دس سال کی عمرمیں اسلام قبول کیا، جبکہ سیدنازیدؓابتدائی عمرمیں مشرف بہ اسلام ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنامنہ بولابیٹا بنایا۔بچپن میں اسلام کے قبول کرنے کی بیسیوں مثالیں موجودہیں کہ کم عمر نومسلمین اسلام کی نعمت سے سرفرازہوئے تو اسلام نے ان کا مکمل تحفظ کیا۔اُن کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے اوراُن کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔مواخات مدینہ اس کی واضح مثال ہے۔ہمارے اہل اقتدارجوریاست مدینہ کا دعویٰ کرتے ہیں،اُنہیں اسلام کی ان زریں روایات سے سبق لیتے ہوئے قبول اسلام کرنے والے نومسلمین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے،اُن کی کفالت کا انتظام وانصرام کرکے اُن کی حوصلہ افزائی اوردل جوئی کا سامان کرناچاہیے اورقرآن مجیدکے حکم کے مطابق اُن کی تالیف قلب کا اہتمام کرناچاہیے۔
بل کی مزیدایک اورشق پر غورکیجیے کہ نوعمراسلام قبول کرنے والے کواِکیس دن اوراٹھارہ سال کے بعداسلام قبول کرنے والے کو نوّے دن کی مہلت دیناکہ وہ اپنے فیصلہ پر مزیدغوروخوض کرے،دراصل مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت کے دوران نومسلمین اوران کے خاندان والوں کو ڈرادھمکاکراسلام کو اُنہیں ترک کرنے پر مجبورکیاجاسکے۔سوال یہ ہے کہ اگر نوعمرکا اسلام قابل قبول نہیں تو پھر یہ بتایاجائے کہ اگر دومیاں بیوی قانون کے مطابق اسلام لے آئیں توکیااس مجوزہ قانون کایہ مطلب نہیں ہوگاکہ اُن کے بچے اٹھارہ سال کی عمرکو پہنچنے تک غیرمسلم ہی تصورکیے جائیں گے۔ آج کے اخبارمیں وفاقی وزیرمذہبی امورنورالحق قادری نے بھی ہمارے اس موقف کی تائیدکردی ہے کہ تبدیلی مذہب کے لیے عمرکی قیدنہیں رکھی جاسکتی۔لہٰذااب حکومت کو بھی اپنے موقف میں بھی تبدیلی پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی مذہب بل قادیانیوں کی خوشنودی اورفتنہ قادیانیت کے فروغ کا سبب بنے گا۔اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں مرتدکی سزانافذکرکے فتنوں کا دروازہ عملاً بندکیاجائے یادرکھیے!پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے۔ اسلام ہی ہمارے وطن کی شناخت اورپہچان ہے۔ ہم اس ملک کی شناخت کودھندلانے اوراسلام کے تشخص کو مٹانے کی ہرسازش کو ناکام بنادیں گے اورایسے تمام غیرآئینی ہتھکنڈوں اوراسلام سے متصادم قانون سازی کی پوری قوت سے مزاحمت کریں گے۔ ہم تبدیلی مذہب بل کو مستردکرتے ہیں اورآج سے مجوزہ قانون کے متعلق بھرپورعوامی آگاہی مہم کے شروع کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس سلسلہ میں ارکان پارلیمنٹ، متعلقہ وزرا، حکام اورسیاسی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کریں گے اوراُنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیں گے کہ وہ اپنے حلف اورمنصب کی پاسداری کریں اورآئین پاکستان اوراسلام کے تحفظ کویقینی بنائیں۔
ہم اس موقع پر صحافی برادری کے جائز مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں اورحکومت سے ان کے حقوق کی بحالی وتحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.