احمدی حضرات کا چونکہ پورا مقدمہ ہی تلبیس اور دھوکے پر استوار ہے، اور اس حقیقت کا وہ خوب ادراک بھی رکھتے ہیں، اس لیے اپنی تلبیسات سے توجہ ہٹانے کے لیے الٹا یہ الزام علمائے امت پر دھرنا ان حضرات کی مجبوری ہے۔ ختم نبوت کے مفہوم میں جس طرح کی باطل تاویلات پیش کر کے وہ خود کو انکار ختم نبوت کے الزام سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی کے تسلسل میں یہ لوگ سیدنا مسیح کی آمد ثانی کے مسئلے کو نبوت کے جاری ہونے کی دلیل بناتے ہیں، حالانکہ امت ہمیشہ سے اس کی تعبیر یہی کرتی چلی آ رہی ہے کہ ان کی آمد کسی نئی بعثت کے ساتھ نہیں ہوگی، یعنی وہ مسلمانوں سے کسی نئے ایمان کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ جہاں تک ان کو اللہ کا رسول ماننے کا تعلق ہے تو وہ مسلمان پہلے سے مانتے ہیں۔ آخری دور میں ان کی تشریف آوری صرف قیامت کی ایک علامت کے طور پر ہوگی، اور وہ امت محمدیہ کے ایک فرد کے طور پر غلبہ اسلام کے لیے جہاد کریں گے۔
چونکہ یہ پیشین گوئیاں بہت سی احادیث میں وارد ہوئی ہے، اس لیے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ثبوت کو یقینی مانتے ہوئے علمائے امت، رسول اللہ پر ایمان کے ایک تقاضے کے طور اس پیشین گوئی پر بھی ایمان
رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ سلسلہ رسالت کو جاری ماننے اور ایک نئے رسول پر ایمان کی دعوت نہیں ہے۔ یہ صرف رسول اللہ پر ایمان کا ایک تقاضا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ سے یہ پیشین گوئی ثابت نہ ہوتی تو اس بات کی کوئی حیثیت بھی نہ ہوتی۔ یہ ان پیشین گوئیوں کے بالکل برعکس ہے جو سابقہ کتب میں مثلا سیدنا مسیح یا حضرت محمد کے متعلق وارد ہوئی ہیں۔ فرض کریں، یہ پیشین گوئیاں نہ ہوتیں تو بھی ایمان بالرسالة کے تحت ان پیغمبروں پر ایمان لانا لازم ہوتا۔ حضرت مسیح سے متعلق پیشین گوئی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی آمد ثانی کو ماننا دراصل رسول اللہ کی ایک پیشین گوئی کو ماننا ہے جس میں قیامت کی ایک علامت کے طور پر اللہ کے ایک نبی کے، اس امت کے فرد کے طور پر دوبارہ دنیا میں آنے کی اطلاع دی گئی ہے۔ امت اسے ہمیشہ اسی مفہوم میں مانتی رہی ہے، اور کسی نے اس کو ایک نئی بعثت پر ایمان تصور نہیں کیا، بلکہ اس کی واضح نفی کی جاتی رہی ہے۔
اس سیدھی اور صاف بات کو تلبیس کے یہ ماہر حضرات یوں پیش کرتے ہیں کہ مولوی حضرات ایک طرف کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی آمد ثانی پر ایمان رکھنا ضروری ہے، اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ یہ ایمان بالرسالہ کی قبیل سے نہیں ہے۔ حالانکہ معمولی عقل اور دیانت رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت مسیح دوبارہ تشریف لائیں گے تو کسی نئی بعثت کے ساتھ نہیں آئیں گے اور نہ آ کر مسلمانوں سے مطالبہ کریں گے کہ ایک نئے رسول پر ایمان لاؤ، ورنہ تمھارا ایمان بالرسالة ناقص رہے گا۔ ہرگز نہیں۔ امت میں آج تک کسی ایک فرد نے بھی ان کی آمد ثانی کو اس معنی میں نہیں مانا۔ یہ محض قادیانی تلبیس ہے جسے وہ خلق خدا کو گمراہ کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی سب بھٹکے ہوؤں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین