تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

ناموس رسالت اعلیٰ عدلیہ کا تاریخی فیصلہ

محمدنوازرضا(اسلام آباد)

گزشتہ ہفتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے شہرہ آفاق جسٹس شوکت صدیقی کا ’’ناموس رسالت پر اعلیٰ عدالتی فیصلہ’’ کا نسخہ نوجوان صحافی وقار عباسی کی وساطت سے موصول ہوا۔ جسے گزشتہ ماہ ناموس رسالت پر اعلیٰ عدالتی فیصلہ کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ میں ان چند خوش قسمت افراد میں شامل ہوں ،جن کو جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی کتاب بھجوائی ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے ،جس کا ہر ورق ایمان تازہ کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ عدالتی فیصلہ اس وقت آیا ۔جب سوشل میڈیا پر دشمنان اسلام فرضی ناموں سے ناموس رسالت پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ان کی تعداد دوچار نہیں ہزاروں ہے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے بلاگز کے ذریعے مسلمانان عالم کے دلوں کو زخم خوردہ کر رہے تھے۔ کوئی ان عاقبت نا اندیش شیطان فطرت افراد کو اپنی گرفت میں نہیں لے رہا تھا۔ یہ جسٹس شوکت صدیقی جیسا قلندر صفت جج ہے، جس نے نہ صرف ان شیاطین کو لگام دی بلکہ حکومت کو کچھ کر گزرنے پر مجبور کر دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان شیطانی بلاگرز کا ایسا تعاقب شروع ہوا کہ انہیں دنیا میں کسی مسلمان ملک میں پناہ نہیں مل رہی۔ کچھ کو تو پاکستان میں ہی دھر لیا گیا۔ کچھ اپنے مغربی آقاؤں کے پاس چھپ گئے ۔ اس نازک اور حساس معاملہ پر ریاستی اداروں نے بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن جسٹس شوکت صدیقی کے اندر کا مسلمان اس صورت حال میں تڑپ گیا ۔اُس نے اِس معاملہ پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے ان تمام عناصر کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔
میرا تعلق خطہ پوٹھوہارسے ہے۔ جس نے جنرل ٹکا خان، جنرل اشفاق کیانی جیسے سپہ سالار پیدا کئے۔ چودھری نثار علی خان جیسے نیک نام سیاست دان کا تعلق بھی اسی خطہ سے ہے ، جسٹس افضل ظلہ اور جسٹس عزیز بھٹی جیسے بلند پایہ جج بھی پوٹھوہاری تھے۔ اسی خطہ سے جسٹس شوکت صدیقی جیسا درویش صفت اور بہادر جج پیدا ہوا ہے۔ جس نے پچھلے 6 سال میں تاریخی فیصلے دے کر نہ صرف عدلیہ کا نام سربلند کیا ہے بلکہ خطہ پوٹھوہار کے لئے وجہ افتخار بن گئے ہیں۔ مجھے یاد نہیں جسٹس شوکت صدیقی سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی لیکن ان سے پچھلے تین چار عشروں سے یاد اﷲ ہے۔ جب تک ان کا ’’پھٹہ‘‘ ڈسٹرکٹ کورٹس راولپنڈی میں تھا ۔ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں ۔یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے راولپنڈی و اسلام آباد کی انتخابی سیاست کے حوالے سے بھی وہ میرے وکیل بھی رہے ہیں۔ میں نے انہیں ایک سچا اور کھرا مسلمان پایا۔ وہ اسلام اور نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھنے والے وکیل ہیں۔ ان سے میرا نظریاتی بنیادوں پر تعلق ہے۔میرے دل میں ان کے لئے ہمیشہ عزت و توقیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
جب انہیں 21 نومبر 2011ء کو اِسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا تو ان سے محض اس لئے ملاقات نہیں کی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے راہ و رسم قائم نہیں رکھنے چاہئیں۔ جج اپنے فیصلوں سے بولتے ہیں میں بھی روزانہ فیصلوں کو پڑھ کر ہی ان سے ہم کلام ہوتا رہا ہوں۔ میں آج بھی اس کالم کے ذریعے ان سے ہمکلام ہو رہا ہوں۔
جسٹس شوکت صدیقی عدالت عالیہ کے پہلے جج ہیں۔ جنہوں نے توہین رسالت کے مجرموں کو نکیل ڈالی اور حکومت کو بیدار کیا اور اُسے اُس کی آئینی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ جب ختم نبوت پر سیاست کرنے والوں نے فیض آباد پر 21 روزہ دھرنا دیا تو یہ جسٹس شوکت صدیقی ہی تھے ،جنہوں نے نہ صرف حکومت کی رٹ قائم کرنے کا قانونی راستہ دکھایا، بلکہ انہوں نے اُن اداروں کو بھی سرزنش کی ۔جن کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ اس موقع پر ان کے ریمارکس عدالتی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔جسٹس شوکت صدیقی نے جرأت مندانہ تفصیلی فیصلہ دے کر گستا خانہ مواد کا دفاع کرنے والے نام نہاد آزادی رائے کے علمبرداروں کو خاموش کرا دیا ہے۔ اُن کا یہ فیصلہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا اہم اثاثہ ہے۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس پر مہربان ہو، اُسے کسی ایسے کار خاص کے لئے چن لے جو آنے والی نسلوں کے لئے نظیر بن جائے۔ سینئر صحافی عرفان صدیقی نے جو اُن کے ماموں زاد بھائی ہیں، جسٹس شوکت صدیقی کے بارے میں لکھا ہے کہ’’ نا مساعد حالت میں جسٹس شوکت صدیقی مستعفی ہو کر دوبارہ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کا سوچ رہے تھے تو وہ اُن کی اس سوچ کی راہ میں حائل ہو گئے ۔ ‘‘دور جدید میں سوشل میڈیا پر فیس بک کو مثبت اور منفی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن کچھ بدبختوں نے اسے آخری نبی ﷺکی شان میں گستاخی کے لئے استعمال کر کے مسلمانان عالم کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ پورے پاکستان میں اشتعال کی لہر دوڑ گئی۔ جب ان بلاگرز کے خلاف جسٹس شوکت صدیقی کی عدالت میں مقدمہ لگا تو انہوں نے ’’بنیاد پرست‘‘ جج کے طعنے کی پروا کئے بغیر ایک تاریخی فیصلہ لکھا جو ختم نبوت کے باغیوں کا تعاقب کرنے کے لئے ہمیشہ بنیاد فراہم کرتا رہے گا۔ جسٹس شوکت صدیقی کا شمار اُن ججوں میں ہوتا ہے، جب وہ منصف کے منصب پر بیٹھے ہوتے ہیں تو ’’منہ زور اور کرپٹ بیوروکریٹس‘‘ کے لئے شمشیر برہنہ ہوتے ہیں اور طاقت ور کے مقابلے میں کمزور اور حقدار کے لئے سائبان۔ مجھے ایک یہودی محقق کی بات یاد ہے جو مسلمانان عالم کے لئے سب سے زیادہ عزیز شخصیت پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے لکھا کہ ’’مسلمانان عالم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن وہ اپنے پیارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتے ۔‘‘اس لئے دشمنان اسلام مسلمانوں کی محبت کے نکتہ عروج پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کا ناموس رسالت پر اُردو زبان میں لکھا گیا اعلیٰ عدلیہ کا یہ پہلا تفصیلی فیصلہ ہے، جسے اب کتابی شکل دے دی گئی ہے۔ ناموس رسالت پر اِس اہم دستاویز کا انگریزی زبان میں ترجمہ کی بھی ضرورت ہے۔ انگریزی زبان میں اشاعت کے ساتھ یہ کتاب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہونی چاہیے۔ تاکہ اس کتاب تک جن کی رسائی نہ ہو، یا جواُردو زبان پر عبور نہ رکھتے ہوں،اس سے بآسانی استفادہ کر سکیں۔
یہ رٹ پٹیشن 2017ء میں سلمان شاہد، محمد طارق اسد اور ڈاکٹر محمد اسلم خاکی سمیت متعدد شخصیات کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ جس پر 31مارچ 2017ء کو فیصلہ آیا۔ اس مقدمہ میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا کہ سلمان حیدر، احمد وقاص گورائیہ، عاصم سعید، احمد ر ضا نصیر اور ثمر عباس اور ان کے دیگر ساتھی فیس بک پر ’’بھینسا‘‘، ’’موچی‘‘ اور ’’روشنی‘‘ کے نام سے پیجز چلا رہے ہیں۔ جن میں نبی کریمﷺ، اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ، قرآن مجید حتیٰ کہ اﷲ رب العزت کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد بصورت خاکے ، تصاویر، تحریر اور وڈیوز نشر کیا جا رہا ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے فیصلے میں جن چند منتخب اخبارات کے اداریوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں نوائے وقت کا اداریہ بھی شامل ہے۔ جس میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
جسٹس شوکت صدیقی نے قرآنی آیات، احادیث نبوی اور تاریخی حوالہ جات کو پیش نظر رکھ فیصلہ لکھا ہے ۔جسے اب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ منصف نے فیصلہ لکھنے سے قبل اس ایشو پر گہرا مطالعہ کیا ہے ۔ اس فیصلے میں اُن عظیم شعراء کرام کا کلام بھی شامل ہے، جنہوں نے نبی پاکﷺ کی مدحت میں شاعری کی ہے۔ فیصلہ میں توہین رسالت ایکٹ سمیت ان تمام قوانین کا بھی احاطہ کیا گیا ہے جو کسی بھی شخص کو توہین رسالت سے روکتے ہیں اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے سزائے موت تجویز کرتے ہیں۔ فیصلہ میں قرارداد مقاصد کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں اعلیٰ عدلیہ کے اس موضوع پر دیئے گئے فیصلوں کے حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی وہ شہرہ آٖفاق تقریر بھی شامل ہے جو انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے موقع پر 7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں کی تھی۔ مفتی منیب الرحمن نے جسٹس شوکت صدیقی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ میں عدالت عالیہ کے پہلے جج ہیں بلکہ ہزاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے توہین رسالت کے مجرموں کا نوٹس لیا اور حکومت پاکستان کی سوئی ہوئی وزارت داخلہ کو جگایا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ نے طاقت ور لوگوں کی کچھار میں ہاتھ ڈالا تو پھر اُسے انجام تک پہنچا کر دم لیا۔ مفتی منیب کی یہ بات درست ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے وزارت داخلہ کو جگایا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جب تک چودھر نثار علی خان کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان رہا۔ انہوں نے پوری قوت سے سوشل میڈیا پر بدمعاش بلاگرز کا تعاقب کیا ۔فیس بک کی انتظامیہ کو نشاندہی پر ایسا تمام مواد ہٹانے پر مجبور کیا جو نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کے زمرے میں آتا تھا۔ جسٹس شوکت صدیقی کے تاریخی فیصلہ کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی میں ترمیم کرنے کا کہا گیا ہے۔ جس کے تحت سوشل میڈیا پر توہین رسالت کی مؤثر انداز میں گرفت کی جا سکے۔ اس طرح بدمعاش بلاگرز کو سزائے موت دی جا سکے گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر وفاقی کابینہ نے ایف آئی اے شیڈول میں ترمیم کا بل منظور کر لیا ہے۔ اب اس کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جانی ہے۔ پاکستان کے قوانین میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا 3 سال قید، یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے ۔ اس جرم کو تعزیرات پاکستان 295 سی کے دائرہ میں لایا جائے تو ملک سے فرقہ واریت کا ناسور ختم ہو جائے گا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns
/01-Jan-2018/739259

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.