عبداللطیف خالد چیمہ
(12-11 ربیع الاوّل چناب نگر)
اکابر احرار ہندوستان میں 21 ۔ اکتوبر 1934 ء کو قادیانی مرکز ’’قادیان ‘‘ضلع گورداسپور میں فاتحانہ داخل ہوئے تھے ،پاکستان بن جانے کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ اور تحریک ختم نبوت کے رہنما ؤں نے ربوہ میں داخلے کا سوچا ،لیکن اﷲ تعالیٰ کو اس طرح منظور تھا کہ 1975 ء میں ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ربوہ میں ڈگری کالج کے قریب قطعہ زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں جامع مسجد احرار کا سنگ بنیاد 27 ۔ فروری 1976 ء کو رکھا گیا اور نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ وہ منظر واقعی دیدنی تھا اور اُس کی یاد یں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ، اس مرکز احرار میں حسب سابق امسال بھی 12-11 ربیع الاوّل 1440 ھ کو سالانہ ختم نبوت کانفرنس ہو گی جس میں ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام ،زُعماء عظام خطا ب کریں گے ،اس ملک گیر اجتماع کے اختتام پر ہر سال دعوتی جلوس بھی نکالا جاتا ہے جو اس مرتبہ بھی اکابر احرار کی قیادت میں نکلے گا اور پھر قادیانیوں کو دعوت اسلام کا فریضہ دہرایا جائے گا ،اس مقصد کے لیے احرار کی ماتحت تنظیموں کو قبل ازیں سرکلر کے ذریعے اطلاع ارسال کی جا چکی ہے ،جملہ ماتحت اور برادر تنظیموں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تیاریاں منظم اندازمیں تیز کردیں اور ختم نبوت کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کے لیے مرکزکی طرف سے ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔
قانون تحفظ ناموس رسالت کی تازہ ترین صورتحال!
قانون تحفظ ناموس رسالت مسلسل تختۂ مشق بنا ہوا ہے ، اصل مسئلہ عالم کفر کا ہے جو ہر حال میں اس قانون کو ختم کرانا چاہتا ہے ،بین الاقوامی این جی اوز شطرنج کا کھیل کھیلتی رہی ہیں اور ہمارے حکمران بمع سیاستدان ’’پتلی تماشا‘‘ بنے ہوئے ہیں ،ایسا کئی دہائیوں سے مسلسل ہو رہاہے اور ہمیں تو ہر حال میں پہرہ دینا ہے ،چوکیداری کا کردار نبھانا ہے تازہ صورت حال نسبتاََ اُمید افزاء ہے مگر چوکنے رہنے کی ضرورت ہے ،درج ذیل خبر پڑھ کر قدرے اطمینان ہوا ،اﷲ خیر کرے ، حکمران 295۔سی کو کبھی نہ چھیڑ پائیں گے ، ان شاء اﷲ تعالیٰ۔یہ خبر روزنامہ ’’امت‘‘ کے راولپنڈی ایڈیشن میں 13اکتوبر؍2018ء کو شائع ہوئی۔
’’اسلام آباد(اسد اﷲ ہاشمی) گستاخانہ مواد کی روک تھام کیلئے حکومت کی جانب سے سینٹ کمیٹی میں پیش کیا جانے والا بل واپس لے لیا گیا۔قائد ایوان شبلی فراز نے سینٹ سیکرٹریٹ میں درخواست جمع کرا دی جس میں کہا گیا ہے کہ بل سابقہ حکومت کا تھا، اس کی موجودہ کابینہ سے منظوری ضروری ہے،مولاناسمیع الحق سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خا ن نے کہا کہ ناموس رسالت قانون میں تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتے، مدارس کو یونیورسٹیوں کے برابر لاناچاہتے ہیں جبکہ وزیراعظم نے افغان مہاجرین اور بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی بنانے کا حکم دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گستاخانہ مواد کی روک تھا م اورالیکٹرانک کرائم کے تدارک کا ترمیمی بل 19 ستمبر کو ایوان بالا کی کمیٹی میں پیش کیا تھا جسے واپس لینے کے لیے سینیٹ سیکرٹریٹ کو درخواست دے دی گئی ہے۔سینٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری 29 مئی2018 کواس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نے دی تھی۔بل کا مسودہ سابق وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے وفاقی کابینہ میں پیش کیا تھا۔اس بل میں یہ شق شامل ہے کہ توہین رسالت کاالزام جھوٹاثابت ہونے پر مدعی کوبھی سزائے موت دی جائے گی۔ کابینہ کی منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا کو بھیج دیا گیا جو کہ 19 ستمبر2018 کو سینیٹ میں پیش کیا گیا اور متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔قائد ایوان نے اس حوالے سے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس بل کو پیش کرنے کی منظوری گزشتہ حکومتی کابینہ سے حاصل کی گئی تھی اور قانونی طور پر ایوان میں بل پیش کرنے کیلئے موجودہ حکومتی کابینہ کی منظوری ضروری تھی۔انہوں نے کہا کہ اس بل سے کسی طور پر بھی تحریک انصاف کی حکومت کا کوئی تعلق اور سروکار نہیں، اس لیے بل واپس لینے کے لیے باقاعدہ سینیٹ سیکرٹریٹ میں درخواست دے دی گئی ہے۔
دریں اثناجمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ سینٹ میں توہین رسالت ایکٹ کا مسئلہ اٹھانے کو عمران خان نے کسی کی شرارت قرار دیا ہے،ان کاکہناتھاکہ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کاسوچ بھی نہیں سکتے، کابینہ سمیت کسی بھی فورم پر یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آیا۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اسے واپس لینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم عمران خان اور مولانا سمیع الحق کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی جس مولانا سمیع الحق نے وزیر اعظم کو قادیانیوں کے ملک دشمنی پر مبنی سامراجی سازشوں اور مغربی قوتوں کی مذکورہ دونوں آئینی ترامیم کو ختم کرنے میں درپردہ مسلسل کوششوں سے آگاہ کیا اور پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بل کی تفصیلات پیش کیں۔ دینی مدارس کے حوالے سے پھیلائی گئی خبروں کے بارے میں وزیراعظم نے مولانا کو یقین دلایا کہ ہم دینی مدارس کے مسائل سے آگا ہ ہیں اور ایسے کسی اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے جس سے مدارس پر کوئی قدغن لگ سکتی ہو۔ مولانا سمیع الحق نے مدارس کی تنظیمات کے ساتھ ملاقات میں پیش کردہ تجاویز پر جلدی عملدرآمد ہونے کا مشورہ دیا،وزیراعظم نے کہاکہ میں روزِ اوّل سے مدارس کی اہمیت سمجھتے ہوئے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور انہیں دین کے اہم مراکز سمجھتا ہوں، اورانہیں یونیورسٹیوں اور کالجز کے برابر مقام دینا چاہتاہوں۔ ملاقات میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سیاسی امورکے مشیر جناب نعیم الحق بھی موجود تھے۔
علاوہ ازیں مولانا سمیع الحق نے دعوی کیا کہ وزیر اعظم نے افغان مہاجرین اور بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے۔وزیر اعظم سے گفتگو میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اور بنگالیوں کوشہریت دینے کے اعلان کو جلد عملی جامہ پہنانے کا مشورہ دیاجس میں انہیں اس اقدام کے سیاسی اقتصادی اور دفاعی فوائد سے آگاہ کیاگیا اور پاک افغان بارڈر پر مہاجرین کی آمدورفت سے ہر ماہ ویزے کی تجدید اوردیگر مشکلات کا ذکر کیاگیا۔ مولانا سمیع الحق کی تجویز پر وزیر اعظم نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو کمیٹی بنا کر ا س مسئلے کو حل کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیر اعظم نے افغانستان میں قیام امن کی ضرورت اوراہمیت کے بارے میں مولاناسمیع الحق کی کوششوں کو سراہتے ہوئے جدوجہد کو مزید تیز کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔‘‘
(روزنامہ ’’اُمت‘‘ راولپنڈی ،13 ۔اکتوبر 2018 ء )