شاہد حمید
34؍ سال قبل 26؍ اکتوبر 1984ء کو ساہیوال میں جامعہ رشیدیہ کے استاد اور مجلس احرار ِ اسلام ساہیوال کے صدر قاری بشیراحمد حبیب اور گو رنمنٹ ٹیکنیکل کالج کے طالب علم اظہر رفیق کو مشن چوک کے قریب قادیانیوں نے شہید کر دیا تھا ۔ساہیوال کے اِس اندوہناک واقعہ کے فو راََ بعد گورنر پنجاب نے پریس ایڈ وائس کے ذریعے اخبارات کو قادیانیوں کی اس دہشت گردی اور جارحیت کی خبریں شائع کرنے سے روک دیا لیکن خبر پورے ملک میں پھیل گئی ضلع ساہیوال سراپأ احتجاج بن گیا دور دراز سے لوگ جامعہ رشیدیہ پہنچنا شروع ہو گئے کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم ِنبوت کے سر براہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ ابن امیر شریعت سید عطا ء المومن بخاری ،حضرت مولانا محمدضیاء القاسمی مرحوم اور تحریک ختم ِنبوت کی قیادت میں ساہیوال پہنچ گئی ،مولانا منظور احمد چنیو ٹی مرحوم اور مولانا اﷲ یار ارشد مرحوم کو چنیوٹ سے ساہیوال آتے ہوئے راستے میں گرفتار کر لیا گیا ۔حضرت مولانا فاضل حبیب اﷲ رشیدی اور حضرت پیر جی عبدالعلیم رائے پوری نے تحریک ختم ِنبوت کی اعلیٰ قیادت سے مشورے اور خصوصاََ حضرت خواجہ خان محمدرحمتہ اﷲ علیہ کی تائید سے جناب عبداللطیف خالد چیمہ کو مقدمہ کا مدعی بنایا اور جناب عبدالمتین چودھری ایڈ ووکیٹ کی نگرانی میں سنیٹر وکلاء کی ایک منجھی ہوئی ٹیم نے دن رات ایک کرکے ملٹری کورٹ نمبر 62 ملتان میں مقدمہ کی پوری جنگ لڑی اور بر صغیر کی تاریخ میں ایک مثال قائم کردی گئی کہ ہنگامہ آرائی کے بغیر ایک عدالتی پراسیس کو اختیار کیا جائے تو قانونی جنگ جیتی جا سکتی ہے ،ملتان میں صبر آزما عدالتی سماعت کے دوران مجیب الرحمن اور خواجہ سر فراز جیسے ٹاپ کے قادیا نی وکلاء زچ ہو کررہ گئے ،حضرت مولانا سید عطا ء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت سید عطاء المومن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ، حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری مدظلہ العالی اپنے نائبین اور کا رکنوں کے ہمراہ عدالت کے باہر نصرت کے لئے موجود رہتے ،محض اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سپیشل ملٹری کورٹ نے قادیانی ملزمان محمد دین اور محمد الیاس منیر مربی کو سزائے موت سنائی، نعیم الدین ،عبدالقدیر ،محمد نثار اور حاذق رفیق طاہر کی سزا ئے کو انڈر گون کے تحت لاہور ھائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ارشاد اور جسٹس محمد عارف نے 1994 ء میں رھا کر دیا ۔ھائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مجلس احرار ِ اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد میں پٹیشن دائر کردی جسے 1995 ء میں سماعت کے لئے منظور کر لیا گیا ۔عدالت عظمیٰ نے طویل مدت کے بعد 2011 ء میں صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وصوبائی متعلقہ اداروں اور پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ملزمان کو بیرو ن ممالک سے واپس لانے کے ہر ممکن اقدامات کریں ۔بعد ازاں ، ملزمان چونکہ ملک سے باہر تھے چنانچہ اس لیگل پوزیشن کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اس وقت تک کے لیے کیس کو پنڈنگ کر دیا ،جب تک ملزمان پاکستان میں واپس نہیں آ جاتے ،یاد رہے کہ مشن چوک ساہیوال کو وقوعہ کے بعد تحریک ختم نبوت کے اس وقت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد مرحوم ، حضر مولانا حبیب اﷲ فاضل رشیدی مرحوم ،حضرت مولانا پیر جی عبدالعلیم مرحوم ، حضرت مولانا اﷲ وسایا مدظلہ العالی، جناب سید محمد کفیل بخاری مدظلہ العالی،جناب عبدالمتین چودھری ایڈووکیٹ ، جناب مولانا عبدالستار مرحوم ،جناب قاری منظور احمد طاہر مدظلہ العالی،جناب عبداللطیف خالد چیمہ کی موجودگی میں شہد اختم نبوت چوک سے موسوم کر کے اس کی تختی بھی نصب کر دی گئی تھی ،اس موقع پر عبداللطیف خالد چیمہ نے تلاوت قرآن پاک کی جس کے بعد حضرت خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ سربراہ کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت نے دعا کرائی ،علماء کرام ، کارکنان ختم نبوت اور عوام الناس کا اس موقع پر جذبہ دیدنی تھا جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا وہ اس کو اب تک یاد کرتے ہیں،کچھ عرصہ پہلے مشن ہسپتال کے قریب شہداء ختم نبوت چوک کی تختی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی ،جس پر قاری سعید ابن شہید، قاری منظور احمد طاہر ،مولانا کلیم اﷲ رشیدی ، قاری بشیراحمد رحیمی ،قاری عتیق الرحمن اور دیگر احباب ساہیوال متوجہ ہوئے اور جناب عبداللطیف خالد چیمہ کے مشورے کے بعد قاری بشیر احمد رحیمی نے25-09-2017 ضلع کونسل ہال ساہیوال میں امن کمیٹی کی ایک میٹنگ میں ، جس کی صدارت مسلم (ن)کے رہنما اور صوبائی وزیر عشر و زکوٰۃملک محمد ندیم کامران کر رہے تھے ، میں شہداء ختم نبوت چوک کے حوالے سے پورے ہاؤس کو توجہ دلائی کہ تیتیس سال قبل اس چوک کا نام شہداء ختم نبوت چو ک رکھا گیا تھااور یہاں ان کی یاد میں تختی نصب کی گئی تھی جو ٹوٹ گئی یا ٹوڑ دی گئی ، اب یہ بات کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں ہے کہ اس چوک کو کسی دوسرے نام سے منسوب کیا جائے ، پورے ہاؤس نے اس کی مکمل تائید کی جس پر صوبائی وزیر جناب ملک ندیم کامران نے موقع پر ڈپٹی مئیر ساجد ہیپی اور جناب محمد قاسم ندیم کی ڈیوٹی لگا ئی کہ وہ بلدیہ کے تحت شہداء ختم نبوت چوک کی نئی اور خوبصورت تحتی بنواکر جلد از جلد اسی جگہ پر نصب کروائیں ،انہوں نے اس موقع پریہ بھی کہاکہ 1984 ء میں جب قادیانیوں نے دو مسلمانوں کو شہید کیا تھا تو اس وقت میں خود اس تحریک میں شامل رہا ہوں ، چنانچہ چیف آفیسر بلدیہ جناب باؤ عبدالحمید نے اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 21-10-2017کوخوبصورت بنائی گئی تحتی نصب کروا دی ،آج شہداء کو ہم سے بچھڑے 34 سال کا عرصہ بیت گیا ہے ، مگروہ برابر یاد آتے ہیں ،26 اکتوبر 1984 ء کواسی چوک کے قریب قادیانیوں کی عبادت گاہ جو مسجد کی طرز پر بنی ہوئی ہے کے سامنے قاری بشیر احمد حبیب اور اظہر رفیق کا مقدس خون جہا ں بہا تھا وہ قادیانی عبادت گاہ تب سے آج تک 145 کی کاروائی کے تحت سیل ہے اور 145 کی اس کاروائی کے مدعی بھی مجلس احرار اسلام پاکستان کے موجودہ سیکرٹری جنرل جناب عبداللطیف خالد چیمہ ہیں ،قادیانی خفیہ ذرائع سے اس عبادت گاہ کو کھلوانے کئی بار کوشش کرچکے ہیں مگروہ ناکام ونامراد رہے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے ۔آج 26 اکتوبر 2018 ء بعدنماز جمعتہ المبارک دفتر احرار جامع مسجد چیچہ وطنی میں مجلس احباب کے زیر اہتمام شہداء ختم نبوت ،قاری بشیر احمد حبیب اور اظہر رفیق کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ،ان شاء اﷲ تعالیٰ۔