احمد خلیل جازم (چوتھی اورآخری قسط)
مرزاغلام احمد قادیانی کی کتب پڑھ کر میری رائے تبدیل ہونا شروع ہوچکی تھی، اسی دوران ناظم مال کے طورپر میری ذمہ داری شروع ہوچکی تھی، اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ ہر قادیانی اپنی کمائی سے ایک مخصوص حصہ چندہ دینے کا پابند ہوتاہے،جماعت اتنے چندے لیتی ہے کہ وہ چندے کم اور پھندے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔مجھے احساس ہونا شروع ہوگیا کہ یہ اس تمام عمل میں صرف مرزاقادیانی کا نام استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کیا جارہاہے ، کیوں کہ قادیانی جماعت میں ہر قادیانی اپنی آمدنی کا ریکارڈپیش کرتا ہے۔ہرسال وہ آمدنی اپ ڈیٹ ہوتی ہے کہ کس کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہواہے،اس بات پر مجھے حیرت ہوتی تھی کہ جماعت احمدیہ دنیا میں شاید واحد جماعت ہے، جس کے ہر ایک فرد کی آمدنی کا ریکارڈقادیانی جماعت کے پاس موجود ہوتا ہے ، باقی کسی بھی مذہب کی مذہبی جماعت ایسا نہیں کرتی ، اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قادیانی کتنے منظم انداز میں جماعت کا انتظام و انصرام چلا رہے ہیں۔ہر برس ہر حلقے کی نئی درجہ بندی ہوتی ہے ، اور ریکارڈاَپ ڈیٹ ہوتا ہے ،نیا اندراج کیا جاتاہے ،ہرقادیانی ہر برس اپنی آمدنی کا حساب دینے کا پابند ہوتا ہے ، جس کی تفصیل ہر حلقے سے مرکز کو بھجوائی جاتی ہے ۔ایک تو لازمی چندہ دینا ہوتاہے ،وہ آمدنی پر تناسب کے حساب دینا ہوتا ہے ، چونکہ میں ناظم مال تھا، اس لیے آمدنی کا چارٹ کچھ پرانے قادیانی جو دیگر حلقوں کے تھے، ان سے بنوالیا کرتا تھا،تمام قادیانی اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ لازمی جماعت احمدیہ کو دینے کے پابند ہوتے ہیں۔یہ ہر حال میں دینا ضروری ہوتا ہے،یہ فرض چندہ ہے، اس کے علاوہ جو دیگر چندے ہیں وہ’’ توعی‘ ‘چندے کہلاتے ہیں ۔یہ نفلی چندے ہوتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے جو کوئی جتنادینا چاہے ،وہ لکھوا دیتا ہے کہ اس سال میں نفلی چندہ کتنا دوں گا، ایک چندہ وقف جدید کہلاتا ہے اور دوسراتحریک جدید کا چندہ ہوتا ہے، یہ بھی البتہ اپنی مرضی سے دینا ہوتا ہے اور قادیانی خود بتاتا ہے کہ کتنا چندہ دوں گا۔اس کے علاوہ ہر تنظیم جو کہ لوکل سطح پر ہوتی ہے، اسے بھی ہرحال میں چندہ دینا پڑتا ہے۔خدام الااحمدیہ کا ہر خادم اپنا تنظیمی چندہ بھی دے گا، اور مقامی سطح پر بھی دے گا، جب آمدنی والا ہوجائے گاتو پھر آمدنی کے تناسب سے چندے دے گا، جب کہ جماعت احمدیہ نے قادیانی طالب علموں تک کو نہیں بخشا ہوا، ہر طالب علم سوروپیہ 2007-8ء میں چندہ ادا کرتا ہے۔ہر شخص لازمی چندہ ، تنظیمی چندہ ، تمام تحریکوں کے چندے اوردیگر لوکل سطح پر بھی چندہ دینے کا پابند ہے،پھر ربوہ قبرستان میں دفن ہونے کے لیے بھی ترکے میں سے اپنی کُل آمدنی کا دسواں حصہ دینا لازم ہوتا ہے، جب کہیں اسے ربوہ میں دفن ہونے کی اجازت ملتی ہے،یعنی مرنے کے بعد بھی انہیں نہیں چھوڑا جاتا۔ یوں قادیانی جماعت چندے کے پھندوں سے پھل پھول رہی ہے ۔
اب وقت آچکا تھا کہ مجھے کسی سے بات کرنے کی ضرورت تھی، ملتان میں گورنمنٹ کالج کے ایک ریٹائرڈپروفیسر صاحب ہیں ،جن کا نام خواجہ ابوالکلام صدیقی ہے ۔میرااُن سے پرانا تعلق تھا اورمیں انہیں قادیانی مذہب کی تبلیغ کرنے چلا جاتا تھا،وہ میری بات بہت اطمینان سے سنا کرتے تھے،میں انہیں قادیانی ہونے سے پہلے جانتا تھا،جب مرزا قادیانی کا مجموعۂ کتب ’’روحانی خزائن ‘‘میں نے پڑھا اور اس میں مرزاکے دعووں کے تضادات دیکھے تو میرا ماتھا ٹھنکا،خواجہ صاحب بہت متقی شخص ہیں اور ایک عملی مسلمان ہیں، وہ بہت تحمل والے انسان بھی ہیں، میری دعوت کو بڑے تحمل سے سنتے ،ہماری دو اڑھائی گھنٹے مذہبی معاملات پر بات ہوتی ، لیکن میں ان کی سننے کے بجائے جوشِ تبلیغ میں زیادہ تر اپنی سناتارہتا تھا،مگر جب میں ’’روحانی خزائن‘‘ پر تشکیک کا شکار ہوا تو میں نے اس وقت زیادہ ان کی سننی شروع کردی تھی۔
انہوں نے ایک روز بڑی اہم بات کی اور کہا کہ آصف صاحب! آپ نے مرزا قادیانی کو مسیح اور امام مہدی تو ماننے کو مان لیا، لیکن کبھی یہ تحقیق بھی کی ہے کہ جن امام مہدیؓ کی اطلاع نبی آخرالزمانﷺنے دی تھی، ان کی کچھ نشانیاں اور علامات بھی بیان فرمائی تھیں، آپ ایک نظروہ تو تسلی سے الگ کرکے دیکھیں، مجھے یہ بات بہت پسند آئی، میں نے وہ احادیث جمع کرنا شروع کردیں۔انہوں نے بتایا کہ دو شخصیات کی ہمیں رسول کریمﷺنے اطلاع دی تھی، دیکھیں مرزااُن پرکتنا پورا اترتا ہے۔اس حوالے سے قادیانیوں کی تمام کتب میں صرف ایک روایت ملتی ہے اور کچھ نہیں ہے، میں نے قادیانی مُربیوں سے بہت پوچھا کہ کوئی اور روایت ہے ،لیکن وہ اس حوالے سے خاموش رہے،وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ’’نہیں کوئی مسیح سوائے امام مہدی کے‘‘اصل الفاظ اب میرے ذہن سے محو ہورہے ہیں،یعنی ایک ہی شخصیت کے دونام ہیں جو مسیح ہے ،وہی امام مہدی ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی روایت مرزا کے ہاں موجود نہیں ہے ، او روہ روایت بھی پڑھیں تو اُسے بیا ن کرنے کا جو طریقہ ہے اس سے احساس ہوتا ہے کہ ایک شخصیت زبردستی دو بنتی دکھائی دیتی ہے ،وہ روایت اس وقت میرے سامنے نہیں ہے ورنہ میں آپکو پڑھ کر سنا دیتا۔بہرحال میں نے امام مہدیؓکے ظہور اورحضرت عیسیٰ کے نزول کی احادیث کا مطالعہ کیا، جن میں ظاہری علامات کے بارے بتایا گیا ہے ۔اسی دوران مرزاقادیانی کی ایک تحریر میری نظر سے گزری،جس میں وہ کہتا ہے کہ’’ہو سکتا ہے کہ ان ظاہری علامات والا پھر کوئی اگلے زمانے میں آجائے۔‘ ‘مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہوئی کہ حضور نبی کریمﷺ نے تو ایک ہی مسیح کی آمد اطلاع دی تھی، یہ کہتا ہے کہ پھر کوئی آجائے۔میں نے یہ بات قادیانی مربیان کے سامنے جارکھی، تو انہوں نے کہا کہ یہ مُلا بے چارے تو بس ظاہری علامات میں پھنسے ہوئے ہیں، بے شک مرزا ظاہری علامات پر تو پورا نہیں اترتے،لیکن چونکہ یہی زمانے کے امام ہیں، مسیح موعود ہیں، لہٰذااُن مولویوں کے لیے کہاگیا ہے کہ اگلے زمانے میں ایسی نشانیوں والا پھر کوئی آجائے گا ،لیکن اس زمانے کے لیے تو میں ہی ہوں۔میں نے سوچا یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، پھر ایک جگہ مرزاسے کسی نے سوال کیا جو کہ اس کی کتب میں درج ہے کہ کیا مہدی کئی ہوں گے تواُس نے جواب دیا کہ موعود مہدی توایک ہی ہے جو کہ میں ہوں اورمیرے زمانے کے بعد کسی اور کو اِس کی مجال نہیں ہے، میں نے سوچا کہ یہ تو مکمل متضاد باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ایک جگہ کہتاہے کہ ان ظاہری علامات والا کوئی اوربھی آسکتا ہے، کیوں کہ میں ان ظاہری علامات پر پورا نہیں اترتا اور دوسری جگہ کہتا ہے کہ میرے علاوہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ دوبارہ آئے۔
اب ایک اور تضاد کھلنا شروع ہوگیا، جگہ جگہ مہدی اور مسیح موعود کا دعویٰ کیا اور پھر کئی جگہ نبی اور رسول کا دعویٰ بھی پڑھنے کوملا۔مثلاً’’روحانی خزائن‘‘ جلد اٹھارہ میں لکھتا ہے کہ ’’سچا خدا وہی ہے، جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘ پھر اِسی کتاب کی جلد بیس میں کہتا ہے کہ’ ’اور چونکہ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں ، جس پر خدا کا کلام یقینی ، قطعی، بکثرت نازل ہو،جو غیب پر مشتمل ہو، اِسی لیے خدا نے میرانام نبی رکھا،مگر بغیر شریعت کے ۔‘‘اب یہاں نبی ہونے کا دعویٰ ہے اور جلد اٹھارہ میں رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، پھر ایک جگہ’’ روحانی خزائن ‘‘کی جلد چار میں مدعی نبوت کے بارے لکھتاہے کہ ’’میں نبوت کا مدعی نہیں ہوں،بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔‘‘یہ عجیب وغریب تضادات ہیں کہ دیکھیں اگرمدعی نبوت اسلام سے خارج ہوتاہے اور بعد میں نبی اور رسول کا دعویٰ کرتا ہے ، پھر اُسے کیا کہیں گے کہ پہلے اُس نے جھوٹ بولا تھا، اوربعد میں سچ بولا،یا پہلے سچ بولا اوربعد میں جھوٹ بولا گیا۔
میں نے اِسی طرح قادیانی مربیوں سے جاکرسوال کیا تو انہوں نے کہا کہ دیکھیں وہ دعویٰ اس کا پہلے کا تھا، جب بکثرت وحی نازل ہونا شروع ہوگئی اور اس وحی نے اُن پریہ باور کرایا کہ وہ خدا کی جانب سے نبی اور رسول ہیں تو پھر انہوں نے انکا رنہیں کیا۔میں کہا کہ اچھا انہیں تو معلوم نہ تھا،لیکن رب تعالیٰ کو تو معلوم تھا کہ میں اسے نبی اور رسول بنا رہا ہوں،تو اس کے منہ سے اﷲ تعالیٰ کیوں قطعی طور پر کہلوا رہے ہیں کہ مدعی نبوت کا دعویداراِسلام سے خارج ہے اور بعد میں اُسی کے منہ سے نبی اور رسول کا دعویٰ کرارہے ہیں۔خدا اپنے ہونے والے نبی سے ایسی متضاد باتیں اس قطعیت سے کیسے اور کیوں کہلوا سکتاہے،چنانچہ اس طرح کی کئی اور متضاد باتیں اور حوالے سامنے آتے گئے جس سے میرے اندر شک کا بیچ پھوٹتے پھوٹتے ایک تناور درخت بن گیا۔
اس کے بعد اِسی کتاب میں مرزاقادیانی نے اپنی بیماریوں کا ذکر کرنا شروع کردیا، کہ اسے کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں۔ ان بیماریوں کی جو علامات ہوتی ہیں، ان کے بارے میں، میں پہلے سے جانتا تھا چونکہ میں نے ہومیوپیتھک پڑھ رکھی تھی، کہ کون سی بیماری کی کیا علامات ہیں اور اس کے نفسیاتی عوامل کیا مرتب ہوتے ہیں، مجھ پر مکمل طور پرواضح ہوگیا کہ ان بیماریوں کے تناظر میں اگر ایسے مریض کو پرکھا جائے تو مکمل نفسیاتی کیس سامنے آتا ہے، مرزاچونکہ مذہبی ذوق رکھتاتھا، اس لیے احساس برتری کا شکار ہوکر وہی مذہبی دعوے کررہاتھا جو اَیسانفسیاتی مریض کرسکتاہے کہ کہیں خدا سے ملاقات کررہا ہے، کہیں خدا والے اختیار حاصل کر رہا ہے ، کہ’’ یوں قلم میرے ہاتھ میں دے دیاگیا ۔‘‘
اس طرح کی کئی باتیں سامنے آتی گئیں۔یہ سب کچھ سمجھنے کے بعد مجھے احساس ہونا شروع ہوگیا کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ مرزاقادیانی امام مہدی اور مسیح موعود وغیرہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نفسیاتی مریض تھا، ہاں البتہ موجودہ جماعت کا ماحول وغیرہ ضرور متاثر کن ہے جس سے کوئی بھی دھوکہ کھا سکتا ہے۔اسی وجہ سے عام قادیانی سادگی کے باعث اپنا مال، ایمان ، جان اور وقت لٹائے جارہے ہیں۔ اب مجھے ایک بار پھر کٹھن مرحلہ درپیش تھا ، میں پیدائشی مسلمان تھا، اور قادیانی ہوگیا تھا، اب قادیانیت کا جھوٹ بھی مجھ پر کھل چکا تھا، اب کیا کروں؟
ڈاکٹرمحمد آصف کا مزید بتانا تھا کہ’’اب میرے لیے صورت حال انتہائی گمبھیر ہوچکی تھی، مجھ پر قادیانیوں کا جھوٹ مکمل طور پر کھل چکا تھا، ان کے مذہب پرتحقیق کرنے والے آدمی کو ہمارے علماء تک پسند نہیں کرتے ،جس وجہ سے وہ آدمی اپنے مذہب سے دُور ہوکر اُن کے چنگل میں پھنس جاتاہے ، یہ تو میرے خدا نے مجھے توفیق اور سمجھ عطا کی تھی کہ میری تحقیق کا سفر نہ رک سکا ، جس سے ثابت ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار تو دین اسلام میں دراڑ ڈال رہے ہیں۔مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا،اسی کیفیت میں میری خواجہ ابوالکلام صدیقی سے ملاقاتیں جاری رہیں اور انہوں نے بڑی محبت سے میری رہنمائی کی،میں سمجھتا ہوں کہ وہ میرے محسنوں میں سے ہیں۔ شاید ہی کوئی اورایسا اہل علم و حلم ہو، ان میں تقویٰ بھی ہے ، محبت بھی اور شفقت بھی ہے ۔اگر درست معنوں میں کوئی مسلمان دیکھنا ہو تو پھر خواجہ صاحب کو دیکھ لیا جائے۔آپ کسی بھی فتنے میں مبتلا شخص کو ان کے پاس لے کر جائیں،وہ ان سے ضرور فیض حاصل کرتا ہے، ان کے پاس دلائل کے انبار ہیں، لیکن نہ تو انہوں نے کبھی اس کا ذکر کیا ہے ،نہ دوسرے کو اِس کا احساس دلایا ہے کہ وہ اُس سے کس قدر برتر ہیں۔انتہائی مٹے ہوئے شخص ہیں،ہمیں اندازہ نہیں ہوتا،ایسے لوگ ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں۔میں نے انہیں کہا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اب میرا مذہب کیا ہے ، مسلمانوں نے مجھے قادیانی قرار دے دیا ہے، کیوں کہ میں نے قادیانیوں کے جھوٹے دین کو اپنا لیا تھا، اور قادیانیوں کا پردہ فاش ہوچکا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔عام قادیانی تو قادیانی جماعت کے انتظام اور ظاہری عبادات کو دیکھ کر ہی مطمئن ہے،کہ یہی اسلام ہے ، ان میں تحقیق کا مادہ ہی انہوں نے ختم کردیا ہے۔ادھر ہمارے علماء داعیانہ اسلوب سے واقف ہی نہیں ہیں اور جنہیں اس سے واقفیت ہے،ان کا یہ شعبہ ہی نہیں ہے وہ تبلیغ کی جانب راغب ہی نہیں ہیں۔اس پر مجھے خواجہ صاحب نے کہا کہ آپ ہمت کرو اور اس شعبے کواپناؤ، انہیں دعوت حق دو اور سچ سے روشناس کراؤ۔یہ پہلا قدم آپ ہی اٹھائیں، اگرچہ مشکل کام ہے، لیکن کسی کو تواِبتدا کرنی پڑے گی۔اس سے مجھے کچھ حوصلہ ملا۔
مسلمانوں کے رسائل بھی میرے پیش نظر رہے ، جن میں وہ کوئی نہ کوئی ایسی کچی بات کرجاتے ، جس سے قادیانیوں کو موقع مل جاتا اور اپنے معتقدین کو کہتے کہ یہ دیکھو ،یہ ان کی جہالت کا عالم ہے ، جیسے کہ جب میں ابھی قادیانی ہی تھا کہ ایک معروف ٹی وی اینکر نے ایک شخص کو پیش کیا،کہ یہ مرزا ناصر کا بیٹا ہے ، لیکن اس کی تردیدقادیانی اخبار’’ الفضل ‘‘نے بھی پیش کی کہ اس کا مرزا کے خاندان سے دُور دُور کا واسطہ نہیں ہے ، اور کراچی سے ختم نبوت کے ایک رسالے میں اس شخص کے بارے میں مضمون شائع ہوا کہ وہ شخص فراڈی ہے اور یہ ہمارے پاس بھی فلاں تاریخ کو آیا تھا،اس کا مرزا کے خاندان سے تعلق نہیں ہے۔
اس سے پہلے میں مجلس احرار اسلام ملتان کے دفترسے بھی رسائل خرید نے جاتا تھا، اُن کا رسالہ ماہنامہ ’’الاحرار‘‘ اور ماہنامہ’’ نقیب ختم نبوت‘‘ بھی خریدنے چلا جاتا تھا، وہاں ایک سرگرم احراری کارکن عبد الحکیم مرحوم میرے پرانے جاننے والے تھے، تین برس قبل فوت ہوگئے ہیں، ان سے ملاقات ہوگئی۔دراصل 2010ء نومبر میں جب میں احرار کے دفتر میگزین لینے گیا توعبدالحکیم نے مجھے دیکھ لیا ، وہ جانتے تھے کہ میں قادیانی ہوچکا ہوں۔انہوں نے مجھے روک کر حال احوال لینا شروع کردیا۔میں بہت خوفزدہ ہوگیا کہ اب ان لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور دفتر میں میرے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کیاجائے۔یہی بات میں نے اُن سے بھی کہی کہ مجھے جانے دیں اب آپ لوگ میرے ساتھ نہ جانے کیاسلوک کریں، تو عبدالحکیم نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔کچھ نہیں ہوتا، آرام سے بیٹھو۔ اتنے میں حضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے نواسے حضرت سید محمدکفیل بخاری صاحب گھر سے نکل کر دفتر آرہے تھے،عبدالحکیم نے بھاگ کر انہیں بلا لیا، میں نے کہا کہ اب میری خیر نہیں ہے، کیوں کہ جماعت احمدیہ ہمیں احراریوں سے ملنے اور ان کے دفتر جانے سے سختی سے منع کرتی تھی، مگر اس کے برعکس سیدکفیل شاہ صاحب بخاری مجھے بڑے اچھے انداز میں ملے، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اندردفتر لے گئے اور تسلی دی کہ آپ آرام سے بیٹھیں، یہاں آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے،آپ ہمارے مہمان ہیں۔انہوں نے مجھے حضرت مولانا سیدعطاء المحسن شاہ بخاری جو کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے فرزند تھے، اُن کے بارے میں بتایا کہ بعض قادیانی اُن کے پاس آتے تھے اور سوالات کرتے تھے، بعض اوقات ساری ساری رات سوالات کا سلسلہ چلتا رہتا۔سیدکفیل شاہ صاحب نے مجھے ملتان کی ایک فیملی کے بارے بتایا کہ ان کا ایک نوجوان شاہ صاحب کے پاس آیا کرتا تھا اورسوالات وجوابات کا سلسلہ جاری رہتا تھا،بالآخر وہ قادیانیت چھوڑ کرمسلمان ہوگئے ۔ میں اس فیملی کو جانتا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ وہ پہلے قادیانی تھے، چنانچہ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ آیا کریں، تو میں نے کہا کہ نہیں ہم پر تو بہت پابندیاں ہیں، میں یہاں نہیں آسکتا،انہوں نے کہا کہ آپ اب بات کرلیں،میں نے کہا کہ جناب آپ سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ حضرت امام مہدی کے حوالے سے غور فکر کریں، تو انہوں نے کہا کہ بالکل کرنی چاہیے،چنانچہ مجھے حوصلہ ہوا کہ مجھے سید کفیل بخاری صاحب اور یہاں جتنے اور لوگ ہیں، ان سب کو بھی قادیانیت کی دعوت دینا چاہیے، چنانچہ میں نے آناجانا شروع کردیا،میں انہیں قادیانی جماعت کے کتابچے پڑھنے کودیتا، وہ کہتے کہ میں انشاء اﷲ اس کا مطالعہ کروں گا۔انہوں نے بہت دھیمے انداز میں میرے سوالات کے جوابات دینے شروع کردیے، چنانچہ خواجہ ابوالکلام صاحب اور سید کفیل بخاری صاحب سے ملاقاتوں سے بہت کچھ وضاحت ہوگئی۔
اب میں نے قادیانیوں کی دی ہوئی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی کوشش شروع کردی،انہیں سب کاغذات واپس کردیے اور کہا کہ میری ذمہ داری بڑھ گئی ہے اور کئی خانگی مسائل ہیں،لہٰذااَب یہ ڈیوٹی کسی اور کی لگائیں، چنانچہ انہیں میرے بارے کسی قسم کا شک نہ ہوا، پھر ایک روز جمعہ کے دن میں مجلس احرار کی مسجد ختم نبوت ملتان میں عبدالحکیم مرحوم سے ملا اور اُن سے کہا کہ میں نے قادیانیت چھوڑدی ہے۔وہ بہت خوش ہوئے، اور اُنہوں نے حضرت سید کفیل بخاری صاحب جواُس وقت لاہور تھے، انہیں فون پر میرے متعلق بتایا، شاہ صاحب نے مجھے فون پرمبارک باد دی ، اور دعوت دی کہ لاہو رآجائیں، آج جمعہ ہے اور اتوارکو ہماری کانفرنس بھی ہے ، یہاں آجائیں، چنانچہ عبدالحکیم کے ساتھ میں لاہور چلا گیا۔ مارچ 2011ء کو مجھے شہداء ختم نبوت کانفرنس میں ہی دوبارہ کلمہ پڑھایا گیا،اور باقاعدہ مسلمان کیا گیا۔
اِسی دوران میں نے اپنی بیوی کو بھی اپنی تحقیق سے آگاہ کیے رکھاتھا، اور اُسے بھی اپنے تازہ فیصلے سے متعلق بتا دیا کہ حقیقت اب مجھ پر کھلی ہے کہ ہم پہلے تو جھوٹ کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔ میری بیوی میرے ساتھ میری تحقیق میں شامل رہی۔ قادیانیت پر تحقیق میں بھی اسے اعتماد میں لیتا رہا اور جب مرزا قادیانی کے جھوٹ سامنے آئے اوراحادیث کامطالعہ کیا تواُسے بھی سب کچھ بتایا، چنانچہ اس نے بھی میرے ساتھ ہی مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے دوبارہ نکاح کیا، بھائیوں میں سے ایک بھائی فوت ہوگیا تھا، جب کہ دیگر دوبھائی یہاں تھے،وہ میرے مسلمان ہونے پر بہت خوش ہوئے، تمام رشتہ داروں کا معلوم ہوا،اور سب نے میرا بائیکاٹ ختم کردیا۔
قادیانی جماعت نے میرے آنے جانے کے اختتام سے اندازہ لگایا کہ بندہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اسی دوران میں نے قادیانیوں میں تبلیغ شروع کردی۔ قادیانی جماعت کے مربیوں نے مجھ سے بات کی کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں، تو میں نے تمام تحریریں ان کے سامنے رکھ دیں ، وہ بہت بحث مباحثہ کرتے رہے ،لیکن مجھے مطمئن نہ کرسکے۔بہرحال میں نے ان سے اپنا رویہ معاندانہ نہ رکھا، اور سوچا کہ کل انہیں دعوت حق دینی ہے ،اس لیے لڑائی کا فائدہ نہیں ہے ، بلکہ مجھے وہ کام کرنا ہے کہ جو آج تک کسی نے جم کر نہیں کیا، یعنی انہیں جہنم کی آگ سے بچانا ہے۔اﷲ سے دعا کی کہ مجھے کسی قسم کے اشتعال سے بچانا، اور جس داعیانہ کردار کے لیے میں نے سوچا ہے، اس پر ثابت قدم رکھنا، یہی بات میں نے مجلس احرارکے بزرگوں سے بھی کی۔میں نے کہا کہ مجھے قادیانیوں کو دیکھ کر غصہ آنے کے بجائے ان پرترس آتا ہے کہ وہ ایمان لٹوا چکے ہیں قادیانی جماعت کے قیدی ہیں، کوئی باہررشتہ ناتہ نہیں کر سکتا، یہ تو جہنم کی آگ سے زندگی بھر رہے ہیں۔کسی اور کا جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔ ملتان میں ایک قادیانی خاندان تھا، لیکن ان کی والدہ ساری زندگی مسلمان رہی، اس نے قادیانیت نہ اپنائی، وہ نانی دادی بن چکی تھی،سارا گھرانہ قادیانی رہا، لیکن وہ مجاہدہ مسلمان ہی رہی۔ جب وہ انتقال کرگئیں تو ان کے بیٹوں نے اس کا جنازہ پڑھ لیا، جس پر جماعت نے انہیں باہر نکال دیا، ایک بھائی نے ’’خلیفہ‘‘ کو درخواست لکھ کر معافی مانگ لی،لیکن تین بھائیوں نے معافی نہ مانگی،اورجماعت سے خارج رہے۔میں جب جماعت کی ذمہ داری پرتھا تو میں نے ان سے پوچھا تھاکہ آپ معافی نامہ کیوں نہیں لکھتے، توانہوں نے کہا کہ بھائی ہمارے لیے اچھا ہوگیا ہے کہ ہماری چندے دینے سے جان چھوٹ گئی ہے۔اب وہ نہ مسلمانوں میں شامل ہیں نہ قادیانیوں میں ہیں، ایسے بہت سے کیس تھے۔
چنانچہ میں نے مسلمان ہوجانے کے بعدسب سے پہلے اُن قادیانیوں کو دلائل اور شفقت سے اسلام کی دعوت دینی شروع کردی جو میری تبلیغ سے قادیانی ہوگئے تھے، ان پر محنت کرکے انہیں واپس اسلام میں لے آیا، ایک شخص بہت پرانا قادیانی ہوچکاتھا، عبدالرحمان سندھو نام تھا، اس پر محنت کی اور اسے مسلمان کیا، میں نے مجلس احرار کے بزرگوں سے عرض کیا کہ آپ کو دعوتِ اسلام کا کام تیزکرنا پڑے گا، ہم نے قادیانیوں کے خلاف اتنی موٹی دیواریں کھڑی کردی ہیں کہ وہ ہمارے نزدیک نہیں آتے، انہیں مسلمان کرنا ہمارا فرض ہے ،جس پر احراررہنماؤں نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ انہیں لائیں ، ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں،آپ انہیں یہاں کھانا کھلائیں، چائے پلائیں اور دعوت دیں، چنانچہ میں جن قادیانیوں پر محنت کرتا، اُنہیں احرار کے دفتر لاتااور اُن پر مزید محنت کرکے انہیں الحمد ﷲ دائرہ اسلام میں داخل کرلیا جاتا۔
پھر میں ملتان سے لاہور شفٹ ہوگیا،وہاں جاب کا بندوبست ہوگیا،مجلس احرار کی طرف سے مجھے احرارکے شعبۂ تبلیغ میں ناظم تبلیغ و ارشاد کی ذمہ دے دی گئی،چنانچہ میں اب ملتان کے دوستوں کو لاہور بلا لیتا، ان کی خدمت کرتا، اور انہیں کتب پڑھنے کو دیتا،ملتان سے قادیانی نوجوان عبدالرحمن سندھو بھی میرے پاس لاہور آئے اور الحمدﷲ وہ قادیانیت چھوڑنے کے لیے تیارہو گئے،چنانچہ انہیں لاہور سے ملتان لاکرحضرت سیدمحمد کفیل شاہ صاحب بخاری کے ہاتھ پر مسلمان کیا، دو اورقادیانی لڑکوں محمد بلال اورنوید احمد کو بھی اِسی طرح مسلمان کیا۔کئی پیدائشی قادیانی بھی مسلمان کیے ،جن میں بعض پیدائشی قادیانی خواتین بھی شامل ہیں،اگرچہ انہوں نے اسلام تو قبول کرلیا ہے، لیکن مسلمان ہونے کاابھی اعلان اس لیے نہیں کیا کہ وہ اپنے طورپر قادیانیوں میں دعوت کا کام کررہے ہیں،کیوں کہ اعلان کردیا جائے تو ساری قادیانی جماعت محتاط ہوجاتی ہے۔اب وہ بظاہران کے ساتھ ہیں ، لیکن اندرونِ خانہ کام وہ اسلام کا کررہے ہیں۔ان کے ذریعے سے بھی کئی قادیانی مسلمان ہورہے ہیں۔علاوہ ازیں میں نے ہر قادیانی کو ایک دعوتی خط لکھا اور انہیں تحقیق کی دعوت دی ، جس پر قادیانی جماعت نے اپنی تمام شاخوں کومیرے خلاف ایک خط جاری کیا کہ آصف نامی شخص سے ہر قادیانی بچ کر رہے ۔الحمد ﷲ میرا یہ سفر جاری ہے ،میری مسلسل کوشش اوراﷲ سے دعا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایسا مضبوط کام کرجاؤں کہ دعوتِ اسلام کا یہ مقدس کام چلتا رہے ۔احرار نے مجھے بھرپور پلیٹ فارم مہیا کیا ہوا ہے اور میرے کام کو ہر طرح کا تعاون فراہم کررکھاہے۔آپ سے بھی دعا ہے کہ میرے حق میں دعا کریں کہ اﷲ مجھے دعوت کے اس کام میں استقامت عطا فرمائے۔ آمین