چکوال انتظامیہ دوالمیال میں میلاد النبی کے جلوس پر فائرنگ کرنے والے شر پسندوں کو بچانے کے لیے سرگرم ہے، اس کیس میں صرف دو قادیانیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 250 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، پولیس اور رینجرز نے تین روز سے علاقہ کا محاصرہ کر رکھا ہے، گاؤں میں تین بکتر بند گاڑیاں بھی موجود ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس وقت مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، تمام نوجوان اور مرد اپنے گھروں سے فرار ہو کر دُور دراز کے دیہات اور شہروں میں رشتہ داروں اور عزیزوں کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں، دوسری جانب صرف دو قادیانی جن پر آتشیں اسلحہ سے ایک شخص نعیم کو شہید اور متعدد کو زخمی کرنے کا الزام ہے کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے صرف مساجد کے مؤذن حضرات کو دوالمیال میں رہنے کی اجازت دی ہے، تاکہ مساجد میں اذان اور نماز پر پابندی کا تاثر پیدا نہ ہو، قصبے کی دکانیں بند ہیں اور خواتین دوسرے دیہات یا قریبی شہر چو آسیدن شاہ سے اشیائے ضروریہ لانے پر مجبور ہیں، تین بکتر بند گاڑیوں سمیت بڑی تعداد میں رینجرز اور ایلیٹ فورس اور دیگر اضلاع سے بلائے گئے ہزاروں پولیس اہلکاروں نے پورے قصبے کا محاصرہ کیا ہو اہے، دوسری جانب قادیانیوں کے حامی پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے، جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں، مقامی ذرائع کے بقول انتظامیہ نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، قریبی دیہات دلیل پور، خیر پور، تترال وغیرہ میں بعض افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار کر درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اب پورے علاقے میں چھاپے مار کر خوف وہراس پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اس علاقے کا کوئی مسلمان آئندہ قادیانیوں کی شر انگیزی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت نہ کرے، ذرائع کا کہنا ہے کہ قادیانی یورپی ممالک کی شہریت کے حصول کے لیے پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ انہیں زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
واضح رہے کہ تھانہ چوآسیدن شاہ کے ایس ایچ او کی مدعیت میں دُوالمیال، خیر پور، تترال، بڈھیال اور دلیل پور وغیرہ کے 35 نامزد اور تقریباً تین ہزار نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کی متعدد دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، ان افراد پر دہشت پھیلانے، جلاؤ گھیراؤ، محاصرے، مذہبی منافرت پھیلانے اور کار سرکار میں مداخلت وغیرہ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جبکہ اِسی ایف آئی آر نمبر 9 تاریخ 12دسمبر 2016 میں قادیانی ریاض ولد محمد خان وغیرہ پر میلاد النبی کے جلوس پر فائرنگ کر کے نعیم شفیق کو قتل اور محسن علی، نعمان رضوی او رمزمل کو زخمی کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام ہے، ریاض کے علاوہ جو دوسرا قادیانی گرفتار کیا گیا ہے، اس کا نام کرنل فاروق ہے۔ البتہ دُوسرے فائرنگ کرنے والے قادیانی کا نام ایف آئی آر میں عنصر ولد مبارک ہے، جو تاحال مفرور ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق جلو س میں شامل تترال کے رہائشی محمد نعیم ولد محمد شفیق کو صبح دس بجے گولی لگی،اس کے زخمی ہونے کے بعد قادیانی دیوار کے قریب سے اسے اٹھا کر اندر لے گئے اور مبینہ طور پر اس پر تشدد بھی کیا، جبکہ مسلمانوں کے جلوس کو علم ہی نہ ہو سکا کہ ان کا ایک ساتھی گولی لگنے سے زخمی ہوا ہے اور قادیانیوں کی حراست میں ہے، مسجد جس کو قادیانیوں نے بیت الذکر کا نام دے رکھا ہے، ایف آئی آر کے مطابق اس کے اندر کرنل فاروق او رریاض سمیت تقریبا پچاس افراد قلعہ بند تھے۔ اسی دوران ایک قادیانی خالد جاوید ولد ایوب دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوگیا، جس کی تصدیق اس کی میڈیکل رپورٹ سے بھی ہو گئی ہے، دوپہرکو جب قادیانی قلعہ بندی ختم کر کے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے تو مسلمان محمد نعیم کو بھی ساتھ لے گئے، جبکہ قادیانی جاوید کی لاش کو وہیں چھوڑ گئے، اس کے بعد مسلمان مسجد میں داخل ہوئے اور ساڑے چار پانچ گھنٹے اندر موجود رہے، ا س دوران تلاوت قرآن کے علاوہ آقائے نامدار ﷺ کو گلہائے عقیدت پیش کیے گئے اور درود وسلام کی پرنور محفل سجی، لیکن مسجد اور اس کے احاطے میں کسی کو محمد نعیم کی لاش نظر نہیں آئی، عصر کے بعد انتظامیہ کے دباؤ پر مسلمانوں کو مسجد خالی کرنی پڑی، جبکہ مغرب کے بعد پولیس و انتظامیہ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ ان کا ایک فرد گولی لگنے سے جاں بحق ہوگیا ہے اس کی میت آکر اٹھا لیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ریاض قادیانی کی جانب سے چلائی گئی گولی دن تقریبا دس بجے نعیم کو لگی تھی، شام ساڑھے پانچ بجے تک وہ کس حالت میں تھا، کس کی تحویل میں اور کہاں تھا، اگر اس کی لاش مسجد کے احاطے میں موجود تھی تو وہاں پانچ چھ گھنٹے موجود رہنے والے مسلمانوں کو نظر کیوں نہ آئی؟ مقامی افراد سید طلحہ شاہ اور محمد رفاقت کے مطابق قادیانی ممکنہ طور پر زخمی نعیم کو ساتھ لے گئے تھے، اس دوران نعیم کا انتقال ہوا، وہ شاید اسے غائب کرنا چاہتے تھے، لیکن پولیس کی بھاری نفری کی آمد کے بعد لاش کو حوالے کرنے پر مجبور ہوئے۔ علاقے کی ممتاز سماجی شخصیت سید فاروق شاہ کے مطابق دُور و نزدیک سے لوگ جوق در جوق محمد نعیم کی فاتحہ کے لیے تترال گاؤں آرہے ہیں لیکن پولیس کی موجودگی کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ہمارے بزرگ بابا جعفر شاہؒ نے اپنی ذاتی زمین پر یہ مسجد بنائی تھی۔ جس کا ثبوت حکومت کا لینڈ ریکارڈ ہے۔ بعد میں یہ مینار والی مسجد کے نام سے مشہور ہوئی۔ ممتاز مذہبی سکالر ڈاکٹر آصف جلالی نے بھی دو دن قبل اس علاقہ کا دورہ کیا اور محمد نعیم کی قبر پر فاتحہ خوانی کی۔ (روزنامہ ’’امت‘‘، کراچی۔ 15؍ دسمبر 2016ء)