تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

(ناول ) عشق کے قیدی

ظفر جی ( قسط نمبر ۱)

اس کہانی کا آغاز پنجاب پبلک لائبریری سے ہوا۔میں یہاں کچھ کتابوں کی تلاش میں آیا تھا۔ ان دنوں میں ایک تھیسس کی تیاری میں تھا۔ میرے پاس صرف دو ماہ کا وقت تھا۔ میں سارا دن کتابوں کی ایک طویل لسٹ ہاتھ میں تھامے لائبریریوں کی خاک چھانتا۔ کبھی تو سارا دن بیکار جاتا اور شاذ ہی کوء کتاب ہاتھ آتی۔ کبھی کوء معرکۃ الاراء کتاب مل جاتی تو وہیں بیٹھے بیٹھے نوٹس بنانے لگتا۔
سردیاں شروع ہو رہی تھیں۔ اور میرے پاس وقت بہت کم تھا۔
ایک دن یونہی کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھا کہ کندھے پر ایک شفقت بھرے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔
مڑ کر دیکھا تو ایک بابا جی تھے ۔ ساٹھ ستر برس کا سن ، آنکھوں پر موٹے عدسوں کا چشمہ ، سر پر جناح کیپ ، سفید کرتا پاجامہ اور چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ ۔
” جی فرمائیے ” میں نے کتاب بند کر کے ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔
” کیا پڑھ رہے ہیں ؟”
“کچھ تاریخی کُتب !!! ” میں نے ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔
” اسٹوڈنٹ ہو ؟”
” جی ․․․ بس یہی سمجھ لیجئے ! ”
” میرا نام آفتاب چاند پوری ہے ․․․․ میں یہاں پاس ہی رہتا ہوں۔” انہوں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
” جی میں ظفر ․․․․” میں نے مختصراً تعارف کرایا۔
مطالعے کا کافی شغف رکھتے ہیں آپ ”
” جی ․․․․ بس ایک تھیسس کی تیاری ہے ․․․․ دعا کریں کامیاب ہو جاؤں۔”
” اچھا ․․․․ ماشاء اﷲ ․․․․ کیا تھیسس ہے ؟”
” ریاست اور مذھب ․․․ ”
“عنوان تو کافی دلچسپ ہے ․․․” وہ میرے پاس بیٹھتے ہوئے بولے ۔ ” مذھب انسان کے اخلاقی حقوق کا بنیادی ضامن ہے ․․․․ اسے نکال دیں تو ایک جابر ریاست ہی بچتی ہے ․․․․ جسے اپنے حقوق سے ہی سروکار ہوتا ہے ”
” لاجواب ․․․․ لیکن میری تحقیقات خصوصاً اس موضوع پر ہیں کہ کیا ایک ریاست کسی گروہ کو کافر قرار دینے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں ؟” میں نے کہا۔
” اچھا ․․․․ تو اب تک کیا نتیجہ اخذ کیا ؟ ”
” میرا گمان تو یہی ہے کہ ریاست کو عوام کے مذھب سے زیادہ اس کی ویلفیئر کی فکر ہونی چاھئے ․․․․ میں مذھب کو کسی حد تک انسان کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں۔”
” بالکل ٹھیک ․․․․ لیکن ایسی ریاست کو سیکولر ریاست کہا جاتا ہے ․․․․ اسلامی ریاست میں مذھب ایک بنیادی عنصر کی حیثیّت رکھتا ہے۔ ”
“لیکن فی الوقت پاکستان ایک اسلامی ریاست تو نہیں ہے ․․․․ یہاں ہر مذھب ․․․ مسلک ․․․ ”
“ٹھہرئیے ٹھہرئیے ․․․․ ” انہوں نے پُرسکون لہجے میں کہا۔” پاکستان ایک اسلامی ریاست نہ سہی ․․․․ ایک مسلم ریاست تو ہے ۔ یہاں 97 فیصد مسلمان بستے ہیں ․․․ اور تین فیصد غیر مسلم ․․․․ آپ کا کیا خیال ہے کہ لاالہ الا اﷲ کے نام پر بننے والے ملک میں مذھب کو ایک ثانوی حیثیّت دے دی جائے ؟”
” میں مذھب کی ریاستی امور میں مداخلت کی بات کر رہا ہوں ․․․․ خاص طور پر جب کسی ایسے گروہ کو کافر قرار دینے کا مسئلہ درپیش ہو جو تمام شرعی وجوب ادا کرتا ہو ․․․․ کفر کے فتوے بانٹنا اہلِ مذھب کا پرانا وطیرہ ہے ․․․․ ریاست کو اس میں کودنے کی کیا ضرورت ہے ؟ ”
” کودنا پڑتا ہے بھائی ․․․․ دیکھو ․․․ مارکیٹ میں کوئی جعلی مشروب بیچے ،یا آبِ زمزم کا ٹیگ لگا کر مضرِ صحت پانی بیچنے لگے ․․․․ عوام بیمار ہونے لگیں ․․․․ تو کیا ریاست اسے ڈاکٹروں کا مسئلہ قرار دے کر لاتعلق ہو جائے گی ؟”
” ہم صحت پر نہیں ․․․ مذھب پر بات کر رہے ہیں۔” میں نے ٹوکا۔
” پانی گدلا ہو جائے تو صحت برباد ہوتی ہے ․․․․ اور مذھب آلودہ ہو جائے تو معاشرہ۔”
ہمارے بیچ کئی روز تک گفتگو چلتی رہی۔ ان کے سمجھانے کا انداز نہایت دھیما اور دلچسپ تھا۔ میں روز لائبریری آتا،لیکن کتابوں سے زیادہ چاند پوری کو پڑھتا۔ وہ پرانے ادوار کے صحافی تھے ۔ انہوں نے مولانا ظفر علی خان ، مولانا اختر علی خان ،غلام مرتضی میکش اور شورش کاشمیری کا دور دیکھا تھا۔جب صحافت ایک عبادت ہوا کرتی تھی۔ چند دنوں کی گفتگو میں اس پیرِ فرتوت نے تاریخ کے کچھ ایسے باب واء کئے کہ میرے تخیل پر جمی لادینیت کی میل اترنے لگی۔
ایک روز میں صبح صبح لائبریری پہنچا تو وہ اچکن، شیروانی پہنے ، چھڑی تھامے دروازے پر کھڑے تھے ۔
“خیریت ؟ لائبریری بند ہے کیا ؟”
” نہیں ․․․․ آج فیلڈ وَرک پر چلتے ہیں ! ”
” فیلڈ وَرک ؟” میں نے حیرت سے کہا۔
” آج 16 دسمبر ہے ․․․․ آج ایک ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں تاریخ کا گمشدہ خزانہ دفن ہے ․․․․ وہاں آپ کے تمام سوالات کا شافی جواب مل جائے گا ․․․․ اور آپ کا تھیسز ایسے ایسے تیار ہو جائے گا ․․․ ” انہوں نے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
“واقعی ؟ کہاں ہے یہ خزانہ ؟”
” موچی گیٹ سرکلر روڈ پر ! ”
” موچی گیٹ ؟ وہاں تو کوئی لائبریری نہیں ․․․․ ”
” لائبریری سے صرف علم ملتا ہے ․․․․ اور فیلڈ وَرک سے تجربہ ! ”
______________________________
ہم نے ایک رکشہ کرائے پر کیا اور لاہور کی پرہجوم گلیوں سے گزرتے ہوئے نسبت روڈ کی طرف چل دئیے ۔ کوئی نصف گھنٹہ کے بعد انہوں نے رکشہ رکوایا۔ اور نیچے اترتے ہوئے بولے :
“اتریے جناب ․․․․ منزل آ گئی۔”
میں کاپی پنسل سنبھالتا ،رکشے سے اترا اور حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔یہاں ایک پرانی مخدوش عمارت کے سوا کچھ نہ تھا۔
” استاد یہ کہاں لے آئے ؟ آثارِ قدیمہ میرا سبجیکٹ نہیں ہے ۔”
” اس آثارِ قدیمہ میں تاریخ کے بے شمار انقلابات پوشیدہ ہیں ․․․․ یہی وہ تاریخی عمارت ہے ،جہاں بابائے قوم نے 22 مارچ 1940ء کو اپنے رفقائے کار کے ساتھ بیٹھ کر ایک آزاد اسلامی مملکت کے خدوخال تراشے تھے۔ ”
“لیکن اس کا میرے تھیسز سے کیا تعلق ؟ ” میں نے پریشانی سے کہا۔
“اندر تشریف لائیے ․․․․ تمام سوالات کا جواب مل جائے گا۔”
ہم عمارت کا آہنی گیٹ کھول کر صحن میں داخل ہوگئے ۔ یہاں قبرستان جیسی خاموشی تھی ، ہوا چلتی تو فرش پر پڑے پتّے اِدھر اُدھر بکھرنے لگتے ۔ اچانک ہی بھوں بھوں کرتی ایک بھِڑ کہیں سے نمودار ہوئی اور میرے چہرے کا طواف کرنے لگی۔ میں اندھا دھند ہاتھ مار کر اُس بلا سے جان چھڑانے لگا۔
“کچھ نہیں کہتی ․․․․ بس شناخت چاہ رہی ہے ․․․․ سیکورٹی گارڈ ہے۔ ” چاند پوری مسکراتے ہوئے بولے ۔
عمارت کے خدوخال کسی بھوت بنگلے سے کم نہ تھے ۔ امتدادِ زمانہ نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ عمارتی رنگ و روغن پھیکا پڑ چکا تھا، لکڑی کے پرانے دروازوں اور کھڑکیوں میں دیمک رچ بس چکی تھی۔ آس پاس کی فلک بوس عمارتیں اس قدیم تعمیرکو اَیسے گھور رہی تھیں ،جیسے دانشوروں کی بھیڑ میں کوئی سادہ لوح مولوی آن پھنسا ہو۔
“دیکھئے قبلہ ․․․․ آپ میرا وقت ضائع کر رہے ہیں ․․․․” میں نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
“آپ کا وقت قیمتی بنے گا ․․․ کتابی کیڑا بننے سے تھوڑا فیلڈ وَرک کر لینا بہتر ہے ”
اس دوران اچانک موسم خراب ہونے لگا۔ آندھی اتنی شدید تھی کہ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ میں ایک دیوار کا سہار لے کر طوفان سے بچنے کی کوشش کرنے لگا ․․․․ دھول ، مٹّی گردو غبار سے آنکھیں اَٹ گئیں۔ تیز ہوا میں کہیں سے اڑتا ہوا ایک اخبار میرے چہرے پر آ کر چپک گیا۔
(روزنامہ’’ زمیندار‘‘ ․․․․13جوائی1952 ) (جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.