ڈاکٹر عمرفاروق احرار
سال بھرپہلے زبدۃُالعلماء حضرت مولانا شیخ عبدالحفیظ مکی قدس اﷲ سرہ ‘ العزیزکی رحلت نے ہمیں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا رحمتہ اﷲ علیہ کے دورسے مزیددُورکردیا۔ حضرت مکیؒ، حضرت شیخ الحدیث کی جلوتوں اورخلوتوں کے رازداراوراَمین تھے۔ہم نے حضرت شیخ الحدیث کی زیارت نہیں کی،مگر حضرت مکیؒ کو اَلحمدﷲ جی بھر کر دیکھااوراُن کی محبتوں اورشفقتوں سے خوب خوب استفادہ کیا۔انہیں دیکھ کر بخوبی اندازہ کیاجاسکتاتھاکہ واقعی اکابرکی تربیت یافتہ ہستیاں اِس قحط الرجال میں اپنی مثال آپ تھیں۔حضرت مکیؒنے اپنے اعلیٰ کردار،زہدوتقویٰ اورحسنِ عمل سے اپنے اکابر اورمشائخ کی نیک نامی میں گراں قدراِضافہ کیا۔انہوں نے زندگی بھرسالکانِ طریقت کو شرک وبدعت کی مسموم ہواؤں سے بچاکر، خالقِ حقیقی کی وحدانیت کے ا سباق کے ساتھ ساتھ، تحفظ ختم نبوت کا نوراورشعوربھی منتقل کیا۔وہ نہ صرف روحانی درجات کی بلندیوں پر فائزتھے ،بلکہ اعلیٰ انسانی اخلاق واَقدارکا عملی نمونہ بھی تھے۔اُن کی ہرفردسے محبت اورتعلق کا ایک خاص اندازاورطریقہ تھا۔جسے بھی اُن کی صحبت وملاقات سے ایک باربہرہ ور ہونے کا موقع ملا۔پھر وہ شخص ساری ہی زندگی کے لیے اُن کی شخصیت کے سحر سے نہ نکل سکا۔حضرت مکیؒ وضع دارشخصیت کے مالک تھے۔جس سے تعلق قائم ہوا۔پھرعمربھرتعلق ورابطے میں تعطل نہ آنے دیا۔غرض یہ کہ اُن کے وجودِ گرامی سے ہرطبقہ کے لوگوں کو فیض و رہنمائی ملتی رہی۔یہی وجہ تھی کہ اُن کی مجالس میں ہرشعبۂ زندگی کے افرادحاضرہوتے اوراُن کے فیوض و توجہات سے دامن بھرکراُٹھتے تھے۔
یوں تو حضرت مکیؒ سے غائبانہ تعارف ایک طویل عرصہ سے تھا۔ خصوصاً مرشدی ابن امیرشریعتؒ پیرجی حضرت مولانا سیّد عطاء المہیمن بخاری مدظلہ‘ کی زبانی اُن سے قریبی تعلقات کے حوالے سے بے شمار واقعات اور مجلسی گفتگوؤں کے احوال اکثرسننے کو ملے،مگرحضرت مکیؒ کی زیارت پہلی بارمجلس احراراسلام کی سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں ہوئی۔ جہاں آپ نے تفصیلی خطاب فرمایا۔وہاں حضرت سے احرارکے جاری کردہ ’’فہم ختم نبوت،خط کتابت کورس‘‘کے لیے تحریری تاثرات بھی حاصل کیے اورساتھ ہی اُن کی دعاؤں کے خزانے بھی عطاء ہوئے۔ بعد ازاں 2013ء میں اُن کی جماعتی سطح میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔آپ نے مجلس احراراسلام ،تلہ گنگ،ضلع چکوال(پنجاب)کے زیراہتمام سالانہ کُل جماعتی تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی اورقبل ازنمازجمعہ نہایت پُراثراورپُرمغزخطاب بھی فرمایا۔جسے عوام الناس نے بے حد پسندکیا۔یہ تلہ گنگ میں آپ کی پہلی اورآخری آمدثابت ہوئی ،لیکن اُن کی تشریف آوری کے اثرات دیرتک محسوس کیے جاتے رہے۔
2013 ہی میں اﷲ نے حضرت مکی رحمتہ اﷲ علیہ سے قربت کا ایک موقع اورنصیب کردیا۔حضرت نے ساؤتھ افریقہ میں ختم نبوت کانفرنس کے لیے مجلس احراراسلام کو شرکت کی دعوت دی۔نواسۂ امیرشریعتؒحضرت سیّد محمد کفیل بخاری مدظلہ‘ کی ہمراہی میں مجھے بھی اس عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔27؍نومبرکو ہم لاہورسے براستہ جدہ ساؤتھ افریقہ روانہ ہوئے۔ جدہ سے حضرت مکیؒ بھی علماء اورمشائخ کے ایک بڑے قافلہ کے ساتھ ہمارے شریک سفر ہوئے۔ اس سفرمیں ہمارے ساتھ شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، ڈاکٹر احمد علی سراج، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا محمد یحییٰ لدھیانوی، مولانا مفتی شاہد محمود، قاری محمد رفیق وجھوی، شمس الدین، مولانا بدر عالم چنیوٹی،مولانازاہدمحمودقاسمی،پروفیسرظفراﷲ بیگ، عبد الحمید چشتی، پیر محمد شکیل اختر وغیرہ شامل تھے۔ جوہانسبرگ میں اترے تو مولانا محمد ابراہیم پانڈو کی رہائش گاہ پر حاضری ہوئی۔ جہاں دارالعلوم دیوبندکے مہتمم حضرت مولانا ابو القاسم نعمانی مدظلہ‘ بھی تشریف لے آئے۔ اُن کی آمدہم جیسے طالب علموں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔ حضرت نعمانی کی سادگی، بے تکلفی، برجستگی کے ساتھ، ساتھ اُن کے تبحر علمی، حالاتِ حاضرہ سے باخبری اور نپی تلی گفتگو نے بے حد متاثر کیا۔ رات بذریعہ جہاز کیپ ٹاؤن پہنچے۔ جہاں ایک ہوٹل میں قیام رہا۔ راقم، مولانا زاہد الراشدی اور سید محمد کفیل بخاری کا ایک ہی کمرہ میں ساتھ رہا۔ 29؍نومبر کو اِنٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مسلم جوڈیشل کونسل افریقہ کے زیر اہتمام عالمی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں بیرون ممالک کی علمی شخصیات کے علاوہ ساؤتھ افریقہ کے نامورعلماء اور سکالرز شریک ہوئے۔ وہاں حضرت مکیؒنے عربی میں خطاب کیا۔اگر اُن سے پہلے سے شناسائی نہ ہوتی تو میں یقینا اُنہیں پاکستانی نہیں،بلکہ عرب ہی سمجھتا، کیونکہ اُن کی عربی میں طلاقتِ لسانی کا اندازہ مجھے وہاں ہی پہلی بار ہوا۔ کیپ ٹاؤن میں کانفرنس کی متعددنشستیں ہوئیں۔پھر جوہانسبرگ کے علاقے لینسیریا (Lanseria) اور بعد ازاں جوہانسبرگ کے علاقہ میفے خیل میں خانقاہ مکیہ کے تعمیری کام کو دیکھا۔یہ خانقاہ نوجوان عالم برادرم مولانا جنید ہاشم (خلفیہ حضرت مکیؒ) کی زیرنگرانی تعمیرہورہی تھی۔پھرلینیشیاسے ہوتے ہوئے 5؍دسمبر کو بذریعہ طیارہ ڈربن پہنچے۔ جہاں تبلیغی مرکز مسجد الہلال میں دار الاحسان سنٹرکے زیر اہتمام حضرت مکیؒ کی زیر صدارت ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس کی نظامت مولانا مفتی زبیر بیات مدیر دار الاحسان سنٹر نے کی۔ دار العلوم زکریا جوہانسبرگ میں قیام کے بعد کیپ ٹاؤن واپسی ہوئی۔
8؍دسمبر کو جدہ واپسی ہوئی۔ حضرت مکیؒ نے خصوصی شفقت فرمائی۔ آپ نے محترم سید محمد کفیل بخاری صاحب کی تجویزپر کیپ ٹاؤن ہی سے تمام قافلے کو عمرہ کرانے کے لیے خصوصی اجازت کا بندوبست کرلیا تھا۔ حالانکہ اُن دنوں ابھی عمرہ کا سیزن شروع ہی نہیں ہوا تھا۔ مکہ مکرمہ میں حضرت مکیؒ کی خانقاہ پاک میں قیام ہوا۔ وہیں آپ کے فرزند برادر محترم مولانا عمر مکی حفظہ اﷲ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا، کیونکہ فیس بک پر ایک عرصہ سے اُن کے ساتھ رابطہ تھا۔ مدینہ منورہ کے سفر کے دوران حضرت مفتی شاہد محمود حفظہ اﷲ کی زیر قیادت شہدائے بدر کے مزارات اور میدانِ بدر سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ تین گھنٹے مدینہ منورہ میں قیام اور برادرم احمد مکی کے ہاں طعام کے بعد واپس خانقاہ شریف آگئے۔ جہاں حضرت مکیؒ سے حضرت سید کفیل بخاری صاحب کی معیت میں علیحدگی میں تحریک ختم نبوت کی صورت حال پرتفصیلی اور اِختتامی ملاقات ہوئی۔ واپسی کی اجازت کے دوران مصافحہ کرتے ہوئے جب حضرت کفیل شاہ جی کی تقلیدکرتے ہوئے میں نے بھی حضرت مکیؒ کے دست مبارک کو فرطِ عقیدت سے چوما تو حضرت مکیؒ نے کمال بزرگانہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جواباً میرے ہاتھ پر بھی بوسہ دیا۔ جدائی کی گھڑی آچکی تھی۔ بوجھل دل کے ساتھ حضرت کی دعاؤں کے سائے میں 11؍دسمبر کو پاکستان واپسی کے لیے جدہ روانگی ہوئی۔
حضرت مکیؒ کے ساتھ گزرے ہوئے ایام زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اُن کی محبت وشفقت، خُلق وانکسار، تواضع اور بے تکلفانہ گفتگو نے از حد متاثر کیا۔ وہ رُوحانیت میں بہت بلندمقام کے حامل تھے، زہدو وَرع اُن کی زندگی کا جوہر تھا، مگر اَعلیٰ اِنسانی اقدار ورِوایات بھی اُن کی شخصیت کا خاصہ تھیں۔ تمام تر علوِ شان کے باوجود عام آدمی کے ساتھ اُن کاسلوک و رَوّیہ مثالی تھا۔ اُنہوں نے کبھی اپنی بزرگی نہیں جتائی، علم کا رُعب نہیں ڈالا، بلکہ پیار اور محبت کی نورانیت کے ساتھ سب سے برابر کا سلوک وتعلق روا رَکھا۔ جب کیپ ٹاؤن کے ساحل سمندر پر جانے کا اِتفاق ہوا تو وہاں بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ سر کی ٹوپیاں اور رُومال اُڑنے لگے تو سبھی نے اپنی دستار اور رُومال اُتار لیے، مبادا کہ اُڑ نہ جائیں۔ حضرت مکیؒ جنہیں کبھی ننگے سرنہ دیکھا تھا۔ آپ بھی عمامہ کے بغیر کھڑے تھے اور اُنہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ یہ اُن کی بے غرض محبت اور بزرگانہ شفقت کا ایک دل نشیں انداز تھا۔ آج ایک عرصہ گزر چکا ہے مگر اُن کے مبارک ہاتھوں کی حرارت کا لمس میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ دعاء ہے کہ روزقیامت بھی میرا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں ہو اورہم سب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لوائے حمدکے نیچے ایک ساتھ کھڑے ہوں۔ حضرت شیخ مکیؒ اب جہاں ہیں، وہاں اُن سے ملاقات اب قیامت ہی کو ہوگی، مگر اُن کی پاکباز اُلفت ومحبت کے قصّے سدا زِندہ وتابندہ رہیں گے۔ اُن کی یادوں کی خوشبودِل وجاں کو معطرکیے رکھے گی
اُنہی کی یاد ہی سے، اب تو مرا جی بہلتاہے
اُنہی سے اب تو پاتی ہے، سکوں، جانِ حزیں میری
اﷲ کے راستے میں ثبات وقیام
عبدالرحمٰن مغراء دَوسی بنو خزاعہ کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب قادسیہ کے معرکے میں لوگ اکٹھے ہوئے تو حضرت خنساء بنت عمرو النخعی نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور فرما نے لگے: میرے بچو! تم نے محض اﷲ کی اطاعت میں اسلام قبول کیا ہے اور ہجرت کی ہے۔ اﷲ کی قسم! نہ تو تمھارے گھر اجڑ گئے تھے، نہ ہی تمھیں قحط نے مجبور کر دیا تھا اور نہ لالچ نے تمھیں ہلاک کر رکھا تھا۔ اور اﷲ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، جس طرح تم ایک ماں کے بیٹے ہو اُسی طرح ایک ہی باپ کی اولاد ہو، میں نے تمھارے باپ سے خیانت نہیں کی اور نہ تمھارے ماموں کو رسوا کیا، میں نے تمھارے نسب کونہیں بدلا، تمھاری حرمت کو پامال نہیں کیا اور تمھاری عزت کی ناقدری نہیں کی۔ اﷲ نے چاہا تو جب کل کا دن ہوتو تم اپنے دشمن سے جنگ کے لیے نکلنا، اﷲ سے مدد مانگتے رہنا اور خوب غور سے دیکھتے رہنا۔ جب تم دیکھو کہ جنگ نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں ہیں اور اپنا خیمہ گاڑ دیا ہے تو اس کے تنور پر لپکنااور اس کے پانچوں حصوں کو اپنے تلوار سے اکھیڑ دینا۔(۲۵)تاکہ تم غنیمت اور سلامتی اور دارالخلد کی فوز و کرامت کو حاصل کر سکو۔ لڑکے اُن کے پاس سے ہٹے تو وہ سب اُن کی بات ماننے پر آمادہ تھے اور اُن کی نصیحت کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے۔ وہ سب مل کر حملہ آور ہوئے اور معرکہ آرا رہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور ہر مجاہد کو دو ہزار مال غنیمت ملا۔ چاروں بیٹے باری باری آتے تھے اور اپنے حصے کا مالِ غنیمت اپنی والدہ کی جھولی میں ڈالتے جاتے تھے۔ انھوں نے اس مال کو لپ بھر بھر کے اپنے بچوں میں تقسیم کر دیا گویا (ماں بیٹوں میں سے) کسی نے بھی اپنے حصے کا ایک درہم تک اپنے پاس نہ رکھا۔
(صفۃ الصفوۃ، ج: ۴، ص: ۳۸۵۔۳۸۷۔)