انجم نیازی
وہ آدھی دنیا کا حکمراں تھا ‘وہ حکمراں بھی مگر کہاں تھا
بپھرتی موجوں پہ حق پرستوں کی سادہ کشتی کا بادباں تھا
بڑا مبارک ہے کام اس کا ‘ ستاروں جیسا مقام اس کا
وہ ایک شاہیں صفت مجاہد جو سوئے منزل رواں دواں تھا
بڑے بڑوں کو گرانے والا ‘ گرے ہوؤں کو اٹھانے والا
وہ رہبروں کا تھا نیک رہبر ‘ پاسبانوں کا پاسباں تھا
ابھرتے سورج سے تاج مانگا ‘ سمندروں سے خراج مانگا
کسے خبر ہے کہ اس کا سکہ ‘ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا
وہ نیک سیرت حیا کی خاطر ‘ لڑا ہمیشہ خدا کی خاطر
وہ دیکھنے میں تو ایک ہی تھا مگر حقیقت میں کارواں تھا
قلندرانہ حیات اس کی ‘ سکندرانہ صفات اس کی
کبھی ردا تھا وہ مفلسوں کی ‘ کبھی وہ ریشم کا سائباں تھا
وہ ایک عنواں بشارتوں کا ، بصیرتوں کا ، بصارتوں کا
اسی سے رستے تلاش کرنا ‘ وہ دین فطرت کی کہکشاں تھا
مورخانہ پیام توبہ ‘ منافقانہ زبان توبہ
وہ اس گھڑی بھی چمک رہا تھا ‘ جہان جب یہ دھواں دھواں تھا
حسن سے پوچھو علی سے پوچھو ‘ تم اس کی بابت نبی سے پوچھو
اندھیری شب میں چراغ بن کر ‘ وہ ساری دنیا میں ضوفشاں تھا
شہنشہوں پر تھا رعب طاری کہ انجم ؔ اس کی تھی ضرب کاری
ہر ایک ظالم سمٹ رہا تھا ‘ جدھر جدھر تھا جہاں جہاں تھا