احمدخلیل جازم (دوسری قسط)
خوشاب کے نواحی چک کی اس مسجد کا نام ختم نبوت کے تحفظ کیلئے لڑی جانیوالی پہلی جنگ ،جس کی قیادت امیر المومنین، خلیفہ اول ، سیدنا صدیق اکبرؓ نے کی تھی ’’جنگ یمامہ ‘‘ کے نام پر مسجد یمامہ رکھا گیا۔ جس سے یہ باور کرانا ہے کہ مسلمان ختم نبوت پر آج چودہ سو برس بعد بھی اسی طرح ایمان رکھتے ہیں، جیسے اُس وقت ایمان رکھتے تھے۔ علاقے میں موجود بعض ہوش مند لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ضلع خوشاب کے شہروں جوہر آباد اور قائد آباد میں تھانہ مٹھاٹوانہ کی حدود میں موجود یہ تمام چک پاکستان کے انتہائی حساس علاقے میں واقع ہیں،چونکہ یہ تمام چک پاکستان اٹامک انرجی کے گرد و نواح میں ہیں، اس لیے یہاں زمینوں کی اہمیت دیگر کی نسبت زیادہ ہے، لیکن یہ بات سادہ مسلمانوں کو معلوم نہیں ہے۔ مسجد یمامہ میں قائم قادیانیوں کے تبلیغی مرکز سے ان چکوک کے رہائشیوں سے قادیانی زمینیں خرید تے رہے اور قریباً تمام چکوک سے اہم ترین زمینیں قادیانیوں نے خرید رکھی ہیں اورایٹمی پراجیکٹ کے قرب و جوار میں قادیانی آبادیاں ہیں،ایٹمی پلانٹ کے ایک طرف دریا اور تین طرف قادیانیوں کی زمینیں ہیں اور ایٹمی پلانٹ کا راستہ ان زمینوں سے ہوکر جاتا ہے، قادیانیوں نے یہ زمینیں کس طرح حاصل کی ہیں؟ اس حوالے سے ایک تسلسل کے ساتھ سرگودھا اور خوشاب میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریٹرزکا قادیانی ہونا کہلاتا ہے۔‘‘اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی،لیکن کیوں خریدی ہیں؟ اس کے لیے حکام کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہاں زمینیں خریدنے کا کیا مطلب ہے ۔
سید اطہرشاہ گولڑوی اس وقت مسجد یمامہ کے متولی کے فرائض انجام دے رہے ہیں،وہ تین روز قائد آباد میں رہتے ہیں اور تین چار روز مسجد یمامہ کے حجرے میں قیام کرتے ہیں، انہوں نے مسجد کے لیے باقاعدہ امام رکھا ہوا ہے، جسے تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، المناک صورت حال یہ ہے کہ ان کا اپناکوئی روزگار نہیں ہے ،صرف ایک بیٹا ہے جو پندرہ ہزار روپے پرملازم ہے جس میں سے پانچ ہزار سید اطہر شاہ امام مسجد کو پیش کردیتے ہیں۔ مسجد کے لیے چندہ نہیں لیا جاتا ، جس کی اہم وجہ آگے بیان کی جائے گی ۔سید اطہر شاہ جب قائد آباد رہائش پذیر ہوئے تو انہیں یہاں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملنا شروع ہوگئیں، ان کا کہنا تھا کہ ’’ جب مقامی علماء نے کسی صورت یہ تسلیم نہ کیا کہ یہاں قادیانی موجود ہیں تو میں نے ڈاک خانے کے اس لڑکے سے ایک دن ڈاک منگوا ئی تواس میں 35 لوگوں کے نام قادیانیوں کا اخبار’’ الفضل‘‘ آیا ہوا تھا،میں نے ان تمام کی لسٹ بنائی اور علماء کے پاس لے گیا،اور انہیں بتایا کہ آپ کن لوگوں کو مسلمان کرتے پھر رہے ہیں ، یہ صرف ایک دن کی ڈاک ہے ، 35لوگ شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور آپ کو معلوم ہی نہیں ہے ۔اس کے بعد علماء کے ساتھ مل کر میں نے کام شروع کیا اور لوگوں کو قادیانیوں کے بارے میں آگاہی دی۔سات برس میں نے مسلمانوں کے بھیس میں چھپے قادیانیوں کا پردہ چاک کیا، اسی دوران ایک ایساشخص میرے پاس آیا جس کا تعارف کرانا ضروری نہیں ہے ،بس یہی کافی ہے کہ وہ محب وطن مسلمان ایک اہم حکومتی شخص تھا، اس نے مجھے کہا کہ بابا تم جس انداز میں کام کررہے ہو ،اُس حوالے سے میں آپ کو ایک ایسے علاقے کے بارے بتاتا ہوں ، جہاں ایک مسجد ہے اور اس پر قادیانی قابض ہیں۔وہاں سے قادیانیت کی تبلیغ واِشاعت ہوتی ہے، اس پس ماندہ ترین علاقے میں ایک بہت بڑا ڈِش انٹینا لگا ہوا ہے۔آپ اس مسجد کو قادیانیوں سے وا گزار کرنے کی سعی کریں۔ میں نے اسے کہا کہ میں دیکھوں گا کہ واقعی ایسا کچھ ہے تو میں اس مسجد کو اِنشاء اﷲ اُن کے چنگل سے آزاد کراؤں گا۔میں نے چک ایل ٹی ڈی اے 2جاکر خود دیکھا کہ وہاں قادیانی کس جوش و خروش سے تبلیغ و اشاعت میں مصروف تھے، سب سے پہلے میں نے محکمہ مال سے اس مسجد کا فرد نکلوایا، جس پرلکھا تھا ’مقبوضہ اہل اسلام‘۔یہ اراضی کی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ اس پر اہل اسلام کا قبضہ ہے، چنانچہ میرے پاس ثبوت آگیا اور میں نے سیشن جج کے پاس 22/Aاور 22/Bکی درخواست دے دی۔ قادیانیوں نے سیشن جج کے سامنے علاقے کے تیس کے قریب لوگ پیش کردیے ۔جنہوں نے وہاں جاکر بیان دیا کہ ہمیں اس مسجد کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہے ، سید اطہر شاہ تو اس علاقے کا رہائشی ہی نہیں ہے یہ قائد آبادرہتا ہے اور یہ صرف اس جگہ فساد کھڑا کرنے کے لیے سب کچھ کررہا ہے، انہوں نے یہ بات لکھ کر بھی جج کو دے دی۔ادھر قادیانیوں نے میرے خلاف درخواست دے دی کہ اطہر شاہ نے تخت ہزارہ میں بھی پہلے شرارت کی تھی ۔جس کی وجہ سے ہمارے پانچ لوگ مارے گئے تھے، اب پھر یہاں بھی فسادکھڑا کرنا چاہتا ہے۔بہرحال کیس شنوائی کے لیے منظور ہوا اور سیشن جج نے لکھا کہ یہ توثابت ہے کہ مسجد مسلمانوں کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب اس کا کنٹرول کس کے پاس رہے گا؟سیشن جج نے یہ لکھ کرکیس ڈسٹرکٹ انتظامیہ کو ریفر کردیا، چنانچہ میں نے مقامی انتظامیہ کو درخواستیں دیں، اور سب کے ڈائری نمبر لیتا رہا، لیکن کہیں پذیرائی نہ ہوئی،چنانچہ میں ہوم سیکرٹری پنجاب کے پاس جاپہنچا اور اسے درخواست دے دی،لیکن وہاں سے بھی مجھے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ہر طرف سے مایوس ہوکر میں نے اس کیس کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی کہ مسجد کو مسلمانوں کے زیر انتظام دیا جائے، جس کی وجوہات بھی لکھیں۔ہائی کورٹ کے جج نے مجھے ذاتی طورپر بلا کر میری بات مکمل تفصیل کے ساتھ سنی، خدا اُس جج کو جزائے خیر عطا فرمائے، اس نے مجھے کہا کہ سیشن نے لکھا ہے کہ آپ مقامی نہیں ہیں، تو میں نے کہا کہ جناب میں چاہے کراچی سے آیا ہوں، لیکن آپ یہ دیکھیں کہ کیامیں غلط کہہ رہا ہوں؟ مسجد میں صرف مسلمان عبادت کرسکتے ہیں،اسے چرچ نہیں بنایا جاسکتا، خیر اس نے قادیانیوں کو بھی بلوایا، اُن کا وکیل بھی پیش ہوا، تین چار پیشیوں میں ہائی کورٹ کے جج نے فیصلہ لکھا دیاکہ مسجد مسلمانوں کی ہے ، ڈی سی تیس روز کے اندر اندرمسلمانوں کے حوالے کرنے کے انتظامات کرے۔‘‘ ان سے پوچھا کہ یہ کس دور کی بات ہے تو انہوں نے کہا کہ ’’ یہ مارچ 2016ء کی بات ہے، لیکن میں نے اس کے لیے کیس آٹھ برس لڑا، اس کے بعد کہیں ہائی کورٹ نے آرڈر کیے۔آٹھ برس میں نے سیشن جج ، تھانہ کچہری اور ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے دفاتر میں دھکے کھائے،لوگ کہتے کہ بابا پاگل ہے ،ہاں میں پاگل ہوں،میں مسجد کو کسی غیر مسلم کے قبضے میں دیکھ کر پاگل ہوگیا تھا، یہ میرے ایمان کا تقاضا تھا ۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعدمیں ڈی سی سرگودھا کے پاس پہنچ گیا،ڈی سی کے پاس ہائی کورٹ کے آرڈر پہنچ چکے تھے۔میں روز اُس کے دفتر پہنچ جاتا، ایک دن اس نے تنگ آکر مجھے کہا کہ باباجی میں نے صرف مساجد کاٹھیکہ نہیں اٹھارکھا، اور بھی کام ہیں، یہ ہوجائیگا، تو میں نے ڈی سی صاحب کو کہا کہ جناب مجھے مطالعے کا بہت شوق ہے۔ایک روز میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا ،اس میں لکھا تھا کہ قیام پاکستان سے قبل ایک مسلمان بچہ جو کہ بہت ذہین تھا، وہ اپنی جماعت میں اوّل آیا، انگریز نے اسے انعام دیا اور اس سے پوچھا کہ آپ بڑے ہوکر کیا بنیں گے، تواُس بچے نے کہا کہ میں بڑا ہو کر سب سے پہلے انگریزوں کواپنے ملک سے بھگاؤں گا، آپ تواس بچے کو جانتے ہوں گے کہ جب وہ بڑا ہوا تو وہ مفتی محمود کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا،اور آپ اسی مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں، اس پر ڈی سی ضیاء الرحمن بالکل خاموش ہوگیا، اور تھوڑی دیر بعد اس نے آرڈرجاری کردیے کہ اس کا انتظام سید اطہرشاہ کے حوالے کردیا جائے، اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اگر اس وقت ڈی سی ضیاء الرحمن نہ ہوتے تو شاید یہاں بہت فساد ہوتا اور مسجد اب تک سِیل ہوتی،لیکن اس مرد حق نے خوب فیصلہ لیا۔‘‘
ڈی سی ضیاء الرحمن کے حوالے سے بعد میں خوشاب کے مفتی زاہد محمود نے بتایا کہ ’’مجھے ڈی سی ضیاء الرحمن نے بلوایا اور کہاکہ سید اطہر شاہ اکیلے اس محاذ پر لڑ رہے ہیں ، آپ لوگ ان کی مدد کریں، چنانچہ ہم نے اطہرشاہ صاحب کے ساتھ مسجد کے انتظام کے لیے کمر کس لی، مجھے کچھ دوستوں نے کہا کہ موجودہ حکومت قادیانی نواز ہے ، اور خوشاب میں اِسی لیے انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ہمیشہ قادیانی ہی آتے ہیں ، کہیں موجودہ ڈی سی صاحب کے فیصلے کی وجہ سے اُن کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوجائیں، میں نے یہی بات ہمراہ اطہر شاہ صاحب اور شاکر بشیر کے ضیاء الرحمن صاحب کو جا کہی کہ جناب آپ ملازم ہیں، کہیں آپ کے اس عمل سے آپ کی ملازمت پر کوئی حرف نہ آجائے، اگر ایسا ہے تو ہم سٹریٹ پاور کے طورپر حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، تو مجھے ان کے یہ الفاظ قبر تک نہیں بھول سکتے ،انہوں نے کہا کہ’ ’میری نوکری اگر اس وجہ سے جاتی ہے تو کل کی بجائے آج اور ابھی چلی جائے، مجھے ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے۔‘سید اطہر شاہ نے اٹھ کر اُن کا بوسہ لیا،اور میں نے کہا کہ مفتی محمود ؒ کے بیٹے سے یہی توقع کی جاسکتی تھی۔انہوں نے قائد آباد کے اے سی کو بڑی تفصیل سے اس کی بابت لکھا، لیکن اے سی کلیم بے چارے پر بہت دباؤ تھا، وہ آج کل پر بات ٹالتا رہا، کیوں کہ خوشاب کے ڈی سی آفس اور قائد آباد کے اے سی آفس کا عملہ تعاون نہیں کررہا تھا۔ ادھر ضیاء الرحمن کے ٹرانسفر کی بات بھی چل نکلی ، اب صورتحال پھر ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی تھی۔‘‘
مسجد یمامہ کا قبضہ کس طرح لیا گیا، اور اس میں علماء کرام خاص کرجنرل سیکرٹری مجلس احرار عبدالطیف چیمہ اور دیگر مفتیانِ کرام کا کیا ناقابل فراموش کردارہے ،اس کا تذکرہ بہرحال بہت ضروری ہے۔ (جاری ہے)
(روزنامہ ’’امت‘‘،راولپنڈی)