احمد خلیل جازم ( چوتھی اور آخری قسط)
سرگودھا کے نواحی گاؤں میں مسجد یمامہ اگرچہ اب مسلمانوں کے پاس ہے اور اس کی دیکھ بھال سید اطہر شاہ کررہے ہیں لیکن قادیانی آج بھی اس تاک میں ہیں کہ کسی طرح وہ اسے دوبارہ مسلمانوں سے واپس لے لیں، اس حوالے سے وہ قانونی چارہ جوئی سے بھی باز نہیں آرہے اور عوامی سطح پر بھی سازشو ں میں مصروف ہیں۔سید اطہر شاہ کا کہنا ہے کہ ’’ قادیانی سازشوں میں ماہر ہیں، اب ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ مسجد یمامہ پر مسلمانوں کا مسلکی تنازعہ شروع ہوجائے ، جس وجہ سے انہیں بات کرنے کا موقع ملے اور وہ مسجد کو ایک بار پھر سیل کراسکیں، اس کے بعد قانون چارہ جوئی دوبارہ شروع کرکے بیت الذکر یہاں سے دوبارہ شروع کیا جائے ، یہی وجہ ہے میں نے یہاں کسی بھی مسلکی معاملے کو پنپنے نہیں دیا، یہاں ہر مسلک کا شخص آکر عبادت کرسکتاہے اور اسے کوئی منع کرنے والا نہیں ہے، صرف قادیانی گستاخ رسول اندر داخل نہیں ہوسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ قادیانی میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں، مجھے بارہا جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا چکی ہیں، اور چک ٹی ڈی اے2میں آنے سے روکا گیا ہے۔ایک بار پھر مجھے اغوا کرنے کی دھمکی بھی دی گئی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ صرف مجھے گیدڑبھبھکیاں ہی دے سکتے ہیں ، کیوں کہ یہ ہر لحاظ سے جھوٹے ہیں۔‘‘
سید اطہر شاہ سے پوچھا کہ ڈی سی کے آرڈر کے بعد مسجد کی واگزاری کی رُوداد بیان کیجیے ،کیوں کہ یہ مسجد مسلمانوں کے حوالے کرنے سے ایک ماہ قبل سیل کردی گئی تھی، اور اس چک میں قادیانی کافی تعداد میں موجو دتھے، انہوں نے احتجاج نہیں کیا ، اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ ڈی سی ضیاء الرحمن نے اسسٹنٹ کمشنر قائد آباد کو حکم جاری کردیا تھا،لیکن وہ اے سی کمزور آدمی تھا اور جرأت نہیں کررہا تھا، لیکن 16مارچ 2016ء کو ڈی سی خوشاب خود یہاں پہنچ گیا، اور چار تھانوں کی پولیس کو بلوا کر مسجد کا قبضہ میرے حوالے کیا، ڈ ی سی خوشاب نے اپنے اختیار تو استعمال کیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ علماء کرام جن میں خاص طورپر عبدالطیف چیمہ ، مفتی زاہد محمود، تنویر الحسن احرار، اور شاکر صاحب نے دیگرعلماء کے ساتھ مل کر میرے ہاتھ مضبوط کیے۔دراصل آرڈر تو اکتوبر2015ء میں جاری ہوگئے تھے، اکتوبر سے لے کر مارچ تک معاملہ لٹکتا رہا،کیوں کہ قادیانیوں نے دوبارہ ہائی کورٹ سے سٹے لے لیا تھا،چنانچہ ڈی سی ضیاء الرحمن نے مجھے کہا قانونی پیچیدگیاں ختم کراکے میں ایسا کام کرنا چاہتا ہوں، تاکہ دوبارہ اس مسجد کا تنازعہ کھڑا نہ ہو، انہوں نے 16فروری 2016ء کو مسجد یمامہ کو سیل کرادیا، جس پر مقامی علماء نے ڈی سی کی مخالفت شروع کردی، کیوں کہ انہیں قانون کا علم نہ تھاکہ ڈی سی صاحب پکا کام کرنا چاہتے تھے، چنانچہ ضیاء الرحمن صاحب کے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا،کہ یہ مفتی محمودؒ کے بیٹے نے کیا حرکت کی، لیکن جناب عبدالطیف چیمہ نے آکر مقامی علماء اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ انہیں قانون کے مطابق چلنے دیں اور تھوڑا صبرکریں۔ٹھیک ایک ماہ بعد ڈی سی خوشاب خود یہاں آ موجود ہوئے اور انہوں نے پورے علاقے کو سیل کرادیا، اس موقع پر مسجد کھلوائی گئی، اس کا قبضہ باقاعدہ میرے حوالے کیاگیا، اور صبح مسجد کو غسل دیا گیا، صفیں منگوائی گئیں اور قرآن پاک تلہ گنگ سے تنویر الحسن احرار لے کر آئے ، جس کے بعد پہلی نماز ظہر کی ادا کی گئی، اس موقع پر قادیانی مرد تو سامنے نہ آئے لیکن انہوں نے عورتوں کو آگے کردیا، جنہوں نے احتجاجاً سینہ کوبی کی اور کہا کہ اٹھارہ برس بعد مردہ اٹھ کھڑا ہوا، اور ہماری شہ رگ پر ہاتھ آرکھا، یعنی مجھے اٹھارہ برس قبل انہوں نے تخت ہزارہ میں تقریباً مار دیا تھا، یہ تو خدا نے مجھ سے یہ کام لینا تھا جو مجھے یہاں بھجوا دیا،میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ میرے لیے یہ نئی جگہ تھی، میں نے سوچا کہ یہاں انتشارنہ پیدا ہو،اور کسی مسلک کااس پر دعویٰ نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ دوبارہ تنازعہ کھڑا ہو جائے، جب تک مکمل فیصلہ مسلمانوں کے حق میں نہیں آتا، اس وقت تک میں نے یہاں رکنا مناسب جانا اور بطور متولی یہاں موجودہوں ۔ قادیانیوں نے اب دوبارہ اس کے لیے درخواست دے رکھی ہے ، جس کا فیصلہ جلد آنے والا ہے ، وہ ابھی تک رک نہیں رہے، لہٰذا ابھی مسجد کسی اور کے حوالے کرنا مناسب نہیں ہے کیوں کہ میں تمام قانونی جنگ لڑ چکا ہوں اس لیے اس بارے تفصیلات جانتا ہوں،میں نے مسجد کی توسیع کا کام شروع کرانا تھا۔ اس کے لیے اینٹیں منگوا چکا ہوں لیکن معاملہ پھر لٹک گیا ہے۔ڈی سی ضیاء الرحمن کے تبادلے کے بعدقادیانیوں نے اپنا ڈی پی اوتعینات کرایا، جس کا نام وقاص نتھوکہ تھا، یہ ابوبکر خدا بخش قادیانی کارِشتہ میں بھتیجا تھا، یہ اب قانونی طور پر تو کچھ نہیں کرسکتا تھا، لیکن اس نے یہاں مسجد پر دوبارہ قبضے کے لیے حرکتیں شروع کردیں، یہاں ایک نزدیکی گاؤں ’اوکھلی مولا‘ ہے وہاں ایک مسلمان کو قادیانی بنایا اور اس کے بعد اسے قتل کراکے اسی چک کے نزدیک پھینک دیاگیا، مجھے لوگوں نے کہا کہ جو لڑکا قادیانی ہواتھا۔اس کی لاش قریب ہی پڑی ہے ، میں نے انہیں کہا کہ اس لاش کے ساتھ نہیں چھیڑنا، ہم نے ون فائیوپر کال کردی،وہاں مجمع اکٹھاہوگیا، اور کوشش کی گئی کہ وہاں قادیانی اور مسلمانوں میں انتشار پھیلے۔ جس کو بنیاد بنا کر مسجد سیل کردی جائے ، لیکن میں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم نے ہاتھ نہیں اٹھانا، چنانچہ ہم بالکل خاموش رہے۔ یوں ہم نے تدبرسے انکی یہ چال ناکام بنا دی۔بہرحال اس نے حساس معاملہ قرار دے کر مسجد میں اکٹھ پر بین لگا دیا، تاکہ یہاں مسلمان اکٹھے نہ ہوسکیں، ہم جمعہ کی نماز پرمسجدمیں اکٹھے ہوتے ہیں اورمختلف علماء کرام آکرخطبہ دیتے ہیں،ویسے یہاں ہر قسم کے اجتماع پر پابندی لگادی گئی۔
مجھے مقامی ساتھیوں میں سے جاویداور عارف نے بہت سہارا دیااور میرا ہر موقع پرساتھ دیا، جب کہ جاوید کو قادیانیوں نے اپنی لڑکی کا رشتہ بھی پیش کیا اور یہ بھی کہا کہ شادی کراکے تمہیں یہاں سے برطانیہ بھجوادیتے ہیں۔‘‘اتفاق سے جاوید بھی اس موقع پر موجود تھا، اس نے بتایاکہ’’ مجھے ان ڈائریکٹ ایک ڈرائیور کے ذریعے کہاگیا کہ غریب آدمی ہو، تمہاری شادی نہیں ہورہی ، یہاں مزدوری کررہے ہو، تمہاری اچھی جگہ شادی کرا دیتا ہوں وہ لوگ تمہیں برطانیہ لے جائیں گے، میں نے پوچھا کہاں شادی کراؤ گے تو اس نے قادیانیوں کے مبلغ کانام بتایاجواُسی گاؤں میں رہتا تھا، لیکن میں نے اسے کہا کہ جہاں شادی کرانا چاہتے ہو، اُس سے میں کنواراہی بہتر ہوں۔‘‘
اس چک میں اب قادیانیوں کی تعداد کتنی ہے ،اور دیگر چکوک کے حوالے سے بتائیں کہ اب قادیانی کس قدریہاں موجود ہیں تو اس پر سید اطہر شاہ کا کہنا تھا کہ ’’اس چک سے متصل چار چک میں سات گھرانے نئے قادیانی ہوئے ہیں۔ اسی طرح تین چک میں بھی پانچ گھرانے قادیانی ہوئے ہیں۔تیسری جانب ملحقہ چک نمبر1ہے ۔اگر چہ وہاں تمام اہلحدیث ہیں۔اس کے باوجود وہاں قادیانیت پھیل رہی ہے۔چک نمبر 8اور خاص طور پر اوکھلی مولا گاؤں میں 13مساجد ہیں، وہاں تمام لوگ بریلوی مسلک سے ہیں ، میں حق بات کرتا ہوں، اس کامجھے کوئی خوف نہیں ہے،اوکھلی مولا میں تبلیغی جماعت والے نہیں جاسکتے ، وہاں کسی بھی مسلک کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہے، وہ لوگ پتھر مار کر بھگا دیتے ہیں،اس کے باوجود اوکھلی مولا کے لوگ قادیانی ہوئے ہیں۔ یعنی انہوں نے وہاں تبلیغ کی ہے اورلوگ قادیانی ہوئے ہیں،یہ بہت خطرناک بات ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے جو پرامن لوگ ہیں، انہیں وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں ہے لیکن قادیانی گھس گئے اور انہوں نے کام دکھا دیا،چونکہ حساس علاقہ ہے ۔اس لیے وہ تمام ذرائع استعمال کررہے ہیں۔
میری بہت زیادہ سپورٹ مجلس احرار اسلام کے مجاہدوں نے کی ہے ، اب بھی مجھے ان تعاون حاصل ہے اوروہ اس تمام معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘اس حوالے سے ڈاکٹر عمرفاروق احرار مرکزی سیکرٹری اطلاعات مجلس احرار اسلام پاکستان نے ’’امت ‘‘سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افسوس تو اس امر پر ہے کہ وہ کام جو حکومت کے کرنے کے ہیں ،ان پر عمل درآمد کے لیے بھی مطالبات کرنے اور تحریک چلانے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خوشاب میں حساس مراکز کے حوالے سے قادیانیوں کی پر اسرار سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا اور ان کے منفی اثرات کا سدباب کرنا حکومت ہی کا کا م ہے مگر اب تک ریاستی ادارے اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قادیانی اس حساس علاقے میں دھڑادھڑ اراضی خرید کر سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ارباب اختیار نے اگر حالات کی سنگینی کا بروقت احساس نہ کیا تو قادیانی شب خون مارنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور لوگوں کے ایمان اور حساس تنصیبات کی سلامتی ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی، لیکن ہم ختم نبوت کے حوالے سے ہر فتنے کا تدارک کرنے کے لیے جان دینے سے گریز نہیں کریں گے ۔اس علاقے میں مرد مجاہد سیداطہر شاہ موجود ہیں، اور ہم ان سے رابطے میں ہیں، ان کے کاندھے سے پہلے بھی کاندھا ملا کر کھڑے ہوئے اور اب بھی انشاء اﷲ پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
سید اطہر شاہ اب بھی کچہری جانے کو تیار کھڑے تھے کیوں کہ قادیانیوں نے دوبارہ مسجد کے لیے اپیل دائر کی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ اس مرد درویش کو دیکھ کر رشک آتا ہے ، کہ کس طرح چلنے پھرنے سے تقریباً معذور شخص کہ جس کا کوئی ذاتی یا سیاسی مقصد نہیں ہے اور جو کسی قسم کے وسائل بھی نہیں رکھتا ،وہ اس کے باوجود صرف اﷲ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے کمربستہ ہے۔ مسجد کے تمام معاملات اس کسمپرسی کی حالت میں پورے کرنا کس قدر مشکل امر ہے یہ چک ٹی ڈی اے 2جاکر اندازہ ہوتا ہے ۔