قادیانی جماعت کے ناظر امورِعامہ کا خط موصول ہوا۔جس میں انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ’’ان کی جماعت کودین اور وطن کا غدارکیوں لکھا جاتاہے اوردعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں عملًا حصہ لیا ہے اور اِن کی جماعت کی حب الوطنی کسی شک وشبہ سے بالاتر ہے ۔‘‘
ا س حوالہ سے تحقیق کی گئی تو معاملہ بہت سنگین صورت اختیار کرتادکھائی دیا کہ دراصل قادیانی جماعت کو ’’یہودیت کاچربہ اوردین و ملت کی غدار‘‘ کا لقب مصور پاکستان علامہ اقبال ؒ نے دیا تھا، قادیانی جماعت کے حوالہ سے حضرت اقبال ؒ اورپنڈت نہرو کے درمیان خط کتابت ریکارڈ پرموجود ہے ، جس میں اپنے آخری خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ: ’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قادیانی دین اور ملت کے غدار ہیں ۔‘‘
(“A Bunch of Old Latters”,frist British edition 1960,Asia Publishing House pp187-188)
جہاں تک تعلق ہے ان کی جماعت کے تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا تو اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ یہ لوگ ان دنوں بہت متحرک تھے مگر پاکستان کے لئے نہیں،بلکہ متحدہ ہندوستا ن کی وحدت کے لئے۔ خو ف ِ طوالت سے بات صرف سائمن کمیشن سے شروع کرتے ہیں ، جسے 1927ء میں قائداعظم نے مسترد کردیا تھا ، مگر قادیانیوں نے اس کی حمایت کی اور اُن کے ایک وفد نے لاہور میں کمیشن سے ملاقات بھی کی۔
(Sun Rise,Dec 22-1927)
ا س پورے عرصہ میں دوسری’’ خدمت‘‘ تحریک پاکستان کی قادیانی جماعت کی طرف سے یہ کی گئی کہ قائد اعظم نے باؤنڈری کمیشن میں ان کے ایک رکن سر ظفراﷲ کو مسلم لیگ کے وکیل کے طور پر نامزد کیا،مگر انہوں نے مسلم لیگ کی وکالت کیا کرنی تھی،الٹا قادیانی جماعت کی جانب سے الگ حیثیت کا میمورنڈم پیش کر کے مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور، بھارت کے حوالہ کرا کے کشمیر پر بھارتی قبضے کا راستہ ہموار کردیا۔ اس حوالہ سے مستند گواہوں میں قادیانیوں کے حامی جسٹس منیر آخر تک پریشان رہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
(پاکستان ٹائمز 24جون1964، 8جولائی1964)
قادیانی جماعت کے میمورنڈم میں علیحدہ مذہب ، سول و فوجی قادیانی ملازمین کی مبالغہ آمیز تعداد، کیفیت اور آبادی کی تفصیلات درج ہیں۔چند برس پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے شائع ہونے والی کتابPartition of the Punjab جلد1صفحہ428تا469 میں قادیانی عرضداشت اور اس کی جملہ تفصیلات موجود ہیں۔اسی طرح قادیانیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں کشمیر کے راجہ کی حمایت کی اور کہا کہ ’’مہاراجہ اور اس کے خاندان کے خلاف الزامات عائد کئے جارہے ہیں ، یہ غلط بات ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں، اور ہماری تمام ترہمدردیاں مہاراجہ کے ساتھ ہیں۔ (الفضل قادیان۔20جون 1946)
اسی طرح جب پاکستان بن جانے کا یقین ہو گیا تو قادیانی جماعت نے اپنے جماعتی آرگن الفضل کے ذریعہ سے قادیانیوں سے کہا کہ اگر پاکستان بن بھی گیا تو یہ ایک عبوری مرحلہ ہو گا اور ہماری کوشش ہو گی کہ اس مرحلہ کو جلد مکمل کریں ۔ یعنی پاکستان کو ختم کریں۔ (الفضل 14اپریل 1947)اسی دوران پاکستان جانے والے قادیانیوں کو یہ ہدایت بھی کی کہ ’’وہ قادیان کی نواحی بستیوں لنگل ، جھینی ، کھارا وغیرہ کو پاکستان میں کلیم نہ کریں کیونکہ بندوبست جلد ختم ہوجانے والا ہے ، اور وہ(قادیانی) لازماً واپس آئیں گے ۔ ( الفضل 7دسمبر1947) اسی عقیدہ کے تحت ایک عرصۃ تک قادیانی قیادت کی قبروں پر چناب نگر میں یہ کتبے لگے رہے کہ یہ تدفین امانتاً ہے ، انہیں جلد موقع ملتے ہی قادیان لے جایا جائے گا، قیام پاکستان کے وقت ان کی ملک سے ’’محبت ‘‘کے ثبوتوں کے بعد باری آتی ہے ،بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی جو ایک وسیع الظرف سیاستدان تھے ، انہوں نے ظفراﷲ کو وزیر خارجہ بنایا۔ ان کی وفات پر قادیانی جماعت کا رویّہ کیا رہا؟یہ کوئی راز نہیں ہے، اس وقت کے وزیر خارجہ سر ظفراﷲ خان قادیانی نے بانی پاکستان کی نمازجنازہ میں شرکت نہ کی اورغیرمسلم سفارت کاروں کے ساتھ ایک طرف الگ بیٹھا رہا، جب اخبارات اس معاملہ کو منظر عام پر لائے تو قادیانیوں کی طرف سے یہ جواب آیا کہ قائداعظم احمدی نہ تھے،لہٰذا جماعت احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
(ٹریکٹ 22 بعنوان احراری علماء کی راست گوئی کا نمونہ ، ناشر :مہتمم نشرو اشاعت نظارت دعوت و تبلیغ ،صدر انجمن احمدیہ ،ربوہ ، ضلع جھنگ)
ایک او رموقع پر چودھری ظفر اﷲ خان قادیانی سے سوال ہوا کہ آپ قائد اعظم کے جنازہ کے وقت غیر مسلم سفیروں کے گراؤنڈ میں ایک طرف بیٹھے رہے ، جنازے میں شریک نہ ہونے کی کیا وجہ تھی؟ اس نے جواب دیا ’’آپ مجھے مسلمان حکومت کا ایک کافر وزیر ،یا ایک کافر حکومت کا مسلمان وزیر خیال کریں ، ( زمیندار لاہور 8فروری 1950)
بھارت کے مشہور اخبار ’’ہندوستان ٹائمز ‘‘ میں بھارت کے سابق کمشنر سری پرکاش کی خود نوشت سوانح عمری 1964میں شائع ہوئی۔جس میں انہوں نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور عالمی عدالت کے جج سر ظفراﷲ قادیانی کے بارے میں لکھا ہے کہ کہ 1947 میں نے انہوں ے قائد اعظم محمد علی جناح کوگالی دی اور کہا تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو اس سے ہندوؤں سے زیادہ مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا،مسٹر سری پرکاش نے مزید لکھا ہے کہ ’’کچھ عرصہ بعد جب کراچی میں سر ظفر اﷲ خان سے ملاقات ہوئی اور میں نے ان سے پوچھا کہ اب قائداعظم اور پاکستان کے بارے میں کیاخیال ہے؟ تو انہوں نے کہا ’’میرا جواب اب بھی وہی ہے جو پہلے دن تھا۔‘‘ (روزنامہ مشرق لاہور فروری1964)۔ (روزنامہ مشرق کی اس اشاعت میں ظفر اﷲ کے اصل الفاظ رقم ہیں، ادارہ اوصاف دانستہ عظیم قائد کے بارے میں وہ توہین آمیز الفاظ تحریر نہیں کررہا۔ )دریں اثناء پاکستان کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لڑرہا تھا تواُس وقت قادیانی جماعت نے کیا کردار ادا کیا؟ اس حوالہ سے مسلم لیگ کے سینئر رکن اسمبلی میاں افتخار الدین نے اسمبلی فلور پر کہاتھاکہ: ’’جناب عالی! ہمارا وزیر خارجہ سرظفراﷲ کیا کررہا ہے ، یہ شخص لازمی طور پر برطانوی مفادات کا نگہبان ہے،ہمارا معزز وزیر خارجہ ہم سے بلکہ امریکہ سے بھی زیادہ برطانیہ کا وفادار ہے ، یہ کشمیر کا مقدمہ نہیں لڑ رہا۔ اس معاملہ کو الجھا رہا ہے۔
( میاں افتخار کی تقاریر: مرتبہ عبداﷲ ملک،1971، صفحہ206)
قائد اعظم نے کسی بھی قیمت پر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر یہ ظفر اﷲ اسرائیلیوں سے ملتا رہا اورتعلقات بھی بنائے رکھے، اس کے کئی ثبوت ہیں مگرایک تصویرہی کافی ہے جو ممبئی کے ایک صیہونی رسالہ نے شائع کی، جس میں ظفراﷲ اسرائیلی سفیر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔( جون 1958)
اسرائیل کے ساتھ قادیانی جماعت کے تعلقات کا سب سے بڑا ثبوت خود ایک سرکردہ قادیانی اور مرزاقادیانی کے پوتے مرزا مبارک احمد کی کتاب(Our Foreign Mission)ہے۔ اس کے صفحہ 97 پر واضح طور پر درج ہے کہ قادیانی اسرائیل کے لئے کیا خدمات سر انجام دیتے ہیں، 1972 میں تل ابیب یونیورسٹی کے استاد پروفیسرآئی آئی نومائی کی لندن سے شائع ہونے والی کتاب ’’اسرائیل اے پروفائل(Israel A Profile) میں انکشاف کیا گیاہے کہ حکومت اسرائیل نے اپنی فوج میں پاکستانی قادیانیوں کو بھرتی ہونے کی اجازت دے دی ہے۔1972تک اسرائیلی فوج میں چھے سو پاکستانی قادیانی شامل ہو چکے ہیں۔
( روزنامہ نوائے وقت لاہور صفحہ 5۔29دسمبر1975)
اسرائیل سے قادیانیوں کی یہ محبت آج بھی قائم ہے ،بلکہ اس سے بھی سوا ہو چکی ہے ، لیکن پاکستان بن جانے کے بعد ان کی حب الوطنی کی داستان کا آغاز تو پاکستان کو عارضی بندو بست قرار دینے اور قائداعظم کی نماز جنازہ نہ پڑھنے سے ہی ہو گیا تھا مگر اس کے چیدہ چیدہ مظاہر میں سر فہرست پنڈی سازش کیس ہے ،جس کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنا تھا ۔ 9مارچ1951کی نصف شب چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان ، بریگیڈئیر ایم لطیف، اور کچھ دیگر لوگوں کو ملک میں پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے افراتفری پھیلانے اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ظفراﷲ خان قادیانی کے ہم زلف میجر جنرل نذیر احمد قادیانی کو جو اُس قت امپریل ڈیفنس کالج لندن میں ایک تربیتی کورس پر گیا ہوا تھا، واپس بلوا کر گرفتار کر لیا گیا، بغاوت کو لیڈ کرنے والے سارے کردار قادیانی تھے ، اسے میڈیا میں غلط طور پر کمیونسٹ انقلاب کا نام دے گیا ۔ ( سجاد ظہیر اپنی کتاب پنڈی سازش کیس میں تمام ریکارڈشائع کر چکے ہیں )
یہ سلسلہ آگے بڑھا اور ابتداء میں قادیانیوں کے حامی ذوالفقار علی بھٹو کو حقیقت سے آشنا کرنے کا سبب بنا کہ جب اپریل1973ء میں تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں تین قادیانی فوجی افسروں کو گرفتار کر لیاگیا ، ان میں میجر فاروق آدم خان ، اسکواڈرن لیڈرمحمدغوث او رمیجر سعید اختر ملک(اختر حسین ملک قادیانی کا بیٹا اور لیفٹیننٹ عبدالعلی ملک قادیانی کا بھتیجا ) جو سنیارٹی میں آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے تیسرے نمبرپر تھا ، ملوث تھے ،سازش میں تین قادیانیوں کے ملوث ہونے نے بھٹوکواُن س بدظن کر دیا۔
(پاکستان ٹائمز 13مئی 1973)
تقریبا ًدو ماہ بعد حکومت کو ایک اور سازش کی اطلاع ملی۔ جس میں فوج کے چودہ افسران ملوث تھے،ان افسران کے خلاف بڈھ بیر اٹک میں 2جولائی1973کو مقدمہ شروع کیا گیا،ایک ملزم گروپ کیپٹن عبدالستار نے یہ انکشاف کیا کہ اسے اس مقدمہ میں غلط طور پر ملوث کیا گیا ہے ، قادیانی افسران بھٹو کی حکومت ختم کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں ، اور اس میں ایئر مارشل ظفر چودھری ( قادیانی) ، ایئر وائس مارشل سعداﷲ خان ، لیفٹیننٹ جنرل اے حمید خان پیش پیش ہیں ،اس نے عدالت کو بتایا کہ ایئر مارشل ظفر چودھری کے ایماء پر اُس کی انتہائی تذلیل کی گئی تھی اور اُس پر ذہنی وجسمانی تشدد بھی ہوا۔ ( فرنٹیئر گارڈن پشاور 11 اگست1973)
شاید بھٹو واقعہ کو زیادہ اہمیت نہ دیتے لیکن ایک واقعہ نے ان کو عملی قدم اٹھانے پر مجبو ر کردیا اور وہ درگزر نہ کر سکے ، 25جولائی1974کو جسٹس صمدانی کی عدالت میں ایک فوری نوعیت کا بیان سماعت کیا گیا۔فاضل عدالت نے 31؍اگست کو اُس کے بعض اجزا خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے کئے،جو آئندہ روزاِشاعت پذیر ہوئے،بیان ہوا کہ جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد کی صدارت میں بعض سرکردہ قادیانیوں نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کو راستہ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے ۔پروگرام یہ طے ہوا کہ کہ ایک تقریب میں انہیں قتل کر دیا جائے۔
(رپورٹ جسٹس صمدانی ٹربیونل: نوائے وقت لاہور یکم اکتوبر1974)
خود بھٹو نے اپنے ایام اسیری میں اپنے سیکورٹی کے انچارج کرنل رفیع سے کہا ’’رفیع قادیانی پاکستان میں وہی مقام چاہتے یں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ‘‘
قادیانیوں کی’’ حب الوطنی‘‘ کی داستان طویل ہے اور جگہ کم،لیکن بات چل نکلی تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے ان کی ’’خدمات‘‘ کا تذکرہ نہ کرنا بھی زیادتی ہو گی،پاکستان کے سابق وزیر قانون شریف الدین پیر زادہ کی گواہی ہے کہ 1967 میں فرانسیسی صدر نے ایوب خان کو ایٹمی پرگرام میں معاونت کی پیشکش کی مگر اس وقت قادیانی مشیر ایم ایم احمد اس کے آڑے آیا، ایوب پر دباؤ ڈالا،جب دیکھا کہ وہ نہیں مان رہا تو امریکہ کو مخبری کر دی ، ڈاکٹر عبدالسلام بھی ایسا ہی شخص ہے جس کی جاسوسی کی اطلاع پر بھٹو نے اس کے ایٹمی تنصیبات میں داخلہ پر پابندی لگادی تھی، گارڈین 22نومبر1986کی اشاعت Anthiny Tuckerنے لکھا ہے کہ عبدالسلام کو اُس کے ملک میں جاسوس ماناجاتا تھا۔ممتازصحافی زاہد ملک زندہ ہیں۔ ان کی کتاب’’ اسلامی بم‘‘ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے ،وہ سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ’’امریکیوں نے ا نہیں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اور بم کا ماڈل دکھا کر سوالات اٹھائے ۔وہ کمرے سے نکلے تو ڈاکٹر عبدالسلام اسی ماڈل والے کمرے میں داخل ہوئے تھے ۔‘‘
ان تمام سازشوں کے باوجودپاکستان بن گیا تو یہ قادیانی کی پہلی آواز ہیں جنہوں نے اس کے خلاف بات شروع کی۔جولائی2009ء میں فرینکفرٹ جرمنی میں ایک چیریٹی ڈنر تھا۔ جس میں پاکستان کاسفارتی عملہ کے ساتھ ساتھ جرمنی کے بڑے بڑے سیاستدان جمع تھے ، اس موقع پراپنے خطاب میں قادیانی جماعت کے سیکرٹری برائے خارجہ امور احمد عبدالرزاق نے کہا ’’پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کینسر کی طرح ہے، جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔‘‘
قادیانیوں کو وطن کا غدار کیوں کہا جاتاہے؟ اس حوالہ سے اوّلین وجہ یہ ہے کہ آئینِ پاکستان کے مطابق جو کوئی پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا ، متبادل نظام لاتاہے ،یا اُس کی توہین کرتا ہے۔ وہ ملک کاغدار ہے۔ اس کے خلاف غداری کا مقدمہ لازم ہے ، جیسا کہ مشرف کے خلاف برا بھلا قائم ہوا۔ اس حوالہ سے قادیانی جماعت1974ء سے اب تک آئین کی باغی ہے۔ وہ آئین کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتی،بلکہ اسے تسلیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے، جیسا کہ اس برس چناب نگر میں ووٹ کاسٹ کرنے والوں کے خلاف کیا گیا۔ چناب نگر سمیت ملک بھر میں قادیانیوں کو ووٹ درج کرانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ نمبر دو قادیانیوں نے چناب نگر میں میں متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھاہے۔ قادیانیوں کو ملکی عدالتوں میں جانے سے روکا جاتاہے ، اس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں جو کسی بھی عدالت میں پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے غیر قانونی طور پر مسلح شعبے قائم ہیں جو کہ بغاوت ہے ، اس سے ہٹ کر ملک کے آئین میں شق نمبر(3)260,295A,298B 106اور شق 3 کے ذریعہ سے انہیں غیرمسلم قرارد یا گیا اور ان شقوں کو تسلیم نہ کر کے یہ ملک کے غدار قرار پاتے ہیں۔اب رہا ان کی دہشت گردی کا ثبوت تو 5؍اکتوبر2011 کو چودھری یوسف کاقتل کہ جس میں قادیانی جماعت کی مرکزی قیادت تک ماخوذ ہے او رسلیم الدین ناظم عمومی سمیت پوری قیادت پولیس حکام کو دباؤ ڈال کر خود کو بری کرانے کی کوشش میں ہے مگر ابھی تک انہیں اس میں کامیابی نہیں ہورہی ، اس سے چند ماہ قبل روزنامہ اوصاف کے نمائندے ابرار چاند کا قتل،قادیانیوں کی دہشت گردی کا اہم ثبوت ہے مگر اس معاملہ میں کارروائی کا اختیار صرف اور صرف ریاست او راس کے اداروں کو حاصل ہے ، کوئی بھی شہری ہو، اسے یہ حق نہ آئین دیتا ہے اور نہ ہی مذہب کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے ۔
(روزنامہ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔29؍مارچ2016ء)