محمد عامر خاکوانی
عاطف میاں کا تقرر غلط تھا، اس کا مشورہ دینے والے مشیر کی نیت پر اگر شک نہیں تو کم از کم آئندہ کے لئے وزیراعظم کواِس کی عقل پر ضرور شک کرنا چاہیے ۔ اس پہلی غلطی کے بعد اس کا دفاع کرنا دوسری بڑی اور سنگین غلطی تھی۔ فواد چودھری جیسے دین سے نابلد، کھردرے ، درشت لہجے میں بات کرنے والے کو دفاع کی ذمہ داری دینا تیسری سنگین غلطی تھی۔ فواد چودھری نے پوری کوشش کہ کہ حکومت کو بحران میں دھکیل دے ، خوش قسمتی ہے عمران خان کی کہ ان کے مشیروں میں کوئی معقول آدمی ہے ، جس نے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کیا۔
اس ایشو سے دو تین باتیں ہم نے بھی سیکھی ہیں۔ایک تو یہ کہ بار بار ایسا ہوگا، پلٹ پلٹ کر ’’وہ‘‘ حملہ آور ہوں گے ۔ اس کے لیے تیار، مستعد اور لیس رہنا چاہیے ، معلومات سے ، علم سے اور دلائل سے ۔دوسرا یہ کہ اس کا دفاع اب صرف مذہبی طبقے یا عرفِ عام میں مولویوں کی ذمہ داری نہیں۔ سوشل میڈیا پر دوسرے لوگ زیادہ مؤثر اور کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ختم نبوت ﷺ ہر مسلمان کا بنیادی ایشو ہے ، اسے اس حوالے سے ذمہ داری سمجھنی چاہیے ۔ کچھ کام چھوڑے نہیں جا سکتے ، دوسروں کے ساتھ انہیں بھی لازمی کرنا ہوتا ہے ۔ یہ بھی ایسا ہی ایشو ہے ۔تیسرا یہ کہ آپ دنیا جہاں کے موضوعات پر لکھتے رہیں، مگر اس حوالے سے کچھ ہوم ورک ضرور کر رکھیں، اب فیس بک نے پوسٹ سیو کرنے کی آپشن دے کر بڑی آسانی کر دی ہے ۔ ایسی معلوماتی، مفید پوسٹیں سیو کر لینی چاہیں، اپنی وال، واٹس ایپ، ای میلز وغیرہ میں وہ ڈیٹا محفوظ کر لیا جائے تاکہ وقتِ ضرورت کام آ سکے ۔
چوتھا یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید کچھ باتیں انڈرسٹڈ ہیں، لوگ انہیں سمجھتے ہیں، مگر ایسا ہوتا نہیں، ہر چند برسوں کے بعد نئی نسل آ جاتی ہے ، جنہیں بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا، گھروں میں ہم اپنے بچوں کی اس حوالے سے تربیت نہیں کرتے ۔ یہ سب کام اب کرنا ہوگا، بار بار دُہرانے ، حافظے میں محفوظ کرنے جیسی مشقت۔ اپنے بچوں، گھر والوں، دوستوں، دائیں بائیں والوں کی تربیت کریں، شائستگی، دلیل کے ساتھ انہیں اس پورے ایشو سے آگاہ کریں، ان کے سوالات سنیں، جھڑک کر چپ کرانے کے بجائے ان کے جواب دیں۔ اگر علم نہیں تو صاحب علم لوگوں سے رہنمائی لیں، بہت سا ڈیٹا فیس بک کے گروپس وغیرہ میں موجود ہے ۔ وہ پڑھنے کو دیں۔ کوشش کر کے پی ڈی ایف بنا لیں اور پڑھنے کے لیے انھیں فارورڈ کرتے رہیں۔
ایک حلقہ ایسا ہے جسے یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ آخر قادیانی ایشو ہے کیا؟ ہم لوگ قادیانیوں کے حوالے سے اتنے حساس کیوں ہیں؟ ان کی بات سن کر غصہ کرنے،ان پر کوئی لیبل لگانے کے بجائے اصل ایشو سمجھائیں۔ انہیں بتائیں کہ آخر ایسا ردعمل کیوں آتا ہے ؟ ہم دوسری اقلیتوں کے حوالے سے اتنے جذباتی،ری ایکٹو نہیں تو قادیانیوں کے حوالے سے کیوں ہیں؟ یہ ایک پورا مقدمہ ہے ، جسے ہمیں آگے بتانے ، سمجھانے کی ضرورت ہے ۔ خاص کر خواتین کو یہ سمجھانا چاہیے ، تاکہ وہ اگلی نسل تک اسے منتقل کر سکیں۔ اوورسیز پاکستانیوں، مسلمانوں کو اس حوالے سے زیادہ ہوشیار، مستعد اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے لیے چیلنجززیادہ بڑے ہیں، لیکن اﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے محنت کرتے رہیں، ان شاء اﷲ اس کی نصرت ضرور پہنچے گی۔
چند سوالات اوراُن کے جوابات
سوال : عاطف میاں کا تقرر تو کینسل ہوچکا، مگر کیا پاکستان میں کبھی کوئی قادیانی کسی اہم عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا اور کیا یہ ظلم نہیں؟
جواب: سچ تو یہ ہے کہ جب تک قادیانی جماعت ، ان کے امیر(خلیفہ)، مرکزی قیادت پاکستانی ریاست کے حوالے سے اپنا طرزعمل، موقف تبدیل نہیں کر لے گی، تب تک ان کے حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر شکوک برقرار رہیں گے۔روزمرہ کے کام کاج، کاروبار،نجی ملازمتوں اور عام روٹین کی سرکاری ملازمتوں میں تو ان کے لئے گنجائش موجود ہے ، جیسا کہ آج کل چل رہا ہے ، وہ اپنے معاملات چلاتے رہیں گے ۔ تاہم ایسے کارسرکار جن کا تعلق اہم فیصلوں، نیشنل سکیورٹی افئیرز یعنی ریاست کے وجود، سا لمیت وغیرہ سے ہے ، وہاں پر کسی قادیانی کا تقرر سکیورٹی رسک رہے گا۔ رہی ظلم والی بات تو وہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ سب کام ریاست کے بھی نہیں، کچھ چیزیں قادیانی جماعت کو بھی کرنا ہوں گی۔ جب تک وہ آئین سے وفادار نہیں ہوتے اور اسے تسلیم نہیں کریں گے ، تب تک آئین میں موجود حقوق کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
ایک آپشن کسی قادیانی فردیا افراد کے لئے یہ بھی ہے کہ اگر قادیانی جماعت کا امیر اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا تو یہ لوگ مرکزی نظم سے بغاوت کر کے اس پر تین حرف بھیجیں اور آئین کو تسلیم کرکے بطور غیر مسلم رہنا شروع کر دیں۔اپنا ووٹ درج کرائیں، الیکشن میں حصہ لیں اور اقلیتی نشستوں سے منتخب ہوجائیں۔ کچھ ہی عرصے میں چیزیں بہتر ہونے لگیں گی، ممکن ہے زیادہ سخت گیر موقف والے پھر بھی انہیں تسلیم نہ کریں، لیکن معتدل طبقات ان کے اس موقف کو سراہیں گے اور دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی طرح انہیں بھی ٹریٹ کیا جانے لگے گا۔ ایسی مگر کوئی مثال ہم نے کبھی نہیں دیکھی، ایک صاحب بشیرالدین خالد تھے ، ہر بار پنجاب اسمبلی سے بطور قادیانی ممبر منتخب ہوتے، انہیں قادیانی جماعت کے امیر نے جماعت احمدیہ سے خارج کر رکھا تھا، وہ غریب اکیلے ، تنہا تھے ، مگر رکن اسمبلی بہرحال بن جاتے ، ان کے مر جانے کے بعد کسی نے انتخاب لڑا ہی نہیں۔
سوال : ہم نے اپنے آس پاس کئی قادیانیوں کو دیکھا، انہیں بھی دوسروں کی طرح محب وطن پایا۔ کیا ہمیں ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے ۔
جواب : میں کسی کو محب وطن یا غیر محب وطن نہیں کہہ رہا، سادہ بات ہے کہ ان سب کا اپنی جماعت کے امیر پر غیر معمولی انحصار ہے ، ان کی دنیا اور دین کا دارومدار اس شخص پر ہے ، جس کا نام مرزا مسرور ہے ، وہ برطانیہ میں مقیم اور پاکستانی ریاست کے حوالے سے سخت معاندانہ،زہریلا موقف رکھتا ہے۔ پاکستانی ریاست، پارلیمنٹ ، آئین اور ہمارے بیشتر نیشنل سکیورٹی ایشوز کا وہ مخالف اور انہیں سخت ناپسند کرتا ہے ۔ اس وجہ سے ہراُس قادیانی کے لئے شکوک پیدا ہوجاتے ہیں، جو بلائنڈلی یعنی اندھوں کی طرح اس کی تقلید کر رہا ہے۔دوسرا یہ اس قادیانی کے لئے بھی ٹھیک نہیں ، وہ اس حساسیت کی وجہ سے بہت زیادہ vulnerable ہوجائے گا اور بیلنس فیصلے ، مشورے نہیں دے سکے گا۔ خود کو محب وطن ثابت کرنے کے چکر میں وہ ممکن ہے کچھ زیادہ جارحانہ، یا زیادہ دفاعی مشورے یا تجاویز دے یا فیصلے کر بیٹھے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ایسے عہدوں پر ان کے تقرر سے گریز کیا جائے ۔
سوال : عاطف میاں کو اِکنامک ایڈوائزی کونسل میں شامل کیا گیاتو اُس پر خواہ مخواہ اعتراضا ت کئے گئے ، جن کا کوئی جواز نہیں ۔ ٹیکنو کریٹ کا عقیدے سے کیا تعلق ؟
جواب:عاطف میاں ایک عام قادیانی نہیں،بلکہ وہ خدام الاحمدیہ کا حصہ اور باقاعدہ ایکٹوسٹ ہیں۔قادیانی امیر کے وہ پرسنل ایڈوائزر ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی یا بورڈ کے سرگرم رکن ہیں جو ختم نبوت قانون ختم کرانے کے لئے سرگرم ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سردست اسے صرف معاشی معاملات کے لئے لایا جا رہا ہے ، مگر ایک متنازع شخص کو کسی بھی قسم کی پوسٹ پر کیوں لایا جائے ؟ دنیا بھر میں ایک سے ایک بڑھ کر ماہرمعاشیات موجود ہیں۔ پاکستان کسی غیر مسلم گورے کا انتخاب بھی کر سکتا تھا، جو اپنے علم وفضل، مہارت، تجربے اور رینکنگ میں عاطف میاں سے اوپر ہو۔ اعتراض عقیدے پر نہیں ، بلکہ ایک مخصوص اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک متنازع ایکٹوسٹ پر ہے ۔ کسی بھی غیر مسلم یعنی سکھ، ہندو، عیسائی، پارسی ماہر معاشیات کواِس ایڈوائزی کونسل میں شامل کر لیا جائے،میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی شور نہیں مچے گا۔عاطف میاں کا مخصوص بیک گراؤنڈ اور تناظر ہے،جس سے اعتراضات پیدا ہوئے ۔
سوال : ایڈوائزری کونسل میں عاطف میاں کے علاوہ دس گیارہ دیگر اراکین بھی تھے ، وہاں ایک ان کی رائے سے کیا ہوتا؟
جواب: یہ درست ہے کہ اکنامک ایڈوائزی کونسل میں صرف ایک رکن شائد کچھ زیادہ اثر نہ ڈال سکے ، مگر اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ عمران خان نے اگلے کچھ عرصے میں اہم معاشی فیصلے کرنے ہیں، کئی فیصلے سخت بھی ہو سکتے ہیں،مشلاًآئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے ، ٹیکس نظام میں اصلاحات وغیرہ ، وغیرہ۔ جب عاطف میاں جیسا متنازع شخص اس ایڈوائزری کونسل کا حصہ ہو تو اس کونسل کی تمام تجاویز مشکوک ہوجائیں گی کہ نجانے کس تجویزپر کس حد تک عاطف میاں اثرانداز ہوئے ۔
دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے کہ ہمارے ہاں ایک منظم سوچ کے تحت اس طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ سماج میں بعض حوالوں سے غیرمعمولی حساسیت اور بیریئرز موجود ہیں۔ انہیں توڑنے کے لئے پہلے نسبتاً کم حساس کام کیا جاتا ہے ، ایسا کام کہ جس سے سرخ لکیر بھی کراس ہوجائے اور زیادہ ہنگامہ بھی نہ ہو۔ جب وہ برداشت کر لیا جائے تو پھر اگلا قدم اٹھایا جاتا ہے ، اس کے بعد اگلا اور پھر کچھ ہی عرصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ علانیہ نظر آجاتا ہے ، جس کا ہم چند ماہ یا کئی برس پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ عاطف میاں کی ایڈوائزری کونسل میں شمولیت ایک غلط قدم اور متنازع فیصلہ تھا، مگر ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ متنازع اور غلط اقدامات ابھی پائپ لائن میں ہیں۔ وزارت خارجہ، وزارت قانون، تعلیم وغیرہ اہداف ہوسکتے ہیں۔ اس پہلے ’’حملے‘‘ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتاتو پھر ان کی باری آجاتی۔ اسی لئے شروع ہی میں زیادہ سخت مزاحمت اور ردعمل دیا جاتا ہے ، پنجابی محاورے کے مطابق شروع ہی سے ڈکا دے دیا جائے یعنی راستہ بند کر دیا جائے ۔انگریزی محاورے کے مطابق Nip the evil in the bud.
ایک تیسرا پہلو بھی ہے ، ہمارے مذہبی حلقے عموماً اور ختم نبوت کے حوالے سے کام کرنے والے حلقے خاص طور سے بڑے ان سکیور اور محتاط ہیں۔اپنے تجربات سے انہوں نے یہ سیکھا کہ ہمیشہ مستعد، چوکنا رہنے کی ضرورت ہے،کسی معمولی اقدام کو غیر اہم نہ سمجھا جائے،کیونکہ یہ آنے والے واقعات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے ۔ ان کے یہ خدشات بلاجواز ،یا بے وزن نہیں ہیں۔ تاریخ نے انہیں درست ثابت کیا ہے ۔ اسی وجہ سے مذہبی حلقے تیز اور شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عالمی قوتیں اور لابیز بہت طاقتور، جاندار ہیں، میڈیا کو وہی مینج کر سکتی ہیں۔ انہیں ادراک ہے کہ عالمی سطح پر کوئی لابی یا قوت ان کو سپورٹ نہیں کر سکتی، اندرون ملک بھی ایسے ادارے موجود نہیں جواُن کی مدد کو پہنچیں۔ عوامی احتجاج اور سٹریٹ پاور ہی ان کے پاس واحد قوت اور اثاثہ ہے ، مگرہر بار یہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ غیر ضروری خود اعتمادی کا شکار نہیں ہوتے اور ہمیشہ مستعد، ہوشیار رہتے ہیں اور دوسروں کو چلا چلا کر کہتے ہیں کہ جاگتے رہنا، ہمارے اوپر نہ رہنا، خود بھی ہاتھ پاؤں مارنا۔اس احتجاج یا ردعمل کا مضحکہ اڑانے یا بلاسبب طنز کے تیر چلانے والوں کو یہ تمام نفسیاتی وجوہات اور محرکات سمجھنے چاہئیں۔ تب انہیں مذہبی حلقوں کا موقف زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آ سکے گا اسی طرح مقتدر حلقے بھی اگر اِن پر غور کریں تو وہ اہل مذہب کے خطرات ، خدشات کو بہتر انداز سے دُور کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔
آخری سوال : کیا دنیا میں بھی اس طرح کا عوامی احتجاج ایسے تقرر پر ہوتا ہے ، یاصرف ہم ہی تماشا لگائے رکھتے ہیں۔؟
جواب: آج کے انٹرنیٹ کے دور میں ان باتوں کو جاننا، سمجھنا کون سا مشکل ہے ، گوگل پرسرچ کریں تو ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ہر معاشرے کے کچھ نارمز، روایات اور حساس چیزیں ہوتی ہیں، اسلامی تحریکوں والے عرف کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے معاملات جن پر وہ سماج حساس ہے اورہلکی سی ٹھیس پر احتجاج کا چشمہ ابل پڑتا ہے ۔ دنیائے مغرب میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کسی وزیر کا تقرر ہو، یا سروِنگ منسٹر کا کوئی بیان فیمنزم یا کسی اور حوالے سے آیاتو اُس پر احتجاج اتنا شدیدہوا کہ اس غریب کو استعفیٰ دینا پڑا۔ حالانکہ اس کے موجودہ کام یا ممکنہ کام کا اس فیمنزم یا متنازع بیان والے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی سزا مگر اسے ملتی ہے ۔ ہالوکاسٹ تو دُور کی بات ہے ، کوئی منسٹر ہٹلر کے حوالے سے نرم بیان دے دے ، کوئی کھلاڑی نازی سلام کر دے تواُس کا کیرئر ختم ہوجاتا ہے ۔ مختلف لبرل قدروں کے خلاف مغرب میں کوئی بیان دے کر دکھا دے تواُس کا پبلک کیرئر ختم ہوجاتا ہے ۔صرف سیاسی عقائد کی بات نہیں بلکہ مذہبی عقائد کے حوالے سے بھی ایسا ہی ردعمل آتا ہے ۔ امریکہ اور یورپ کے تمام ممالک میں اہم ، حساس عہدوں بلکہ اہم اعلیٰ کارپوریٹ عہدوں پر مسلمان نہیں پہنچ سکتے ۔ ان کے لئے بہت زیادہ مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں ،غیر رسمی ، غیر تحریری طور پر وہ ایک خاص حد سے اوپر نہیں جا سکتے ۔ سی آئی اے ، پینٹاگون، سٹیٹ ہاؤس، ایم آئی سکس اور دیگر تنطیموں میں ایسا ہوتا ہے ۔ کہیں کوئی نام نہاد اَلٹرا لبرل مسلمان قابل قبول ہوجاتا ہے ،جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ صرف نام کا مسلمان ہے ،مگر وہاں بھی بہت سے ممالک سے تعلق مشکل بن جاتا ہے ۔ پاکستان، فلسطین، ایران، مڈل ایسٹ کے بعض دیگر ممالک وغیرہ۔ جرمنی میں ترکوں کے حوالے سے بہت سے مسائل چل رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ سب غیر تحریری، غیر رسمی طور پر کیا جاتا ہے ۔ آئینی ،قانونی طور پر تو وہ ایسا نہیں کر سکتے ، روک نہیں سکتے ۔ مگر وہاں اہم عہدوں پر فائز لوگ اتنے بے وقوف نہیں کہ بلا سوچے سمجھے ایسا قدم اٹھا بیٹھیں، جس کے بعد ایسی بحث جنم لے اور پھر ہٹاتے ہوئے تماشا بنے ۔ وہ پہلے ہی سمجھداری سے فیصلے کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے ۔( فیس بک سے منقول)