جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کافی عرصہ سے ماہانہ اصلاحی بیان کا معمول ہے جس میں طلبہ سے تعلیمی، اخلاقی، فکری یا مسلکی حوالہ سے کسی موضوع پر مختصر گفتگو ہوتی ہے۔ ۱۱ جنوری کو اس کے ساتھ ساتھ جامعہ کے سہ ماہی امتحانات میں مختلف شعبوں کے نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ میں انعامات کی تقسیم کا پروگرام بھی تھا، اس موقع پر جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج آپ حضرات سے عام طور پر قادیانیوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے ایک مغالطہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہوں گا۔ قادیانی حضرات کا کہنا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے مستقل نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو عقیدۂ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ مگر یہ بات محض ایک مغالطہ ہے اور میں جناب سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں تین اشخاص نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یمامہ کے مسیلمہ کذاب، بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد، اور یمن کے اسود عنسی نے خود کو نبی کے طور پر پیش کیا اور ان کے گرد اچھے خاصے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ جبکہ ایک خاتون سجاح بھی نبوت کی دعوے دار تھی۔
ان میں سے اسود عنسی اور طلیحہ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے صنعا میں آپؐ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر کے یمن کی حکومت پر قبضہ کر لیا تھا۔ جبکہ طلیحہ بن خویلد نے نبی کریمؐ کے کمانڈر حضرت ضرار بن ازورؓ کے مقابلہ میں جنگ لڑی تھی۔ لیکن مسیلمہ کا دعویٰ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت کا نہیں تھا بلکہ وہ حضورؐ کی رسالت پر ایمان لانے کے بعد ان کی پیروی میں نبی ہونے کا دعویدار تھا۔ وہ اپنے ماننے والوں سے پہلے ’’محمد رسول اﷲ‘‘ کا اقرار کرواتا تھا پھر اس کے بعد اپنی نبوت و رسالت کی بات کرتا تھا۔ ختم نبوت کے پہلے شہید حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو جب مسیلمہ نے شہید کیا تو پہلے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ حضرت محمدؐ کو رسول مانتے ہیں۔ اور پھر سوال کیا تھا کہ اس کے بعد کیا مجھے بھی اﷲ کا رسول تسلیم کرتے ہو؟ حبیب بن زیدؓ نے مسیلمہ کو رسول تسلیم کرنے سے انکار کیا تو مسیلمہ نے انہیں شہید کرا دیا۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب کے دو قاصد خط لے کر حضورؐ کے پاس آئے تو خط کا عنوان یہ تھا کہ ’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الی محمد رسول اﷲ‘‘۔ یعنی وہ نبی کریمؐ کو رسول تسلیم کرتے ہوئے ان سے خطاب کر رہا ہے۔ ان دو قاصدوں سے آپؐ نے دریافت کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو رسول اﷲ مانتے ہیں اور پھر مسیلمہ کو بھی رسول تسلیم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایات کے مطابق کلمہ کے ساتھ ساتھ ان کی اذان کی ترتیب بھی یہی تھی کہ پہلے اشہد ان محمد رسول اﷲ اور پھر اشہد ان مسیلمۃ رسول اﷲ کہا جاتا تھا۔
مسیلمہ کا دعویٰ یہ تھا جو اس نے اپنے خط میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا ’’اِنّی اُشرکت معک فی الامر‘‘ کہ مجھے کارِ نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اور میں مستقل اور مقابل ہونے کی بجائے ’’شریک نبی‘‘ ہوں۔ اس خط میں اس نے یہ شکوہ بھی کیا کہ قریشی حضرات سخت مزاج ہیں جو کسی دوسرے کا حق تسلیم نہیں کرتے۔ اس خط کا اور اس کو لانے والے دو قاصدوں کا واقعہ بخاری شریف میں موجود ہے جسے حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ نے روایت کیا ہے۔
ایک موقع پر مسیلمہ خود ایک بڑے وفد کے ساتھ مدینہ منورہ آیا اور جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیے۔ وہ اپنے ساتھ یہ پیش کش لے کر آیا تھا کہ آپؐ اپنے بعد مسیلمہ کو اپنا جانشین نامزد کر دیں، اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر علاقے تقسیم کر لیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’لنا و بر و لک مدر‘‘ یعنی شہری علاقوں کے رسول آپ رہیں اور دیہاتی اور صحرائی علاقے مسیلمہ کے سپرد کر دیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضورؐ نے مسیلمہ کی اس پیشکش کے جواب میں قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی کہ ’’ان الارض ﷲ یورثھا من یشاء من عبادہ‘‘ زمین کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ یعنی خلیفہ نامزد کرنا یا شہری اور دیہاتی علاقوں کی تقسیم اﷲ تعالیٰ کا کام ہے، وہ جیسے چاہیں گے فیصلہ کریں گے ۔اور پھر حضورؐ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجور کی ٹہنی دکھا کر مسیلمہ سے کہا کہ میں تو تمہیں یہ ٹہنی دینے کا روادار بھی نہیں ہوں۔ چنانچہ مسیلمہ اپنے وفد کے ساتھ ناکام واپس لوٹ گیا۔
یہ سارے شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسیلمہ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں مستقل نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ آپؐ کو رسول اﷲ تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی پیروی میں خود کو شریک اور معاون نبی کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا تقاضہ مستقل نبوت تسلیم کرانے کا نہیں بلکہ نبوت میں شراکت کا تھا اور وہ اس شراکت کو تسلیم کیے جانے کی صورت میں مکمل وفاداری اور اطاعت کا اظہار کر رہا تھا۔ مگر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ مسیلمہ کو کذاب کا ایسا خطاب دیا جو آج تک اس کے نام کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ بھی اسی نوعیت کا تھا اور مرزا نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کے دعویٰ کے ساتھ خود کو متعارف کرانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ جس طرح حضورؐ نے مسیلمہ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا، مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کو بھی پوری امت مسلمہ نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا۔ اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مستقل یا غیر مستقل کسی طرح کی نبوت کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہی چودہ سو سال سے امت کا اجماعی عقیدہ چلا آرہا ہے۔