ناول قسط (۴)
عشق کے قیدی
ظفرجی
چک ڈہگیاں کی سیر
14 اگست ․․․․ 1952ء ․․․․․ چک ڈہگیاں
صبح آٹھ بجے ہم چک ڈگیاں(چناب نگر) پہنچ گئے۔دریائے چناب کے کنارے ضلع چنیوٹ کا یہ چھوٹا سا گاؤں اپنی ظاہری خوبصورتی اور محل وقوع کے لحاظ سے انتہائی خوبصورت تھا۔سبزے کی بہار اور پس منظر میں بلندو بالا کوہسار وں نے اسے جنّت نظیر بنا رکھا تھا۔پانچ سال پہلے سرظفراﷲ کی “برکت” سے اسے “ربوہ” بنایا گیا تھا۔ ان دنوں ملک بھر میں ربوہ کے ڈنکے بج رہے تھے ۔داخلی چوکی پر تعینات پولیس والوں کو چاند پوری نے ایک سفارشی چِٹھی دکھائی،جو کسی “ماجد شریف سرامکی والے ” کی طرف سے لکھی گئی تھی۔پولیس والوں نے ہماری جامہ تلاشی لی اور ایک گول کمرے میں چھوڑ آئے۔یہاں ایک گورا چٹّا جوان کیمرہ لگائے بیٹھا تھا۔ ہمیں باری باری ایک اسٹول پر بٹھایا گیا۔ فوٹو کشی کے بعد ہماری تصاویر ڈِیویلپ ہونے تک ہمیں بغلی کمرے میں دھکیل دیا گیا۔کمرے میں لگے ایک قد آدم پورٹریٹ کو دیکھ کر میں نے سرگوشی کی:”یہ بزرگ کون ہیں ؟ ”
“یہی تو’’ خلیفۂ قادیان‘‘ ہیں ،جو اَب’’ خلیفۂ پاکستان ‘‘بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔”
تصاویر تیار ہو گئیں تو ہمیں ایک تیسرے روم میں لے جایا گیا ، یہاں ہمارے فنگر پرنٹس لے کرایک فارم ہمارے حوالے کیا گیا، جسے لے کر ہم ایک چوتھے کمرے میں آ گئے ۔ یہاں ایک سرسری انٹرویو کے بعد ہمارے کاغذات پر ربوہ کی انٹری سٹیمپ لگا کر ہمیں پاس مہیا کر دیے گئے ۔ربوہ کا “ویزا” لے کر اب ہم قصبے میں آزاد گھوم رہے تھے ۔یہاں کی ترقّی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔قصبے میں ایک مکان بھی کچّا نہ تھا۔ پورے قصبے میں پکی سڑکوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ یہاں کے ساٹھ فیصد لوگ سرکاری ملازم تھے اور ہر برسرروزگار شخص پر لازم تھا کہ وہ اپنی کمائی کا دس فیصد جماعت احمدیہ کے لئے ضرور وقف کرے ۔
“پہلے بہشت سے نہ ہو آئیں؟” چاند پوری نے تجویز پیش کی۔
“بہشت ؟ ”
“مرزائیوں کا قبرستان بہشتی مقبرہ،جہاں صرف جماعت احمدیہ کو چندہ دینے والے ہی دفن کئے جاتے ہیں۔”
ہم نام نہاد بہشتی مقبرے میں داخل ہوئے۔ سرسبزو شاداب ہونے کے باوجود یہاں ایک عجیب سی ویرانی تھی۔ جماعت احمدیہ کو عمر بھر زرِتعاون مہیا کرنے والے یہاں دفن کئے جاتے تھے،دوسری طرف ایک اجاڑ سا وِیرانہ تھا ،جہاں جماعت کے باغی یا موافقت نہ کرنے والے گاڑے جاتے تھے ۔ چاند پوری نے عین قبرستان کے بیچ جا کر دعا کے لیے ہاتا اُٹھا دیے ۔ میں نے پہلے تو انہیں حیرانی سے دیکھا ،پھر دعا کے الفاظ سن کر خود بھی آمین، آمین کہنے لگا: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیتَنَا وَہَبْ لَنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنتَ الْوَہَّابُ
(اے ہمارے رب ہدایت کے بعد کہیں ہمارے دلوں کو کجّی میں مبتلا نہ کر دینا ، ہمیں اپنے خزانہـ ٔفیض سے رحمت عطاء کر کہ تو ہی فیاضِ حقیقی ہے ۔)
دعا کے بعد وہ نمدار آنکھوں سے بولے :
” یار دیکھو! کتنے ہی نادان لوگ سیدھی راہ سے بھٹک کر اُس راستے پر چل نکلے، جو سوائے جہنّم کے اور کہیں نہیں جاتا۔آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل قبر ہے۔ جہاں تین سوالات میں سے ایک سوال خاتم النبیّین ﷺ کے بارے میں بھی ہوگا۔ یہ کیا جواب دیں گے ؟ ہدایت ملنے کے بعد بھٹک جانا انسان کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے۔ ”
سامنے ایک چاردیواری میں کچھ قبریں تھیں۔ چاردیواری پر لکھا تھا:” یہاں جو لوگ مدفون ہیں۔ انہیں موقع ملتے ہی قادیان (ہندوستان) کے قبرستان میں منتقل کر دیا جائے ۔ ” دیوار پر ایک ٹیلی فون بھی نصب تھا ۔ جو اِس ویرانے میں یقیناً بڑا عجیب لگ رہا تھا۔” حضرت !یہ ٹیلی فون یہاں کس لئے لگایا گیا ہے ؟” ” ہو سکتا ہے یہاں کے مُردوں کا قادیان کے مُردوں سے اس فون پر رابطہ رہتاہو۔” چاندپوری نے جواب دیا۔اس سے پہلے کہ مجھے ہنسی کا دورہ پڑتا ، انگریزی کوٹ پہنے خشخشی داڑھی والا ایک شخص بغل میں رجسٹر دبائے ہماری طرف چلا آیا اور بہت اخلاق سے جھک کرپنجابی میں بولا :
” نور مرزا ․․․․ مہتمم بہشتی مقبرہ ․․․․․ کتھوں آئے او سرکار ؟”
“لاہور سے ” چاند پوری نے جواب دیا۔
“ماشاء اﷲ ․․․․ سبحان اﷲ ․․․․ احمدی مسلک آ ؟”
” نہیں جناب !فی الحال تو مسلمان ہیں۔ آگے چل کر حکومت جانے کیا بنا دے۔ ”
” دیکھو جی ․․․․ دین وچ تے اختلافات چلدے ای رہندے نیں۔اسی بحث نئیں کردے۔ اے دسّو کہ ایتھے آ کے تُسّی کی محسوس کیتا ؟”
“ہم نے کچھ سوالات محسوس کئے ہیں ․․․ اگر ناراض نہ ہوں تو ․․․․․ ”
” ہاں جی !بسم اﷲ، ضرورپُچھو! ” وہ بڑی چاپلوسی سے بولا۔
“آپ کو کیسے یقین ہے کہ یہاں دفن ہونے والے سب جنتی ہیں۔”وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر میسنا سا ہو کر بولا:” اﷲ دی ذات توں امید تے کیتی جا سکدی اے ناں سرکار! ” ” لیکن ہم نے سنا ہے کہ بہشت کا جھانسہ دے کر آپ مرزائیوں سے جبری چندہ وصول کرتے ہیں ؟ کیا یہ درست ہے ؟؟ ”
” ناں جناب ناں !جبری کوئی نہیں لیندا ۔لوگ خوشی نال خیرات کردے نیں ۔ فی سبیل اﷲ !” ” اور اگر کوئی غریب شخص خیرات نہ دے سکے تو ․․․․” “کوئی مسئلہ نئی،اپنی اپنی توفیق دی گل اے۔”ہم باتوں میں مصروف تھے کہ قبرستان میں کچھ لوگ ایک سجی سجائی ریڑھی دھکیلتے داخل ہوئے ۔ چار پہیوں والی اس خوبصورت ریڑھی پر ایک دیدہ زیب چادر تنی ہوئی تھی۔
“معاف کرنا، جنازہ آ گیا۔ ” یہ کہتے ہوئے نور مرزا ہمیں چھوڑ کر اُس طرف دوڑا۔ہم بھی پیچھے پیچھے ہو لئے ۔ ” اِنّا ﷲ ،جی آیاں نوں۔ رسیداں کڈھّو سرکار ۔ ” اس نے میت کے ورثاسے کہا۔مرنے والے کے ایک عزیز نے جیب سے کوئی پوٹلی نماء چیز نکالی، پھر اُس میں سے مُڑے تُڑے کاغذات نکال کر نور مرزا کے حوالے کئے ۔
” شناختی کارڈ پھڑاؤ ․․․․ ”
میّت کے عزیز نے جیب سے اپنا شناختی کارڈ نکال کر دیا ۔”مرحوم دا شناختی کارڈ منگیا سرکار ،تواڈے کارڈ نوں میں اگ لاؤنڑیں اے۔ ” نور مرزا شناختی کارڈ اُلٹ پلٹ کر بولا۔”یہ لیجئے،میرے پاس ہے ۔” میّت کے ایک دوسرے عزیز نے ڈیڈ باڈی کا کارڈ تھمایا۔
” مرحوم نے اک سال دا چندہ نئیں دِتّا ․․․․ !!! ” نور مرزا کسی پٹواری کی طرح رجسٹر کھنگالتے ہوئے بولا۔ ” مرحوم عمر بھر چندہ دیتے رہے ہیں۔ ایک سال سے حالات اچھے نہ تھے ۔” رشتہ دار نے بتایا۔
“کوئی گل نئیں ․․․․ برکت تے رب نے ای پانڑیں اے ․․․․․ میّت دا کوئیی وی رشتہ دار پچیس سو روپیہ جمع کرا دیوے “چونکہ اُس زمانے میں ایک عام سرکاری ملازم کی تنخواہ پچاس روپے سے زیادہ نہ تھی۔ اس لیے رشتہ دار پریشان ہو کر بولا : ” پچیس سو روپے کہاں سے لائیں حضور ؟ ”
“مرحوم دی کوئی جائیداد وغیرہ تے ہونڑیں اے؟ ”
” ایک مکان ہے ،جس میں اس کا بال بچّہ رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ”
” مکان ویچ چھڈّو ،جنّت وچ مکان مفت تے نئیں ملدا سرکاراں ! ”
رشتہ دار کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر لاش اُدھر ہی چھوڑ کر آنسو پوچھتا ،روپوں کی تلاش میں نکل گیا۔چاند پوری میرا ہاتھ پکڑ کر قبرستان سے باہر نکل آئے اور کہا:” یہ ہے ،وہ اندھیر نگری، جسے زندہ مذہب کا نام دے کر وزیرخارجہ پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،مُردوں کے ساتھ یہ سلوک ہے تو زندوں کے ساتھ کیا ہوگا ․․․․؟ ”
قبرستان سے نکل کر ہم ایک گراؤنڈ کے پاس سے گزرے ۔ یہاں کچھ وردی پوش رضاکار پریڈ کر رہے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں سرکاری رائفلیں تھیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے فوج کی کوئیی رجمنٹ ٹریننگ کر رہی ہو۔
” یہاں ہر شخص کے گھر میں آتشیں اسلحہ ہے۔حال ہی میں چنیوٹ سے ٹنوں کے حساب سے بارُود اور چُونیاں (ضلع قصور،پنجاب)سے بھاری مقدار میں سِکّہ خرید کر ربوہ لایا گیا ہے ،تاکہ گولیاں بنائی جا سکیں۔” چاند پُوری نے بتایا۔”اخبارات اس معاملے پر شور کیوں نہیں کرتے ؟ ” ” سنتا کون ہے بھائی ؟ ”سب سرظفراﷲ کی سنتے ہیں اور ظفراﷲ صرف اپنے’’ خلیفہ‘‘ کی سنتاہے۔ ! ”
ہم ایک محل نما عمارت کے پاس سے گزرے تو چاند پوری نے کہا :
” یہ رہا’’ قصرِ خلافت‘‘] مرزائیت کا مُردہ گھوڑا جسے 1907ء میں علماو صوفیاء کرام نے اپنے تئیں دفنا دیا تھا۔ اُسے دوبارہ زندہ کرنے کا سہرا مرزا بشیر الدین محمود کے سر ہے ۔ انہوں نے ہی اس تحریک کو نئے سرے سے منظم کیا ہے ”” آخر کوئی تو اُن کی پشت پناہی بھی کرتا ہوگا ؟ ” ” ملحدین ، لبرلز ، سیکولرز ، مغرب پسند ،سب اُن کے ساتھ ہیں۔ قومی لیڈروں میں لیاقت علی خان کچھ ایمان والے تھے۔ انہیں اوپر پہنچا دیا گیا ہے۔ اب لے دے کے سردار عبدالرب نشتر بچے ہیں،جنہیں لوگ “مولوی منسٹر” کہ کر چھیڑتے ہیں ، باقی سب مذہب بیزار ہیں اورہر مذہب بیزار شخص کو قادیانیت شہد کی طرح میٹھی لگتی ہے۔ ”
ہم ایک بہت بڑے پنڈال میں پہنچے جہاں ہزاروں افراد کے مجمع سے قادیانی ’’خلیفہ‘‘مرزابشیرالدین کا خطاب جاری تھا۔
” مبارک ہو ۔ مبارک ہو ۔ مبارک ہو ۔ امام مہدی کے لشکر میں قبُولے گئے ہو!مسیحِ موعود کی اُمّت میں اٹھائے گئے ہو !یہ وہی مقام ہے کہ جانے کتنی امتیں اس کی تلاش میں دارِ فانی سے کُوچ کر گئیں!یہ وہی جائے قرار ہے کہ جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے :ربوۃٍ ذاتِ قرارٍ و معین !” نعرہء تکبیر ۔اﷲ اکبر !
اس دوران فضاء میں جنگی جہازوں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ پاکستان ایئرفورس کے دو ” سُپر میرین اٹیکر” طیارے فضاء میں نمودار ہوئے اور سٹیج کے عین اوپر آکر سیدھے فضاء میں بلند ہو گئے ۔”حضرت یہ کیا․․؟” میں نے وفورِ حیرت سے پوچھا۔”سلامی !!! ․․․․ آج اس بدقسمت ملک کا یومِ آزادی ہے ! ” انہوں نے اطمینان سے جواب دیا۔ہوائی جہازوں کی گڑگڑاہٹ تھمی تو ’’خلیفہ‘‘ کا خطاب پھر شروع ہو گیا۔
” اسلام کا سایہ کھنچنے لگا ۔! خُدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی ! دُنیا پھر شیطان کے قبضے میں دے دی گئی !اب خُدا کی غیرت پھر جوش میں آئی ہے اور تم کو ! ہاں تم کو ! ہاں تُم کو !خدا تعالیٰ نے پِھر اس نوبت خانے کی خدمت سپرد کی ہے ! ” اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو !اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو ! اے آسمانی بادشاھت کے موسیقارو!ایک دفعہ پھر اِس نوبت کو اِس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں ! ” کانوں کو پھاڑدینے والے نعروں کا شور بلند ہوا۔’’خلیفہ ‘‘نے پسینہ پُونچھا اور پانی پینے لگے ۔’’خلیفہ‘‘ جانے کون سی نوبت بجوانا چاہتے تھے، میرا تو مغز پھٹا جا رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں آگے بیٹھے ایک صاحب بار بار پہلو بدل رہے تھے۔نا معلوم گوبھی کھائے بیٹھے تھے، یا مُولی کا کھیت اجاڑ کے آئے تھے ، انہوں نے سانس لینا دشوار کر دیا تھا۔ میرے برابر بیٹھے چاند پوری تقریر کے برابر نوٹس لئے جا رہے تھے ۔
“حضرت !یہاں قریب میں کوئی درخت ہے ؟” میں نے کہا۔ ” ہوں،کیوں ؟” وہ بڑبڑائے ۔” درخت پر بیٹھ کر’’ خلیفہ‘‘ کی تقریر سنتے ہیں”وہ شارٹ ہینڈ لیتے ہوئے بولے: ” بہت اہم تقریر ہے۔ ” افلاک ” میں چھپے گی تو حکومت کی آنکھیں کھل جائیں گی۔”” حکومت کی آنکھیں نہیں ،شاید ناک بند ہے۔ ” میں نے کہا۔اس دوران پانی کا وقفہ ختم ہوا اور خطاب دوبارہ شروع ہو گیا:
” ایک دفعہ پھر اپنا خون اپنے نعروں میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز اٹھے اور فرشتے بھی چونک اٹھیں۔ اِسی لیے میں نے جماعت ’’تحریکِ جدید ‘‘ شروع کی ہوئی ہے ۔ اﷲ کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ !نبی کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے۔ تم نے مسیح سے چھین کر وہ تخت نبی کو دینا ہے اور نبی نے وہ تخت خدا کو پیش کرنا ہے اور خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے !”
“اس کا کیا مطلب ہے ؟ کون سا تخت ؟؟ “” تختِ پاکستان ” چاند پوری کاغذ پر شارٹ ہینڈ لیتے ہوئے بولے ۔’’خلیفہ‘‘ کہہ رہاتھا:” 1952گزرنے نہ دیجئے ۔اپنا رعب دشمن پر طاری کر دیجئے ۔تاکہ دشمن محسوس کرلے کہ خدا کا دین مٹایا نہیں جا سکتا ، اور وہ مجبور ہو کر احمدیّت کی آغوش میں آن گرے ! ”
“خلیفہ کو آخر کس چیز کا غصہ ہے ؟” میں نے پوچھا:
” مجلسِ عمل تحفظ ختم نبوت کی تشکیل کا۔ ان لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نصف صدی سے آپس میں سینگ اڑائے علماء کرام تحفظ ختم نبوت کے محاذپر اِتنی جلدی باہم شیرو شکر ہو جائیں گے۔ مجلس عمل کی تشکیل ہی علماء حق کا وہ کارنامہ ہے کہ جس سے مرزائی “نوبت” میں سوراخ ہو چکا ہے ۔”
” لیکن یہ ہنگامہ تو صرف ربوہ کے اندر ہی دکھائی دیتا ہے۔ ” ” پاکستان بھر میں اس کی فُل نمائش جاری تھی بھائی! اُن کا تبلیغی مشن ایک ایک وزیر کا پیچھا کر رہا تھا۔ سرظفراﷲ خان وزراء کی نبض پر ہاتھ رکھ چکے تھے۔ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ انہیں ایک ایک کر کے ربوہ کا دورہ کرا رہے تھے۔ظاہر ہے جو مذہب بادشاہ کا ہوگا وہی رعایا کا بھی ہو گا۔ مجلس عمل کے قیام کے بعد یہ سلسلہ رُک چکا ہے بس یہی ’’خلیفہ ‘‘کی پریشانی ہے ”
’’خلیفہ‘‘ نے پھر اسٹارٹ لیا:”آخری وقت آن پہنچا!اِن احمدی علماء کے خون کا بدلہ لینے کا، جن کو شروع سے آج تک یہ خونی مُلا قتل کرتے آئے ہیں ۔ ہم بدلہ لیں گے عطاء اﷲ شاہ بخاری سے، ملا بدایونی سے ،ملا احتشام الحق سے،ملا محمد شفیع سے اور پانچویں سوار مُلا مودودی سے ۔ہم فتح یاب ہوں گے اور ضرور تُم مجرموں کی طرح ہمارے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اُس دن تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو فتح مکہ کے دن ابوجہل اور اس کی پارٹی کا ہوا تھا ۔ ”
پانی کا وقفہ ہوا توکچھ سکون نصیب ہوا۔ چند ثانیہ بعد’’ خلیفہ‘‘ پھر گرم ہو گئے :
” اور سُن لو ۔ کان کھول کے سُن لو ۔عالمِ رویا سے ایک نئی خبر آئی ہے ! ”
” خلیفہ کا وَطیرہ ہے کہ اہم سیاسی بیان ہمیشہ خواب میں لپیٹ کر دیتا ہے ۔” چاند پوری بولے ۔
” وہ کیوں ؟ ”
” تاکہ کسی عدالت میں چیلنج نہ ہو سکے ․․․․ خواب ہمیشہ قانون کی گرفت سے آزاد ہوتے ہیں،چاہے خواب جھوٹے ہوں یا سچّے۔ ”
“سُنو ،سُنو، سُنو!” میں نے ایک خواب دیکھا ۔میں نے دیکھا کہ ایک کھاٹ پہ لیٹا ہوں۔ گاندھی جی آتے ہیں اور میرے ساتھ کھاٹ پہ لیٹ جاتے ہیں اور جب اٹھ کر جانے لگتے ہیں تو قدرے فربہ دکھائی دیتے ہیں ! ”
“گاندھی جی کو بھی نہیں بخشا ؟ ” میں نے ہوّنقوں کی طرح چاند پوری کی طرف دیکھا۔” ابھی تعبیر سننا ․․․․ مزید ٹھنڈے ہو جاؤ گے۔ ” وہ نوٹس لکھتے ہوئے بولے ۔ ” اِس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اگر خدا کے سپاہیوں کا راستہ روکا گیا ۔ اگر ہماری راہ میں روڑے اٹکائے گئے تویہ مُلک نہیں رہے گا۔ ٹوٹ جائے گا پاکستان ۔ پھر سے ایک ہو جائے گا ہندوستان ! ”
مخلوق پھر نعرہ زن ہو گئی۔
” اب خود ہی فیصلہ کر لو۔ ” چاند پوری نوٹس سمیٹتے ہوئے بولے ۔ ” اگر یہی بات کوئی مولوی کہتا تورَاتوں رات مشکیں کس کے حوالات میں نہ پھینک دیا جاتا ؟ لیکن خلیفہ کو کون پوچھے ؟؟ اندھیر نگری ہے بھائی اندھیر نگری ! ”
(جاری ہے)