عبداللطیف خالدچیمہ
پاکستان بن گیا تو یہ وطن عزیز عالمی قوتوں کو پوری طرح کھٹکنے لگا،غیر وں نے اپنے مہروں کے ذریعے رخنے ڈالنے شروع کر دئیے اور قادیانی ٹولہ اپنی حکومت کے خواب دیکھنے لگا،مرزا بشیر الدین آنجہانی نے کہاکہ بلوچستان کو احمدی سٹیٹ بنانا ہے،اس نے 1952 ء کو قادیانیوں کا سال قرار دیا اور وزیر خارجہ موسیو ظفر اﷲ خاں نے بیرونی ممالک سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ،مجلس احرار اسلام جو انتخابی سیاست سے دستبردار ہو چکی تھی نے قادیانی ریشہ دوانیوں پر پوری نظر رکھی ، قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمتہ اﷲ علیہ نے نواب زادہ لیاقت علی خان کو صورتحال سے آگاہ کیا، پھر ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا (مقدمے کی سولہ من وزنی فائل گم کردی گئی)حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے تمام مکاتب فکر کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیااور حکمرانوں کے سامنے تین مطالبات رکھے ،مسٹر ظفر اﷲ خاں کو وزارت خارجہ سے الگ کیا جائے،قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔حکمرانوں نے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت چلی اور لاہور سمیت ملک بھر میں دس ہزار فرزندان ِاسلام کے مقدس خون سے پاک وطن کی سرزمین لالہ زار کردی گئی ، حکمرانوں نے کہاکہ اگر ہم قادیانیوں کو اقلیت قرار دیتے تو ’’امریکہ ہماری گندم بند کر دیتا‘‘۔ظلم و سفاکی کی اِنتہا کرنے کے بعد حکمرانوں کو یقین تھاکہ تحریک کرش کردی گئی ہے۔تب سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مرحوم نے فرمایا تھاکہ اِس تحریک کے ذریعے میں ایک ٹائم بم نصب کرکے جارھا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا ،پھر دنیا نے دیکھا کہ بھٹو مرحوم کے دورِ اقتدار میں قومی اسمبلی نے لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا، 1984ء میں صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ کے تحت اسلامی شعائر کے استعمال سے قادیانیوں کو قانوناََ روک دیا ،تب سے اب تک بہت سے نشیب و فراز کے بعد عالمی کفریہ ایجنڈے کے تحت آئین کی اسلامی دفعات خصوصاََ تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے قوانین غیر مؤثر کرکے ختم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں ،اِنہی حالات کی روشنی میں تمام مکاتب فکر نے یکم فروری 2017ء کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی میزبانی میں تحریک تحفظ ناموس رسالت کے پلیٹ فارم سے درج ذیل مطالبات حکمرانوں کے سامنے رکھے۔
٭ حکومت ِپاکستان 295-C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لے اور اس قانون کے تحفظ کا دو ٹوک اعلان کرے۔
٭ قائداعظم یو نیورسٹی اسلام آباد کا شعبۂ فزکس ڈاکٹرعبدالسلام قادیانی کے نام پر رکھنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
٭ چناب نگر میں ریاست در ریاست کا ماحول ختم کیا جائے۔حکومت دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کرے اور متوازی عدالتیں ختم کرکے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔
٭ قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔
٭ چناب نگر کے سرکاری تعلیمی ادارے قادیانیوں کو ہرگز نہ دئیے جائیں۔
٭ دوالمیال (چکوال)میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانی قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ مظلوم اور بے گناہ مسلمانوں کو جلد رہا کیا جائے۔
ان سطور کے ذریعے ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ منصب رسالت و ختم نبوت کا تحفظ ملت اسلامیہ کے ایمان کی اساس ہیں اور کمزور سے کمزور مسلمان بھی ناموس رسالت پر مر مٹنے کو دارین کی کامیابی تصور کرتا ہے ، قوم جب بھی اکٹھی ہوئی تو ختم نبوت کے مسئلہ پر ہوئی یہ عقیدہ وجہ اتفاق بھی ہے ، وجہ اتحاد بھی ہے اور وجہ اشتراک بھی ہے، اسی لیے عالم کفر اور اس کے حاشیہ بردار اس عقیدے پر حملہ آور ہیں، ہمیں اپنا ایمان اور اپنا وطن دونوں عزیز ہیں اور حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ وہ اغیار کی پالیسیاں مسترد کر دیں اور اسلام اور وطن کے دفاع کے لیے اپنی ترجیہات طے کریں ،بصور ت دیگر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا ،یاد رکھیے ! دہشت گردی کو اس کی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو قیام ملک کے بڑے مقصد اسلام کا نفاذ عمل میں لائیے سب دکھ دور ہو جائیں گے ، اﷲ تعالیٰ ہماری اور ہمارے ملک کی حفاظت فرمائیں اور ملک کے دشمن نیست ونابود ہو جائیں گے ، آمین، یارب العالمین