ڈاکٹرعمرفاروق احرار
سیّدعطاء المومن بخاریؒ کے انتقال کے ساتھ ایک عہدہی ختم نہیں ہوا،بلکہ اُس کے ساتھ ہی اُن کی ذات سے جڑی ہوئی کئی شناختوں اوربعض روایات نے بھی دم توڑ دیا۔قحط الرجال کے اِس دورمیں اُن کا وجودگرامی روشنی کا استعارہ تھا۔اُن کو دیکھ کراِحساس ہوتاتھا کہ ہم اپنے شاندارماضی کے امانت داروں اورحال کی قدآورشخصیات کے قدموں میں موجودہیں۔ شخصیات بھی وہ !کہ جنہوں نے اپنے وقت کے نابغہ لوگو ں کی نہ صرف آنکھیں دیکھ رکھی ہیں،بلکہ وہ اُن کی صحبتوں سے فیض یاب بھی ہوتے رہے ہیں،مگر تیزی کے ساتھ بجھتے ہوئے چراغوں کے درمیان ،اب توایسی زندہ ہستیوں کو اُنگلیوں ہی پر گنا جاسکتاہے۔سیّدعطاء المومن بخاریؒ حضرت امیرشریعت سیّدعطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے فرزنداَرجمندتھے،گواُن کی یہ عالی نسبی ہرحلقے کے لیے قابل احترام تھی ،مگراُنہوں نے اپنی خدادادصلاحیتوں کی بدولت اِس ناقدرشناس معاشرہ میں اپنا مقام خود پیداکیا۔خطابت اورجرأت وبے باکی کی میراث ورثہ میں ملی تھی۔خودداری اورحمیت اُن کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ساری زندگی اختیاری فقرودرویشی میں بسر کردی،مگر اُن کے قدم کسی میروسلطان کے آستانوں ا ور محلات کی راہوں سے ناآشنارہے۔خانوادۂ امیرشریعت اورمجلس احراراسلام کی ساری تاریخ دلیری وبہادری سے متصف اور غیرت وبے نیازی سے مملو رہی ہے۔ایسی ہی جرأت ودلاوری اورفولادی عزم وحوصلہ نے سیّدعطاء المومن بخاریؒ میں چٹان کی طرح استقامت پیداکردی تھی۔قرآن وحدیث اوراُسوۂ صحاۂؓ کی روشنی میں جس موقف اوررَائے کو اِختیارکیاتو پھر موت کی آخری ساعت تک اُسی پر اِستقامت کے ساتھ جمے رہے۔انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ اُن کے اختیارکردہ راستے کے نتیجے میں اُن پر طعن وتشنیع کے تیربرستے ہیں یا قیدوبندکے مراحل درپیش ہوتے ہیں۔اُن کے قدم آگے کی طرف بڑھتے ہی رہے،کیونکہ وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے روادارہی کب تھے!
تفسیری ذوق بہت اعلیٰ تھا،بیسیوں تفاسیراُن کے مطالعے سے گزریں۔ جن کے اثرات اُن کے خطابات میں نمایاں رہے۔ہمارے مذہبی طبقہ کے عمومی ذوق کے برعکس اُن کا شعرواَدب کے ساتھ بہت لگاؤ تھا۔اردو،پنجابی کے سینکڑوں اشعاراَزبرتھے۔جن کے برمحل استعمال کا ہنرجانتے تھے۔ اکثر تلفظ کی غلطیوں اوربے وزن اشعارپڑھنے پر ٹوک دیاکرتے تھے۔خودبھی کئی شعر کہے، لیکن باقاعدہ شاعری کونہیں اپنایا۔صحافت کے ساتھ بھی ان کا تعلق رہا اورایک زمانہ میں ہفت روزہ’’تحریک‘‘کی ادارت بھی کرتے رہے۔ مطالعہ کی عادت کبھی نہ چھوٹی۔خودپڑھنے کی سکت نہ ہوتی تو کسی کو کہہ کر کتاب سن لیتے۔ان کے پاس نادرونایاب کتب کا قیمتی ذخیرہ جمع ہوتا اورناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے بکھرتابھی رہا۔ادب،سیاست، دینیات اورحالات حاضرہ پر بے تحاشامطالعہ کیا۔ آخری دورمیں تفسیری موضوعات ہی پر اُن کی دل چسپی مرتکزہوکررہ گئی تھی ۔ ایک دفعہ بتایاکہ’’ اوائل عمری میں افسانوں کی کتاب پڑھ رہاتھا کہ والدماجد(حضرت امیرشریعتؒ)تشریف لے آئے۔ میں نے والد صاحب کے احترام میں کتاب بندکرکے ایک طرف رکھ دی۔انہوں نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔اس لیے آتے ہی پوچھا کہ کیا پڑھ رہے تھے، ڈرتے ڈرتے کتاب پیش کردی تو اَباجی نے فرمایاکہ’’ میں افسانے پڑھنے سے منع نہیں کرتا،ہاں افسانہ کو اَفسانہ سمجھ کرپڑھا کرو۔ اِسے کبھی حقیقت نہ سمجھنا، اگر کبھی افسانے کے کردارکو سچ سمجھ لیا تو یادرکھنا!کہ تم بھی کسی افسانوی کردار کی طرح بھٹکتے پھروگے۔‘‘بس اُن کی یہ نصیحت زندگی کا رُخ متعین کرگئی۔‘‘
سیّد عطاء المومن بخاریؒ کی حیاتِ مبارکہ توحیدوختم نبوت کی تبلیغ واِشاعت اور نظام ہائے باطلہ کی تردیدورَدمیں صرف ہوئی۔قدرت نے بے مثل خطابت کا ملکہ بخشاتھا۔آپ نے اِس نعمت ِ الٰہی کو مذکورہ عنوانات کے تحت خوب خوب برتا۔تحفظ ختم نبوت کے لیے مجلس احراراسلام کے پلیٹ فارم سے عمربھر مصروفِ عمل رہے اورمنکرین ختم نبوت کو اُن کے انجام تک پہنچاکر دَم لیا۔ساٹھ اورستّرکی دہائی میں کمیونزم،سوشلزم ،سیکولرزم اورمغربی جمہوریت کا غلغلہ عروج پر تھا۔بخاری صاحب نے ان طاغوتی نظاموں کو اَپنے برادربزرگ اورفکری مرشدمولانا سیّدابوذربخاریؒ کی رہنمائی میں اچھی طرح سمجھا اورپھرخودبراہ راست ان عنوانات پر محیط کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔موضوعات پر دسترس حاصل کی اورپھر ملک بھر میں اپنی شعلہ بیانی سے طاغوتی نظاموں کے خلاف نوجوانوں کے دل ودماغ میں نفرت بھر دی۔ وہ اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اوردیگرتمام نظاموں کو اِسلام اور مسلمانوں کے لیے مہلک سمجھتے تھے۔اِس لیے اُن کی مساعی اور جدوجہد غیر اِلٰہی قوانین اورباطل نظاموں کے خلاف جاری رہی۔مغربی تہذیب اور فکروفلسفہ اُن کے نزدیک اسلام کی تباہی اورمسلمانوں کے فکری ارتداد کا باعث بن رہاتھا۔لہٰذا وہ اسلام کے تحفظ اورمسلمانوں کے عقائدکی حفاظت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے۔سیّد صاحب اکثرعلمائے کرام پر زَوردیتے رہے کہ وہ مغربی افکار کے خلاف میدان میں نکلیں اوراِستعماری فکرونظرکے تعارف اوراُس کے رَدکو دَرس نظامی کے نصاب میں شامل کریں۔تاکہ نوجوان فضلا عہد حاضر کے جدیدفتنوں سے باخبرہوں اوراُن کے استیصال کے لیے کمربستہ ہوسکیں، مگر اَفسوس کہ تاحال ایسا نہ ہوسکا۔نتیجہ یہ ہے کہ دینی مدارس کے اکثر فضلاء عصر حاضر کی فکری گمراہیوں اورجدیداِلحادسے ناواقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ فروعی اختلافات اورمسلکی نزاعات کے دائرے سے
باہرنہیں نکل پاتے اور ملاحدۂ عصرہیں کہ دندناتے پھرتے ہیں۔
برصغیر میں مجلس احرار اسلام اور خانوادۂ امیر شریعتؒ کی دینی وقومی خدمات کو ایک صدی ہونے کو ہے۔ یہ ہماری ملی و دینی تاریخ کا وہ لازوال کردار ہے کہ جس کے بغیر دینی وقومی جدوجہد کی تاریخ ادھوری ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ قوم کے ان سپوتوں کے کارناموں کو محفوظ کر کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ فرزندانِ امیر شریعتؒ مولانا سید ابوذر بخاریؒ، مولانا سیّد عطاء المحسن بخاریؒ، مولانا سیّد عطاء المومن بخاریؒ اور مولانا سیّد عطاء المہیمن بخاری مدظلہٗ العالی کی تاریخی خدمات اِس بات کی متقاضی ہیں کہ اُن کی متعینہ راہوں پر رَواں، کاروانِ احرار کی فکرو نظر کا یہ سفر جاری رہے۔ تاکہ حکومت الہٰیہ کی منزل قریب سے قریب تر ہوسکے۔