منصوراَصغرراجہ (پہلی قسط )
فیصل آباد کے اہلسنت علماء اوّل روز سے ہی صوفی مسعود لاثانی سرکار کے عقائد و نظریات کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں ۔20سال پہلے جید علما ء نے لاثانی سرکار کو قادیانیوں کا ایجنٹ قرار دیا ۔لاثانی سرکار نے اپنے خلاف تحریک کا زور توڑنے کے لئے صاحبزادہ فضل کریم کو اپنے پروگرام کا مہمان خصوصی بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے صاف انکار کردیا ۔لاثانی سرکار کے دیگر دو بھائیوں نے بھی اپنے الگ الگ آستانے بنا رکھے تھے ۔ صوفی مسعود نے شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے حوالے سے ایک خواب کو بنیاد بنا کر خود کو لاثانی سرکار کہلوانا شروع کیا ۔قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ لاثانی سرکار کا طریقہ واردات انجمن سرفرشان اسلام والے ریاض گوہر شاہی سے گہری مماثلت رکھتا ہے ۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے صوفی مسعوداحمد المعروف بہ لاثانی سرکار کے خیالات ،ان کی تقاریر اور کتابوں میں سے اقتباسات کا آج کل سوشل میڈیا پر خاصا چرچا ہے ۔اہلسنت علمائے کرام ان کے دینی نظریات کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے لاثانی سرکار کو دور حاضر کا ایک بڑا فتنہ قرار دے رہے ہیں ۔صوفی مسعود لاثانی سرکار کون ہیں ۔ان کی اٹھا ن کہا ں سے ہوئی ۔وہ صوفی مسعود سے لاثانی سرکار کیسے بنے ۔اس سلسلے میں ان کے قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘کو بتایا کہ صوفی مسعود لاثانی سرکار کا تعلق جڑانوالہ کی ایک سنار فیملی سے ہے ۔یہ چار بھائی تھے۔ جن میں سے تین انتقال کر چکے ہیں ۔قریباً 20,25 سال پہلے ان چاروں بھائیوں میں سے تین بھائیوں نے اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر ’’تصوف ‘‘کے میدان میں طبع آزمائی شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’سرکار ‘‘کے نام سے مشہور ہوگئے ۔ان کے سب سے بڑے بھائی کا صوفی اقبال تھا ۔وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے لیکن انہوں نے لاہور میں اپنا آستانہ رائے ونڈ روڈ پر بنا رکھا تھا اور ’’حق ولی سرکار ‘‘کے نام سے مشہور تھے ۔ان سے چھوٹے بھائی کا نام صوفی نثار تھا جو خود کو ’’پیر سوہنی سرکار ‘‘کہلواتے تھے ۔ان کا آستانہ سمندری روڈ پر پُل عبد اﷲ پور کے قریب کرتارے والا روڈ پر تھا ۔تیسرے نمبر پر صوفی عارف ایڈووکیٹ تھے جو وکالت کے ساتھ پراپرٹی کا بزنس بھی کرتے تھے ۔سب سے چھوٹے صوفی مسعود ہیں جو لاثانی سرکار کے نام سے مشہور ہیں ۔ان کا آستانہ فیصل آباد شہر کے تھانہ بٹالہ کالونی کی حدود میں راجہ غلام رسول نگر نامی کالونی میں قریباً چار کنال رقبے پر بنا ہوا ہے ۔چاروں بھائیوں میں سے اس وقت صرف صوفی مسعودلاثانی سرکار ہی حیات ہیں ۔سنی اتحاد کونسل فیصل آباد کے رہنما ملک بخش الٰہی نے ’’امت ‘‘کو بتایا کہ ’’بہت سال پہلے کی بات ہے کہ جب صوفی مسعود نے نیا نیا تصوف کا لبادہ اوڑھا تو انہوں نے اپنی ایک مجلس میں اپنے مریدوں کو بتایا کہ انہیں پیرانِ پیر حضرت غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی ؒکی زیارت ہوئی ہے ۔حضرت غوث پاک ؒ نے ان سے فرمایا کہ اس وقت رُوئے زمین پر تمہارا کوئی ثانی نہیں ہے ۔مریدوں کو یہ خواب سنانے کے بعد صوفی مسعود نے خود کو لاثانی سرکار کہلوانا شروع کردیا ۔‘‘
لاثانی سرکار کے قریبی ذرائع نے مزید بتایا کہ صوفی مسعود نے قریباً ربع صدی پہلے جب فیصل آباد میں پیری مریدی شروع کی اور اپنی مجالس میں عجیب و غریب خیالات کا اظہار شرو ع کیا تو اہلسنت بریلوی مکتب فکر کے علما نے اسی وقت ان کے خلاف تحفظات کا اظہار شروع کردیا ۔اس سلسلے میں سب سے پہلے صوفی ممتاز نامی ایک صاحب نے لاثانی سرکار کے خلاف آواز اٹھائی ۔صوفی ممتاز فیصل آباد کے نواحی گاؤں محمد والا کے رہائشی تھے ۔وہ خود بھی پیشے کے لحاظ سے سنار تھے اور ان کا بیعت کا تعلق گولڑہ شریف والے بزرگوں کے ساتھ تھا ۔وہ لاثانی سرکار کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ انتہائی خطرناک شخص ہے ۔یہ مسلمانوں کے عقائد خراب کر رہا ہے ۔یہ آدمی جن خیالات کا اظہار کرتا ہے ،ان سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ قادیانیوں کا ایجنٹ ہے ۔صوفی ممتاز مرحوم کے بعد مولانا محمد دین چشتی وہ دوسری شخصیت تھے۔ جنہوں نے لاثانی سرکار کے خلاف سب سے پہلے باقاعدہ تحریک چلائی ۔وہ تھانہ گلبرگ کے بالکل سامنے واقع جامع مسجد غوثیہ حامدیہ کے خطیب و پیش امام تھے ۔انہوں نے 1996-97ء میں فیصل آباد کے علما کو اِس طرف متوجہ کیا ۔ان کے ہمرا ہ فیصل آباد کے کئی معروف علما بھی تھے۔ جن میں خاص طور پر تحریک منہاج القرآن کے علامہ سید ہدایت رسول شاہ اور مولانا عبد الرشید جامی جیسے بزرگ علما قابل ذکر ہیں ۔ان حضرات نے قریباً 90علما کے ہمراہ کچہری بازار میں واقع جیلوز ہوٹل میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی ۔جس میں مولانا محمد دین چشتی نے لاثانی سرکار کے کفریہ کلمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص بہت بڑا فتنہ ہے جو مسلمانوں کو گمراہ کر رہا ہے ۔اس کے نظریات اہلسنت و الجماعت کے موقف کے بالکل متصادم ہیں ۔ذرائع کے مطابق بالکل انہی ایام میں فیصل آباد کے ایک معروف عالم مولانا افضل قادری نے نہ صرف اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر فیصل آباد نسیم صادق کے دفتر میں بیٹھ کر بلکہ صحافتی ،سماجی سطح پر اور ذاتی حیثیت سے بھی لاثانی سرکار کو یہ چیلنج کیا کہ لاثانی سرکار کے آستانے کے قریب جو صدیقیہ قبرستان ہے ،وہاں دو قبریں کھودی جائیں ،انہیں اور لاثانی سرکار کو وہاں لٹایا جائے اور علما و مشائخ کی ایک جماعت ان قبروں پر کھڑی ہو کر دعا مانگے کہ ان دونوں میں سے جو جھوٹا ہو ،وہ ابھی اسی قبر میں دفن ہو جائے ۔لیکن لاثانی سرکار نے ان کا چیلنج قبول کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کرنے میں عافیت جانی۔ جب بریلوی مکتب فکر کے ہی جید علما ئے کرام نے لاثانی سرکار کا محاسبہ شروع کیا تو انہوں نے 2009ء میں سنی اتحاد کونسل کے بانی ،جامعہ رضویہ مظہرالاسلام جھنگ بازار کے مہتمم اور سابق صوبائی وزیر اوقاف صاحبزادہ فضل کریم سے رابطہ کرکے انہیں اپنے آستانے میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دی ۔لیکن صاحبزاد ہ فضل کریم نے لاثانی سرکار کو کوئی حوصلہ افزا جواب نہ دیا ۔صاحبزادہ فضل کریم کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد لاثانی سرکار نے ان کے بعض قریبی ساتھیوں سے رابطہ کرکے کہا کہ وہ انہیں صاحبزادہ صاحب سے کچھ وقت لے دیں ۔اس سلسلے میں صاحبزادہ فضل کریم کے قریبی ساتھی اور سنی اتحاد کونسل کے رہنما ملک بخش الٰہی نے بتایا کہ ’’دراصل صاحبزادہ فضل کریم کو اپنی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی دعوت دینا بھی دراصل لاثانی سرکار کی ایک چال تھی ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ صاحبزادہ فضل کریم کا بریلوی مکتب فکر میں بے حد احترام پایا جاتا ہے ۔اس لئے اگر وہ ان کے پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں گے تو لاثانی سرکار کے خلاف جاری اہلسنت علما کی تحریک دم توڑ دے گی ۔لیکن دوسری طرف صاحبزادہ صاحب بھی لاثانی سرکار کی اس چال کو سمجھ گئے تھے ،اسی لئے انہوں نے صاف جواب دے دیا ۔ان کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد لاثانی سرکار نے میرے ساتھ رابطہ کیا کہ آپ مجھے صاحبزاد ہ صاحب سے تھوڑا سا وقت لے دیں ۔میں نے جب صاحبزادہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ صوفی مسعود لاثانی سرکار ایک متنازعہ شخصیت ہے ۔اہلسنت علماء اس کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ،لہٰذا میں ایسے آدمی کے پروگرام میں شرکت کرکے خود کو متنازعہ نہیں بنوانا چاہتا۔ ‘‘لاثانی سرکار کو قریب سے جاننے والے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاثانی سرکار کا طریقہ واردات انجمن سرفرشان اسلام کے ریاض گوہر شاہی سے گہری مماثلت رکھتا ہے ۔
صوفی مسعود لاثانی سرکار کی علمی حیثیت بھی مشکوک ہے ۔اس نے کسی دینی مدرسے سے تعلیم حاصل کی، نہ کسی عصری تعلیمی ادارے سے فیض حاصل کیا ۔فیصل آباد کے معروف بزرگ عالم دین علامہ سید ہدایت رسول شاہ نے ’’امت‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے علم میں توایسی کوئی بات نہیں ہے کہ صوفی مسعود لاثانی سرکار کسی دینی مدرسے کے فاضل ہیں یا کسی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں ۔البتہ ایک بار مجھے ان کی گفتگو سننے کا ضرور اتفاق ہوا ۔میں چونکہ تحریک منہاج القرآن کا مقامی ذمہ دار بھی ہوں ۔ اس لئے عوامی تحریک کے 2014ء کے دھرنے سے قبل ہمارا آٹھ دس افراد کا ایک وفد صوفی مسعودکو دَھرنے میں شرکت کی دعوت دینے اس کے پاس گیا۔ جس میں ،میں بھی شامل تھا ۔اس نے ہمیں تین گھنٹے اپنے پاس بٹھائے رکھا اور اس دوران خود بولتا رہا ،ہمیں ایک لفظ بھی نہ بولنے دیا ۔اس کی پوری گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ’’اس وقت رُوئے زمین پر خدا و رسول کے بعد سب کچھ میں ہی ہوں ‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس شخص نے ہمارے ساتھ جو گفتگو کی ،اسے سن کر مجھے ڈر لگا کہ جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں ،کہیں اس کی چھت ہم پر نہ گر جائے ۔وہاں سے واپسی کے بعد میں نے باقاعدہ توبہ کی کہ آئندہ اس شخص کے آستانے کی طرف نہیں جانا۔‘‘
ختم نبوت فورم کے منتظم مفتی سید مبشر شاہ نے اس بارے میں ’’امت‘‘کو بتایا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی مسعود عرف لاثانی سرکار بنیادی طور پر ایک جاہل آدمی ہے ۔علم دو طرح کا ہوتا ہے ،ظاہری اور باطنی ۔ جبکہ لاثانی سرکار اِن دونوں طرح کے علوم سے تہی دست و تہی دامن نظر آتے ہیں۔اس نے کہیں سے بھی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی اور اس بات کا بڑے فخر کے ساتھ اپنی کتاب ’’وارث فقر ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن جولائی 2017ء میں شائع ہوا۔ جس کے صفحہ 8پر لکھا ہے کہ ’’اس فقیر نے کسی مدرسے سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ،نہ اس نے ان روحانی علوم کو حاصل کرنے میں کسی ظاہر ی استاد یا معلم سے مدد حاصل کی۔ ‘‘آگے چل کر اسی کتاب کے صفحہ 169پر لکھا ہے کہ ’’مجھے اﷲ جلّ شانہ‘ کا فرمان ہوا کہ کتابیں وہ پڑھے جس کا ہمارے ساتھ تعلق نہ ہو ۔جو کچھ پوچھنا ہو ہم سے پوچھیں ۔تم ان حالات و مقامات سے گزر چکے ہو ۔تمہار ا مقام اس سے آگے کا ہے ۔دوسرا ظاہر ی علم نہ پڑھ ،نہ دیکھ اور نہ ہی مثال دے ۔وقت ضائع نہ کرو ، نیچے دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔تم سالہا سال پہلے یہاں سے گزر چکے ہو۔ ‘‘اس اقتباس سے لاثانی سرکار نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ خدا تعالیٰ براہ راست اس کی تعلیم و تربیت فرما رہے ہیں جبکہ یہ صرف انبیا ء کرام کی خاصیت ہے ‘‘۔مفتی مبشر رضا قادری کا یہ دعویٰ ہے کہ ریاض گوہر شاہی تو بہت بعد کی پیداوار ہے ،لاثانی سرکار کا طریقہ واردات تو درحقیقت مرزا غلام قادیانی سے گہری مماثلت رکھتا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں ’’امت‘‘کو بتایا کہ ’’اگر ہم غور کریں تو مرزا غلا م قادیانی اور پیر لاثانی سرکار کی اٹھان بالکل ایک جیسی ہے ۔مرزا قادیانی نے بھی شروع میں خوابوں اورزیارتوں کے قصے سنا کر ہی لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا شروع کیا۔اس کے نام نہاد الہامات اور وحیوں پر مبنی کتاب ’’تذکرہ ‘‘میں جس پہلی وحی یا الہام کا ذکر کیا گیا ،وہ 1861ء کی ہے جس میں مرزا قادیانی کہتا ہے کہ ’’مجھے خواب میں زیارت رسول ہوئی ‘‘۔واضح رہے کہ اس وقت تک مرزا قادیانی نے نبوت تو کجا ،ابھی ولایت کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا ،لیکن تب سے ہی اس نے خوابوں اور زیارتوں کے نام پر لوگوں کو الو بنانا شروع کردیا جبکہ خواب میں زیارتیں کرنا اور کرانا دین کا شعبہ ہر گز نہیں ہے ۔بالکل ایسے ہی لاثانی سرکار نے بھی زیارتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔وہ لوگوں کو ایک ماہ کے لئے اپنے آستانے پر بلاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ انہیں نہ صرف رسولِ خدابلکہ دیگر انبیا اور اولیا کی بھی زیارت کرائے گا اور اس طرح ان پر حق واضح ہو جائے گا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کی کتاب ’’تذکرہ ‘‘اور لاثانی سرکار کی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں بھی ایک مماثلت یہ ہے کہ ’’وارثِ فقر ‘‘بالکل ’’تذکرہ ‘‘کے طرز پر لکھی گئی ہے ۔ جس طرح ’’تذکرہ ‘‘میں مرزا قادیانی اپنے الہٰامات اور وحیوں کو باقاعدہ تاریخ اور سال کے ساتھ ذکر کرتا ہے ،بالکل اسی طرح ’’وارث فقر ‘‘ میں بھی سَن کے حساب سے باتیں بیان کی گئی ہیں ۔‘‘مفتی مبشر مزید بتاتے ہیں کہ ’’مرزا قادیانی اور لاثانی سرکار میں ایک اور مماثلت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ مرزا قادیانی نے جب نبوت و مہدویت کی دکان کھولی تو اُسے علم تھا کہ علما کرام اس کی سخت گرفت کریں گے ،چنانچہ اس کی تصانیف اور شائع کردہ اشتہارات سے پتا چلتا ہے کہ اس نے علما کرام کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔تاکہ اپنے ماننے والوں کے ذہنوں سے لفظ ’’مولوی ‘‘کا ادب اور احترام نکال دیا جائے ۔لاثانی سرکار کا بھی یہی طریقہ واردات ہے اور اس کی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں علم اور علما کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خلاف خوب زہر اُگلا گیا ہے ۔ایک اور فکر انگیز نکتہ یہ بھی ہے کہ جب مرزا قادیانی میدان میں آیا تو اس نے آغاز میں نبوت سے پہلے مسیح موعود کا لقب اختیار کیا ۔نبوت تک تو وہ بہت بعد میں پہنچا ۔بالکل اسی طرح لاثانی سرکار بھی درجہ بدرجہ آگے بڑھ رہا ہے ۔اس نے اب اپنے لئے ’’حبیب فقیر ‘‘کا لقب تراشا ہے ۔اس نے اپنی کتاب ’’وارث فقر ‘‘میں سارا زور اپنے لقب کے فضائل بیان کرنے پر صرف کیا ہے ۔جو لوگ قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور کی سرگرمیوں سے آگاہ رہتے ہیں ،وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مرزا مسرور اِنگلینڈ میں اپنے مرکز ’’بیت الفتوح ‘‘سے ہفتہ وار لیکچر دیتا ہے جو خطبہ جمعہ کے نام پر نشر بھی کیا جاتا ہے ۔اس لیکچر کے شروع میں قریباً 15,20منٹ تو مرزا مسرور اپنی طرف سے گفتگو کرتا ہے اور اس کے بعد وہ خطوط کی ایک پٹاری کھول لیتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو بتاتا ہے کہ اسے فلاں قادیانی نے خط لکھا جس نے مرزا قادیانی کے بارے میں فلاں خواب سنایا ۔فلاں نے خط میں اپنے خواب کا تذکرہ کیا جو مرزا محمود کے فضائل پر مبنی تھا،فلاں کے خط نے مرزا مسرور اور اس کی جماعت کے مبنی بر حق ہونے کے بارے میں کوئی بشارت بیان کی وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح مرزا مسرور دوسروں کی طرف اپنی اور اپنے بڑوں کی تعریف و توصیف اور ان کے فضائل بیان کرتا ہے ۔اس طریقۂ واردات کو عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ :
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں
زبان میری ہے بات ان کی
بالکل یہی طریقہ واردات لاثانی سرکار کا ہے ۔اس نے 2017ء میں جشن لاثانی سرکار منایا ۔اس پروگرام کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے ۔اس میں بے پردہ نوجوان لڑکیاں اور ڈاڑھی منڈھے لڑکے اس کی تعریفیں کر رہے ہیں ۔ اسی طرح وہ سوشل میڈیا پر گاہے گاہے اپنی مجالس کی جو ویڈیو اَپ لوڈ کرتا ہے ، اس میں بھی اپنی گفتگو کے درمیان میں اپنے مختلف پیروکاروں کی گفتگو شامل کردیتا ہے جو لاثانی سرکار کی ’’روحانی فتوحات ‘‘کے گن گا رہے ہوتے ہیں۔‘‘مفتی مبشر رضا قادری کا کہنا تھا ،’’جشن لاثانی سرکار 2017ء والی ویڈیو میں تو باقاعدہ دکھا یا گیا کہ حضر ت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اپنی اصل حالت میں لاثانی سرکار سے ملاقات کے لئے آئے (نعوذ باﷲ )۔ایسے ہی دعوے وہ حضور نبی کریم ﷺکے بارے میں کرتا ہے جس سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ یہ شخص آگے چل کر کہیں امام مہدی ہونے کا دعویٰ نہ کردے۔‘‘ (جاری ہے )