علی ہلال
قاہرہ میں واقع دنیا کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ جامعہ الازہر پرقادیانی مسلط کرنے کی یہودی سازش بے نقاب ہوکر ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے ۔ نوسو برس قدیم اسلامی جامعہ پراثرانداز ہونے کے لئے یہودی اداروں نے بھاری سرمایہ لگاکر فکری انحراف اورگمراہی کو فروغ دینے کے لئے خطرناک پلان بنایا ہے، جس کے لئے یہودی ریاست اسرائیل نے اپنے لٹھ برداراوروفادارگروپ قادیانیوں کی خدمات لی ہیں ۔
جامعہ الازہر کی پریذیڈنسی نے بروقت اقدام کرکے اسلامی دنیا کی مؤقر علمی درسگاہ کو قادیانیت پھیلانے کے لئے بطورمنبر اِستعمال کرنے کی سعی کو خاک میں ملادیا ہے۔جامعہ الازہر کے ڈائریکٹربورڈنے گزشتہ ہفتے ایک ایسے لیکچرار کو تدریس سے روک دیا جو بین المذاہب تعلیم کی آڑمیں قادیانیت کی تبلیغ کرنے میں مصروف تھا ۔قادیانیت کازہر پھیلانے والے لیکچرارکو فوری طورپرتفتیش کے لئے حاضر ہونے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے ،جس سے تفتیش کے لئے الازہر ڈائریکٹر بورڈ اور تدریسی شعبے کے ماہرین پرمشتمل تفتیشی کمیٹی بنائی گئی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ہی وزارت داخلہ نے حرکت میں آکر اپنے شعبہ انویسٹی گیشن برانچ کوبھی متحرک کردیا ہے ۔
معلومات کے مطابق جامعہ الازہر کے شعبہ اصول الدین فیکلٹی سے وابستہ عقیدہ اورفلسفہ کے ایک نمایاں لیکچرار کے خلاف شکایات آئی تھیں کہ وہ اپنے لیکچرمیں اسلامی تعلیمات سے متصادم نظریات اورافکار کی ترویج کررہے ہیں۔شکایت کے بعد ڈائریکٹر بورڈ نے الیکٹرونک ذرائع سے لیکچرار کی نگرانی شروع کی اوران کے دیے ہوئے لیکچرز کی تحقیقات کرائیں، جس سے یہ انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر جمال سعید قادیانی نظریے کے فروغ کاکام کررہاہے ۔ اس حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے پرڈائریکٹر بورڈ نے ڈاکٹر جمال سعید کی تدریس پر تحقیقات مکمل ہونے تک پابندی عائد کردی ۔ تاہم معاملہ اس وقت مزید ڈرامائی صورتحال اختیار کرگیا،جب دورانِ تحقیق موصوف کے اسرائیلی اداروں کے ساتھ خفیہ روابط سامنے آگئے ۔ موصوف کے خلاف ایسے ثبوت وشواہد بھی سامنے آئے، جن سے ظاہر ہواکہ وہ علمی تحقیق اورریسرچ کے بہانے سے اسرائیل جانے کے لئے کوشش کرتارہا اوراس سلسلے میں مصر میں خفیہ طورپر بہت جتن بھی کئے ،لیکن اسے اسرائیل جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ایک ذریعے کے مطابق دراصل مذکورہ لیکچرار پر مصری اداروں کو اُسی وقت سے شک ہوگیا تھا ،لیکن اس معاملے کو اس وقت بے نقاب کرنے کی بجائے اس کی خفیہ نگرانی شروع کی گئی ۔موصوف نے اسرائیلی لائبریریوں سے استفادے کی غرض سے اسرائیل جانے کے بہت جتن کئے، اس دوران اس کے اسرائیلی اداروں سے رابطے بھی نوٹ کئے گئے ۔جامعہ الازہر کی کمیٹی رپورٹ میں مذکورہ لیکچرار پرقادیانیت کے ساتھ ایک دوسرے فرقے کے لئے کام کرنے کابھی الزام سامنے آیا تھا،تاہم بعدازاں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مذکورہ فرقہ بھی قادیانیت کو درست نہیں سمجھتا اور وہ بھی مصرمیں قادیانیت کی چورسرگرمیوں سے پریشان ہے۔
رپورٹ کے مطابق جامعہ الازہر میں گزشتہ چھ ماہ کے دوران یہ اس نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے ۔اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں فیوم نامی صوبہ میں الازہر سے وابستہ شاخ میں بھی ایک لیکچرارکو قادیانیت کی تبلیغ کرتے پکڑاگیاتھا۔جسے بعدازاں عدالت میں پیش کیاگیا اورعدالت میں اس کے خلاف ثبوت پیش ہونے پر اس نے قادیانی لابی کے لئے کام کرنے کا اعتراف کیا تھا ۔لیکچرار نے دورانِ سماعت عدالت میں قادیانیت کے گمراہانہ لٹریچراورکتابیں تقسیم کرنے کا بھی اعتراف کیا اورمصرمیں قادیانی گروپ کے نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق معلومات بھی عدالت کو فراہم کی تھی ۔
خیال رہے کہ جامعہ الازہر میں اسرائیلی تعاون سے قادیانی نظریے کے فروغ کی گھناؤنی سازش ایسے وقت میں بے نقاب ہوئی ہے جب عالم عرب میں مسلمانوں کو گمراہ کرنے والی قادیانی عربی ویب سائٹ جامعہ الازہر کے بارے میں پروپیگنڈا کررہی ہے کہ الازہر نے قادیانیوں کے قرآنی ترجمے کو درست قراردیا ہے۔قادیانیوں کے اس شرانگیز پروپیگنڈے کے بارے میں تحقیقات سے معلوم ہواکہ قادیانی الازہر کی جس تصدیق کی بات کررہے ہیں، وہ 1959ء کی بات ہے، جب قادیانیت کی شرانگیزی ابھی پوری طرح کھل کرسامنے نہیں آئی تھی ۔جامعہ الازہر نے 2009ء میں مصر ی حکومت سے درخواست کرکے قادیانیوں کی کتابیں ضبط کرائی تھیں اورآئندہ کے لئے قادیانی لٹریچرکی طباعت اورتقسیم پرپابندی بھی عائد کرائی تھی ۔ نیز جامعہ الازہر نے مئی 1983ء میں قادیانی گروپ کے خلاف کفر کافتویٰ بھی دیا تھا۔
جامعہ الازہر نے 1924ء میں بھارت سے وفود بھیج کر مصر، فلسطین، لبنان اور شام میں ازہرسے فارغ التحصیل علماء کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کی تھی اوراپنا اصل عقیدہ چھپایا تھا،جس کے باعث بعض علماء نے قادیانی مشنری کے افراد کااکرام بھی کیا،لیکن بعدازاں قادیانیت کاحقیقی چہرہ بے نقاب ہونے پراس وقت کے شیخ الازہر شیخ جاد الحق علی جاد الحق نے قادیانیت کو کفریہ گروہ قراردے کر باقاعدہ طورپراس کے کفر کی وضاحت کی اور اپنے فتویٰ میں کہا کہ قادیانیت کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،بلکہ وہ ایک الگ گروپ ہے ۔اپریل 2007ء کو اَلازہر سے وابستہ اسلامی ریسرچ کمپلیکس نے بھی قادیانی گروپ کو کافرقراردیاتھا ۔
مصری ذرائع کے مطابق قادیانی اس وقت مصرمیں خفیہ طورپر سرگرم ہیں۔ مصرمیں قادیانیوں نے 2011ء میں شروع ہونیو الی عوامی بغاوتی تحریک کے ساتھ ہی حکومت پر دباؤ ڈالناشروع کیا تھاکہ وہ قادیانیت کو باقاعدہ قبطیوں کی طرح مذہب کے طورپررجسٹرڈ کرے ۔اس مقصد کے لئے 2011ء میں بیروت میں ایک بڑے ہوٹل میں خفیہ اجلاس ہواتھا، جس میں پاکستان سے قادیانی گروپ کے کئی ذمہ دار وں نے بھی شرکت کی تھی ۔ مصری حکومت کے انکار پر قادیانیوں نے بہائی فرقے سے مل کر مصری وزیراعظم ہاؤس اور وزارت قانون کے دفتر کے باہر مذہبی آزادی کے عنوان سے احتجاج بھی کیا ۔
جون 2017ء میں مصرمیں قادیانی سرغنہ نے سوشل میڈیا پراپنے پیروکاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ قادیانیت سے تائب ہونے والے عرب سکالرز کو نہ سنیں اورانہیں سوشل میڈیا پراپنے گروپوں سے نکال دیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ رابطوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد مصر کے قومی سلامتی کے اداروں نے قادیانی سرگرمیوں کی نگرانی تیز کردی ہے ،کیونکہ مصری ادارے اس گروپ کوقومی سلامتی کے لئے خطرہ قراردینے لگے ہیں۔
(روزنامہ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔7؍جولائی2018ء)