تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

توہین اسلام کے منظم نیٹ ورک اور عالمی دباؤ

پروفیسرعاصم حنیف
توہین اسلام و توہین رسالت ﷺ پر مبنی سوشل میڈیا نیٹ ورک چلانے والے چند ’’بلاگرز‘‘ کے ’’غائب‘‘ ہونے پر مغربی ممالک اور عالمی میڈیا کی بے چینی اور پراپیگنڈا پورے زور و شور سے جاری ہے ،امریکی وزارت خارجہ ، برطانوی حکام کی جانب سے اظہار تشویش کے بیانات سامنے آچکے ہیں، جبکہ ملک کے اندر چیئر مین سینیٹ رضا ربانی ، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اس حوالے سے سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں ، اور حکومت سے جواب طلبی کی ہے ، ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی بہت بڑا سانحہ ہوگیا ہو ۔دراصل سامراجی قوتوں کے کارندے آگ بگولہ ہیں کہ کس کی ہمت ہوئی کہ اُن کے ’’اپنے بندوں‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کی! ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کوئی عالمی نیٹ ورک ہے، جس کا مقصد ملک کے اندر افراتفری اور انتشار پھیلاناتھا ۔ یہ وہی گروہ ہے کہ جو سول سوسائٹی کے نام پر کبھی توہین رسالت ﷺ کے قانون کو ’’کالا قانون‘‘ قراردیتاہے ، کبھی قادیانیوں کی حمایت میں نکلتا ہے ، میڈیا کی بحثوں میں قراردادِ مقاصد کوختم کرنے کی بات کرتا ہے ، آئین کی شقیں انہیں ستاتی ہیں ، اور کبھی وہ نظریہ پاکستان اور بانی پاکستان کے خلاف محاذ کھول لیتاہے، لیکن جیسے ہی ان مجرم بلاگرز کے غائب ہونے کی افواہ اڑی تو انہیں قانون یاد آگیا ، اور واویلا مچا یا جارہا ہے کہ قانونی طور پر گرفتارکیوں نہیں کیا گیا ، ویسے ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ اس گروہ کے یہ شرپسند خود غائب ہوئے ہیں یا انہیں کسی ادارے نے اٹھایا ہے ، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جن کے مقاصد کے لئے یہ لوگ کام کررہے تھے، انہوں نے ہی انہیں منظر نامے سے ہٹا دیا ہو۔ تاکہ سارے راز فشاء نہ ہو سکیں اور اس بارے پاکستان پر دباؤ بھی ڈالا جا سکے ،ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منظم گروہ کے ارکان غائب ہوئے ہیں کہ جو ایسے سوشل میڈیا نیٹ ورک چلا رہے تھے، جن کے ذریعے ذاتِ باری تعالیٰ ، نبی کریم ﷺ اور اسلام کے بارے میں توہین آمیز اور غلیظ ترین مواد شیئر کیا جارہا تھا، شاید بہت سے پاکستانیوں کے لئے یہ کسی انکشاف سے کم نہ ہو کہ کچھ عرصہ قبل ہم ڈنمارک اور یورپی ممالک میں توہین آمیز کارٹونز کی اشاعت پر احتجا ج کر رہے تھے، لیکن اب ایسے ہی کارٹون اور توہین آمیز مواد بیرونی اشاروں پر ملک کے اندر دھڑلے سے تیار ہو رہاہے اور بے باکی سے شیئر بھی کیا جاتاہے ، ان سوشل میڈیا نیٹ ورک چلانے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو تعلیم یا کسی اور سلسلے میں بیرو ن ملک گئے اور واپسی پر ملحدانہ نظریات اور اسلام مخالف جذبات لے کر واپس لوٹے ۔
یہ لوگ اردوزبان میں ذاتِ باری تعالیٰ،اسلامی طرز معاشرت، دینی احکام اور مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز مواد فیس بک اور ویب سائٹس کے ذریعے پھیلانے میں مصروف تھے ۔ملک کے اندر اس گروہ سے منسلک افراد نے سول سوسائٹی کے طور پر پہچان بنائی ہوئی تھی ، اس گروپ کی جڑیں ملک کے اندر کس قدر مضبوط ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک پروفیسر سلمان حیدر اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کررہے تھے ، اسی طرح وقاص گورایہ اور ایسے ہی چند مزید افراد گرفتار ہوئے ہیں جو کہ بھینسا، موچی اوردیگر ناموں کے فیس بک پیج چلا رہے تھے ، شنید یہی ہے کہ اسلام اور مقدس ہستیوں کے خلاف مذموم مہم چلانے والے ان ’’بھینسوں‘‘ کو تمام تر ملکی قوانین کو رَوندتے ہوئے ’’باعزت رہائی‘‘ دلائی جائے گی اور پھر انہیں دیگرملعون افراد کی طرح امریکہ و یورپ کی شہریت دے کر وہاں لے جایا جائے گا، اور بھر پو پروٹوکول کے ذریعے دوبارہ اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کر دی جائیں گی۔ در اصل یہ پاکستانی حکومت کا بھی امتحان ہے کہ جہاں ایک طرف شدت پسندی اور ملکی سرحدات پر حملہ آور دہشت گردگروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جارہی ہے ،وہیں ملک کی نظریاتی اساس، مذہب ومعاشرت کے ان دشمنوں کو اِنصاف کے کٹہرے میں لایا جاتاہے یا انہیں ماضی کی طرح کلین چٹ فراہم کی جاتی ہے ، ایک گرفتار شدہ شخص کے فرسٹ کزن نے باقاعدہ میڈیا پر آکر انکشاف بھی کیا ہے کہ واقعی وہ اسلام مخالف نیٹ ورک چلا رہا تھا ، سیکولر اور ملحدگروہوں کاوتیرہ یہ ہے کہ دھڑلے سے اسلام ، ذات باری تعالیٰ اور نبی پاک ﷺ کی شخصیت پر حملہ آور ہوتے ہیں ، اور اگر کسی بھی موقع پر ملکی ادارے یا کوئی اورانہیں ٹوکنے کی کوشش کرے تو نام نہاد آزادی اظہارِ رائے اور سول سوسائٹی کا لبادہ اوڑھ کر مظلوم بن جاتے ہیں، بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں این جی اوز کی سجی سجائی چند خواتین موم بتیاں جلا کر اظہار یکجہتی کرتی ہیں ، مغربی ممالک اس بارے سفارتی دباؤ ڈالتے ہیں اور عالمی میڈیا بھرپور مہم چلاتاہے ، اور اس طرح ملک کو سیکولر بنانے والے مذہب بیزار طبقے ’’اپنے بندوں‘‘ کو بآسانی نکالنے میں میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ انہیں مغربی ممالک میں انسانی حقوق کے ہیروز کے طور پر یاد رکھا جاتاہے ، سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین، ملالہ اور ایسے ہی بے شمار نام ہیں جو مادر وطن پر لعنت ملامت کرنے ،اسلام کے بارے توہین آمیز مواد پھیلانے اور سیکولر ازم کے علمبردار ہونے کے کارنامے کر کے ،اب اپنے آقاؤں کے پاس عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں ، المیہ تویہ بھی ہے کہ پاکستان سرکار کبھی بھی کسی ایسے گستاخ اور شر پسند کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لا سکی ، دکھ تو یہ بھی ہے کہ ملک میں یہی سیکولر اور ملحدانہ سرگرمیاں بعض عناصر کو موقع فراہم کرتی ہیں ۔جن کو جواز بنا کر وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو غیر اِسلامی بنایا جارہا ہے ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وزیر اعظم، چیف جسٹس کی جعلی تصویر اَپ لوڈ کر نے والوں کو تو سزائیں ملتی ہیں، لیکن اﷲ تعالیٰ ، حضوراکرم ﷺ کے بارے غلیظ ترین الفاظ کو استعمال کرنے والوں، کارٹون بنانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی کوئی ہمت نہیں کر سکتا ، میری ہمت نہیں پڑتی کہ وہ الفاظ یاان کارٹونز کی تفصیلات لکھ پاؤں جو اِن گستاخوں کی جانب سے شائع کئے گئے تھے ، کمال تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی ادارے نے ان پر ہاتھ ڈالنے کی جسار ت کی ہے تو اُس بارے میں دھڑلے سے سر عام احتجاجی مظاہرے کئے جار ہے ہیں ، ملک کے وزیر داخلہ سمیت کئی حکومتیں اہلکار تھر تھر کانپتے دکھائی دیتے ہیں ، میڈیا کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ، دس بارہ افراد پر مشتمل احتجاج کو بھی لائیو کوریج مل رہی ہے، اور اخبارات کے اولین صفحات پر شائع کیا جارہا ہے ، جیسے کوئی بہت بڑاسانحہ ہو گیا ہو۔ یہ حکومت کاامتحان ہے کہ وہ کیا پہلی مرتبہ کسی توہین مذہب کے مرتکب گستاخ کو سزاسنا سکے گی کہ نہیں !
(روزنامہ’’جہان پاکستان‘‘،لاہور۔16جنوری2016)

’’تازہ ترین:تمام مذکورہ گستاخ اپنے گھروں میں واپس آچکے ہیں‘‘
(احرارنیوز)

یٔ یٔ یٔ

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.