تحریک ختم نبوت 1953ء میں لاہور، لائل پور (فیصل آباد)، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ساہیوال، راولپنڈی، سرگودھا اور دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کی حالت یہ تھی کہ رضاکار اپنے اپنے بھرتی کے مراکز پر آتے، جسم پر بڑی دلیری سے زخم لگاتے اور خون سے حلف نامے پر دستخط یا انگوٹھا ثبت کر دیتے تھے۔ رضاکاروں کا یہ جذبہ گفتنی نہیں، دیدنی تھا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اِن نوجوانوں کے سینوں میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے دل دھڑکنے لگ گئے ہیں اور یہ دنیا و مافیہا سے منہ موڑ کر خواجۂ بطحاصلی اﷲ علیہ وسلم کی حرمت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں۔
لکھتا ہوں خون دل سے یہ الفاظ احمریں
بعد اَز رسولِ ہاشمی ﷺ کوئی نبی نہیں
تحریک ختم نبوت 1953ء میں دہلی دروازہ لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور مجاہدینِ ختم نبوت دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کر آقائے نامدارصلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک اَسّی سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے،مگر تاریخ میں اِس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے نامدارصلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے خمیدہ کمر، اسّی سالہ بوڑھے سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاصلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔
مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں
میں لا رہا ہوں خود اپنے لہو سے بھر کے چراغ
حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری راوی ہیں:
’’1953ء کی تحریکِ ختم نبوت میں گرفتاری کے لیے پیش ہونے والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کو پولیس پکڑ کر کراچی سے بلوچستان کی طرف تقریباً سو میل دُور ایک مقام پر چھوڑ کر آتی، لیکن پولیس والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہتی کہ جب ٹھیک تین چار گھنٹوں بعد اُنہی کارکنوں کو وہ کراچی میں پھر جلوس نکالتے ہوئے پاتے۔پولیس انکوائری کر کر کے تھک گئی کہ کونسی طاقت اُن کو اِس دُور دراز جنگل سے اتنی جلدی کراچی میں پہنچا دیتی ہے؟ زمین سمیٹ دی جاتی ہے؟ غائبانہ سواری کا انتظام ہوتا ہے؟ یا اس گروہ کو لانے والی کوئی مستقل تنظیم ہے؟ بہرحال پولیس کے لیے یہ معمہ رہا، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام کارکنوں کو جونہی دُور دراز جنگل میں چھوڑا جاتا، اﷲ رَبّ العزّت اُن کے لیے فی الفور کراچی پہنچانے کا کوئی نہ کوئی انتظام فرما دیتے، وہ کارکن کراچی آتے ہی پھر تحریک کے الاؤ کو روشن کر نے میں لگ جاتے، بالآخر پولیس نے تھک کر یہ پروگرام ترک کر دیا۔‘‘
مولانا مزید فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ پولیس والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کے ایک جتھے کو رات کے وقت گرفتار کر کے دُور ایک جنگل میں چھوڑ آئے، پولیس کے جانے کے بعد یہ مجاہد چند قدم چلے تو روشنی نظر آئی، وہاں گئے تو جنگل میں چند گھرانے آباد دیکھے، ان گھرانوں میں سے ایک آدمی باہر آیا، ان مجاہدین کو بلایا، دُعا دی، راستہ اور حفاظت کا وظیفہ بتلایا، یہ حضرات چند گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ پولیس والے سو کر بھی نہ اُٹھے ہوں گے کہ یہ حضرات کراچی میں پھر ختمِ نبوت کے جلوس نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ جنگل میں کونسی قوم آباد تھی؟ وہ آدمی از خود بغیر آواز دئیے، کیسے رات کے وقت باہر آیا؟کراچی کا راستہ اور حفاظت کا وظیفہ کیوں بتایا؟دعا کیوں دی؟ وہ کون تھا؟ ان مجاہدین کے ساتھ ان کا یہ شفیق برتاؤ کیوں؟ آج تک اہلِ دنیا کے لیے یہ معمہ ہے، مگر اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات پر ختم نبوت کی وجہ سے اﷲ ربّ العزت کے اِنعامات کی بارش ہو رہی تھی۔‘‘
مولانا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لیے کالج جا رہا تھا۔ سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف بڑھا۔ کسی نے پوچھا :یہ کیا؟ جواب میں کہا: ہمیشہ پڑھتا رہا ہوں، آج عمل کرنے جا رہا ہوں۔ جاتے ہی ران پر گولی لگی، گر گیا۔ پولیس والے نے آ کر اٹھایا تو شیر کی طرح گرجدار آواز میں کہا: ظالم گولی ران پر کیوں ماری ہے،عشق مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم تو دل میں ہے، یہاں دل پر گولی مارو۔ تاکہ قلب و جگر کو سکون ملے۔‘‘
جو سوچتا رہا، رہا گمنام و نامراد
جو بڑھ کے جل گیا، وہی پروانہ بن گیا
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم راوی تھے کہ:
’’1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران بطور ڈاکٹر میری تعیناتی میو ہسپتال میں تھی۔ ہم چند دوست ہسپتال کی چھت پر کھڑے تھے۔ اچانک دیکھا کہ نسبت روڈ چوک کی جانب سے ختم نبوت کے پروانوں کا ایک جلوس بڑھتا ہواآ رہا ہے، جسے روکنے کے لیے فوج نے ہسپتال کے گیٹ کے آگے ریڈ لائن لگا دی اور انتباہ کر دیا کہ جو بھی اسے پار کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ یہ ایک ایسا انتباہ اور ایسی وارننگ تھی، جسے عاشقانِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری تاریخ میں کبھی پرِکاہ سی اہمیت بھی حاصل نہ رہی، یہاں بھی یہی ہوا، جلوس نامِ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمتوں کے ترانے بلند کرتا ہوا، اُسی آن سے آگے بڑھتا رہا۔ ریڈ لائن پہ اک لمحے کو رُکا۔ دوسرے ہی لمحے چشمِ فلک نے دیکھا کہ غلامیٔ رسولﷺ پہ ناز کرنے والا ایک خوبرو نوجوان آگے بڑھا، اس نے اپنا سینہ کھولا اور نعرہ لگایا: ختم نبوت زندہ باد اور سرخ لائن کراس کر گیا۔ دوسری طرف سے قادیانیت نواز کی بندوق سے گولی نکلی اور سرخ سرحد عبور کرنے والا جوان، عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سفر میں اتنا تیز نکلا کہ ایک ہی جست میں زندگی کی سرحد عبور کر کے قدم بوسیٔ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے روانہ ہو گیا،چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اسی رفتار سے دوسرا جوان آگے بڑھا، اس نے بھی گریبان چاک کیا اور پوری قوت سے نعرہ زن ہوا، ختم نبوت زندہ باد، ظلم و تشدد کی روایت کے مطابق اُدھر سے گولی آئی اور عشق و محبت کی تاریخ کا اک اور صفحہ رنگین کرتے ہوئے گزر گئی، وہ جوان لڑکھڑایا اور لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ لیے راہی فردوسِ بریں ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ تیسرا نوجوان آگے بڑھتا، ہم چھت سے نیچے آ چکے تھے اور اِدھر خبر ملی کہ ان دونوں جوانوں کے لاشے بھی ہسپتال پہنچ چکے ہیں۔ دورانِ زیارت معلوم ہوا کہ دونوں جوان سگے بھائی تھے۔‘‘
چودھری نذیر احمد صاحب بھائی پھیرو میں کریانہ کا کاروبار کرتے ہیں۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کا واقعہ انہی کی زبانی سنیے اور اپنے ایمان کو تر و تازہ کیجئے، فرماتے ہیں:’’میری شادی کے چند ماہ بعد تحریک ختم نبوت 1953ء شروع ہوئی۔ میں تحریک میں حصہ لینے کے لیے ننکانہ صاحب سے لاہور، مسجد وزیر خان چلا گیا۔ یہاں روزانہ جلسہ ہوتا اور جلوس نکلتے۔ ایک دن مسجد کی بجلی اور پانی کا کنکشن کاٹ دیا گیا۔ اس پر مسجد میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا، پھر جلوس نکلا۔ میں اس جلوس میں شامل تھا۔ فوج نے ہمیں گرفتار کر لیا۔ چند احباب کے ہمراہ سرسری سماعت کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ میرا نمبر آخر میں تھا۔ میری باری پر قادیانی میجر جنرل حیاء الدین نے کہا: معافی مانگ لو کہ آئندہ تحریک میں حصہ نہیں لو گے تو ابھی بری کر دوں گا۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو کہا کہ آپ کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہو اور ایک امتی کی شفاعت کا ذریعہ ہو اور پھر وہ معافی مانگ لے؟ میجر نے کہا کہ سامنے لان میں چلے جاؤ۔ آدھا گھنٹہ اچھی طرح سوچ لو۔ میں لان میں بیٹھ گیا۔ پھر پیش کیا گیا تو میجر نے کہا کہ معافی مانگ لو۔ میں نے مسکراتے ہوئے میجر کو جواب دیا کہ شاید آپ کو اس مسئلہ کی اہمیت کا علم نہیں، آپ کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اس مسئلہ میں معافی کیا ہوتی ہے؟ اس پر میجر حیاء الدین نے غصہ کی حالت میں میرے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور آٹھ ماہ قید بامشقت اور 500 روپے جرمانہ کا حکم دیا، جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ میرے نامۂ اعمال میں میری بخشش کے لیے یہی ایک نیکی کافی ہے۔‘‘
1953ء کی تحریک ختم نبوت میں میانوالی سے قافلے گرفتاری کے لیے لاہور جاتے تھے۔ ایک قافلہ میں میاں فضل احمد موچی بھی جا کر گرفتار ہو گیا۔ ان کی گرفتاری مارشل لاء کے تحت عمل میں آئی۔ مارشل لاء عدالت نے ان کے بڑھاپے کو دیکھ کر دیگر ساتھیوں کی نسبت کم سزا دی۔ اس پر وہ بگڑ گئے۔ عدالت سے احتجاج کیا کہ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اس سے عدالت نے سمجھا کہ شاید یہ سزا کم کرانا چاہتا ہے۔ عدالت نے جب پوچھا تو کہا’’مجھ سے کم عمر کے لوگوں کو دس دس سال کی سزا دی، میرے ساتھ انصاف کیا جائے اورمیری سزا میں اضافہ کیا جائے۔‘‘ اس بوڑھے جرنیل کی ایمانی غیرت پر جج انگشت بدنداں اٹھ کر عدالت سے ملحق کمرہ میں چلا گیا۔ میاں فضل احمد نے عدالت میں کپڑا بچھا کر گرفتاری، سزا اور آقائے نامدارصلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے اپنی قربانی کی بارگاہ خداوندی میں قبولیت کے لیے نوافل پڑھنے شروع کردئیے۔
تحریک ختم نبوت 1953ء کے پُرتشددخاتمے سے لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ کئی لوگ اُن شہدا کے متعلق جو اِس تحریک میں ناموسِ ختم نبوت پر قربان ہو چکے تھے، یہ سوال کرتے کہ اُن کے خون کا ذمہ دار کون ہے؟اوریہ سوال ایک مخصوص مذہبی حلقہ کی جانب سے بالتواتر اُٹھایاگیاتو تحریک کے قائدسیّد الاحرارامیرشریعت حضرت مولانا سیّدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے لاہور کے ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس کا منہ توڑجواب دیاکہ:
’’جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے۔ اﷲ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ جو لوگ اُن کے خون سے اپنا دامن بچانا چاہتے اور ہمارے ساتھ رہ کر اَب کنّی کترا رہے ہیں، ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار ہوں گا۔ وہ عشقِ نبوت میں اسلامی سلطنت کے ہلاکوخانوں کی بھینٹ چڑھ گئے، لیکن ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بھی سات سو حفاظِ قرآن اسی مسئلہ کی خاطر شہید کرا دیے تھے۔‘‘
شاہ جیؒ نے مزید فرمایا:
’’میں قیامت کے دن حضور خاتم النبییّن صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کروں گا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جھوٹے مدعیٔ نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں شہید ہونے والے خوش نصیبوںؓ کا مقصد صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا، اِسی طرح 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں شہید ہونے والوں کا مقصد بھی صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ تھا۔ لہٰذا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ تحریک ختم نبوت 1953ء میں شہید ہونے والوں کو بھی یمامہ کے شہدا کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا کریں ،کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی تھا۔‘‘ پھر شاہ جی نے فرمایا: مجھے امید کامل ہے کہ میرے نانا، میرے پیارے آقا و مولاﷺ میری درخواست کو شرف قبولیت ضرور بخشیں گے۔‘‘
(مأ خوذ)