امام اہل سنت، مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
قبول اسلام اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی سعادت
۷؍ ھ میں ادا عمرہ سے کچھ عرصہ پہلے کا وقت وہ سراپا سعادت و بشارت گھڑی تھی کہ امیر معاویہ کی قسمت کا ستارہ چمکا اور قبولِ حق مطلع کے اوج و عروج پر جلوہ گر ہو گیا، اﷲ تعالیٰ نے ہی اُس وقت اُن کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ’’تمھارے ماں باپ سمیت قریش کے تمام بڑے اور بااختیار و بااقتدار لوگ تو شہر سے غائب ہیں اور شہر میں اُن کی طرح کوئی تمھاری نگرانی و جاسوسی کرنے والا بھی موجود نہیں ہے، تو تمھارا فوری تعاقب اور محاسبہ بھی نہیں ہو سکے گا۔‘‘ اس لیے اٹھو اور کسی کو بھی اشارۃً و کنایۃً کچھ بھی بتائے بنا ہی کسی نہ کسی طرح اور کسی بھی بہانہ اور حیلہ کے ساتھ چپ چاپ میرے اس نبی و رسول کے خلوت کدہ میں جا پہنچو، جو خدا کانمائندہ تو ہے ہی، ساتھ ہی خاندانی رشتہ سے تمھارے باپ ابو سفیان کا جدّ شریک بھائی یعنی تمھارا چچا بھی ہے۔ کیونکہ نبی علیہ اسلام اور حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پردادا کے بھائی کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت ابوسفیان رضی اﷲ عنہ نبی ﷺ و علی رضی اﷲ عنہ کے عم زاد بھائی تھے۔ اور اس لحاظ سے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ رشتہ میں نہ صرف نبی ﷺ کے بلکہ نبیﷺ و علی رضی اﷲ عنہ دونوں کے بھتیجے تھے تو غیبی طور سے سمجھا دیا گیا کہ اس فرصتِ قلیلہ اور لمحہ گزراں کو اپنے دین و دنیا کی فلاح کا سب سے بہتر موقع یقین کر کے اس ذات کریم کے دامنِ رحمت میں پناہ گزیں ہو جاؤ۔ اور ان کے دستِ حق پرست پر اپنے آبائی کفر و شرک سے سچی توبہ کر کے اسلام و ایمان کے محفوظ ترین قلعہ میں داخل ہو جاؤ، اور دنیوی امن کے ساتھ ساتھ عقبیٰ میں جہنم کے دائمی عذب سے چھٹکارا پا کر دا رین کی فلاح و نجات اور خدا و رسولﷺ کی موعودہ جنت کے ابدی مستحق و وارث بنو۔ اور اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سمیت تمام قریش سے بازی لے جاؤ۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے عین الہامِ ربانی کے مطابق ہی فوراً قدم اٹھایا گویا اُن کی فطرت و طبیعت نبی علیہ السلام کی آمد کے لیے ہی منتظر تھی، تو صرف صبح سویرے جیسے ہی آپ ﷺ صحابہ سمیت مکّہ میں داخل ہوئے، امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ بھی ماں، باپ، بھائی، بہنوں تمام رشتہ داروں اور قریش کے سرداروں سے آنکھ بچا کر کسی نہ کسی طرح آپ کی خدمت میں پہنچے اور آپ سے اپنے دل کا مدعیٰ بیان کر کے آپ کی پناہ میں آئے۔ اور آپ کے ہاتھوں پر کفر و شرک سے توبہ اور کلمہ توحید و شہادت ادا کر کے حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور جماعت مؤمنین کے رکنِ رکین اور لشکرِ نبوّت کے صحابی ، سپاہی بن کر اپنا دین اور دنیا سنوار گئے۔ اس کے بعد ایک بہت بڑا حجاب تو دور ہو چکا تھا، تاہم اپنی ضرورت و حکمت اور عارضی خواہش کے مطابق ابھی عوامِ مکہ کے سامنے بھی اپنے اس انقلابی اقدام کا اظہار و اعلان صحیح نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن نبی ﷺ کے جدّی رشتہ دار اور بھتیجے جیسا عزیز و قریب ہونے کے تعلق کے اظہار میں انھیں کوئی باک محسوس نہیں ہوا۔ تو انھوں نے اﷲ اور رسول کی مصدقہ حکمت عملیہ کے ساتھ اس تدبیر پر فوری اور علانیہ عمل کرنا بھی شروع کر دیا کہ اداء عمرہ کے وقت آپ کے پاس رہے۔ اور عمرہ کا احرام کھولتے وقت اپنی فطری خواہش اور اب اپنی دینی ضرورت کے تحت نبی ﷺ کی مکمل ظاہری و باطنی رضا مندی کے ساتھ آپ کا احرام کھلوانے کی سعادت و عبادت میں نہ صرف حصہ دار ہوئے بلکہ اس کے واحد نمائندہ اور ذمہ دار بن گئے۔ اور قیامت تک آنے والی اُمّت کو شریعت کے دوسرے تمام حقائق کی طرح اس حقیقتِ عظمیٰ سے باخبر کرنے اور اس پر ایمان لانے اور یقین کر لینے کے مقصد سے ہی اسلامِ معاویہ کی حیرت و مسرت انگیز داستان بھی محدثین نے اپنے اپنے طریق کے مطابق نقل کر ڈالی ہے۔ اور ارباب سیر، اہلِ تاریخ نے بھی اُن کی اقتدا میں اس ایمان افروز واقعہ کو بیان کر دیا ہے۔ واقدی جسیے شیعہ اور غیر مستند روایاتی سے لے کر امام اہل سنت، مجدد الامت، رئیس ائمۂ برحق، حضرت امام احمد بن حنبل شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ جیسے سراپا استناد و مجسمِ اعتماد، امام الحدیث تک نے اپنے اپنے انداز کے ساتھ حسبِ ذیل تفصیل منظبط اور محفوظ کر ڈالا ہے، دسویں صدی ہجری کے مجدد اور فقیہ و محدث حضرت علاّمہ شیخ ’’احمد بن حجر ہیتمی مکّی‘‘ رحمۃ اﷲ علیہ متوفّیٰ ۹۷۴ھ مطابق ۵۶۶ء سیرت حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق اپنی مستقل اور مختصر و جامع مشہور و مقبول تصنیف’’تطہیر الجَنان‘‘ میں اس حقیقت عظمیٰ کی واقعیت و حقانیت کے اثبات و اعلان کو طِرازِ عنوان بناتے ہیں اور سیرت و حدیث کے دونوں ذرائع سے اسلام و ایمان امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الفصل الاوّل(فی اسلامِ معاویۃ رضی اللّٰہ عنہ)
عَلٰی مَا حَکٰاہُ الواقِدِیُّ بعدَ الْحُدَیْبِیَّۃِ وَ قَالَ غَیْرُہٗ بل یومَ الْحْدَیْبِیَّۃِ۔ وَ کَتَمَ اِسْلَامَہٗ عَنْ اَبِیْہِ و اُمِّہٖ حَتّٰی اَظْہَرَہٗ یَوْمَ الْفَتْحِ فَہُوَ فِیْ عُمْرۃِ الْقَضِیَّۃِ الْمُتَأَخِّرَۃِ عَنِ الْحُدَیْبِیَّۃِ الواقِعَۃِ سنۃَ سَبْعٍ قَبْلَ فَتْحِ مَکَّۃَ بسَنَۃٍ کَانَ مُسْلِمًا۔
( سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے اسلام لانے کے متعلق)
مشہور اخباری ’’واقدی‘‘ کی روایت کے مطابق امیر معاویہ معاہدۂ حدیبیہ کے بعد (عمرۃ القضاء کے وقت مکّہ میں) اسلام لے آئے۔‘‘ اور واقدی کے علاوہ سیرت کے بعض راویوں نے کہا ہے ہے: ’’ بلکہ امیر معاویہ عین صلح حدیبیہ کے دن ہی ایمان لے آئے تھے۔‘‘ اور انھوں نے اپنا اسلام فتحِ مکّہ کے دن ظاہر کر دیا۔ چنانچہ حدیبیہ سے ایک سال بعد اور فتحِ مکّہ سے ایک سال پہلے ۷ھ میں جو عمرۃ القضاء ہوا ہے امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ اس عمرہ کے وقت ’’مسلمان‘‘ تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ایمان کی تصدیق خاندانِ اہلِ بیت سے:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے اسلام و ایمان کی تائید و تصدیق کے لیے خاندان اہلِ بیت کے رکن رکین سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کے پوتے حضرت محمد الباقر ابن علی زین العابدین کی ایمان افروز روایت سے بھی ہوتی ہے۔ اب آپ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے شاگرد تابعین کے روایات کی جگہ خاندانِ اہلِ بیت کے رکن رکین مؤیّد اہل سنت اور شیعہ کے بنائے ہوئے پانچویں امام ’’حضرت محمد باقر رحمۃ اﷲ علیہ‘‘ کی زبانی اور گھر کے بھیدی کی حیثیت سے اسلام و ایمان سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی تائید و تصدیق ملاحظہ کریں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے واسطے سے خود سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی اپنے مبیّنہ روایت ہے۔ چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی مستند کتابِ حدیث ’’مُسندِ احمد‘‘ میں روایت کر کے اظہار و احقاق حق کر دیا ہے۔ علاّمہ ابن حجر ھیتمی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:
وَ یُؤَیِّدُہٗ مٰآ اَخرَجَہٗ اَحْمَدُ مِنْ طریقِ مُحَمدِ الباقِرِ بْنِ عَلِیٍّ زَیْنِ العابِدِیْنَ اِبْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ رضی اللّٰہُ عَنْہُمْ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ قَالَ قَصَّرْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم عِنْدَ الْمَرْوَۃِ و اَصْلُ الْحَدِیْثِ فِیْ الْبُخَارِیّ مِنْ طَرِیْقِ طاؤسٍ عَنْ ابْنِ عَبّاسٍ بِلَفْظِ قَصَّرْتُ بِمِشْقَصٍ وَلَمْ یَذْکُرِ الْمَرُوَۃَ فِی کُلٍٍّ مِّنَ الرِّوایَتَیْنِ۔
اور واقدی کی تائید وہ روایت کرتی ہے جو امام احمد ابن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت محمد باقر ابنِ حضرت علی زین العابدین ابن سیدنا حسین ابن علی کے طریق سے بواسطۂ سیدنا ابنِ عباس رضی اﷲ عنہم روایت کی ہے، ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’تحقیق معاویہ رضی اﷲ عنہ نے مجھ سے خود بیان کیا کہ (عمرۃ القضاء کا احرام کھولنے کے وقت) میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مَروہ کے پاس کاٹے تھے۔‘‘ اور اصل حدیث بخاری میں بطریق طاؤس تابعی رحمۃ اﷲ علیہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے سیدنا معاویہ کے قول میں اس لفظ کے اضافہ کے ساتھ منقول ہے کہ : ’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بال مبارک قینچی جیسے لوہے کے تیز پترے یا قینچی سے کاٹے تھے۔‘‘
لیکن دونوں روایات میں انھوں نے ’’مروہ‘‘ کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ علاّمہ ابن حجر مکّی ان روایات کی روشنی میں اسلام امیرِ معاویہ رضی اﷲ عنہ کے اثبات میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کچھ اعمالِ عمرہ و حج کی تعیین و ترتیب سے اسلامِ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کَذَا خِلَافًا لِّمَنْ حَصَرَ فِی الْاُوْلٰی الدَّلاٰلَۃُ علٰی اَنَّہٗ کَان فِیْ عُمْرَۃِ الْقَضِیَّۃِ مُسْلِمًا اَمَّا الْاُوْلٰی فَوَاضِحٌ لِاَنَّہٗ ذُکِرَ اَنَّ ذَالِکَ عِنْدَ الْمَرْوَۃِ وَ ہٰذا یُعَیّنُ اَنَّ ذالک التَّقْصِیرَ کَانَ فِیْ الْعُمْرَۃِ لِاَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ حَلَقَ بِمِنًی اِجْمَاعًا وَ اَمَّا الثَانِیَۃُ فَلأَنَّہٗ صلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسلّمَ لَمْ یُقَصِّرْ فیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ أصْلاً لَا بِمَکَّۃ وَ لَا بِمِنیً فَتعَیَّنَ أَنَّ ذَالِکَ التَّقْصِیْرَ اِنَّمَا کَانَ فِیْ الْعُمْرۃ۔
(تطہیر الجَنان، ص:۷)
اس طرح پہلی روایت میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی طرف سے فتحِ مکّہ کے دن اپنا اسلام ظاہر کرنے کے الفاظ پر حصر و انحصار کرنے والے راوی کے برخلاف اس بات پر دلالت موجود ہے کہ امیرِ معاویہ رضی اﷲ عنہ عمرۃ القضاء کے وقت مسلمان تھے اور اس کے دو دلائل ہیں۔ پہلی دلیل تو واضح ہے کیونکہ امیر معاویہؓ نے خود ذکر کیا ہے کہ : ’’میں نے نبی علیہ السلام کے بال مروہ کے پاس کاٹے تھے۔‘‘ اور یہ الفاظ اس بات کو معیّن کرتے اور یقینی بناتے ہیں کہ یہ بال کاٹنے کا معاملہ عمرہ کے موقع پر ہی ہوا ہے۔ کیونکہ اس بات پر پوری اُمّت کا اجماع اور اتفاق ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوَداع کے موقع پر مِنٰی میں سر مبارک کے بال منڈوائے تھے (قینچی وغیرہ سے کٹوائے نہیں تھے) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ بھی طے شدہ مسئلہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حجۃ الوَداع کے موقع پر مکّہ یا مِنٰی میں بال کٹوائے نہیں (بلکہ منڈوائے تھے) تو اس سے یہ بات متعین ہو گئی کہ امیر معاویہؓ کے آپ کے ہاتھوں بال کاٹنے کا معاملہ یقینا عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ عمرۃ القضاء کا دن امیرِ معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ، غنیمتِ باردہ اور سراپا رحمت ثابت ہوا، کہ کفر سے توبہ اور دینِ حق کو قبول کرنے میں اپنی سوتیلی بہن سیدۃ السابقین الاوّلین، ذات الہجرتین اُمّ المؤمنین سیدہ اُمِّ حبیبہ سلام اﷲ علیہا کے سویٰ اپنے پورے گھرانے پر قابلِ ہزار رشک سبقت و فوقیت نصیب ہوئی۔ اور سعادت پر سعادت یہ ہے کہ وہ زبان نبی علیہ السلام کے ذریعہ اپنے قبولِ توبہ اور حصولِ دولت ایمان کی ناقابل تنقید و تردید آسمانی تصدیق سے سرفراز ہو کر مؤمنینِ مخلصین کے جنتی گروہ میں شامل ہو گئے۔ اور تیسری سعادت کبریٰ اُن کو یہ حاصل ہوئی کہ مسلّمہ خاندانی عزت کے علاوہ منشاء خداوندی میں اُن کے حق پژوہی کی برکت سے ارشاد رسول علیہ السلام کے مطابق اُمّت کا ’’ہادی و مہدی‘‘ ہونے کا اعزاز و وقار بھی حاصل ہوا۔ اور کفر و اسلام کی فیصلہ کن جنگ میں حق کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہونے والے اچانک اور انوکھے اجتماعِ عمرہ کے خاتمہ پر اپنے عمِ مکرم اور رسول و قائد اعظم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا احرام کھلوانے میں نہ صرف شریکِ عبادت بنے، بلکہ پونے دو ہزار صحابہ اور ان میں ہر نوع کے خدام کے ہوتے ہوئے بھی ان کے قلب و روح میں مچلتی دیرینہ خواہش و آرزو کے عین مطابق اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس معصوم خواہش و آرزو کی تکمیل کا سراپہ جذبہ بھی پیدا ہو گیا۔ اور امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ قینچی یا اس جیسے لوہے کے تیز پترے سے نبی علیہ السلام کے بال مبارک کاٹ کر آپ کے تبرک اندوز حلّاق و حجام بننے کا لازوال شرف پالینے میں بھی کامیاب و سرفراز ہو گئے۔ اس عملِ خیر کو مکّہ میں موجود تمام صحابہ نے بھی دیکھا اور اردگرد موجود وہاں کے عوام نے بھی مشاہدہ کیا اور پھر مدینہ منوّرہ میں واپسی کے بعد بلادِ عرب بلکہ دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے افراد اُمّت تک اُن کے اسلام لانے کی نوید مسرت پہنچی۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی علیہ السلام کے وجود مبارک سے اتنا قرب اور اس سے اتنا عظیم و لطیف تبرک حاصل کرنے کی خبر فرحت اثر بھی نسیم خلد بن کر پھیل گئی۔ اور یہ دونوں واقعات قیامت تک کے لیے پُر امن دور کفر کے ان کے سراپا اخلاص قبولِ اسلام اور ان کی طرف سے مجسمۂ بشارت و نجات ہونے کی یہ بے مثال خدمت نبویّہ کی الہامی سند اور تائید و تصدیق بن گئی جسے جملہ عشاقِ رسول و خدام اصحاب رسول علیہم السلام بہ طوع و رضا و رغبت اور تمام منکرینِ رسول و اعداء ازواج و اصحاب رسول کرھًا اور تقدیری جبر کے ساتھ ماننے پر مجبور ہو گئے۔ اور ہم پر اﷲ تعالیٰ کا بے حد و حساب فضل و کرم ہے اور اس پر مولیٰ کریم کا بے اندازہ شکر ہے کہ اس نے ہم گنہگاروں کو زمرۂ مسلمین و مؤمنین اور گروہ خدامِ ازواج و اصحابِ رسول میں شامل فرما کر یہود و نصاریٰ اور مجوس و اُمّتِ ابن سبا رافضیوں کے بدبخت گروہ سے جدا اور عذابِ جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔
رضینا قسمۃ الجبار فینا وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ فللّٰہ الحمد والشکر والصلوٰۃ والسلام علی سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و اصحابہ و ازواجہ بِعَدِِدِ کل ذرۃ ألف ألف مرۃ۔
(خطاب: جام پور، ۶؍ مئی ۱۹۸۳ء)