امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے آج سے سڑسٹھ (۶۷) سال قبل ۱۷؍مئی ۱۹۵۱ء کو پاکستان کی معروف دینی درس گاہ ’’دارالعلوم حقانیہ ‘‘اکوڑہ خٹک کے سالانہ جلسے میں خطاب فرمایا تھا۔بانی جامعہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمتہ اﷲ علیہ ہمیشہ شاہ جی کو جامعہ کے جلسے میں مدعو کیا کرتے تھے۔اس خطاب کی روداد پشاور کے ایک ہفت روزہ ’’البلاغ‘‘ کے ۸؍جون ۱۹۵۱ء کے خصوصی شمارے میں شائع ہوئی ‘جسے مدیر ’’البلاغ‘‘ مولانا سعید الدین شیر کوٹی مدظلہ نے مرتب کیا تھا۔شاہ جی کایہ خطاب بعد میں ’’البلاغ‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ماہنامہ ’’الحق ‘‘ نے مارچ ۱۹۷۰ء کے شمارے میں شائع کیا۔قند مکرّر کے طو رپر یہ روداد قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سالانہ اجتماع کی دوسری نشست میں رات ساڑھے گیارہ بجے مولانا امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی تقریر شروع ہوئی ۔حاضرین اس قدر تھے کہ پنڈال کی قناتیں کھول دی گئی تھیں اور دور تک انسان ہی انسا ن نظر آتے تھے۔اندازہ کیا گیا ہے کہ اس وقت کی حاضری کم از کم پندرہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔
شاہ صاحب نے اپنی تقریر اس وقت شروع کی ‘جب اتفاقی طورپر لاؤڈ سپیکر فیل ہوگیا تھا٭۔ جو بعد میں ٹھیک ہوگیا۔شاہ صاحب نے حمدوثناء کے بعد تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا:
بزرگوں نے میرا امتحان لینا چاہا ہے کہ میں لاؤڈ سپیکر کے بغیر بھی بول سکتا ہوں ۔اگرچہ اب بخاری وہ بخاری نہیں رہا جو اس مجمعوں سے زیادہ مجموں کو بھی بغیر لاؤڈ سپیکر کے خطاب کرتا رہا ہے ۔تاہم میں کوشش کروں گا ‘اﷲ تعالیٰ مجھے ہمت دے اور آپ بھی دل میں اس کی دعا کرتے رہیں۔
اس کے بعد آپ نے باقاعدہ تقریرکاآغاز کرتے ہوئے فرمایا۔اپنی سمجھ میں اتنی بات آچکی ہے کہ مذہب میں ‘اپنے مذہب میں!مجھے دوسرے مذہب سے تعلق نہیں ‘نہ میں اس کی کتابیں پڑھتا ہوں ‘نہ ہی اس کا مطالعہ کرتا ہوں بلکہ اتنا ہی جانتا ہوں کہ مذہب اپنا ہے ‘اسے ہی سمجھو سمجھاؤ ۔ہاں تو اپنی سمجھ میں اتنی بات آچکی ہے کہ اپنے مذہب میں تین ہی چیزیں ہیں ۔ایک عقیدہ ،پھر عبادت اور معاملات ۔بس یہ تین چیزیں ہیں ۔میں اس وقت نہ عبادات کے متعلق کچھ کہوں گا نہ معاملے کے متعلق کیونکہ یہ بات اپنی سمجھ میں آگئی ہے کہ بغیر عقیدے کے کوئی عمل ہوتا نہیں اور عقیدہ اس کے معنی ہیں اردو میں دل کی
٭شیخ التفسیر مولانا احمدعلی لاہوری رحمتہ اﷲ علیہ کی تقریر کے دوران بجلی کٹ گئی
بات اور دل کی بات جب دل میں پکی ہوجائے تب ہی حقیقتاً کوئی عمل‘ عمل بن سکتا ہے۔
شاہ صاحب نے کہا کہ علامہ انور شاہ صاحب کی بات یاد آگئی کہ کوڑھی کو جتنی اچھی غذا آپ کھلائیں گے ‘اس کامرض بڑھے گا اور اطباء اس پر متفق ہیں کہ اس کا بدن گلتا ہی جائے گا ،سڑتا ہی جائے گا۔حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ جس کا عقیدہ بگڑ گیا ‘اس کی روح کو کوڑھ ہوگیا ‘جتنی عبادت کرے گا اتنا ہی عذاب پائے گا۔شاہ صاحب علیہ الرحمتہ نے فرمایا میں اس کی مثال دیتا ہوں ۔بتائیے ! اس شامیانے کی جو اس وقت آپ کے سروں پر سایہ کئے ہوئے ہے ۔تو یہ اسی طرح سایہ فگن رہے گاکہ زمین پر آرہے گا ۔
سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ صاحب نے کہا‘ وہ سامنے بلند و بالا عمارت ہے ‘اس کی بنیاد کھوکھلی ہوتو ہر وقت گرنے کاکھٹکا ۔لیکن اگر عمارت معمولی ہے مگر بنیادمضبوط ہے تو چین سے بسر ہوجائے گی۔بس عقیدہ درست ہو‘کثرت عبادات بھی نہ ہو ۔صرف نمازیں ہی پڑھ لے۔ان شاء اﷲ انجام بخیر ہوگااور نوافل بھی ہوں ،تہجد بھی ہو ،اشراق بھی ہو ،اوّابین بھی ہو ،ریاضت سب ہو !عقیدہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں……آریہ بھی عبادت کرتے ہیں ،ہندو بھی ریاضت کرتا ہے لیکن انہیں جہنمی اور کافر ہی کہا جاتا ہے ۔ہاں ہاں یہودی بھی تسبیح بہت کرتے ہیں لیکن عقیدہ ہے ‘عزیر ابن اﷲ کاجو لے ڈوبا ‘بالکل لے ڈوبا۔
اب شاہ صاحب کاانداز بیان گرجدار تھا ۔آپ نے کہا لعنت ہو فرنگی پر !اس نے دوسو سال کی منحوس حکومت میں چوٹ لگائی ہمارے بنیاد ی عقیدے پر ‘جو جان ہے سب اسلا م کی ……توحید کی جڑ ہے او روہ عقیدہ ہے ختم نبوت کا ‘اسلام کا صحیح تصور نبی کے سوا کوئی پیش نہیں کرسکتا ۔اﷲ کو تو سب ہی مانتے ہیں اور مانتے تھے ۔ سب ہی پکارتے ہیں ۔اس کا انکار تو کوئی پرلے درجے کا بیوقوف ہی کرے گاجو اپنے وجود کاتو قائل ہو اور اﷲ کے وجود کاانکارکردے ۔اﷲ کو ہر ایک مانتا ہے‘ چاہے وہ اپنا ہی بناہوا ہو ۔جسے صبح کو گھڑا اور شام کو اس کاخدا ہوگیا……منکر ِ خدا تو یہ بھی نہ تھے ۔سب خدا کے وجود کے قائل تھے ۔میں کہہ رہا تھا کہ منکر خدا تو ہوئے نہیں البتہ خدا کا صحیح تصور ملتا نہیں……اگر ملتا ہے تو نبی سے جسے خود خدا نے بنایا ‘وہ خدا تو مرگیا ،ٹوٹ گیا ،پھوٹ گیا ۔ایک ضرب زیادہ پڑنے سے نکٹا ہوگیا ۔لنجا ہوگیالیکن نبی جوخدادیتا ہے جس خدا کا تصور نبی سے ملتا ہے ‘وہ مرتا نہیں ،ٹوٹتا نہیں ،بے عیب ہوتا ہے ۔
شاہ صاحب نے اپنے بیان کا مرکز متعین کرتے ہوئے کہاکہ شاہ عبدالقادر صاحب قدس سرہ ُ العزیز نے چالیس سال میں قرآن کریم کاترجمہ کیا ہے ۔اس میں اﷲ الصمد کاترجمہ شاہ صاحب نے ’’اﷲ نرادھار ہے ‘‘کیا ہے ۔نرادھار ،نرادھار !(یعنی)جس بن کسی کاکام نہ چلے اور جس کاکام کسی بن نہ اڑے ۔اﷲ کایہ تصور نبوت ہی پیش کرسکتی ہے اور کوئی نہیں اور اس کی جڑ فرنگی نے کاٹی……!
شاہ صاحب نے گرجدار آواز میں کہا ‘کیسے پنجاب سے ایک نبی اٹھا ؟اٹھا نہیں!اٹھایا گیا ۔ذرا نرم آواز میں شاہ صاحب نے کہا میں نے تو یہ اندازہ لگایا ہے کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ‘وہ پاگل ہے یاپاجی اور ایسے پاجیوں کاسلسلہ مسیلمہ کذاب سے پنجابی نبی تک آیا ہے۔نبوت ایک مرکز ہے جسے قومیں فنا کرنے اٹھیں لیکن اس کاعلاج بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔
آگے چل کر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے فرمایا ‘تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مدعی ٔ نبوت کے نقائص کی بنا پر اس کے دعوے کی تردید کی جائے کہ وہ شراب پیتا تھا ‘لہٰذا نبی نہیں ۔اس کی مخبوط الحواسی کی بہت سی دلیلیں ہیں۔لہٰذا نبی نہیں وغیرہ وغیرہ ۔لیکن ایک رخ اور بھی ہے ‘وہ یہ کہ پیغمبر ا سے اعلان کرایا گیا ۔قل یا ایہاالناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً فرمادیجیے ‘اے پیغمبر!اے لوگو!بے شک میں اﷲ کارسول ہوں ،نبی ہوں ،پیغامبر ہوں ،ظلّی وبروزی کاجھگڑا ہی نہیں !تم سب کی طرف، ساری خدائی کی طرف ،خدا کی ساری بادشاہی کے لیے ایک رسول ،آخری رسول !خطاب کیا گیا ہے ’’اے لوگو!یا ایہاالناس ‘‘تو جس نے اس نبوت سے کنی کاٹی وہ لوگوں میں کہاں رہا؟اس کاشمار انسانوں میں کب ہوگا ۔یہ ہے تصور کادوسرا رخ جس سے جھوٹی نبوت کا جھوٹ کھلتا ہے اور جھوٹے نبیوں کے چہرے کی بدرونقی اس آئینہ میں نظر آتی ہے……
اس کے بعد شاہ صاحب نے اپنی تقریر کا الحاصل بیان کرتے ہوئے کہا ‘آج ضرورت ہے ۔اس عقیدہ کو محکم رکھنے کی جو ایمان کی بنیاد ہے او رجہاں سے اسلام کا صحیح تصور ہمیں مل سکتا ہے ۔یعنی نبوت اور ختم نبوت کیونکہ عقیدہ کے بغیر کوئی عمل درست نہیں ہوسکتا۔اس کے بعد شاہ صاحب نے فرمایا اوصیکم بتقوی اﷲ میں تمہیں خدا سے ڈرتے رہنے کو کہتا ہوں ۔یاد رکھو سرحد میں انتخابات ہونے والے ہیں ۔میں کہوں گا کہ لیگ کی پوری طرح حمایت کرو،اس کے ہر امیدوار کو کامیاب بناؤمگر جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں کو پوری طرح شکست دو ۔لیگ کے ہر امیدوار کو خواہ وہ کوئی ہو اور کیسا ہو ‘تم ووٹ دے دو ۔مگر پنجابی نبی کے چیلوں کو سراٹھانے کا موقع نہ دو۔ ان کی ضمانتیں ضبط کراؤ اور انہیں شکست ِ فاش دو۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب اللعالمین