عبداللطیف خالدچیمہ
آئین پاکستان کی اسلامی دفعات خصوصاً قانون تحفظ ناموس رسالت اور قانون تحفظ ختم نبوت ایک بار پھر عالمی وکفریہ ایجنڈے کی زد میں ہیں ،غیر ملکی این جی اوز ،میڈیا اور لابنگ جیسے محاذ اِن قوانین کو غیر مؤثر کرکے سِرے سے ختم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں،سینٹ آف پاکستان کی اِنسانی حقوق کی کمیٹی 295 ۔سی کے قانون کو زیر بحث لانا چاہتی ہے ،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت بعض سرکاری شخصیات کے بیانات خوش آئند تو ہیں لیکن پالیسی میٹر کے طور پر صورتحال اِنتہائی غیر تسلی بخش ہے ،متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان نے گزشتہ تین ماہ میں اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا اور صدر مملکت جناب ممنون حسین کی خدمت میں ایک عرضداشت ارسال کی (جو شامل اشاعت ہے)عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے یکم فروری 2017 ء بُدھ کو اسلام آباد میں حسب روایت آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کانفرنس منعقد کرکے تمام مکاتب فکر کو یکجا کیا اور یوں مشترکہ مؤقف قوم کے سامنے پیش کیا، حکومت کو اپنے مطالبات کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے، اِس کانفرنس میں جو مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا وہ درج ذیل ہے۔
مشترکہ اعلامیہ
آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت ﷺ کانفرنس منعقدہ یکم فروری 2017 بروز بدھ بمقام ڈریم لینڈ ہوٹل ، کلب روڈ ، اسلام آباد۔ ملک بھر کی دینی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اورتمام مکاتب فکر کے اکابر علمائے کرام اور مشائخ عظام کا مشترکہ اجتماع ایک بار پھر اس حقیقیت کو دہرا رہا ہے کہ مملکت خداد اد پاکستان ، اﷲ اور اس کے رسول مقبول ، خاتم النبیین ﷺکے نام پر حاصل کی گئی ہے۔ اور یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو اسلامی نظریہ پر وجود میں آئی ہے۔ لیکن مغربی دنیا اور ان کی این جی اوز ایک منظم سازش کے ذریعے سے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے در پے ہیں ۔
وطن عزیز میں تمام انبیا کرام علیہم السلام اور بالخصوص آنحضرت ﷺ کی عزت و ناموس کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی ۔ لیکن ہر پانچ ،چھ سال کے بعد اس ایمانی ،شرعی اور آئینی قانون میں ترمیم یا تبدیلی کی قرارداد لانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 295۔سی کے قانون میں ترمیم یامقدمہ کے اندراج کے طریقہ کار میں تبدیلی اور سزا میں کمی کے اعلان سے عاشقان رسول ﷺ اور اسلامیان پاکستان کو اضطراب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے سندھ اسمبلی میں اسلام قبول کرنے کی عمر اٹھارہ سال مقرر کرنے کا قانون منظور کیا جاتا ہے۔ اور پھر علماء اور اسلامیان پاکستان کے دباؤ پر قانون واپس کر لیا گیا۔ لیکن سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے ہی ایک سینیٹر کی جانب سے ایسی مذموم کاوشوں پر یہ اجتماع گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے ہتھکنڈوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ہر ایسی مذموم سازشوں کا ہر محاذ پر مقابلہ کیا جائے گا یہ اجتماع حکومت سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسی سازشوں پر نظر رکھے اور ایوان بالا اور ایوان زیریں میں توہین رسالت ﷺ کے قانون میں کوئی تبدیلی نہ لانے کا دو ٹوک اعلان کرے امت مسلمہ کا یہ عقیدہ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ اﷲ رب العزت کے آخری نبی ہیں مرحوم بھٹو دو ر میں قومی اسمبلی نے اس بنیادی عقیدہ کے باغی قادیانیوں کا دین اسلام سے متصادم مؤقف سننے کے بعد انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت سمیت ملک کی تمام عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں اس قانون کو مبنی بر حق قرار دیا لیکن قادیانی گروہ نے آئین پاکستان سے انحراف اور عدالتوں کے فیصلوں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلم کہلوانے مصر ہے۔قادیانیوں نے چناب نگر میں اپنی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ اپنے اسٹاپ پیپر شائع کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔ اس گروہ کی آئین شکنی کا نوٹس لیا جائے اور انہیں آئین کا پابند بنایا جائے۔
حال ہی میں قادیانی ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو منسوب کیا گیا۔ حالانکہ ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان کو لعنتی ملک کہا ہے۔ یہ نمائندہ اجتماع اس اقدام پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے اس غلط فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ آئین کی رو سے قادیانی خود کو مسلمان قرار نہیں دے سکتے۔ اور نہ ہی وہ قادیانیت کو اسلام کہہ سکتے ہیں۔ آئین میں ان پر واضح پابندیاں ہیں۔ لیکن قادیانی چینلز پاکستان کے آئین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات اور پیمرا قادیانی چینلز کی اسلام مخالف مہم اور آئین کی بغاوت کا نوٹس لے۔اور ان نشریات پر پابندی عائد کرے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا لیکن قادیانی تعلیمی اداروں کو واپس کرنے کے اقدامات کی خبریں گاہے گاہے سنی جا رہی ہیں۔ حکومتوں نے اربوں روپے ان اداروں پر خرچ کیے ہیں۔ اور ان اداروں میں پچانوے (۹۵) فیصد عملہ اور زیر تعلیم طلبہ مسلمان ہیں۔ قادیانیوں کو تعلیمی ادارے واپس کر کے گویا نوجوان نسل کو قادیانیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہو گا حکومت ایسا کوئی غلط قدم اٹھانے سے باز رہے ۔ اس سال 12 ربیع الاوّل کو دوالمیال ضلع چکوال میں میلاد النبی ﷺ کے جلوس پر قادیانیوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک مسلمان شہید اور کئی مسلمان زخمی ہوئے۔ لیکن قادیانیوں کو قانون شکنی پر سزا دینے کی بجائے مسلمانوں پر جھوٹے مقدمات درج کر کے انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اور مختلف ذرائع سے اب دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ مسلمان قادیانیوں کے خلاف درج کرائے گئے مقدمات واپس لیں۔
یہ اجتماع پاکستان اسلامی تشخص اور قومی خودمختاری کے خلاف بڑھتے ہوئے مسلسل عالمی دباؤ اور بین الاقوامی اداروں کی یلغار پر تشویش و اضطراب کا اظہار کرتا ہے اور دینی حلقوں کو توجہ دلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور قومی خود محتاری کے معاملات کو سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے دینی قوتوں کو خود کردار ادا کرنا ہو گا۔
آج کا اجتماع اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوالمیال کے قادیانی گروہ کے مجرم افراد کو فی الفور گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دے۔ اور بے گناہ مسلمانوں کو رہا کرے۔
یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ:
۱۔ 295C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس قانون کے بہرحال تحفظ کا دو ٹوک اعلان کیا جائے۔
۲۔ چناب نگر میں’’ ریاست در ریاست ‘‘ کا ماحول ختم کیا جائے ، حکومت کی دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور متوازی عدالتیں ختم کر کے ملک کے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔
۳۔ قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔
۴۔ قادیانی تعلیمی ادارے ، انہیں واپس کرنے کی پالیسی عوامی جذبات اور ملک کی نظریاتی اساس کے منافی ہے۔ حکومت اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور قوم کو اعتماد میں لے۔
۵۔ دوالمیال چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ علاقہ کے مسلمانوں کے مطالبات کو فوری طور پر پورا کیا جائے، شہید کے بارے میں ایف آئی آر درج کی جائے، بے گناہ مسلمانوں کو رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے والے حکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یہ اجتماع حکومت پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ یہ مطالبات رسمی اور وقتی نہیں ہیں پوری قوم کے جذبات کے آئینہ دار ہیں انہیں جلد از جلد منظور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر ایک ماہ تک یہ مطالبات منظور نہ کیے گئے اور حکومتی طرز عمل میں واضح تبدیلی نہ دکھائی تو آل پارٹیز ناموس رسالت کانفرنس کی طرف سے ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ جس کے انتظامات کے لیے درج ذیل راہنماؤں پر مشتمل رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا جارہا ہے۔
جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے۔ کمیٹی کے ممبران میں سراج الحق، راجہ ظفر الحق، پروفیسر ساجد میر، مولانا سمیع الحق، صاحبزادہ ابو الخیرزبیر، قاری حنیف جالندھری، اعجاز الحق، مولانا اﷲ وسایا، پیر اعجاز ہاشمی، چوہدری پرویز الہٰی، سید محمدکفیل بخاری، حافظ عاکف سعید، مولانا زاہد الراشدی، پیر معین الدین کوریجہ شامل ہیں۔
ہم اس اے پی سی کے جملہ مطالبات اور اعلامیے کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔مجلس احرارا سلام اپنی جماعتی و اجتماعی حیثیت میں ان مطالبات کی منظوری اور مقاصد کے حصول کے لیے اپنی پرُامن جدوجہد ہر حال میں جاری رکھے گی ،اِن شاء اﷲ تعالیٰ۔
مزید برآں مجلس احرارا سلام ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم کش پالیسیوں کو سفاکانہ اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے ،عالمی برادری سے اپیل کرتی ہے کہ وہ جارحیت اور جانبداری ترک کرکے صورتحال کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب کچھ’’ اُلٹی زقند‘‘ کا موجب بن جائے ،حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں پر پابندیاں اور نظر بندیاں سراسر یکطرفہ اور غیر منصفانہ ہیں،تحریک آزادی کشمیر ایسی پابندیوں سے ماند نہیں پڑے گی،ہمارا یقین ہے کہ آزادی کے متوالے دنیا بھر میں کامیاب و کامران ہوں گے اور اسلام کی بالا دستی کا منظر دنیا ایک مرتبہ پھر دیکھے گی، ان شاء اﷲ تعالیٰ
یٔ یٔ یٔ یٔ