عبداللطیف خالد چیمہ
تحریک ختم نبوت کو سیاسی آلائشوں سے پاک رکھا جائے!
تحریک تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے گزشتہ چند ماہ سے جو ’’طبع آزمائی‘‘ کی جارہی ہے یا کرائی جارہی ہے اس ضمن میں ہمیں کسی ایک کی نیت پر بھی شک نہیں، لیکن ہر مکتب فکر اور پھر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر ہر ایک کے اپنے اپنے مطالبات اور اپنا اپنا ایجنڈا، (اگر اپنا ہے تو) اور پھر اپنے اپنے دھرنے اور اپنے اپنے مذاکرات سے اب تک کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر حوصلے کے ساتھ اس کی جمع تفریق کرلی جائے تو اچھا ہے۔ نوبت باایں جا رسید کہ مزارات کو اوقاف میں لینے کے پنجاب حکومت کے اعلان یا عندیے کے بعد ایک ہفتے میں ’’نظام اسلام‘‘ کے نفاذ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے ہی جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے سجادہ نشین صاحب کے گھٹنوں کو ’’چھو لیا‘‘ اور وہ انہیں منانے میں کامیاب ہوئے
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
روزنامہ جنگ، لاہور کی خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’لاہور (خصوصی نمائندہ) وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف گزشتہ روز سرگودھا میں آستانہ عالیہ سیال شریف گئے اور سجادہ نشین پیر حمید الدین سیالوی سے ملاقات کی، ملاقات کے بعد پیر حمید الدین سیالوی کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے کہا کہ میری درخواست پر سیالوی صاحب نے شروع کی گئی احتجاج کی تحریک ختم کر دی ہے اور رانا ثناء اﷲ کے معاملے اور دیگر امور پر کمیٹی قائم کردی گئی ہے تاہم پر امن سیرت النبی ؐ اور ختم نبوت کانفرنسز منعقد ہوں گی، جن میں ہر مسلمان کو حصہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا بنیادی جز وہے اور اس کے بغیر کسی مسلمان کا عقیدہ مکمل نہیں ہوتا، ختم نبوت پر ہم سب کا لازوال اعتماد اور اعتقاد ہے، قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں، پاکستان کے آئین نے بھی اس حوالے سے واضح طور فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سیال شریف حمید الدین سیالوی صاحب سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں، معاملات اور تمام امور کے حوالے سے کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا پہلا اجلاس اگلے ہفتے لاہور میں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں یہاں حاضر ہونے کے لیے بے تاب تھا تاہم ہر چیز کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ حمید الدین سیالوی کے ساتھ میرا مروت، مہربانی اور محبت کا رشتہ موجود ہے تاہم بعض سیاسی مخالفین اور بعض مذہبی طبقات نے ہمارے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی، میری درخواست پر حمید الدین سیالوی نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس حوالے سے جو استعفے تھے وہ اب واپس ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا میرا اور میرے خاندان کا سیال شریف کے خاندان سے دیرینہ تعلق ہے اور سیال شریف کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ قبل ازیں وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف اور پیر حمید الدین سیالوی کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں تمام امور کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا‘‘۔
(روزنامہ جنگ، لاہور، 26 جنوری 2018ء ، ص:1)
اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ 27 ؍جنوری ہفتہ کو پورے جلال کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے سامنے گرفتاریاں دینے والے چار گھنٹے انتظار بلکہ اضطراب کے بعد واپس لوٹ گئے، مگر
ہائے اُس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا
روزنامہ ایکسپریس لاہور کی خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’تحریک لبیک یا رسول ؐ اﷲ کے زیر اہتمام مطالبات ختم نبوتؐ کے سلسلہ میں جیل بھر وتحریک کا آغاز کردیا گیا، تاہم پہلے روز تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی اپنے ساتھ مدارس کے طلبہ سمیت 100 افراد کے ساتھ گلے میں گلاب کے ہار ڈالے اسمبلی ہال کے سامنے گرفتاری پیش کرنے کے لیے 4 گھنٹے تک پولیس کا انتظار کرتے رہے لیکن پولیس نے وہاں کا رخ ہی نہیں کیا اور یوں گرفتاری کی خواہش دل میں لیے تحریک کے قائد اپنے جانثاروں کے ساتھ گھروں کو لوٹ گئے۔ اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے کہا کہ منظور شدہ مطالبات پر عملدرآمد نہ کرکے حکمران اقتدار کا شرعی اور اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ پاکستان جیسی سلطنت میں ختم نبوت پر حملہ ہونا اور شدید جرم کے ثابت ہوجانے کے باوجود آج تک مجرموں کو سزا نہ ملنا بلکہ ان کا بے نقاب نہ ہونا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف کی جیب میں عزت نہیں ذلت کی ٹکٹیں ہیں، حلف نامے میں تبدیلی سے ہونے والے نقصان کا اندازہ انہیں عام انتخابات کے وقت ہوگا ،انہوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرنے تو کم ازکم گرفتاری کامطالبہ ہی تسلیم کرلیا جائے ، انہوں نے اعلان کیا کہ ہم روزانہ ایک بجے پنجاب اسمبلی کے سامنے گرفتاریوں کے لئے آئیں گے ،اور چار بجے تک حکومتی ہتھکڑیوں کا انتظار کریں گے اور مطالبات کی منظوری تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ،اس موقع پر مفتی محمد عابد جلالی ،پیر محمد اقبال ہمدمی ،صاحبزادہ محمد امین اﷲ نبیل سیالوی ،صاحبزادہ سردار احمد رضا فاروقی ،علامہ محمد طارق لطیف نقشبندی ،علامہ فیض سلطان رضوی ،صاحبزادہ مرتضیٰ علی ہاشمی ،علامہ فرمان علی جلالی ،علامہ محمد صدیق مصحفی ،مولانا امانت علی سرداری ،مولانا محمد زوہیب جلالی ،مولانا احسان الرحمن نورانی اور محمد جمیل جلالی بھی موجود تھے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس ،لاہور، 28 جنوری 2018ء ص:1)
تحریک قیام حکومت الہٰیہ اور تحریک ختم نبوت کے ایک شعوری کارکن کے طور پر ہم اس طرح کی تمام خبروں پر پوری نظر رکھتے ہیں بلکہ بادی النظر پر بھی نظر رکھنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رائے میں گزشتہ سال یکم فروری 2017ء کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی میزبانی میں حضرت مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت ہونے والی آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کی اے پی سی کے چھ مطالبات پر حکومت کی طرف سے توجہ نہ دینے اور توجہ دلانے والوں کی طرف سے مطالبات کو آگے نہ بڑھانے سے جو گیپ آیا ،اسی گیپ یا خلا کو پُر نہ کرنے سے سارے مسائل نے جنم لیا اور تحریک ختم نبوت کی دیرینہ اور بڑی جماعتوں کی گرفت کو کمزور کرکے تحریک ختم نبوت کو ’’فرقہ وارانہ‘‘ رنگ دینے کی جو موہوم کوشش کی گئی وہ آخر کار دم توڑتی نظر آرہی ہے۔
بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے 1953ء کی تحریک مقدس میں تمام مکاتب فکر کی شرکت کو یقینی بنایا اور مجلس احرار اسلام کی میزبانی میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کی سربراہی بریلوی مکتب فکر کے جید عالم دین حضرت مولانا ابو الحسنات قادری رحمۃ اﷲ علیہ کو سونپی گئی۔ تحریک مقدس چلی اور دس ہزار فرزندانِ اسلام جناب نبی کریم ﷺ کے منصب رسالت وختم نبوت پر فدا ہوگئے۔ بعد ازاں تحریک مقدس پر کئی سوالات اٹھے تو حضرت امیر شریعت ؒ نے فرمایا کہ ’’اگر میرے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی یہ سوال ہو کہ اس تحریک کے ذریعے میں سیاسی اقتدار حاصل کروں تو مجھ پر اور میرے اہل وعیال پر غضب نازل ہو۔ پھر فرمایا! کہ اس تحریک میں جو لوگ شہید ہوئے ان کے خون کا میں ذمہ دار ہوں اور روز قیامت جو جواب خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ہوگا (جن کے دور خلافت میں مسلیمہ کذاب کے فتنہ کے قلع قمع کے لیے 12 سو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے) وہی میرا ہوگا۔‘‘
ان سطور کے ذریعے ہم تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت کی قدیم جدید جماعتوں، تنطیموں، دھڑوں، اداروں او رشخصیات سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ وہ اس مقدس مشن کو کسی مصلحت، سیاست یا سازش کی نظر نہ ہونے دیں اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے طریق کار اور یجنڈے واہداف پر نظر رکھیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی موہوم خیال میں گم ہوں اور دشمن اپنا وار کرجائے، اور پھر ہمیں یہ کہنا پڑے کہ
آہ ہم کس خیال میں گم تھے
دوستی کے لباس میں تم تھے
وماعلینا الاالبلاغ المبین
یوم تاسیس جامع مسجد احرار چناب نگر
آج سے بیالیس سال قبل 27 ؍فروری 1976ء کو ’’ربوہ‘‘ میں احرار کا پہلا فاتحانہ داخلہ ہوا، پاکستان بننے کے بعد بانیٔ احرار حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور دیگر اکابر احرار اس کوشش میں لگے رہے کہ قادیان کی طرح ربوہ میں بھی مسلمانوں کا مرکز قائم ہوجائے اور شعبۂ تبلیغ کا دفتر بن جائے تاکہ قادیانی تسلط دم توڑ جائے۔ انھی اکابر کی دعاؤں اور جدوجہد کا ثمر تھا کہ 1975ء میں ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اپنے معاونین قاری عبدالحیٔ عابد رحمۃ اﷲ علیہ ،مولانا محمد اسحاق سلیمی رحمۃ اﷲ علیہ،مولانا راؤ محمد ارشاد، چنیوٹ کے کچھ ساتھیوں اور فیصل آباد کے معاونین کے ذریعے چناب نگر (ربوہ) کے ڈگری کالج کے ساتھ کچھ جگہ خریدنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں ایک تبلیغی جلسہ بھی کیا تاآنکہ 27 ؍ فروری 1976ء جمعۃ المبارک کو ربوہ میں پہلے مرکز احرار وختم نبوت کے باقاعدہ سنگ بنیاد اور خطبہ ونماز جمعہ کا اعلان کردیا گیا ،روزنامہ نوائے وقت لاہور میں اشتہارات دیے گئے ،پیپلز پارٹی کی رسوائے زمانہ حکومت اور سرکاری انتظامیہ دو روز قبل حرکت میں آگئی۔ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ایک روز قبل رات کے اندھیرے میں حیلے اور تدبیر سے متعینہ جگہ کے قریب ملفوف طور پر قیام پذیر ہوگئے، تحریک طلباء اسلام پاکستان کے ناظم اعلیٰ برادرم محمد عباس نجمی رحمۃ اﷲ علیہ کو رات فیصل آباد سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا، جب وہ ان ناروا پابندیوں کی بابت اعلیٰ سرکاری حکام کو ٹیلی گرام دینے ٹیلی گراف آفس فیصل آباد پہنچے، مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہ اﷲ نے فیصل آباد میں رہائش گاہ بدل لی۔
راقم الحروف تب گورنمنٹ کالج ساہیوال میں تھرڈ ائیر کا طالب علم تھا، 27 ؍فروری جمعۃ المبارک کو صبح سویرے فیصل آباد پہنچ کر اگلی بس پر سوار ہونے کی کوشش کی تو پولیس ربوہ جانے والے مسافروں کو سوار نہیں ہونے دے رہی تھی، میرے ساتھ میرے کلاس فیلو چودھری محمد ارشاد ہم سفر تھے، ہم نے سرگودھا کا ٹکٹ لیا اور ربوہ سے ذرا آگے جاکر اتر گئے اور پھرتے پھراتے ڈگری کالج کے قریب پہنچے تو ہر طرف دور سے روکے گئے شرکاء نماز جمعۃ المبارک نظر آرہے تھے اور مسجد کی جگہ جم غفیر پہنچنے میں کامیاب ہوچکا تھا، قبل ازاں صبح سویرے قائد احرار مولانا سید ابومعاویہ ابوذربخاری رحمۃ اﷲ علیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھ چکے تھے، مبادا پیش آمدہ صورتحال میں یہ رہ نہ جائے، ہمارے پہنچنے سے پہلے مولانا سید ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے تقریر کا آغاز کیا تو گرفتار کر لیے گئے، پولیس اسلحہ تانے چوکس کھڑی تھی اور ہراسمنٹ اپنے عروج پر تھی کہ بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ جو اس وقت ایم این اے بھی تھے پہنچ گئے، تب تحریک طلباء اسلام کے مرکزی صدر ملک رب نواز (ایڈووکیٹ) نے چند لمحے بیان کیا، اسی اثناء میں فاتح ربوہ حضرت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ بھی پہنچ گئے، مجھے یاد ہے کہ ملک رب نواز نے کہا کہ وہ شاہ جی آرہے ہیں، تو حضرت ہزاروی مرحوم اپنے خاص لہجے میں فرمانے لگے کہ ’’نام نہیں لیتے ناں‘‘۔
حضرت ہزاروی رحمہ اﷲ کے بعد مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے تقریر شروع فرمائی تو پولیس افسر گرفتار کرنے کے لیے آگے بڑھے …… امیر شریعت کے بیٹے نے جرأت اور بہادری سے کہا کہ میں پہلے تقریر کروں گا، خطبہ جمعہ دوں گا، پھر نمازپڑھاؤں گا، پھر گرفتاری دونگا۔
ایسی تقریر اور ایسا خطبہ …… واہ شاہ جی واہ …… فرمایا! یہ قطعہ زمین ہم نے قیمت ادا کرکے خریدا ہے، حکومت اور 6 ضلعوں کی پولیس یاد رکھے قیامت کے دن! ہمارا ہاتھ ہو گا اور تمہارا گریبان۔
شاہ جی نے ربوہ میں پہلے جمعۃ المبارک کی جماعت کرائی اور اپنے باپ کی سنت ادا کرتے ہوئے گرفتاری دے دی! پھر کیا ہوا کہ اہل حق کے لیے ربوہ کے راستے کھل گئے اور یہ سارا فیض احرار اور فرزندانِ امیرشریعت کا ہے، آج ربوہ چناب نگر ہے اور اس کے چاروں طرف توحید وختم نبوت کے نغموں اور ترانوں کی صدائیں قادیانیوں کو دعوت اسلام اور دعوت حق دے رہی ہیں، کوئی دیکھنا چاہے تو چناب نگر (ربوہ ) آجائے ہم ان شاء اﷲ تعالیٰ میزبانی کریں گے۔ 12؍ ربیع الاوّل کو ’’ایوان محمود‘‘ کے سامنے زعماء احرار، مجاہدین ختم نبوت اور سرخ پوشانِ احرار کے جوشِ ایمان کا نظارہ کرے، قادیان کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ
کانفرنسز کا سہ روزہ
امیر شریعت کانفرنس 9 ؍ مارچ 2018ء لاہور کا تعین ہوچکا تھا کہ یہ بات علم میں آئی کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے 10؍ مارچ 2018ء ہفتہ کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام ہورہا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ 11 ؍ مارچ 2018ء اتوار کو ایوان اقبال لاہور میں ہی انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کی جانب سے بھی ’’ختم نبوت کانفرنس ــ‘‘ کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔
سُبو اپنا اپنا ہے جام اپنا اپنا
لیکن الحمد ﷲ ہمیں یقین ہے یہ کہ منزل سب کی ایک ہے، ہم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے لیے بھی دعا گو ہیں اور مذکورہ دونوں کانفرنسز کو اپنے ہی اجتماعات تصور کرتے ہیں۔ مجلس احرار اسلام برصغیر میں تحریک ختم نبوت کی اولین اور بانی جماعت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے، اسی ناتے اپنی برادر تنظیموں کے لیے ہمیشہ نیک تمناؤں کا اظہار کرتی رہی ہے۔ حلقۂ احرار 10,9 اور 11 مارچ کے مبارک اجتماعات کو کانفرسوں کا ’’سہ روزہ‘‘ قرار دیتے ہوئے دعا گو ہے کہ اﷲ تعالیٰ تحریک ختم نبوت کی تمام جماعتوں کو مزید ترقی عطافرماویں اور ہم سب کو مل جل کر اس محاذ کے جدید تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مشترکہ جدوجہد کی طرف کوئی قدم بڑھانے والے بنا دیویں۔ اﷲ تعالیٰ آپ اور ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین، یا رب العالمین!