عبد اللطیف خالد چیمہ
انتخابی اصلاحات 2017 ء میں عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامے کو حذف کرنے سے ایک ہنگامی صورتحال پیدا ہوئی۔ اُس کے رد عمل میں قوم نے مِن حیث المجموع مثالی بیداری کا اظہار کیا۔ فیض آباد ،لاہور دھرنے اور پیران عظام کے عوامی اجتماعات نے عقیدۂ ختم نبوت کی جدوجہد کو نمایاں کیا۔ اصولی طور پر تو قانونی جدوجہد نے اپنا ہدف پورا کرلیا تھا، لیکن حکومت کی طرف سے خواہ مخواہ معاملات کو کڈھب طریقے سے حل کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دھرنے والوں کے ساتھ ہونے والے معاہدات پر عمل درآمد تادم تحریر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ فیض آباد دھرنے میں شھادتیں اور راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ کو شائع کرنے میں حکومتی ٹال مٹول کے پس منظر میں جو سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے وہ حکومت کو الٹی زقند میں بھی دھکیل سکتا ہے اور رائے عامہ کا رُخ کسی دوسری طرف مڑ گیا توریاست کے سب سٹیک ہولڈرز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔عقیدے کے تحفظ کی اس مقدس تحریک کو اب نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سبوتاژ۔ان شا ء اﷲ تعالیٰ۔ اس تناظر میں بد مذہبانِ پاکستان کی بد حواسی کا سیاپا دیدنی ہے۔
حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے 1953 ء کی تحریک مقدس کے بعد فرمایا تھا کہ ’’اگر میرے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی یہ خیال ہو کہ اس تحریک کے ذریعے میں سیاسی اقتدار حاصل کروں گا ،تو میرے اور میرے اہل وعیال پر خدا کا غضب نازل ہو‘‘۔ ہم نے تو اپنی سیاست کو بھی عقیدہ ٔ ختم نبوت پر قربان کررکھا ہے اور اس پر اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اﷲ تعالی اس مبارک جد و جہد کی برکات ہمیں یوم الجزاء میں کامل طور پر عطا فرمائے۔
حلف نامے اور 7b/c کی من وعن بحالی کے نتائج چار سو پھیل گئے ۔ 13 ربیع الاول 1439ھ بروز ہفتہ جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومتی سطح پر ہونے والی سالانہ سیرت کانفرنس میں حضرت مولانا غلام محمد سیالوی نے اپنی تقریر میں تجویز پیش کی کہ :’’2018 ء میں ہونے والی آئندہ سیرت کانفرنس کا عنوان ’’ختم نبوت ‘‘ہو ۔جس پر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ ’’2018 ء پورا سال ختم نبوت کے طور پر منایا جائے‘‘۔ اس پر وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے اعلان کیا کہ ’’2018 ء کو ’’شعورختم نبوت‘‘ کے سال کے طور پر منایا جائے گا۔ اس اعلان اور فیصلے کا ہم پُر انبساط خیر مقدم کرتے ہوئے اس کی مکمل تائید وحمایت کرتے ہیں۔ مجلس احرار اسلام 2018 ء کو شعورِ ختم نبوت کے سال کے طور پر منانا اپنی سعادت سمجھتی ہے۔ ان سطور کے ذریعے ہم وزارت مذہبی امور کے کارپردازان سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کریں تاکہ یہ بابرکت اعلان گھٹیا پاکستانی طرز کے سیاسی مفاداتی کھیل یا روایتی کلرک شاہی سرخ فیتے کی نذر نہ ہوبلکہ اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے ، تاکہ موجودہ حکومت کی فردِ عمل میں کوئی اچھا کام بھی مندرج ہو جائے۔
قافلہ ٔاحرار ․․رواں دواں !
29 دسمبر 1929 ء کو برّ صغیر پاک و ہند کی ممتاز حریت پسند جماعت مجلس احرار اسلام وجود میں آئی۔ اس تاسیس کو 88 برس مکمل ہونے پر 29 دسمبر 2017 ء کو ملک بھر کے مراکز احرارو ختم نبوت میں ’’یوم تاسیس احرار‘‘ کی پُر وقار تقریبات منعقد ہوئیں ،اور سرخ ہلالی جھنڈے کی اڑانوں کے منظر نے ساتھیوں کی رگوں میں دوڑتے خون کو تجدیدِ عہد کی حدّت بخشی۔ اسی طرح11_12 ربیع الاول 1439 ھ مطابق 30 نومبر ،یکم دسمبر 2017 ء بروز جمعرات وجمعۃ المبارک چناب نگر کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس بھی ایسے ماحول میں منعقد ہوئی کہ پورا ملک ختم نبوت زندہ کے نعروں سے معطر تھا ۔کانفرنس میں ملک کے طول وعرض سے ہزاروں فرزندانِ اسلام ،مجاہدین ختم نبوت اور سرخ پوشانِ احرار نے جس جوش وولولے سے شرکت کی ،اس پر ہم تمام مہمانوں اور شرکاء کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے احرار کے درویشانِ خدا مست کی حوصلہ افزائی کی اور دل بڑھایا۔12 ربیع الاول کو بعد نماز جمعۃ المبارک دعوتی جلوس جس تعداد میں اور جس پرامن انداز میں نکالا گیا ،وہ اپنی مثال آپ تھا ،اﷲ تعالیٰ ہماری ناچیز مساعی میں برکت ڈال کر ہمیں اپنے نام اور اپنے کام سے ہمیشہ جوڑے رکھیں تا آنکہ حق کا بول بالا ہو اور کفر وارتداد مٹ کررہ جائے۔ آمین ،یا رب العالمین!قائد احرارحضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالیٰ شدید علالت کے باوجود شریک بھی ہوئے اور جلوس میں خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس اور جلوس کے شرکاء کی دن بدن بڑھتی تعداد کے پیش نظر انتظامات کم پڑجاتے ہیں ،بزرگوں اور دوستوں سے درخواست ہے کہ خصوصی دعاؤں کا اہتمام فرمائیں ۔ مزید جگہ کی خریداری کے لئے کوشش جاری ہے ، اﷲ تعالیٰ کرم فرمائیں گے اور مزید آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔
امیر شریعت کانفرنس، لاہور: کارکنانِ مجلس احرار اسلام مارچ کے مہینے میں تحریک مقدس تحفظ ختم نبوت 1953 ء کے عظیم المرتبت شہداء کی یاد میں کانفرنسوں کا انعقاد کرتے ہیں، اس مرتبہ 9مارچ جمعۃ المبارک کو بعد نمازِ مغرب ایوان اقبال لاہور میں’’ امیر شریعت کانفرنس‘‘ بھی منعقد ہوگی۔ جس میں تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت میں حضرت امیر شریعتؒ کے کردار کا تذکرہ ہوگا،حضرت قائد احرار پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالیٰ، قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر مولانا خواجہ عزیز احمد مدظلہٗ، پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی مدظلہٗ اور کئی دیگر دینی وقومی اور سیاسی رہنماؤں کے خصوصی بیانات ہونگے ، قارئین سے دعاؤں اور ہمراہی کی درخواست ہے ۔
صوفی نصیر احمد رحمۃ اﷲ علیہ : جمعیت علماء اسلام چیچہ وطنی کے بزرگ رہنماء ڈاکٹر محمد اعظم چیمہ کے چچا ،عبداللطیف خالد چیمہ اور حافظ حبیب اﷲ چیمہ کے ماموں صوفی نصیر احمد چیمہ 19 دسمبر منگل کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے ،مرحوم نے تقریباً نصف صدی چیچہ وطنی میں بھرپور دینی وسیاسی اور سماجی کردار ادا کیا ،انتہاء کی وضعدار شخصیت کے مالک تھے ،نمازِ جنازہ جامع مسجد میں اداکی گئی جو حضرت پیر جی قاری عبدالجلیل رائے پوری نے پڑھائی جس میں قائد اہل سنت مولانا محمد احمد لدھیانوی بھی شریک ہوئے اور تعزیتی کلمات کے ذریعے صوفی صاحب مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1970 ء کے الیکشن ،1974 ء کی تحریک ختم نبوت اور 1978 کی تحریک نظام مصطفی (ﷺ) میں ،میں خود صوفی صاحب کی قیادت میں کام کرتا رہا ہوں ،مرحوم نے استقامت سے قیادت کی ،وہ چیچہ وطنی کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ،بعد ازاں مولانا لدھیانوی نے دفتر احرار میں جناب عبداللطیف خالد چیمہ سے تعزیتی ملاقات کی ،نمازِ جنازہ میں مقامی دینی وسیاسی رہنماؤں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد شریک ہوئی ۔مجلس احرار اسلام پا کستان کے امیر سید عطاء المہیمن بخاری، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن ،جمعیت پنجاب کے امیر ڈاکٹر عتیق الرحمن ،خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر مولانا خواجہ عزیز احمد اور کئی دیگر رہنماؤں نے صوفی نصیر احمد چیمہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے ،مجلس احرار اسلام پاکستان کے نائب امیر سید محمد کفیل بخاری نے 21 دسمبر کو چیچہ وطنی میں لواحقین سے اظہارِ تعزیت کیا ،مولانا محمد اکمل اور مولانا محمد فیصل متین سرگانہ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔صوفی صاحب کا روحانی تعلق خانقاہ سراجیہ سے تھا اور حضرت خواجہ خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ کے مقربین میں سے تھے ۔