عبد اللطیف خالد چیمہ
تحریک ختم نبوت کو 42سال قبل 7؍ ستمبر 1974ء کو آئینی طور پر پارلیمنٹ کے فلور پر جو بڑی کامیابی نصیب ہوئی ،اس کی یاد میں ’’یوم ختم نبوت‘‘(یوم قرارداد اقلیت ) ہم نے مجلس احرار اسلام اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے دیرینہ پلیٹ فارم سے کوئی 30 سال قبل مٹانا شروع کیا تھا، جس کا آغاز چھوٹی موٹی خبروں ،مضامین اور تقریبات سے ہوا تھا ، تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے بتدریج اسی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور اس مرتبہ (7 ستمبر2016 ء) یوم ختم نبوت، مجلس احرار اسلام ،عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے علاوہ دیگر مکاتب ِ فکر نے نہایت جوش وخروش کے ساتھ منایا اور ایک خاص بات یہ بھی ہوئی پارلیمنٹ ھاؤس کی مسجد کے خطیب وامام مولانا احمد الرحمن کی دعوت پر مجلس احرار اسلام پاکستان کے نائب امیر سید محمدکفیل بخاری نے 7ستمبر کو بعد نماز ظہر پارلیمنٹ ھاؤس اسلام آباد کی مسجد میں ’’یوم ختم نبوت‘‘کے حوالے سے مختصر بیان کیا اور شہدأ جنگ یمامہ سے لے کر شہدأ ختم نبوت کے لیے اجتماعی دعائے مغفرت کرائی اور اس میں پارلیمنٹرین اور پارلیمنٹ ھاؤس کے سٹاف نے بھی شرکت کی
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
اسی روز شام کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں تحریک ختم نبوت کے حوالے سے سینئر صحافی سعود ساحر کی کتاب کی تقریب رونمائی میں جمیعت علماء اسلام کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمن نے خطاب کے موقع پر فرمایا:’’کہ اراکین قومی اسمبلی 7ستمبر کی وجہ سے پارلیمنٹ میں آج کچھ سہمے سہمے سے تھے حالانکہ 7ستمبر یوم ختم نبوت کا تذکرہ تو پارلیمنٹ ہاؤ س میں ہونا چاہیے تھا ،بہرحال یوم ختم نبوت نے رولنگ کلاس کے دروازے پر دستک دے دی ہے اے کاش
کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات
راقم الحروف نے ’’عشرۂ ختم نبوت‘‘اور ’’یوم ختم نبوت‘‘ کے سلسلہ میں یکم ستمبر کو مسجد نور ساہیوال ،2 ستمبر کو جامع مسجد کریمیہ کمالیہ ،5ستمبر کو مسجد ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ چیچہ وطنی،7 ستمبر (یوم ختم نبوت) کو صبح (6 تا 8 بجے ) دارالعلوم ختم نبوت جامع مسجد چیچہ وطنی بعد نماز ظہر اوکاڑہ میں دنیانیوز کے میڈیا ہا ل میں ،پھر رات کو اپنی جماعت کے مرکزی دفتر نیومسلم ٹاؤن لاہور میں ہونے والی سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی ،بعد ازاں 8ستمبر کو بعد نماز ظہر جامعہ رشیدیہ ساہیوال ،9ستمبر کو نماز جمعۃ المبارک سے قبل ٹوبہ ٹیک سنگھ کی دو مساجد (مرکزی جامع مسجد اور جامع مسجد معاویہ) میں گفتگو کا موقع ملا ،مذکورہ اجتماعات میں کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ پیش خدمت ہے :۔
’’بعد از حمد وصلاۃ ․․! ختم نبوت کا عقیدہ قرآن کریم اور احادیث نبی الکریم ﷺ سے ثابت ہے اور عقیدہ ہوتا ہی وہ ہے جس پر اﷲ کاکلام اور محمد عربی ﷺ کا کلام شاہد ہو اور جہاں کلام الہٰی اور کلام مصطفویؐ خاموش ہو وہ عقیدہ نہیں ہوتا ،ختم نبوت مسلمانوں کا عقیدہ ہے نظریہ نہیں کیونکہ نظریات میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے اور نظریات انسانی ذہن کی خود ساختہ تھیوری کو کہتے ہیں وہ صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی ہوسکتے ہیں نظریات میں اختلاف کوئی کفر واسلام کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا ایک نظریہ میں اپناتا ہوں اور ایک نظریہ آپ اپناتے ہیں ہمارے آئیڈیاز مختلف ہونے کی بناء پر ہمیں ایک دوسرے سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس اختلاف کو کفر واسلام کا عنوان نہیں دیا جائے گا پھر مسالک میں تعبیرات کا اختلاف موجود ہے لیکن اصول پر سب کے سب متفق ہیں اور کفر واسلام کا مسئلہ جسے علمائے متکلمین ’’اصولی مباحث‘‘کانام دیتے ہیں اور عقیدہ ختم نبوت اصولی مسئلہ ہے جس کی تعبیر بھی وہی معتبر ہوگی جو چودہ صدیوں سے چلی آرہی ہے ایسا نہیں ہے کہ اصولی مباحث کی تعبیر وتشریح کوئی شخص اپنی من پسند بیان کرے اور امت مسلمہ اسے مان لے بلکہ عقائد وہی ہیں جنہیں صحابہ کرام ؓ نے ،اہل بیت رسول ؓ نے ،فقہاء ،محدثین ،متکلمین نے شرح وبسط سے بیان کردیا ہے ،پھر اگر کسی مسئلہ پر اہل علم کا اتفاق ہوجائے جسے علمی اصطلاح میں ’’اجماع‘‘کہا جاتا ہے یعنی اگر کسی مسئلہ پر اجماع ہوجائے تو امت مسلمہ کے اہل علم کا اجماع بھی’’عقیدہ ‘‘بنتا ہے اورائمہ دین میں سب سے زیادہ معتبر ’’اجماع‘‘حضرات صحابہ کرام ؓ کا ہے اس تمہیدی گفتگو کے بعد یہ جان لیجیے کہ عقیدہ ختم نبوت پر قرآن کریم کی ایک سو آیات شاہد ہیں اور پیغمبر اسلام ﷺ کی دو سو دس احادیث موجود ہیں اور پھر صحابہ کرام ؓ کااجماع بھی ہے اور یہ اجماع یوں نہیں ہوا کہ ایک علمی مجلس سجائی گئی اور اہل علم نے ’’اجماع‘‘کرلیا نہیں میرے دوستو․․! ایسا ہرگز نہیں ہوا بلکہ پیغمبر اسلام ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد جہاں منکرین زکوٰۃ کا فتنہ اٹھا وہیں مسیلمہ کذاب نے جھوٹی نبوت کا پرچار زور وشور سے شروع کیا تو سچوں کے امام ، خلیفہ بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے ایک لشکر جرار اس فتنہ کے سد باب کے لیے روانہ فرمایا جس میں گیارہ سو صحابہ ؓ نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں سات سو حفاظ وقرأ صحابہ ؓ تھے تو معلوم ہوا کہ اس عقیدہ پر اجماع صحابہ ؓ نے اپنے خون سے کیا اور شہدأ ختم نبوت میں پہلا نام سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی اﷲ عنہ کا ہے جن کو مسیلمہ کذاب کے کارندوں نے پکڑ لیا اور کہا کہ کیا تو محمد بن عبداﷲ ﷺ پر ایمان رکھتے ہوانہیں نبی ورسول مانتے ہو سیدنا حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ’’نعم‘‘ہاں وہ میرے مولاؐہیں میرے آقا ؐہیں میں ان کا غلام ہوں پھر مسیلمہ کذاب کے کارندوں نے کہا کہ تم مسیلمہ کو بھی نبوت میں محمد ﷺ کا شریک مانواور کہو مسیلمہ بھی نبی ہے سیدنا حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ نے فرمایااور یہ انہوں نے نفرت کے اظہار کے طور پر کہاکہ:میرے کان تمہاری بات سننے سے عاجز ہیں ‘‘وہ اک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں کہ جب محمدعربی ﷺ کا نام لیا تو فوراً ہاں کہا لیکن جب مسیلمہ کا نام لیتے ہیں تو کہتا ہے میرے کان تمہاری بات سننے سے عاجزہیں انہوں نے پکڑا اور مسیلمہ کے پاس لے گئے مسیلمہ نے بھی وہی کہا جو اس کے کارندوں نے کہا تھا اور سیدنا حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ کا جواب بھی وہی رہا جو پہلے دیا تھا انہوں نے ایک بازو کاٹا اور دوسرا بازو کاٹا ایک ٹانگ کاٹی دوسری کاٹی لیکن اس صحابی رسول ؓ کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ ’’میرے کان تمہاری بات سننے سے عاجز ہیں ‘‘ جی ہاں شہید ختم نبوت ِ اول نے بتادیا کہ عقیدہ کا تحفظ یوں کیا جاتا ہے جان جاتی ہے تو جائے لیکن ایمان بچانا ہے پھر ان کی پیروی میں 1953ء میں جب تحریک ختم نبوت چلی توتحریک کو کچلنے کے لیے اس وقت کے حاجی ،نمازی حکمرانوں نے لاہور میں مارشل لاء لگوادیا اور رہنماؤں کو پابند سلاسل کردیا گیا اور نہتے فرزاندانِ اسلام پر گولیاں چلادیں گئیں ،جانثارانِ ختم نبوت نے نعرہ ختم نبوت بلند کرتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی دس ہزار لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ عقیدہ ختم نبوت پر پیش کردیا ،جیل سے رہائی کے بعد امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے فرمایا تھا کہ: ان شہدأ کے خون کے نیچے میں نے ایک ٹائم بم فٹ کردیا جو اپنے وقت پر پھٹے گا اور مرزائیت کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار داد دیا جائے گا میں رہوں یا نہ رہوں ،جوزندہ ہوں وہ میری قبر پر آکر بتادیں ‘‘میں ان خوش نصیبوں میں ہوں جنہوں نے اس فیصلہ کے بعد امیر شریعت ؒ کی قبر پر جاکر یہ اطلاع دی کہ آج منکرین ختم نبوت کو پاکستان میں کافر ڈکلیئر کردیا گیا ہے ۔
قادیانی صرف دین اسلام کے ہی دشمن نہیں بلکہ ملک پاکستان کے بھی دشمن ہیں اور یہ بات میں کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہتا بلکہ ملک پاکستان کے عظیم صحافی جناب زاہد ملک مرحوم نے اپنی کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور اسلامی بم‘‘میں لکھی ہے کہ’’ضیاء الحق مرحوم کے دور کے وزیر خارجہ یعقوب علی خان جب امریکہ کے دورے پر گئے امریکی حکام نے پوچھا کہ پاکستان نے اٹیم بم بنا لیا ہے ، تو میں نے نفی میں سر ہلا دیاامریکی عہدے داروں نے پاکستان کے اٹیمی پلانٹ کا نقشہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا میں نے گھبراہٹ میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کھڑا مسکرا رہا تھا ’’۔اس واقعہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قادیانی ملک پاکستان کے وفا دار نہیں اور آج بھی یہ یورپ میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں تحفظ حاصل نہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ کبھی بھی پاکستان میں بلا وجہ قادیانیوں پر تشدد کے واقعات سامنے نہیں آئے بلکہ اگر چند مقامات پر فسادات ہوئے بھی ہیں تو وہاں بھی اول شرارت قادیانیوں نے کی ہے اسی طرح قادیانی لابی اکھنڈ بھارت کا عقیدہ رکھتی ہے ،چند سال قبل تک ربوہ کے خاص قبرستان میں مرزا بشیر الدین محمود اور چند دیگر قبروں پر ایک کتبہ پر یہ تحریر درج رہی کہ :’’یہ مردے یہاں امانتاً دفن ہیں ہمیں جب موقع ملے گا ہم انہیں قادیان (انڈیا) لے جائیں گے۔
جنرل ضیا ء الحق مرحوم نے 26اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت ایکٹ منظور کیا تھا جس کی رو سے قادیانی اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کرسکتے لیکن قادیانیوں نے نہ تو 1974ء کے فیصلہ کو تسلیم کیا اور نہ ہی 1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ پر عمل در آمد ہورہاہے،قادیانیوں کے ساتھ جھگڑے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اسلامی وقانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے الٹا بین الاقوامی سطح پر ان قوانین کے خلاف لابنگ کررہے ہیں اور پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے ،بیرون پاکستان اسلام ومسلمانوں کا ٹائیٹل استعمال کرکے گمراہی پھیلا رہے ہیں جب تک وہ اپنا آئینی وقانونی سٹیٹس تسلیم نہیں کرتے محاذ آرائی کی موجودہ کیفیت میں کمی واقع نہیں ہوسکتی ۔
بھٹو مرحوم نے اڈیالہ جیل میں اپنی زندگی کے آخری ایام اسیری کے دوران ڈیوٹی آفسیر’’کرنل رفیع الدین ‘‘سے کہا تھا کہ ’’کرنل رفیع ․․! قادیانی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیں وہی مرتبہ حاصل ہوجو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے ‘‘ بھٹو مرحوم نے کس زیرک نظری سے قادیانیوں کی سیاسی چالوں کو سمجھا کاش آج کے حکمران بھی اسی سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں ،اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی آئینی اور ریاستی ذمہ داریوں کو بدرجہ اولیٰ نبھانے والے بن جائیں ۔آمین یا رب العالمین ․․!
جناب محمد رفیق غوری کی رحلت !
سنیئر صحافی وکالم نگار محمد رفیق غوری 25 اگست 2016ء کولاہور میں65 برس کی عمرمیں رحلت فرماگئے ۔اناﷲ وانا الیہ راجعون
رفیق غوری مرحوم کا تعلق فیصل آباد سے تھا لیکن وہ ایک طویل عرصہ سے لاہور میں رہائش پذیر تھے ان سے راقم الحروف کا تعلق جناب چودھری محمد ظفر اقبال ایڈوکیٹ کے توسط سے 1984ء کے لگ بھگ ہوا اور اس بات نے ابتداء ہی میں متائثر کیا کہ وہ راسخ العقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کی محبت سے سرشار تھے تھوڑے ہی عرصے میں ان سے تعلق خاطربے تکلف دوستی میں بدل گیا اور لاہور میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے ان کے بہت سے دوستوں کے حلقہ ٔ یاراں کا ہمیں بھی ممبر بنا لیا گیا ،رفیق غوری سے انس ،پیار ومحبت کی زیادہ تر قدرے مشترک ’’عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور رد قادیانیت ‘‘ کی جہد مسلسل تھی ،عشق رسالت مآبﷺ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے ہر کارکن کی دلجوئی اور سرپرستی فرماتے اور مشکل ترین معاشی حالات میں بھی کسی محاذ پرایک دن بھی ڈگمگائے نہیں بلکہ حوصلے اور استقامت کا پیکر بنے رہے ۔
22 ستمبر 2016 ء جمعرات کی سہ پہر لاہور پریس کلب کی جانب سے محمد رفیق غوری کے انتقال پر تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحافت سے منسلک ممتاز شخصیات نے ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ،راقم الحروف نے اس تعزیتی نشست میں یہ عرض کیا کہ ․!
(۱) کسی کے چلے جانے کے بعد اس کی یاد منانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے افکار و نظریات اور مشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا جائے ۔
(۲) رفیق غوری متشدد نہیں بلکہ پختہ عقید ے کے مالک تھے وہ بنیاد پرست تھے ان کی بنیاد ’’توحید وختم نبوت ‘‘تھی۔
(۳) رفیق غوری نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنے دوستوں کے لیے دروازے کھلے رکھے اور سب سے دوستی نبھائی۔
(۴) وہ بحران میں بھی زندہ دلی کا مظاہر ہ کرتے رہے اور ’’اسلام ،عقیدۂ ختم نبوت اور پاکستان ‘‘ کے دشمنوں کے لیے ان کے ہاں معافی کا کوئی سا خانہ بھی موجود نہ تھا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ہم رفیق غوری رحمۃ اﷲ علیہ کے چھوٹے بھائی جناب نجم الحسن عارف ،ان کے بڑے فرزند جناب محمد اویس غوری ،جناب محمد وقاص غوری ،جناب محمد انس غوری اور مرحوم کی اہلیہ ،ان کی بیٹیوں اور تمام متوسلین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائیں، حسنات کو قبول فرمائیں اور سئیات سے درگزر فرمائیں ۔آمین یا رب العالمین !
چیئرمین پیمرا کے نام خط
چئیر مین پیمرا کے نام مجلس احراراسلام کے سیکر ٹری جنرل جناب عبداللطیف خالد چیمہ کا خط
جناب چیئر مین صاحب ’’ پیمرا‘‘ اسلام آباد
السلام علیکم! مزاج گرامی ؟
7؍ ستمبر 2016 ء کو ’’یوم ختم نبوت‘‘ کے مو قع پر دو ٹی وی چینلز ( نیو ٹی وی اور چینل 92 ) پر عقیدۂ ختم نبوت اور رد قادیانیت پر پروگرام نشر ہوئے، اس حوالے سے ’’پیمرا ‘‘کی طرف سے قادیانیوں کی شکایت پر مذکورہ چینلز کو نوٹس جاری کرنا قرآن و حدیث ، اجماع امت اور آئین اور پارلیمنٹ کے فیصلے سے انحراف ہے، اس سے 18 کروڑ مسلمانوں کے عقیدے و جذ بات کی توہین ہوئی ہے ۔کسی کے خلاف نفرت ان پر وگرا موں سے پیدا نہیں ہوئی ، یہ محض مفروضہ ہے ۔
امید ہے نظر ثانی فرمائیں گے ۔ شکریہ !
والسلام
عبد اللطیف خالد چیمہ
پیمرا ہیڈ کوارٹرز: کنوینر متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی پاکستان
ماؤ ایریا،G-8/1، اسلام آباد سیکر ٹری جنرل مجلس احرار اسلام پاکستان
69 -سی ، نیو مسلم ٹاؤن ،و حدت روڈ لاہور
موبائل: 0300-6939453
تاریخ: 17-09-2016