پروفیسر محمد حمزہ نعیم
بلاشبہ سیدنا حضرت علی نجیب الطرفین ہاشمی ہیں اور بلا شبہ حسنین کریمین نجیب الطرفین ہاشمی ہیں مگر کیا ان حضرات کے لا تعداد فضائل گرامی قدر میں یہ فضیلت اصل الأصول کا درجہ رکھتی ہے؟سیدنا علی کے تین بڑے بھائی سید نا جعفر، سیدنا عقیل اور سب بھائیوں ،بہنوں میں بڑے طالب بھی نجیب الطرفین ہاشمی ہیں۔ان حضرات کی ایک سگی بہن سےّدہ اُمّ ہانی بھی نجیب الطرفین ہاشمی حسب ونسب رکھتی ہیں۔سیدنا علی اور اُن کے برادر کبیر سیدنا جعفر سابقون الاوّلون میں سے ہیں اور یہ دونوں حضرات اسی سبقتِ اسلام کی وجہ سے اعلیٰ و افضل ہیں نہ کہ صرف ہاشمی حسب ونسب کی بنا پر ۔سیدنا عقیل اور سیدہ امّ ہانی فتح مکّہ کے دن اسلام لائے اور صحبت رسول کی فضیلت پائی۔بڑے بھائی طالب جن کے نام سے والد کی کنیت ابو طالب ہوئی حالانکہ اُن کا نام عبدمناف تھا۔ طالب مذکور کو اُس کے نجیب الطرفین ہاشمی ہونے نے کیا فائدہ دیا؟ نبی اور اصحاب ِ نبی کے مقابلے میں آکر غزوہٗ بدر میں مارا گیا(بحوالہ سیرۃ علیؓ از مولینا محمد نافع)۔جناب ابوطالب باپ کی طرف سے ہاشمی اور والدہ کی طرف سے مخزومی تھے۔اِسی طرح نبی پاک علیہ الصلو ۃ والسلام کے والد مکرم اور تایا زبیر بن عبدالمطلب بھی والد (عبد المطلب) کی طرف سے ہاشمی اور والدہ کی طرف سے مخزومی تھے۔ مگر بنی ہاشم کا جھنڈا نبی پاک کے انہی تایا کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔
عم الرسول سید الشہدا ء سیدنا حمزہ والد کی طرف سے ہاشمی اور والدہ ہالہ بنت اُہیب بن عبدمناف بن زُہرہ کی طرف سے زُہری تھے۔سےّد الرسل خا تم المعصومین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والد مکرم کی طرف سے ہاشمی اور والدہ کی طرف سے زُہری تھے تو کیا محمد رسول اﷲ خاتم النّبین ﷺ سے بڑھ کر کوئی فرد بنی آدم نجیب ونفیس ہوسکتا ہے؟ہرگز نہیں۔
اب ذرا سابقون الاولون میں سے بھی اُوپر کے دس عشرہ مبشرہ بِا لجنہ کو لے لیجیے۔نمبر ایک پر ثا نی اثنین افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابو بکر صدیق ہیں اور اُن کے قریبی عزیز سیدنا طلحہ بن عبید اﷲ ہیں یہ دونوں حضرات قریش کی شا خ بنی تیم میں سے ہیں۔اور طلحہ کو نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے غزوہ ٗ احد میں بھرپور حفاظت نبوی میں زخمی ہونے پر زندہ شہید کا لقب دیا۔ان دونوں کا تعلق بنی ہاشم سے نہیں ہے نبی تیم سے ہے۔خلیفہ رسول ثانی، امیر المومنین عمر فاروق اعظم ہیں کہ جن کے آنے پر اسلام کو عزت مِلی اور نبی اورصحابہ نے حرم کعبہ میں کُھلے عام نوا فل ادا کیے۔مستشرقین کہتے ہیں اگر ایک عمر اور ہوتا تو دنیا میں اسلام کے سوا کوئی مذہب نہ بچتا۔ان کو دعائے رسول بھی کہا گیا کہ خا تم المعصومین ﷺ نے اُن کے داخلہ اسلام کے لیے بارگاہِ رَبّ العلیٰ میں دستِ دعا دراز کیے تھے۔چوتھے مبشر با لجنّتہ انہی فاروق اعظم کے بہنوئی سعید بن زید ہیں انہی سعید کے والد مشہور مُو حّدِ زید بن عمر و بن نُفیل کے مشہور اَشعار قبل از اسلام ،قبل از آمدِ رسول بھی زُبان زد خاص و عام تھے۔ملاحظہ کیجیے:
اَٗ رَباًّ وَاحِدً ا اَم اَلفَ رَبّ اَدِینُ اِذَا تَقَسمَّتِ الاُ موُر
تَرَکتُ اللاَّ تَ وَالعُزّ یٰ جَمےِعاً کَذٰ لک ےَفعَلُ الرَّجُلُ البَصِیر
بھلا میں ایک ہی ربّ کو مانوں یا ایک ہزار رب کو جب کہ معا ملات تو واضح ہوچکے ہیں۔ میں نے لات اور عُزّیٰ جیسے معبودوں کو بلکہ ان جیسے سب (باطل) معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور ایک دانا اور سمجھ دار آدمی ایسے ہی کیا کرتا ہے۔(لہذا اَے دانا اور عقل و بصیرت رکھنے والے لوگو! تم بھی ربّ ِ واحد کی توحید پر ایمان لے آوٗ)زندگی ہی میں جنت کی بشارت پانے والے دس میں سے یہ دونوں حضرات فاروق اعظم اور سعید بن زیدبنی عدی سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ بنی ہاشم سے ۔
سیدنا علی اور سیدنا عثمان بھی زندگی ہی میں جنت کی بشارت پانے والے دس میں سے دو ہیں سیدنا عثمان ذی النور ین ؓ اپنی نانی اماں سیدہ ام ّ حکیم البیضا ء کی طرف سے ہاشمی اور والدکی طرف سے اُموی (عبشمی)النسب ہیں ۔خاتم الانبیا ء ﷺ کی دو بیٹیاں سیدہ رقیہ اور سیدہ اُم کلثوم رضی اﷲ عنہما یکے بعد دیگرے اُن کی زو جیت میں آئیں اور وُہ خود نبی وعلی کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے ہوکر نبی وعلی کے بھانجے ہیں۔
سید ناابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کے فضائل اور نبوی اِعلانات بیسیوں حدیثوں میں آئے ہیں اور بلا شبہ سیدنا علی اُس وقت ایمان لائے جب ابھی با لغ بھی نہ ہوئے تھے۔وہ ماں اور با پ دونوں کی طرف سے ہاشمی نسب ہیں۔اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کی سیدنا عثمان ذی النورین اور سیدنا علی دونوں کا تعلق قریش کے ایک معزز ومحترم قبیلے بنی عبد مناف کے ساتھ تھا اور عبد شمس اور ہاشم دونوں قریش کے سردار عبد مناف بن کلاب کے بیٹے تھے۔عبد شمس کے بیٹے اُمیّہ نے اور زیادہ شہرت پا ئی تو عرف عام میں تمام بنی عبد شمس کو بنی امےّہ کہہ دیا گیا۔بنی ہاشم نبی پاک ﷺ کی آمد پر زیادہ عظمت پاگئے تاہم بنی عبد شمس /بنی امیہ کی چند شخصیتوں کو چھوڑ کر اُن کے زیادہ لوگ داخل اسلام ہوگئے۔ابو سفیان بن حرب تمام قریش کے قا ئد یعنی وزیر دفاع اور وزیر جنگ تھے۔
یہی قیادۃ کا بڑا عہدہ اُن کے داخلہ اسلام میں تاخیر کا سبب بنا ورنہ اُنکی بیٹی اُمّ حبیبہ جو بعد میں نبی مکرم ﷺ کے عقد میں آکر اُمّ المومنین بنیں وُہ اوّلین مسلمانوں میں سے ہیں۔اور ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ دونوں کے شرف سے مشرف ہیں۔اُن کے والد نے بیٹی کے نبی پاک سے نکاح کی خبر سُنی تو کہاـ”ہاں محمدّ میری بیٹی کے کفو ہیں”۔ اور قبل از داخلہ اسلام اُن کا گھر دارِابی سفیان جو بیتِ خدیجہ کے عین سامنے تھا ، نبی علیہ السلام کی پناہ گاہ تھا کہ جب مکہ کے بدقماش لوگ نبی پاک کو ستاتے تو آنحضور ﷺ دارِ ابی سفیان میں چلے جا تے اور غنڈہ عناصر دارِ ابی سفیان کے اندر قدم رکھنے کی جرات نہ کرسکتے۔شاید اسی احسان کے بدلے فتح مکہ کے موقع پر دارِ ابی سفیان کو عمومی پناہ گا ہ قرار دیدیا گیا تھا۔ اِعلان فرما یا کہ جو کوئی دارِابی سفیان میں داخل ہوجائیگا وہ امن پائیگا۔
بہر حال مذکور مو صوف دونوں حضرات عثمان و علی سلام اﷲ وضوانہ علیہما کو آپ بنی عبدمناف کے چشم وچراغ قرار دے لیجیے۔ یا ایک کو اُموی ، دوسرے کو ہاشمی کہہ لیجیے۔
اَب جن دو خوش نصیبوں کا ذکر ہم کریں گے وُہ دونوں نبی کریم ﷺ کے ننھیال یعنی بنی زہرہ میں سے ہیں۔زُہرہ اور قُصَیّ دو بھائی تھے۔قُصَیّ بن کلاب حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے ددھیالی اور زُہرہ بن کلاب آپ کے ننھیالی اجداد میں سے ہیں۔بعض غیر ثقہ لوگ کہتے ہیں بنی زُہرہ مدینہ کے رہنے والے تھے، یہ بات بالکل غلط ہے اسکی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہما مہاجرین مکہ میں سے ہیں انصار مدینہ میں سے نہیں۔ان دونوں حضرات کو نبی نے دُعائیں دیں اور دُنیوی زندگی ہی میں اُن کو جنت کی بشارت سُنا دی۔ حضرت سعد بن ابی وقا ص کو نبی پاک اپنے ماموں کہا کرتے تھے اور ایک موقع پر فرما یا “اَے سعد! تیر چلا : اِرم ےَا سَعد فِداَک اُمیّ وَاَبی! اور اصحاب ِ رسول میں سیدنا عثمان غنی کے بعد سب سے زیادہ مالدار حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے جن کی دولت موقع بہ موقع اِسلام کے کام آئی۔
نویں خوش نصیب سیدنا زُبیر بن عوام ہیں جن کا نسب بنی اسد سے ہے حضرت خدیجہ کے بھتیجے ہیں اور والدہ مکرمہ بنی پاک کی پھوپھی سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب ہاشمی کی لائق صد فخر مجاہدہ بیٹی ہیں۔پہلے یہ بنی امیہ کی بہو بنیں، خاوند حارث بن حرب بن اُمیہ کے فوت ہوجانے پر اُن کا نکاح قریش کی ایک اور معزز شاخ بنی اسد میں کر دیا گیا۔سیدہ صفیہ ؓ کواپنے بھائی، نبی پاک کے تایا زُبیر بن عبدالمطلب سے بیحد محبت تھی۔جب اﷲ نے بیٹا دیا تو اُس کا نام اپنے اس عظیم بھائی قائد بنی ہاشم کے نام پر زُبیر رکھ دیا۔نبی پاک کے یہی پھوپھی زاد بھائی زبیر بن عوام ہیں کہ مدینہ میں پہنچنے والے مہاجرین میں سب سے پہلے اُن کے گھر فرزند ارجمند عبداﷲ پیدا ہوئے جن کی والدہ سیدہ اَسما ء بنت صدیق اکبر ہیں۔تو یہ جو زبیر بن عوام بن خو یلد بن اسد ہیں، بلاشبہ ان کی والدہ بنی ہاشم کی نور نظر ہیں مگر زُبیر بن عوام اسدی نسب ہیں۔
دسویں فرد فرید لسان نبوت سے جنت کی ضما نت پانے والے سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح حارثی فہری ہیں یعنی فہر (جن کا لقب قریش ہوا) کے بیٹے حارث کی اولاد میں سے ہیں۔عشرہ مبشرہ میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے سب سے بعید تر نَسبَ ان کا ہے۔ان کا تعلق نہ بنی ہاشم سے ، نہ بنی عبدمناف سے، نہ بنی تَیم سے، نہ بنی عَدی سے ، نہ بنی زُہرہ سے اور نہ بنی اسد سے ہے۔ قبیلہ قریش کے جَدِ امجد جناب فہر سے ان کا نسبی تعلق ہے مگر اپنے خلوص ، سبقت اسلام اور قربانی اور عظمت کی بنا پر عشرہ مبشرہ کی عظیم صف میں جگہ پا گئے ۔ اسلام کے اس عظیم جرنیل کی ا وّل قربانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ غزوہ بدر میں نبی کے مقا بل آنے والے اپنے باپ کو بھی برداشت نہیں کیا۔اُسے کافر اور دشمن رسول سمجھ کر تہ تیغ کردیا۔پھر اپنے باپ کو اپنے نسب میں نام لینا گوارانہ کیا۔ ابو عبیدہ بن الجراح کہلا نا پسند کیا حالا نکہ الجراح اُن کے دادا کا نام ہے۔نبی پاک نے ان کو امین الامت کا لقب دیا۔صدیق و فاروق کے عہد خلافت میں رُوم و شام کے بڑے علاقوں کو حدود اسلام میں شامل کیا۔سیف اسلام، سیف اﷲ خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ اِن کی ماتحتی میں عام مجا ہد کی طرح شامل جہاد رہے۔
ان جنت کی بشارت پانیوالوں میں سوائے حضرت سیدنا علی کے کوئی بھی ہا شمی نہیں جبکہ خود ابولہب ہاشمی ہونے کے باوجود اور ولادت با سعادت نبوی پر خوشیاں منانے کے باوجود، قرآنی اعلان کے مطابق فی النَّا ر وَالسَّقر ہوا۔ سیدنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیٹے فوت ہوئے تو اعدائے اسلام نے شور مچا دیا کہ محمد (علیہ السلام) کا خاندان ختم ہوگیا۔ عرش والے ربّ نے جواب دیا، ہماری مصلحتوں کو تم کیا جانو۔ نبوت ختم ہو نے کے بعد نبی علیہ السلام کے بیٹے عام حیثیت کے ہوتے ، یہ ہمیں گوارا نہیں تھا۔اور اولاد سے مقصود نام ونسب ہوتا ہے میرے نبی کے نام لیوا اُن کی روحانی اولاد ساری اُمتوں سے زیادہ ہوگی۔ہم نے اپنے نبی کو خیر کثیر اور امت عظیمہ کثیرہ سے نوازدیا ہے۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا ماَ کَان مُحمدَّ اَبَا اَحٍَد مِن رِجا لِکمُ تمہا رے مردوں میں سے کسی مرد کے محمد علیہ السلام باپ نہیں ہیں۔ خادم ِرسول زید پہلے ابن محمد کہلاتے تھے ۔اب حکم ہوا اُدعُو ھُم لِا بَا ئھم لوگوں کواُن کے باپوں ، اُن کے خاندانوں کی نسبت سے پکارا کرو۔ یہی اﷲ کے ہاں انصاف کی بات ہے۔
خاندانی فخر و غرور کو علامہ اقبال نے یکے از بُتا نِ عجم قرار دیا ہے اور سّید الرسل خاتم المعصومین ﷺ نے اس حقیقت کا اظہار ےُوں فرما یا کہ لَا فضلَ لِعَربیِ علیٰ عَجمَیّ وَلاَ لِعجمِیّ علیٰ عَربیِّ اِلاَّ بِا لتَّقوٰی اور فرمایا کُلکّم لِا دَم وَآدمُ مِن تُرابٍ اور فرما یا اِنَّ اکرمکُم عِند اﷲ اتقا کَمُ اوکما قال علیہ السلام کسی عربی کو کسی عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ہاں مگر تقویٰ ہوتو ہے۔اور یہ کہ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے اور فرمایا بلاشبہ تم میں زیادہ عزت دار وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔یہ نہیں تو کچھ نہیں۔اسلام میں شخصیت پرستی اور خاندان پرستی کا وجود نہیں۔۔بقول سید نور الحسن بخاری سرپرست تنظیم اہل سنت پاکستان “حمزہ، علی اور حسنین کریمین اور جعفر و عقیل کی فضیلت بنی ہاشم ہونے میں نہیں، صحابی رسول ہونے میں ہے، ورنہ ابو جہل ، ابو لہب ، عتبہ ، شیبہ سرداران قریش، سیادت و شرافت میں کچھ کم نہ تھے۔(مفہوم تقریر جلسہ بمقام مسجدسیدنا امیر معا ویہ نواں شہر شورکوٹ شہر)۔