محمد فہد حارث
چند غیر مستند تاریخی روایات کے تحت ہمارے بعض بزرگوں نے اپنی کتاب میں یہ بات لکھ دی کہ سیدنا معاویہؓ نے مالِ غنیمت کے معاملے میں کتاب اﷲ و سنتِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی۔کتاب و سنت کی رو سے پورے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں داخل ہونا چاہیے اور باقی چار حصے اس فوج پر تقسیم کئے جانے چاہییں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو لیکن حضرت معاویہؓ نے حکم دیا کہ مالِ غنیمت میں سونا چاندی ان کے لیے الگ نکال لیا جائے، پھر باقی مال شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس روایت کے ماخذ، سند اور متن پر کلام کریں سب سے پہلے ہم کو یہ جاننا ہوگا کہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق وہ کون سے ’’صریح احکام‘‘ تھے جن کی خلاف ورزی سیدنا معاویہؓ نے کی۔کسی مسئلے کے متعلق عمومی احکامات کا بیان ہونا الگ بات ہے اور انکا ’’صریح و دو ٹوک‘‘ ہونا بالکل الگ بات ہے۔ اب مالِ غنیمت کے بارے میں کوئی ’’صریح‘‘ احکامات کتاب و سنت میں منصوص ہوتے تو پھر علماء و فقہا کے مابین مالِ غنیمت کی تقسیم کے حوالے سے اختلاف کیونکر ہوسکتا تھا؟ اور قواعدِ اصولیہ و مسائل فقہیہ کی کتب میں اس پر بحثیں کیونکر ہوتیں۔ اب جیسا کہ اوپر کے اقتباس سے مترشح ہوتا ہے کہ مالِ غنیمت کی پانچ حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد چار حصے ’’صراحت‘‘ کے ساتھ مجاہدین میں تقسیم ہونے چاہییں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ سے عرصہ دراز یعنی تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ قبل خود سیدنا عمرؓ نے ان احکامات کو ’’صریح‘‘ نہ جانا۔ سیدنا عمرؓ کے عہدِ مبارک سے پہلے دستور یہ تھا کہ مفتوحہ زمین مجاہدوں میں تقسیم کی جاتی تھی اور ان کے باشندے مجاہدوں کی غلامی میں دے دئیے جاتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے عراق کی فتح کے بعد سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کو وہاں کی مردم شماری کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا سعدؓ نے مردم شماری کرکے نتائج بھیجے تو کل باشندوں اور فوج کی تعداد کا موازنہ کرنے کے بعد ایک ایک مسلمان کے حصہ میں تین تین آدمی آرہے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے اس بات کو درست نہ جانا اور ان کی رائے یہ تھی کہ زمین مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے پچھلے باشندوں کے قبضہ میں ہی رہنے دی جائے اور ان پر خراج عائد کردیا جائے۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا بلال رضی اﷲ عنہما نے سیدنا عمرؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ جبکہ سیدنا عمرؓ کا کہنا تھا کہ اگر ممالکِ مفتوحہ فوج کو تقسیم کردئیے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی حفاظت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے مصارف کہاں سے آئیں گے۔ پس سیدنا عمرؓ نے یہ معاملہ شوریٰ میں رکھ کر اپنی تجویز پیش کی جس کو جمہور صحابہ نے قبولی کیا اور یوں پہلے جو زمینیں مجاہدین میں تقسیم کی جاتی تھی، سیدنا عمرؓ نے اپنے اجتہاد سے ان کو مجاہدوں میں تقسیم روک کر مالکان کے پاس رہنے دیا۔ اور ان سے جو خراج آتا تھا اس کو حکومت کے مصارف پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ سو سب سے اول تو یہ عرض ہے کہ مالِ غنیمت کی تقسیم کا کوئی ’’صریح حکم‘‘ موجود نہیں جس میں اجتہاد کے ذریعے تبدیلی نہ کی جاسکتی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے ضمن میں خود سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ یہ عمل نہ فرماتے۔
اب آتے ہی اس روایت کی طرف۔ اس روایت کا بنیادی ماخذ تاریخ طبری ہے اور طبری نے اس واقعہ کی جو سند نقل کی ہے وہ کچھ یوں ہے حدثنی عمر، قال حدثنی حاتم بن قبیصہ قال حدثنا غالب بن سلیمان عن عبدالرحمٰن بن صبح۔ اب اتفاق دیکھئے کہ اس سند کے تین رواۃ یعنی حاتم بن قبیصہ، غالب بن سلیمان اور عبدالرحمٰن بن صبح تینوں مجہول الحال ہیں۔ ان کا کوئی ذکر رجال کی کتب میں موجود نہیں۔ گویا یہ روایت ایک نہیں، دو نہیں تین مجہول الحال راویوں کے سبب سخت ضعیف و ناقابل استدلال ٹھہرتی ہے۔ پس روایتاً یہ حکایت ناقابلِ اعتبارہوئی۔ اب ذرا اس روایت کا متن بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس روایت کے متن میں مذکور ہے کہ عراق کے گورنر زیاد کے ماتحت خراسان میں سیدنا حکم بن عمروؓ حاکم اور قائد جیوش اسلامیہ تھے۔ انہوں نے وہاں کفار سے جہاد کیا جس میں ان کو فتح حاصل ہوئی اور بہت سا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔ زیا د نے ان کو غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں لکھا کہ امیر المومنین کی طرف سے یہ خط آیا ہے کہ مالِ غنیمت میں سے ان کے لیے سونا چاندی الگ کرلیا جائے۔ یہ سونا چاندی سب بیت المال میں جمع کردیا جائے گا (یجمع کلہ من ھذہ الغنیمۃ لبیت المال)۔ لیکن حکم بن عمروؓ نے یہ حکم ماننے سے انکار کردیا اور ۱/۵ حصہ الگ کرکے تمام مالِ غنیمت لوگوں میں تقسیم کردیا۔
اب دیکھیے کہ اس روایت میں ایسی کوئی تصریح نہیں ملتی کہ سیدنا معاویہؓ نے از خود یہ حکم زیاد کو دیا تھا یا زیاد نے اپنی رائے سے یہ حکم دیا؟ بظاہر یہ زیاد ہی کی رائے معلوم پڑتی ہے اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اگر سیدنا معاویہؓ کا حکم ہوتا تو صرف خراسان کے مالِ غنیمت کے لیے ہی یہ حکم نہ ہوتا بلکہ وہ یہ حکم ان تمام جنگی لشکروں پر بھی نافذ کرتے جو خود انہوں نے مرکزِ خلافت سے مختلف علاقوں میں جہاد کے لیے بھیجے تھے اور دوسرے تمام گورنروں کو بھی اس کی ہدایت کرتے۔ لیکن تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔ گویا صرف ایک واقعہ جو خراسان کے مالِ غنیمت سے متعلق تاریخ میں مذکور ہے اور صرف ایک دفعہ ملتا ہے اور جس پر خود مالِ غنیمت پر دسترس رکھنے والے گورنر نے عمل نہ کیا اس کو بنیاد بنا کر یہ تاثر کیسے دیا جاسکتا ہے کہ گویا پوری مملکتِ اسلامیہ میں اس پر عمل ہورہا تھا اور کھلم کھلا قرآن و سنت کی خلاف ورزی کی جارہی تھی۔
چنانچہ ایک روایت جس کی استنادی حیثیت مشکوک کجا از بس ناقابلِ اعتبار و استدلال ہے اور اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کے واقع ہونے کی نفی خود اس واقعہ میں موجود ہے، ایسی روایت کی بنیاد پر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے ’’سنت‘‘ بدل دی تھی۔جبکہ بدل دیے جانے کا ذکر تو یہاں بھی نہیں ہے، ناکام کوشش مذکور ہے۔ اور اس واقعہ کے علاوہ کوئی اور مستند روایت موجود نہیں۔ سو ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہؓ پر محض الزام ہے کہ وہ مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں ردوبدل کرپائے تھے۔
اس کو بالکل ایسے سمجھئے جیسے سیدنا عمرؓ سے متعلق تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے مجمع عام میں عورتوں کے مہر کو چار سو درہم تک مقید کرنے کا فیصلہ دیا۔ جس پر ایک بڑھیا نے ان کو ٹوک دیا کہ قرآن تو قنطار یعنی ڈھیر سارے مہر کی بات کرتا ہے، تو عمرؓ تم کون ہوتے ہو مہر کو مقید کرنے والے جس پر سیدنا عمرؓ اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں۔ اب کوئی اس واقعہ کی بنیاد پر کہے کہ سیدنا عمرؓ نے مہر سے متعلق نے ایسا حکم دیا جس سے قرآن و سنت کے ’’صریح‘‘ احکام کی خلاف ورزی ہوئی، اور اس بات سے صرفِ نظر کرلے کہ یہ حکم ایک دن بھی نافذ نہ ہو،ا تو اس کو کیا کہا جائے گا؟۔ بعینہ مالِ غنیمت والی اس روایت کے ضعف کے باوجود اگر یہ مان لیا جائے کہ زیاد کو حقیقت میں سیدنا معاویہ ؓ نے ہی خط لکھ کر ایسا کرنے کو کہا تھا تو تب بھی سیدنا حکم بن عمروؓ کے انکار پر اس حکم پر عمل نہ ہوسکا اور پھر سیدنا معاویہؓ نے زیاد کو یا حکمؓ کو بھی اس فرمان کے بجا لانے پر کچھ نہیں کہا۔ گویا دوسرے لفظوں میں اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور ایک دن کے لیے بھی اس حکم کا نفاذ نہ ہوا۔ چنانچہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا معاویہ ؓ نے مالِ غنیمت کے سلسلے میں کتاب اور سنت کی صریح خلاف ورزی کی۔
پھر روایت میں ہے کہ یہ مال الگ کرواکر بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا تھا،جس پر ایک رافضی الفکر شخص کا کہنا ہے کہ یہ جمع کروانا بھی خلیفہ کے ذاتی استعمال کے لیے ہی تھا۔ جبکہ یہ استدلال بھی جہالت اور امورِ جہانبانی سے ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جیسے سیدنا عمرؓ نے اپنے زمانے میں حکم دیا تھا کہ مفتوحہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے ان پر خراج عائد کرکے ان کی آمدن بیت المال میں داخل کردی جائے تاکہ وہ دیگر مصارف میں خرچ ہوں۔ بعینہٖ اسی طرح سیدنا معاویہؓ کے دور سے پہلے فوجی خدمت رضاکارانہ ہوتی تھی، اس لیے مالِ غنیمت کے چار حصہ فوج میں تقسیم کردئیے جاتے تھے لیکن جب رضاکارانہ کے بجائے تنخواہ دار فوج کا رواج ہوا تو فوج کا تمام سازو سامان اور سارے اخراجات حکومت کے ذمہ ہوگئے تو مالِ غنیمت کو فوج پر تقسیم کرنے کا اصول بھی اس طرح نہ رہا جیسے پہلے تھا۔ کیا معترض حضرات یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے سیدنا معاویہؓ پر اس سلسلے میں کوئی نقد یا اعتراض کیا ہو؟ پھر سیدنا معاویہؓ کے عہدِ مبارک اور اس کے بعد پورے اموی دور میں باقاعدہ فوج کے علاوہ رضاکار مجاہد بھی ہوتے تھے اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ سونا چاندی بیت المال کے لیے نکال لیا جائے اور باقی مال فوج پر تقسیم کردیا جائے تاکہ فوج کے مصارف پورے کئے جاسکیں۔ پھر معترضین کی یہ بات بھی عجیب ہے کہ جب مالِ غنیمت میں سے سونا چاندی خلافِ شریعت نکال لیا گیا تو پھر باقی تقسیم شرعی کیسے رہ گئی کہ سیدنا معاویہؓ اس کی شرعی تقسیم کا حکم دے رہے ہیں۔
پھر یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اگر سیدنا معاویہؓ مالِ غنیمت میں بے جا تصرف کرتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امہات المومنین سیدہ عائشہؓ، سیدہ ام سلمہؓ اور دیگر ازواج النبی علیہ وعلیہن الصلاۃ والسلام، سیدنا حسنؓ، سیدنا حسینؓ،سیدنا عبداﷲ بن جعفرؓ، سیدنا عبداﷲ بن عباسؓ اور دیگر اصحابِ گرامی رضی اﷲ عنہم سیدنا معاویہؓ سے وظائف و عطیات وصول کرتے رہتے۔ اب کوئی کہے کہ یہ حضرات وظائف سیدنا معاویہؓ کی ذاتی دولت سے نہیں بیت المال سے لیتے تھے تو معترضین کے استدلال کے تحت ہی بیت المال میں بھی خلافِ شریعت مالِ غنیمت کی تقسیم سے آنے والے سونے چاندی کے سبب ناپاک و حرام مال کی آمیزش ہوگئی تھی تو یہ ممکن نہ تھا کہ امہات المومنین اور جمیع اصحابِ رسول رضی اﷲ عنہم حرام مال کی آمیزش والا مال حرام مال کی آمیزش کرنے والے خلیفہ کے ہاتھوں لیتے۔ ان حضرات کا سیدنا معاویہؓ سے عطیات و وظائف قبول کرنا ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ مالِ غنیمت اور بیت المال میں خرد برد کرنے والی یہ روایت وضعی و ناقابلِ قبول ہیں۔
یاد رہے کہ اس سلسلے میں مستدرک حاکم کی ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا معاویہ ؓ نے مالِ غنیمت کی تقسیم سے متعلق حکم نہ ماننے کی پاداش میں سیدنا حکم بن عمروؓ کو قید کردیا تھا اور اسی حال میں ۵۴ھ ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن اس روایت کو عموماً مورخین و محدثین نے قبول نہیں کیا کیونکہ اس کو صرف امام حاکم نے روایت کیا ہے اور تشیع میں ان کا غلو معروف ہے سو اس سبب کم از کم سیدنا معاویہؓ کی کردار کشی پر مبنی ان کی کوئی منفرد روایت قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ الاصابہ میں ابن حجر عسقلانی اور دیگر محدثین نے سیدنا حکم بن عمروؓ سے متعلق اس روایت کو قبول نہیں کیا اور اس کے بجائے آپ کی طبعی موت کا ذکر کیا ہے جو کہ ۵۰ ھ میں ہوئی تھی اور آپ نے اپنی موت سے قبل انس بن ابی ایاس کو اپنے کام کا نگراں مقرر کیا تھا (الاصابہ جلد اول تحت ترجمۃ حکم بن عمروؓ) ۔
پس اس اعتراض کے سلسلے میں درج ذیل باتیں غور کرنے لائق ہیں:
اول۔ یہ قصہ کسی مستند تاریخی روایت سے ثابت نہیں بلکہ ضعیف و مجہول راویوں سے مروی ہے سو اپنی اصل میں سنداً یہ قطعی قابلِ قبول نہیں۔
دوم۔ اگر اس قصہ کی استنادی حیثیت سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تو اس سلسلے میں دو احتمال ہیں۔ پہلا یہ کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں کہ سیدنا معاویہؓ نے یہ حکم دیا تھا کیونکہ اگر وہ حکم دیتے تو پوری بلادِ اسلامیہ کے گورنروں کو دیتے۔ صرف ایک گورنر کو یہ حکم دینا اور اسکا بھی انکار کردینا اس بات کا غماز ہے کہ یہ حکم سیدنا معاویہؓ کی جانب سے نہیں بلکہ زیاد کی جانب سے تھا۔
سوم۔ اگر اس کی نسبت سیدنا معاویہؓ سے مانی بھی جائے تو اس کی حیثیت بالکل ویسے ہی ہے جیسا کہ سیدنا عمرؓ کی مہر کی تحدید کے واقعہ کی حیثیت کہ سیدنا عمرؓ نے ایک تجویز دی جو غیر منظور کردی گئی اور ایک دن کو بھی اس پر عملدر آمد نہ ہوا۔ بعینہٖ مالِ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں بھی یہی ہوا کہ اگر سیدنا معاویہؓ نے ایسا کوئی حکم دیا بھی تھا تو خراسان کے عامل کے انکار پر وہ تجویز رد ہوگئی اور ایک دن کے لیے بھی اس پر عمل نہ ہوسکا۔
چہارم۔ اگر اس تجویز پر عمل ہو بھی جاتا تو عراق کی مفتوحہ زمینوں والے معاملے کی طرح یہ معاملہ بھی اجتہادی مسائل میں سے تھا جس کو مصالح امت کی خاطر سیدنا معاویہؓ نے تجویز کیا اور اس پر عملدر آمد کروانا چاہا جس میں فقہی نقطۂ نظر اجتہاد کی واضح گنجائش موجود تھی۔ اگر یہ معاملہ غیر شرعی ہوتا تو بیت المال میں حرام مال کی آمیزش کے تحت اصحاب رسول و امہات المومنین رضی اﷲ عنہم کبھی بھی سیدنا معاویہؓ سے عطیات و وظائف وصول نہ کرتے۔
پنجم۔ تاریخ طبری میں ہی ایک روایت ملتی ہے جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ خلیفہ کو اختیار ہے وہ جس مصرف میں چاہے حکومت و افواج پر بیت المال کی رقم خرچ کرے۔ جیسا کہ سیدنا علیؓ سے متعلق ملتا ہے کہ جب وہ اہل بصرہ کی بیعت سے قارغ ہوئے تو بیت المال کا جائزہ لیا۔ اس میں ساٹھ لاکھ درہم سے زائد رقم موجود تھی جو سیدنا علیؓ نے ان لوگوں میں تقسیم کردی جو آپ کے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔ ہر شخص کے حصے میں پانچ پانچ سو کی رقم آئی۔ پھر ان سے فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ شام میں آپ لوگوں کو فتح یاب کرے تو اتنی ہی رقم عطیات کے علاوہ تمہیں ملے گی۔
(طبری۲/۳ صفحہ ۱۶۰)