سید محمد کفیل بخاری
پوری دنیا میں کورونا وباء سے ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ کی حد پار کر چکی ہے جبکہ متأثرین کی تعداد تیس لاکھ سے متجاوز ہے۔ اس وباء سے ترقی یافتہ ممالک؛ خصوصا امریکہ برطانیہ، چین اور اٹلی سب سے زیادہ متأثر ہوئے۔ تمام سائنسی ترقی و اسباب کی فراوانی ایک غیر مرئی دشمن کے سامنے ڈھیر ہو کر رہ گئی۔ کورونا وائرس نے ترقی پذیر ممالک کو بھی اپنی گرفت میں لیا۔ جن کو اپنی مادی ترقی پر نازتھا وہ اپنی قوم کے لیے کچھ نہ کر سکے اور جن غریب ممالک کے پاس کچھ تھا ہی نہیں وہ خوف کے اندھے غار میں دبک کر بیٹھ گئے۔تیل کے ذخائر کی وسعتوں پر گھمنڈ کرنے والا سعودی عرب، تیل کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ شہزادہ محمد کا روسی صدر پیوٹن کو فون بھی بے اثر ہو کر رہ گیا۔
ڈر اور خوف کی اس فضا میں انسانوں کے لیے صرف ایک ہی امید اور سہارا باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے خالقِ کائنات اﷲ سبحانہ وتعالی کی ذات اور ان کی صفات بے غایات۔
ہم اﷲ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ امریکہ و مغربی ممالک کے بر عکس مسلم ممالک کورونا وباء کی زد میں کم آئے ہیں۔ یہ ان بے نام مسلمانوں کی دعاء نیم شبی کا کرشمہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے خاص فضل فرما کر ہمیں اس وباء کی ہولناکیوں سے بہت حد تک محفوظ فرمایا۔ یہ وقت رجوع الی اﷲ اور اﷲ تعالیٰ سے عافیت طلبی کا وقت ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: الدُّعاء مُخُّ العبادۃ: دعا عبادت کا مغز ہے۔ اسی طرح اس آزمائش اور مشکل میں صبر اور صلوٰۃ ہی مسلمانوں کے بہترین ہتھیار ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اِسْتَعیْنوا بالْصَّبْرِ والصَّلوٰۃ: مددلو صبر اور صلوٰۃ (نماز) سے۔ اور پھر اﷲ کا وعدہ ہے کہ إنَّ اﷲَ معَ الصَّابِرین۔ بے شک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
کورونا کا مرض تو پوری دنیا میں پھیلا لیکن وطن عزیز پاکستان میں اس کی آمد بھی نرالی ہے اور حفاظت و تدبیر کا طریقہ بھی منفرد ہے۔ مقتدر حلقوں کے موسیقار اور گائیک ایک ہی جیسے بے سرے لہجے میں کھٹی بھیرویں میں گا رہے ہیں کہ ’مذہبی لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں کورونا پھیلا ہے‘۔ لیکن یہ بتانے سے گریزاں ہیں کہ وہ مذہبی لوگ کون تھے؟ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ امریکہ و یورپ میں کون سے مذہبی لوگوں کی وجہ سے کورونا پھیلا تو راگ بلاول میں آئیں بائیں شائیں گا کر ٹائیں ٹائیں فش ہو جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وبا کی اس پریشان کن گھڑی میں پاکستانی قوم کے سب سے زیادہ ہمدرد ہی دینی و مذہبی لوگ ہیں۔جنہوں نے دعائیں بھی کیں اور دوائیں بھی دیں۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے احکامات کی سب سے زیادہ تعمیل مذہبی طبقے نے ہی کی ہے۔ صدر مملکت جناب محمد عارف علوی نے اعتراف کیا کہ تمام مسالک کے علماء نے بہت تعاون کیا اور ہم سب نے مل کر متفقہ طور پر بیس نکاتی ہدایات جاری کیں۔ انھوں نے خاص طور پر میڈیا کے ذمہ داران سے کہا کہ وہ اب اس کو موضوعِ بحث نہ بنائیں۔ لیکن کفار و ملحدین کے راتب پر چلنے اور پلنے والا میڈیا کیسے چپ رہ سکتا ہے۔ طویل عرصے سے ایک ہی موضوع زیرِ بحث ہے کہ مسجدیں کھلی ہیں، نمازی جمع ہو رہے ہیں، تراویح پڑھی جا رہی ہیں، اور ان سرگرمیوں سے ملک میں کورونا وائرس پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔ پہلے تبلیغی جماعت پر گز بھر لمبی زبانیں چلتی رہیں، اب ضلالت کے ان ڈھنڈورچیوں کے لیے نمازیں سوہانِ روح بنی ہوئی ہیں۔
چند روز قبل صدر پاکستان نے بغیر اطلاع اسلام آباد کی بعض مساجد کا اچانک دورہ کیا اور نمازیوں کی طرف سے حکومتی ہدایات و احتیاطی تدابیر پر عمل کو سراہا۔ لیکن ٹی وی شوز میں مالِ حرام کا حق ادا کرنے والے ہیں کہ مسلسل بکے چلے جا رہے ہیں۔ اگرچہ مساجد میں نمازیوں کے درمیان چھے فٹ یا تین فٹ کا فاصلہ موجود ہے لیکن استعماری دستر خوان کے ریزہ چین اس فاصلے میں شیطانِ لعین کی طرح گھس کر جگہ بنانے کے لیے بے چین و مضطرب ہیں۔
ہمیں اپنے رحیم و کریم مالک جلَّ جلالہ سے امید ہے کہ وہ اپنے عاجز بندوں کی صفوں کے فاصلے جلد ختم کر دے گا۔ ہر مسلمان کا دل اﷲ کی یاد سے منور و معمور ہے۔ سب اہلِ ایمان کے قلوب اور پیشانیاں ایک اﷲ کے سامنے جھکتے ہیں اور جھکتے رہیں گے۔ لیکن عالمی استعماری ایجنڈے کے لیے ہلکان ہونے والے دہاڑی دار منافقین یاد رکھیں کہ جو فاصلے ان کے اور ملت کے درمیان قائم ہو گئے ہیں وہ انھیں تنہائی کے بلیک ہول میں گرا کر فنا کر دیں گے۔ مسلمان کی تنہائی بھی یادِ الہی سے روشن ہو کر اسے سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال کر دیتی ہے لیکن منافق کی تنہائی……؟
کوئی پوچھے تو ان سے، کوئی دیکھے تو ان کو …………الحذر، الحذر، الحذر الحذر
کورونا وائرس کی آڑ میں طبعی موت مرنے والے شہریوں کی میتوں کی بے حرمتی کی شکایات ملک بھر سے موصول ہو رہی ہیں۔ بلڈ کینسر، جگر کے کینسر اور گردوں کے برسوں پرانے مریضوں کو بھی کورونا کے شکار اموات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ان کی کورونا ٹیسٹ رپورٹس بھی منفی تھیں۔ ایسا ظلم کرنے والے سفاک اور وحشی درندوں کو شاید اپنی موت پر یقین نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ یقینا اس ظلم کا وبال وہ یہاں بھی چکھیں گے اور آخرت میں بھی۔
اقتدار کی راہ داریوں میں ہلچل شروع ہے۔ چینی، آٹا سکینڈل والے ترین اور خسرو کی تفصیلی رپورٹس اعلان کردہ تاریخ کے باوجود جاری نہیں کی گئیں ۔ پی ٹی آئی کی آپا مشیرۂ اطلاعات کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ شاید حکومتی حلقوں میں ان سے کورونا پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اور وہ ہر جگہ بے دھڑک پہنچ جاتی تھیں۔ نظر آرہا ہے کہ آئندہ دنوں میں کچھ اور لوگ بھی اپنے اپنے گھروں میں بھیجے جائیں گے۔
معلوم نہیں کہ لاک ڈاؤن کب ختم ہو گا، لیکن ما بعد لاک ڈاؤن جو کچھ ہونے والا ہے اور جس کے ابتدائی آثار نظر آنے لگے ہیں، وہ انتہائی خوفناک اور نا قابلِ بیان ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور مزید امتحانوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے۔
حکومت اور عوام کا آپس میں تعلق ہی کیا رہ گیا ہے؟ جو فاصلے قائم ہو گئے ہیں سمٹتے نظر نہیں آتے۔ حکومت عوام تھوڑا بناتی ہے۔ ہمیں تو اپنا اور اپنی اولادوں کا ایمان بچانا ہے، ریاست اپنے فرائض سر انجام دیتی ہے تو اس کی مہربانی ہے، اور اگر اسی طرح چلتی رہتی ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہمارے رب کی نصرت درکار ہے، اسی پر توکل ہے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں، ہمیں وہی کافی ہے اور انھیں بھی جو اس کے باغی ہیں۔ حَسْبِیَ اللّٰہُ اِلٰہَ اِلاَّہُوَعَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ حَسّبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ۔ اﷲ مجھے کافی ہے، اسی پر میرا بھروسا ہے، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ ہمیں اﷲ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔