پروفیسر اکرام تائب
اس زمیں پر جو جنت کی تصویر ہے
برملا وہ یہ خطّۂ کشمیر ہے
اس پہ حق اپنا کافر جتاتے ہیں کیوں
ہم مسلماں ہیں اپنی یہ جاگیر ہے
ماؤنٹ بیٹن، کلف اور نہرو کا یہ
سب کو معلوم ہے، سازشی تیر ہے
بہہ رہا ہے زمیں پر جو ان کا لہو
ظلمت شب میں حق کی یہ تنویر ہے
جبر سے حل نہ ہوں گے مسائل کبھی
لوح قلب و نظر پر یہ تحریر ہے
ہو کے آزاد اِک دن رہے گا وطن
مٹ کے رہنا ہی باطل کی تقدیر ہے
بھیک مانگیں کہاں جا کے انصاف کی
محتسب قاتلوں سے بغل گیر ہے!
سن لیا سب نے جب دل کی آواز کو
فیصلہ کیوں سنانے میں تاخیر ہے
کچھ تو بولو ذرا عالمی منصفو !
آگ میں جل رہا کب سے کشمیر ہے
ہاتھ سے جانے دیں گے نہ اس کو کبھی
فیصلہ آخری اپنا تحریر ہے!
یہ تو شہہ رگ ہے تائبؔ مرے دیس کی
منسلک اس سے سانسوں کی زنجیر ہے