مولانا سید محمد عبدالرب صوفی رحمہ اﷲ
اب نہ تھم اے اشک غم، اے چشم نم جی بھر کے رو
قوم کی پونجی لٹے جب اشک جاری کیوں نہو
کالجوں میں جاکے اُف مومن کی پونجی لٹ گئی
رنج سے اور شرم سے رو اور اسکے غم سے رو
جاکے کالج میں میاں جو تھے وہ مسٹر ہوگئے
غیر کی صورت بنے خود اپنی دی لُٹیا ڈبو
کٹ گئی داڑھی، اُگی البرٹ لٹکے پائنچے
جاکے کالج ہائے رکھدی دین کی پونجی گرو
فیشن انگریزی بھی ہے انگریز کے دشمن بھی ہیں
دشمن انگریز آخر کوئی ایسا بھی تو ہو
ذہنیت یہ ہے کہ اسکی وضع آئی ہے پسند
اور ہٹ دھرمی سے کہتے ہیں عدو انگریز کو
پائجامہ بن گیا نیکر اوٹنگا آپ کا
آپ نے نپشن عطا کردی ازار شرع کو
آپ کی اچکن تو کالج جا کے چسٹربن گئی
ہائے جاکر اب کہاں دیکھیں مسلماں شکل کو
جاکے تھیٹر دیکھتے ہو اُف انھی آنکھوں سے تم
جن سے پڑھتے تھے کبھی تم خود کلام اﷲ کو
ہائے تم بھیجے گئے اسکول وکالج کس لیے
تھیں بہت کچھ تم سے امیدیں بھی مسلم قوم کو
اس لیے تحصیل انگریزی کی حاجت تھی کہ تم
دین کی تبلیغ جاکر مسٹروں میں کرسکو
ہائے وہ بدبخت ساعت جبکہ تم کالج گئے
نفع کیسا؟ گانٹھ کی پونجی بھی دی تم نے ڈبو
ہم یہ سمجھے تھے کہ تم سے غیر بھی سیکھیں گے دیں
تم تو اپنا دین بھی کالج میں جاکر آئے کھو
خود مسلماں ہوکے غیروں کی غلامی تم نے کی
کس قدر کمزور ہو سوچو ذرا اے دوستو
کر کے ہمت مردہ بالوں کو کٹا دو دین پر
وقت پر شہ رگ کٹانے کے لیے تیار ہو
دیکھ کر صورت تمھاری لوگ سمجھیں اُمتی
سنّت پاک نبیؐ روشن تمھارے رخ پہ ہو
فرط دل سوزی سے ہے یہ نظم صوفیؔ نے لکھی
ظاہر وباطن سے بن جاؤ مسلماں دوستو