ڈاکٹرعمرفاروق احرار
یثرب تنویرگوندل سے ڈاکٹر لال خان تک کا کئی دھائیوں پر مشتمل سفرچندروزپیشتراپنے انجام کو پہنچ گیا۔ڈاکٹرلال خان پاکستان میں بائیں بازوکی نظریاتی جدوجہدکی پہچان اورشناخت تھے۔وہ ساری زندگی طبقاتی جدوجہداورسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نبردآزمارہے۔اُن کی تحریکی زندگی کاآغازطالب علمی کے زمانہ میں پی ایس ایف سے ہوااوروہ صدرضیاء الحق کے دورمیں ایک مزاحمتی کردارکی صورت میں ابھرے۔ایک سال پس دیوارزنداں رہے۔رہائی کے بعدجب اُن کی جان کو شدیدخطرات لاحق ہوئے تو والدنے انہیں ہالینڈبھیج دیا۔1986ء میں بے نظیربھٹوکی پاکستان واپسی پرامریکہ کے خلاف سرگرم نوجوانوں کے ہاتھوں امریکی پرچم جلانے کا واقعہ پیش آیا۔جس کے محرک وہ نوجوان تھے جو’’جدوجہد‘‘کے نام سے امریکہ کے خلاف اپنی سرگرمیاں تیزکیے ہوئے تھے۔’’جدوجہد‘‘کی قیادت ڈاکٹرلال خان کے ہاتھ میں تھی جو پاکستان آکرلیفٹ کی سیاست کوفعال کرچکے تھے۔نوے کی دہائی میں انہوں نے منوبھائی کے ساتھ مل کرپیپلزپارٹی کا نیامنشورترتیب دیا اورپیپلزپارٹی میں مارکسزم کی بنیادکو مضبوط کرنے میں اہم کرداراداکیا۔پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی سیاست کا آغازسوشلسٹ انقلاب کے نعرے سے ہواتھا،مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ نعرہ عملی شکل اختیارکرنے کے بجائے محض نعرہ ہی رہا۔جس نے لال خان جیسے کٹرنظریاتی مارکسٹوں کو مایوسی سے دوچارکیا ۔لال خان نے پیپلزپارٹی اوراس کے قائدذوالفقارعلی بھٹوسے اسی وجہ سے شدیداختلافات کا اظہارکیااوروہ زندگی کے آخری سانسوں تک برملااپنے نظریاتی اختلافات کوتحریروتقریرمیں بیان کرتے رہے اوراپنی جماعت کونظریاتی بنیادوں پر چلانے کے لیے کارل مارکس کے افکارونظریات کی مشعل دکھاتے رہے۔وہ قیادت سے مایوس ہوگئے ،مگر انہوں نے سماج اورمحنت کشوں کوہمیشہ سینے سے لگائے رکھااورکہاکہ’’جس طبقے نے پیپلز پارٹی کو جنم دیا اور پھر پے در پے کئی اقتدار دیے، وہ آج کہیں زیادہ محکوم، محروم اور بد حال ہے ۔‘‘اقتدار کے ساتھ رواں دواں رہنے کو توسب تیار ومستعد ہوتے ہیں، لیکن مفلوک الحال عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ جس کے سبب عوام محض مقتدر قوتوں کی بیساکھی بن کر رہ جاتے ہیں اور اُن کے حالات بد سے بدتر ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر لال خان نے مارکسزم کو اُس وقت رواج دینے کی بھرپور جدوجہد کی، جب ہمارے ترقی پسند دانشوروں کی اکثریت میں رُوس کے انقلاب کی بنیادیں ہلا دینے والے گوربا چوف کی کتابوں گلانوسٹ اور پرسٹرائیکا کو پذیرائی حاصل ہو رہی تھی، اور جس کے نتیجے میں ہارڈ کور مارکسسٹ کمیونزم فکری طور پر پسپائی کا شکار تھا۔ لال خان نے اپنی مختلف جماعتیں تشکیل دے کر ان کے پلیٹ فارم سے عملی کام کے ساتھ ساتھ لٹریچر کی بھی اشاعت کی اور اپنے کارکنوں میں نظریاتی تربیت کے لیے سٹڈی سرکل اور اجتماعات کا انتظام کیا۔ لال خان نے اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے متعدد کتابیں بھی تحریر کیں۔ جنہیں اپنے حلقہ میں کافی پذیرائی میسر آئی۔ڈاکٹر لال خان اپنے افکارمیں ایک سچے اور مخلص نظریاتی رہنماتھے۔جن کے فکرونظرسے اختلاف ہوتے ہوئے بھی یہ کہاجاسکتاہے کہ وہ اپنی سوچ،طریقہ کاراورمنصوبے کے مطابق جس سماج کی تشکیل اورترویج کے لیے کوشاں تھے۔وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متصادم مزدوراورنچلے طبقہ کی خوش حالی اورسربلندی سے متصف معاشرہ تھا۔لال خان کے ساتھ کئی برس گزارنے والے ہمارے عزیزدوست جناب محمدابوبکرشبیربتاتے ہیں کہ جس طرح لال خان محنت کشوں کی بے دریغ خفیہ مالی امداد کیا کرتے تھے، لبرل اور سیکولر طبقہ میں شاید ہی ایسی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔ اسی طرح دیگر سوشلسٹوں کے برعکس وہ مذہب کے خلاف انتہا پسندانہ تحریروں اور تقریروں کے برعکس اپنے نظریات کے فروغ کے قائل تھے۔ اس لیے مذہبی طبقہ کے ساتھ ان کا ٹکراؤ کبھی نہ ہوسکا۔اگر اِس اور اس جیسی متعدد روایات پر اعتمادکیاجائے تو موجودہ دورمیں لال خان جیسے نظریاتی لوگوں کی ضرورت مزیدبڑھ جاتی ہے جو اپنی رائے اورنظریے کو مسلط کرنے یادوسروں کے عقائدکومجروح کرنے کا باعث نہ بنیں۔اگر ہمارے تمام طبقات میں برداشت کی ایسی فضاقائم ہوجائے تو باہمی منافرت اورتعصب خودبخوددم توڑدیں گے۔ماضی میں جھانکیے تو آپ کو مجلس احراراسلام کے رہنمابالخصوص حضرت امیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری اورترقی پسندرہنماسیدسجادظہر، کامریڈ محمد اشرف، ساحر لدھیانوی، سبط حسن، فیض احمد فیض، میاں افتخار الدین اور حبیب جالب ایک ساتھ بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ خود ڈاکٹر لال خان سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے مداحوں میں سے تھے۔ اب مذہبی اور سیکولر طبقات میں دوری نے نفرت اور تعصبات کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے کہ جسے پارکرناناممکن نہیں تومشکل ضرور ہوگیاہے۔شایداس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب نظریات کی جگہ مفادات اوراغراض نے لے لی ہے۔جس سے قربتوں کے زاویے سکڑکررہ گئے ہیں۔
میری لال خان سے ملاقات نہ ہوپائی،لیکن میں نے انہیں قبرمیں اترنے سے پہلے دیکھااوراُن کے جنازے میں اُن کے شاگردوں،کارکنوں اوررہنماؤں کوافسردہ اورملال سے نڈھال پایا۔اُن کا جنازہ بھی اپنی نوعیت کا منفردجنازہ تھا۔اُن کی میت کے ساتھ مقامی افرادکی ایک ٹولی مل کر بہ آوازبلندکلمہ طیبہ کامسلسل وردکررہی تھی ،جبکہ جنازہ کے درمیان سرخ جھنڈے اٹھائے بوڑھے اورجوان کامریڈ بآواز بلند’’انقلاب انقلاب،سوشلسٹ انقلاب‘‘ کی صداؤں کے ساتھ نعرہ زن تھے۔ مذہب اورمارکسزم کے اس امتزاج نے عجیب منظرپیش کیا۔جس سے نہ اہل مذہب کو کوئی شکایت پیداہوئی اورنہ مارکس کے پرستارمعترض ہوئے۔لال خان مرکے دونوں طبقات کو اکٹھاکرگیا۔حیرت ہوئی کہ کارل مارکس کے پیروکارمذہب کو افیون کہتے ہیں ،لیکن لال خان کا جنازہ بھی پڑھاگیا اوردیگرمروجہ رسوم بھی اداہوئیں۔جس سے واضح ہوتاہے کہ کامریڈلال خان کو مارکسسٹ ہوتے ہوئے بھی مذہب کے زندگی میں عمل دخل سے انکارنہ تھا۔ورنہ وہ جنازہ کی نمازکے ادانہ کیے جانے کی وصیت بھی کرسکتے تھے۔ لال خان پاکستان میں مارکسزم سے مخلص آخری نظریاتی آدمی تھے۔جن کی موت سے سوشلسٹ طبقہ ایک بے لوث اوربے غرض رہنماسے محروم ہوگیاہے اور محنت کشوںِ اورپرولتاریوں کے حق میں اٹھنے والی تواناآوازہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے۔