ڈاکٹر عمر فاروق احرار
اکنامکس کے شعبہ سے وابستہ ڈاکٹرعاطف میاں قادیانی کے آن لائن لیکچرکا اہتمام آئی بی اے یونیورسٹی کراچی نے کیا تھا جو 5؍نومبر 2020ء کو دیا جانا تھا۔ الحمد ﷲ وہ بر وقت اطلاع ملنے پر پُرزور احتجاج کے نتیجہ میں منسوخ ہوگیا ہے۔
عاطف میاں کا نام پہلی بار پاکستان کے حلقوں میں تب متعارف ہوا تھا۔ جب تحریک انصاف کے رہنما اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر 2014ء میں اپنے دھرنے کے دوران اسلام آباد میں اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ہم برسر اقتدار آکر عاطف میاں جیسے معیشت دان کو ملک کا وزیر خزانہ بنائیں گے۔‘‘ عمران خان کے بیان کے اگلے روز قادیانیوں کی ویب سائٹ کے فیس بک کے پیج ’’ربوہ ڈاٹ نیٹ‘‘ نے عاطف میاں کی تصویر لگا کر لکھا تھا کہ ’’ایک احمدی عاطف میاں کو عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران وزیر خزانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جو ایک خوش آئند اقدام ہے۔‘‘ جس پر اﷲ نے مجھے توفیق دی اور میں نے مجلس احرار اسلام کی جانب سے یہ پوسٹ بنا کر فیس بک پر وائرل کردی کہ ’’مجلس احرار عاطف میاں سمیت کسی بھی قادیانی کو کلیدی عہدہ پر تعینات کرنے کی شدید مزاحمت کرے گی۔‘‘ اس پوسٹ کو بلامبالغہ ہزاروں لوگوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ جس کے نتیجہ میں دوسرے دن 17؍ستمبر 2014ء کو قادیانیوں نے اپنی ویب سائٹ ہی بند کردی۔ بعد ازاں نجی ٹی وی سے ایک انٹرویو میں عمران خان کو بھی یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’میں ختم نبوت پر یقین رکھتاہوں اور مجھے عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہ تھا۔‘‘
2018ء میں جب عمران خان نے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رُکن منتخب کرلیا تو اس پر تمام دینی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج ہوا۔ نواسہ ٔ امیر شریعتؒ حضرت سید محمد کفیل بخاری مدظلہ ‘نائب امیر مجلس احرار اسلام پاکستان نے ستمبر 2018ء میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے نام اپنے ایک کھلے خط میں لکھا کہ ’’قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم ہی نہیں کرتے، میاں عاطف پہلے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرے، آئین پاکستان کو تسلیم کرے اور آئین میں دیے گئے اقلیتوں کے حقوق حاصل کرلے۔ ہمیں پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ، جسٹس بھگوان داس اور جسٹس کارنیلیس پر کوئی اعتراض نہیں رہا، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہا اور وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے مذہب اور مذہبی شناخت پر قائم رہے۔ ہمیں اعتراض ہے پہلے وزیر خارجہ موسیو سر ظفر اﷲ خان قادیانی پر جس نے غیر مسلم ہوتے ہوئے دھوکہ دہی اور جعلسازی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان کہا اور مسلمانوں والے حقوق حاصل کیے اور امریکہ سے مہنگی گندم خرید کر پاکستان کو مقروض کیا۔ قائد اعظم کی جماعت میں شامل ہوکر انگریزوں کے مفادات کا تحفظ کیا۔ پنجا ب باونڈری کمیشن میں شامل ہوکر گورداس پور، قادیان، پٹھان کوٹ اور کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ ہونے دیا اور اُنہیں بھارت کا حصہ بنادیا۔‘‘ عوامی مزاحمت کے پیش نظر حکومت کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی سے عاطف میاں کے تقرر کا نوٹیفیکیشن واپس لینا پڑا۔
چند روز قبل ہمارے عزیز بھائی زاہد صاحب نے اسلام آباد سے آئی بی اے یونیورسٹی کراچی (انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کی ایک پوسٹ مجھے واٹس ایپ کی۔ جسے پڑھ کر دھچکہ لگا کہ مذکورہ یونیورسٹی عاطف میاں سے 5؍نومبر 2020ء کو آن لائن لیکچر کرا رہی ہے۔ جس کا عنوان ’’پاکستان معاشی ترقی میں کیوں پیچھے رہ گیا‘‘ ہے۔ اُدھر عاطف میاں قادیانی کے لیے بھی متوقع لیکچر عید کے دن سے کم نہ تھا۔ عاطف میاں نے ٹویٹ کیا کہ ’’میں بہت خوش ہوں کہ مجھے طلبا سے بات کرنے کا موقع مل رہا ہے۔‘‘ یہ صورت حال جتنی اچانک پیدا ہوئی، اُتنی ہی تیزی سے مجھے بھی کام کرنا پڑا۔ فوراً مجلس احرار اسلام کی طرف سے پوسٹ تیار کر کے فیس بک پر وائرل کردی کہ ’’عاطف میاں قادیانی کا لیکچر منسوخ کیا جائے، کیونکہ اس لیکچر کے ذریعے طلبا کو مرعوب کر کے قادیانیت کی جانب مائل کیے جانے کا منصوبہ ہے۔‘‘ اِسی دوران چند دوست انفرادی پوسٹیں بھی لگا چکے تھے، مگر یونیورسٹی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، مگر جب مجلس احرار اسلام کی جانب سے جماعتی سطح پر یہ پوسٹ شیئر ہوئی اور اُس کے پڑھنے کے بعد لوگوں نے ملک بھر سے یونیورسٹی کو فون کیے تو صرف ایک ہی گھنٹہ بعد آئی بی اے یونیورسٹی نے صورت حال کو اپنے خلاف بدلتا دیکھ کر فیس بک کے پیج پر (22؍اکتوبرکو) یہ اعلان کر دیا کہ ’’عاطف میاں کا جو لیکچر 5؍نومبر کو ہو رہا تھا، اُسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔‘‘ اس اعلان نے تحفظ ختم نبوت کے محاذپر سرگرم عمل مجاہدین کے حوصلوں کو مزید بلند کر دیا۔ یہ کامیابی محض اﷲ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم جیسے بے وسائل اور کمزور لوگ اس کامیابی کے قابل کہاں تھے۔ عاطف میاں نے اپنی ٹویٹ میں یونیورسٹی کے اس اعلان پر لکھا کہ ’’یونیورسٹی نے کچھ انتہا پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے یہ لیکچر منسوخ کر دیا ہے۔‘‘ حالانکہ یونیورسٹی نے لیکچر کی منسوخی میں کسی دھمکی کا ذکر تک نہیں کیا۔
بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ’’عاطف میاں نے معیشت پر لیکچر دینا تھا، نہ کہ اُنہوں نے قادیانیت کو پھیلانا تھا۔ پھر لیکچر پر اتنا ردعمل کیوں ہے؟‘‘ اس سے انکارنہیں کہ موضوع معیشت تھا، مگر اس کے مضمرات یہ تھے کہ ایک تو لیکچر دینے والا قادیانی تھا اور وہ اُس مذہب سے تعلق رکھتاہے جو خود کو غیرمسلم ماننے کی آئینی شق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ہمارے طلباکی اکثریت اس کے مذہب سے ناواقف ہونے کے سبب اسے مسلمان معیشت دان سمجھ کر اُس سے متاثر ہوجاتی اور طلبا کی اس ناواقفیت کا فائدہ اٹھا کر ہی قادیانی اپنا وار کرجاتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں سر ظفر اﷲ خان قادیانی کے دورِ وزارتِ خارجہ میں اس کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے۔ قادیانی اپنے منصب وپوزیشن کا فائدہ اٹھا کر دوسروں کو مرعوب کرتے ہیں اور پھر لالچ وتحریص کے ہتھکنڈوں سے اُن کے ایمان پر بھی ہاتھ صاف کرجاتے ہیں۔ جس کی واضح مثال خود عاطف میاں ہے جو ایک پاکستانی مسلمان گھرانے کا فرد تھا، مگر امریکہ میں جا کر قادیانیوں کے نرغے میں آگیا اور اب وہ اسے ہر جگہ کیش کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ قادیانیت کو عالم کفر کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ عاطف میاں کو معیشت دانوں کی صف اول میں لانے میں بھی انہی بیرونی قوتوں کی خفیہ سرگرمیاں کار فرما ہیں۔ جنہوں نے ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کو نوبل پرائز دلایا تھا۔ عاطف میاں کے لیکچر کی منسوخی پر پاکستان میں کینیڈا کی ہائی کمشنر وینڈی گل مور نے بھی ٹوئٹر پر گہرے افسوس کا اظہار کیا جو اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ درحقیقت عالمی قوتیں قادیانیوں کو منفرد شہرت ومنصب بخش کر عالم اسلام پر اپنا کفریہ ایجنڈا نافذ کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کشید کیے جاسکیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلمان غیروں کی ان سازشوں کو سمجھیں اور ہر دم چاک وچوبند اور چوکس رہ کردشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ تاکہ تحفظ ختم نبوت کے مشن اور عالم اسلام کی سلامتی پر کوئی میلی نظر نہ ڈال سکے۔