انیس الرحمن (متعلم جامعہ خیر المدارس ملتان)
نوع انسانی کے پہلے فرد حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام سے لیکر آج تک انسانوں کی بے شمار تعداد نے اس زمین کو اپنا مسکن بنایا لیکن موت جیسے قانون کے لاگو ہونے پر وہ اس دارالفنا سے دارالبقا کی طرف منتقل ہوگئے۔ تاہم کچھ نفوس قدسیہ ایسی گزریں ہیں کہ برس ہا برس گزرنے کے باوجود ان کا ذکر خیرباقی ہے۔ بعض شخصیات تو ایسی ہوتی ہیں جن کا ذکر خیر محبوں کے دلوں میں ایسا رچ بس جاتا ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حلقہ اہل علم وفضل میں کسی شخصیت کے یاد رہ جانے کی ایک ممتاز وجہ جامعیت ہوتی ہے۔ یعنی علم وتقوٰی، توا ضع وسادگی، زہد وپر ہیز گاری، اعتدال پسند ی، اتباع سنت کا شغف، حق گوئی اور راست بازی وغیرہ کا جمع ہونا۔ اور ایسی شخصیت کی موت عام موت نہیں ہوتی بلکہ ان سب صفات حسنہ کی موت ہے۔
اس کی ایک مثال قافلہ حریت کے پاسبان، خاندا ن بنو ہاشم کے گل سرسبد، حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ کے فرزنداکبر وجانشین، امام اہلسنت، محقق دوراں نسّابۂ زمان حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر شاہ حسنی قادری بخاری تغمدہ اﷲ بغفرانہٖ کی ذات گرامی ہے۔ جن کاانتقال پر ملال میں سا نحۂ ارتحال 23اکتوبر 1995ء کو رونماہوا۔ چو تھائی صدی گزرنے کو ہے لیکن آج بھی آپ اپنی نسبی، نسبتی اولاد اور روحانی اولاد قافلۂ احرار کے ہر ہر سپاہی کے قلب وجگر میں زندہ ہیں۔
خالق ارض وسما اور مالک کو ن ومکان نے ہمارے امام اہلسنت جانشین امیر شریعت رحمہ اﷲ کوبہت سی ایسی صفات سے متصف کیا جن میں وہ اپنے ہم عصروں میں فرد یگا نہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ بیک وقت علم تفسیر، علم حدیث علم فقہ واصو ل فقہ، صرف و نحو، منطق وفلسفہ سمیت دیگرفنون میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ علم تاریخ کے ایسے شہسوار تھے کہ لمبی لمبی عبارتیں ازبر تھیں اورنہایت ہی سہل اندازسے نوک زبان ہوتی تھیں۔ خطابت آپ کو ورثے میں ملی تھی۔ تقریر میں برق رفتاری آپ کے بحر العلوم ہونے پر دال تھی۔ بے پنا ہ مطالعے نے آپ کو ہمیشہ اُونچا رکھا اور اس کے اظہار نے ہم عصر جبا ل علم کو متاثر کیا اور ان سے خراج تحسین وصول کیا۔ حکیم الاسلام حضرت مولا نا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اﷲ نے آپ کو علم الانساب کے امام اور محقق دوراں قرار دیا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مبلغ اسلام حضرت مولانا محمد منظور نعمانی، امام اہلسنت مولانا سرفراز خا ن صفدر رحمہم اﷲ آپ کے مطالعے اور تحقیق وخطابت کے ہمیشہ معترف رہے۔ آپ اپنے استاذ خیر العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالند ھری رحمہ اﷲ کے مایہ ناز شاگرد اور قابل فخر علمی وارث تھے۔ انہوں نے آپ کو فصیح البیان کا لقب عطا فرمایا۔ آپ کی قائدانہ و خطیبانہ صلاحیتوں کے بارے میں آپ کے والد ماجد حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ اگر چہ یہ مجھ جیسا تونہیں ہے لیکن میرے بعد اس جیسا بھی کوئی نہیں ہوگا۔
آپ کو پاکستان میں دینی جدو جہد کے کئی محاذوں پر اولیت کا شرف حاصل ہوا ۔ پاکستا ن کی تاریخ میں آپ دفاع صحابہ رضی اﷲ عنھم اجمعین کی تحریک کی پہلی منظم اور طاقت ور آواز تھے۔ برصغیر پاک وہند میں دفاع صحابہ کے سلسلہ میں پہلی مرتبہ 1961ء میں یو م معاویہ منایا۔ اوراس کیلئے بعض نادان دوستوں اور دانا دشمنوں کی شدید مزاحمت کے مقابلے میں کوہ استقامت بن گئے۔ سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اورسیرت ازواج واصحاب رسو ل علیھم السلام آپ کے خاص موضوع تھے۔ تاریخ، اسماء الرجال اور علم الانساب پرآپ کو بے پناہ عبور حاصل تھا۔ جس کا اندازہ دوران تقریر اور گفتگو میں ہوتا تھا۔ 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں روپوش رہ کر کام کرنے والوں کے سرخیل تھے ۔ روپوشی کے ایام میں تحریک کے اسیر رہنماؤں سے جیل میں رابطہ قائم رکھا اوران کی ہدایت پر عمل پیرا ہوکر تحفظ ختم نبوت کا محاذ سرگرم رکھا۔ حکومت اپنی ساری کو ششو ں کے باوجود انہیں گرفتار نہ کر سکی۔ 21اگست 1961ء میں حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ کا انتقال ہوگیا مجلس احرار اسلام پر ان دنوں پابندی تھی۔ آپ نے مجلس خدام صحابہ کی بنیاد رکھی اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت کے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کے محاذ کو تروتازہ رکھا۔
انہی دنوں ملتا ن میں ہفتہ وار درس قرآن کاآغا ز کیا اور علم وعرفان کے موتی بکھیر تے رہے۔ تب شاہ جی رحمہ اﷲ کا عہد شباب تھا اوراس دور کے دروس میں نوجو انو ں کا ایک جم غفیر ستاروں کی طرح اس ماہتاب علم کے گرد جمع ہوگیا۔ سینکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل گئیں اوران کے افکار وعقائد کی اصلاح ہوئی۔ 1962ء میں مجلس احرار اسلام سے پابندی ختم ہوئی تو احرار کی تنظیم نو کے لیے متحرک ہوگئے اوراپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ آپ جماعت کے ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔ 1968ء میں جماعت کا منشور اور دستور لکھا جوان کی علمی صلاحیتوں کاشاہکار ہے۔ 1974ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں قائدانہ کردار ادا کیا ۔ آپ کی خداداد صلاحیتوں اور کارناموں کے پیش نظر ہی 1975ء میں مجلس احرار اسلام کی مجلس شوریٰ نے آپ کو امیر مرکزیہ منتخب کیا۔ 27فروری 1976کو دارالکفر والارتداد ’’ربوہ‘‘ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجتماع جمعہ منعقد کیا اور مسلمانوں کی پہلی مسجد ’’جامع مسجد احرار‘‘ کاسنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا۔ سات ضلعوں کی پولیس ان تاریخی لمحات کو ناکام بنانے اور آپ کو گرفتا ر کرنے کے لیے حرکت میں تھی۔ آپ رحمہ اﷲ نے اجتماع جمعہ سے خطاب فرمایا اور نمازجمعہ سے قبل ہی گرفتار کرلیے گئے۔
حضرت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ نے تصنیف وتالیف میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور پچاس کے قریب تصانیف یاد گار چھوڑی ۔ جن میں سے مجمع المصا در العربیہ، کان پا رسی، طلوع سحر، احکام و مسائل، سواطع الالہام، اسلام اور کسان، اسلا م او رمزدور، رعد فغاں وغیر ہم قابل ذکرہیں۔ آپ نے مختلف تنظیموں کا قیام کیا جن سے بہت فوائد رونما ہوئے۔ آپ نے احرار کا رکنوں کی نظری وفکری تربیت فرمائی ان کو ایک نصب العین دیا ۔ ان کو ایک شناخت دی۔ غیرت، حمیت اسلامی، برد باری، تحمل اور خود داری کا وارث بنایا۔
درحقیقت آپ اپنی ذات میں کئی جماعتوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ سے اﷲ پاک نے گزشتہ صدی میں وہ کام لیا جو کئی جماعتیں بھی مل کر بمشکل کر پاتی ہیں۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ آپ کے عزائم وارادوں کا پختہ ہونا ہے۔ لیکن آپ کا تعلق مع اﷲ اور رجو ع الی اﷲ آ پ کے عزائم اور ارادوں سے زیادہ قوی اور مضبوط تھا۔حضرت مولانا سیدابومعاویہ ابوذر بخاری رحمہ اﷲ نے مرشد العلماء والا حرار حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری تغمدہ اﷲ بغفرانہ کے دست حق پرست پربیعت کی۔ اور تصوف کی تمام منازل طے کرنے کے بعد 1960ء میں خلعت خلافت سے سرفراز ہوئے اور شیخ المشائخ کے منظور نظر بننے، زہد وتقویٰ مثالی تھا۔ شب بیدار ی معمول تھا سلسلہ قادریہ کے معمولات کے مطابق ذکر وشغل سے اوقات معمور رہتے تھے۔ تقدیر پرغالب یقین تھادل ودماغ میں توکل علی اﷲ کے سوا کچھ نہ تھا حضرت شاہ صاحب رحمہ اﷲ کی صحت کچھ عرصہ سے متاثر رہنے لگی تھی۔ پہلے دومرتبہ تانگہ اور کار کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے صاحب فراش رہے۔ جو ن 1991ء میں والدہ ماجدہ سید ہ ام الاحرار رحمۃ اﷲ علیہا کے انتقال پرملا ل نے صحت کو اور زیادہ متاثر کیا۔ پھر فالج کے ساتھ متعدد امراض نے حملہ کر دیا۔ جس کی وجہ سے مسلسل صاحب فراش رہنے لگے۔ چلنا پھرنا بھی محض لاٹھی کے سہارے ہو تا، وہ بھی گھر سے بیٹھک تک۔ فارغ اوقات میں مختلف احباب ومتوسلین اور معتقدین کے آنے والے خطوط کے جوابات لکھواتے۔
حضرت امام اہلسنت رحمہ اﷲ اپنی عمر کے آخری ایام میں بہت زیادہ تکالیف ومصائب کا شکار رہے۔ آہستہ آہستہ بستر سے اُٹھنا بھی موقوف ہوگیا ۔ وقت تیزی سے جانب منزل سفر کررہا تھا زندگی کی طنا بیں کھنچی جارہی تھیں فاصلے تیزی سے سمٹ رہے تھے۔ شاہ جی رحمہ اﷲ کا استغراق بڑھتا گیا حتیٰ کہ 23اکتوبر 1995ء کی شام آگئی جو حلقہ احرار کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ آپ کو آخری تدبیر کے طورپر ملتان کے معروف سیال کلینک لے جایاگیا وقت موعود آچکا تھا۔ سیال کلینک کے ایک کمرہ میں وقت کا عظیم مفکر ومدبر تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ناموس صحابہ کا عظیم سپاہی اورمحافظ مجدد الاحرار حضرت مولانا امام سید ابومعاویہ ابوذر شاہ بخاری رحمہ اﷲ اپنے رب کے حضور پہنچنے کیلئے بڑی بے تابی کے ساتھ جان جان آفریں کے سپر د کررہا تھا، شاہ جی رحمہ اﷲ کے چہرہ پر سکون واطمینان کی لہر رقم تھی۔ آ پ نے آخری تین سانسوں میں تین مرتبہ اﷲ اﷲ اﷲ کہا ۔ آخر کار رات کے 10بج کر 40 منٹ پراسلام کے اس عظیم فرزندنے اس دنیا فانی سے آنکھیں موزو لیں او رروح یا ایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ کی نداء پر لبیک کہتے ہوئے قفس عنصری سے نکل کر عاِلم جاوداں کو پہنچ گئی۔ ایک عہدساز انسان عالم فناسے عالم بقا کو چلاگیا تاریخ کا ایک سنہرا باب ختم ہوگیا ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری رحمہ اﷲ نے اس وقت غم سے نڈھال ہوکر فرمایا کہ اس شخص نے تمام زندگی دین کی خدمت کی ہے، بے شک اس نے جینے کا حق ادا کردیا۔
آپ کو آپ کے فرز ندان گرامی جناب محسن ومربی مولانا حافظ سید محمد معاویہ شاہ بخاری مدظلہ او ر سید محمد مغیرہ شاہ بخاری نے مل کر غسل دیا۔ آپ کی نماز جنازہ سپورٹس گراؤنڈ ملتان میں آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے مادرعلمی جامعہ خیرالمدارس ملتان کے مولانا مفتی عبدالستار رحمہ اﷲ نے پڑھائی اس کے بعد آپ کو جلال باقری قبر ستان میں والد ماجد حضرت امیر شریعت مولانا سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہ اﷲ او روالدہ ماجد ہ سیدہ ام الاحرار رحمہ اﷲ علیہا کے درمیان میں سپرد خاک کیا گیا۔شا ہ جی رحمہ اﷲ نے ساری عمر جس عزیمت واستقامت سے گزاری وہ انہی کا حصہ تھا تحریک ختم نبوت 1953ء میں ہو یاتحریک تحفظ ختم نبوت 1974ء ہو،دہریت، لادینیت کافرانہ نظام ہائے زندگی ہوں یا اباحت پسندی کے خلاف محاذ، تحریک مدح صحابہ ہویا تحریک تجدید اسماء الصحابہ، خارحیت ورافضیت وسبائیت اور ناصبیت کے خلاف محاذ ہویا قادیانیت کا استیصال…… غرض ہر تحریک میں قائدانہ کردار ادا کیا ۔ اَلّٰھُمَّ اغْفِرْلَہ‘ وَارْحَمْہ‘ وعَافِہ‘ وَاعْفُ عَنْہ‘