سیف اﷲ خالد
معلوم ہے کہ حالات بہت دگرگوں ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ مشرف سے صرف ذاتی رنجش ہے اس کی پالیسیوں سے کسی کو اختلاف نہیں، ورنہ جو اس نے 2001ء میں کیا نواز شریف اس کے لیے 1999ء میں تیار تھے،اور اس سے بھی بری اور ذلت آمیز شرائط پر۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ،فرق صرف اتنا ہے کہ وہ جو چاہتا تھا کھل کر کہتا تھا، یہ جو چاہتے ہیں وہ زبان پر نہیں لاتے،ملک سے دینی اقدار کا جنازہ نکالنا اور لبرل اباحیت کو مسلط کرنا مشرف کا مشن تھا تو ان کا عقیدہ ہے۔ اس کی حکومت میں قادیانیوں کو اہمیت حاصل تھی تو ان کے دور اقتدار میں بھی وہ ایوان اقتدار کی مونچھ کا بال ہیں۔لیکن نوبت یہاں تک پہنچے گی؟ اس کا کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ 18کروڑ مسلمانوں کے اس ملک میں قادیانی جماعت ملکی پالیسی کے فیصلے کرے گی۔سمجھ بالا تر ہے کہ قادیانی جماعت کا سربراہ پیمرا کو خط لکھتا ہے اور دو ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے ختم نبوت پر پروگرام کرکے قادیانیوں کی دل شکنی کی ہے۔اگر پیمرا اس پر پریس ریلیز جاری ناکرتا تو شاید یقین ہی نا آتا۔ مگر دیدہ دلیری کی حد ہے کہ مسلمانوں کوطمانچہ مارا جارہا ہے کہ تمہیں ختم نبوت کا نام لینے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ بات ایک جعلساز، جھوٹے، بدکردار،اور بد عقیدہ شخص کے ماننے والوں کو بری لگی ہے۔ یہ وہی پیمرا ہے،جس کی موجودگی میں ایک ٹی وی چینل گھنٹوں ملکی سلامتی کے ذمہ داران پر قتل کا الزام لگاتا رہا اور پیمرا گہری نیند سویا رہا، نجی چینلوں پر ملک کو گالیاں دی جاتی ہیں،ملکی اداروں کے خلاف پروپگنڈہ ہوتا ہے اور اس کی چپ نہیں ٹوٹتی۔ یہ وہی ہے نا جس کی موجودگی میں ایک چڑی ما ر دانش چور بھارتی را کے قصیدے پڑھتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں، روز اس ملک کی نظریاتی اساس پر حملے ہوتے ہیں، افواج کی تذلیل کی جاتی ہے، دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے،ثقافت کے نام پر بھارتی کنجروں کی منڈیاں سجائی جاتی ہیں، برہنگی اور عریانیت کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اشتہارات کے نام پر بد اخلاقی کا مقابلہ ہوتا ہے، ٹاک شوز کے نام پر ملکی نظام سے لیکر خاندانی نظام تک پرحملے ہوتے ہیں، ملک کو انتشار میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر پیمرا کی نیند میں خلل نہیں پڑتا،مگر ختم نبوت کے ذکر پر قادیانی جماعت کے سربراہ کو تکلیف ہوتی ہے تو یہ ہڑبڑا اٹھتا ہے اورٹی وی چینلز کے سر پر نوٹس کی لتھ دے مارتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس روز یعنی 7ستمبر کو کیا ہوا تھا؟دوسرے یہ کہ ان پروگرامز میں کیا بات ہوئی؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس روز پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے قادیانی فتنہ کو مسلمانوں سے الگ، غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ دوسرے یہ کہ ان پروگرامز میں اسی فیصلہ کو سراہتے ہوئے عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیوں کی ٹھگی، چوری اور دھونس پر بات کی گئی۔ تو کیا قومی اسمبلی کی کارروائی کا، اس کے فیصلوں کا ذکر جرم ہے؟ کیا آئین پاکستان کی بات کرنا جرم ہے؟کیا قومی اسمبلی کے فیصلوں کی تعریف کرنا جرم ہے؟ قادیانی گماشتے بتائیں کہ اس کے سوا ان ٹی وی شوز میں کیا ہوا؟ دونوں پروگرام ایک سے زیادہ بار دیکھے، ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں جس کی میزبانی ایک سابق جج کر رہے ہیں، مرزا ملعون کے لیے مرزا صاحب کا لفظ استعمال ہوا، اور جناب متین خالد نے مرزا کی کتابوں پر بات کی اور قادیانیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بانی کی کتابیں ضرور پڑھیں،اور انہیں کتابوں میں مرزا نے مسلمانوں کو جو گالیاں دی، جن کا قومی اسمبلی میں بھی تذکرہ ہوا، ان کا ذکر بھی اسی کارروائی کے تناظر میں ہوا۔اس میں دل شکنی والی کونسی بات ہے؟۔ دوسرے پروگرام میں بھی عقیدہ ختم نبوت پر بات کی گئی اور قادیانی مذہب کی تاریخی حیثیت پر دستاویزی ریکارڈ کے مطابق رپورٹ نشر کی گئی، اس میں توہین آمیز مواد کہاں ہے اور کیا ہے؟ قادیانی جماعت کیوں چیخی؟ تکلیف کس سے ہوئی، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کیونکہ ان دنوں یہ اپنے جعلی، جھوٹے عیار اور مکار راہنما اور مدعی نبوت کی کتابوں کو چھپاتے پھرتے ہیں کیونکہ جو بھی انہیں پڑھتا ہے، وہ لعنت بھیج کر قادیانیت چھوڑ دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تمہارے ا س جاہل مطلق نے گالیاں لکھی ہیں تو اس کی قبر پرجوتے مارو، ہمارا کیا لینا دینا اس سے۔اور اگر تاریخی دستاویز تمہیں انگریز کا خود کاشتہ پودا ثابت کر رہی ہیں تو اپنے روحانی والد اور قبلہ برطانیہ سے احتجاج کرو کہ اس نے انڈیا آفس لائبریری میں یہ مواد رکھا ہی کیوں ہے،؟ جو تمہاری اوقات دنیا کو بتا رہا ہے۔ پیمرا نے جو واردات کی ہے شائد اسے اس کے نتائج کا اندازہ نہیں یہی ٹی وی چینل اس نوٹس کے خلاف عدالت میں چلے جائیں تو پیمرا کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ پیمرا کے لال بھجکڑ شاید نہیں جانتے کہ قومی اسمبلی کے جس فیصلہ کا تذکرہ وہ روکنا چاہتے ہیں، اسے نہ وہ روک سکتے ہیں نہ رول بیک کر سکتے ہیں، اس کے پیچھے قادیانیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے ہزاروں شہدا کا لہو ہے۔ اور یہ معاملہ کسی اور سے متعلق نہیں، اس کا تعلق آقا دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت سے ہے۔جس کے لیے ایک مسلمان اپنی اولاد، ماں باپ، مال، دولت اور زندگی تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ پیمرا نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ سب کومعلوم ہے،وزیر اطلاعات کی نظریاتی سمت بھی ڈھکی چھپی نہیں،حکومتی رکن اسمبلی الیاس چنیوٹی صاحب کا سینٹ الیکشن کے موقع پر ان کے حوالہ سے لکھا گیا خط ہی کافی ہے، حکومت کے پالیسی سازوں میں کون کون چناب نگر کا خوشہ چیں ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں، اور خود حکمرانوں کی دوستیاں جن لابیوں سے ہیں وہ بھی کوئی خفیہ داستاں نہیں،لہٰذا پیمرا قیادت ہوش کے ناخن لے ملک کو آگ اور خون کی طرف دھکیلنے سے باز رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کم از کم سربراہ پیمرا سے لاکھوں گنا زیادہ فہم و فراست کے مالک تھے انہوں نے ملک کو فسادات اور قادیانی سازشوں سے بچانے کی خاطر یہ معاملہ اسمبلی میں بھیجا، اور اسمبلی میں اس وقت جو سیاسی قیادت تھی وہ آج کی طرح عقل و خرد سے عاری اور بکاؤ مال نہیں تھی،جس نے 13دن کی بحث کے بعد ایک فیصلہ سنایا۔ طے شدہ معاملہ کو چھیڑنے سے گریز ہی بہتر ہے۔ پیمرا ایسی چنگاریوں کو ہوا نہ دے جنہیں خون دیکر بجھایا گیا ہے۔ پیمرا کو یہ نوٹس 18 کروڑ مسلمانوں کے ایمان کی توہین ہے،ایک معمولی مگر سازشی اقلیت کے پیچھے لگ کر ملک کو بد امنی کی جانب دھکیلنے سے باز رہنا چاہئے۔یاد رکھیں کہ مسلمان اپنے اس عقیدہ کے خلاف کسی کی بھی سننے کو تیار نہیں کہ
کتاب ہستی کے سرورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا، وجود لوح و قلم نہ ہوتا
(مطبوعہ:روزنامہ اوصاف، 20 ستمبر 2016)