محمد اورنگ زیب اعوان(ہری پور)
حضرت پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری قدس سرہ کے سانحہ وفات کی خبر سن کر قلم برداشتہ یہ تحریر ’’فیس بک ‘‘کی نذر کی……باوجود خواہش کے اس میں مزید اضافہ نہ کر سکا۔آج 21اگست 2021ء بروز ہفتہ بکھری یا دو ں کو مجتمع کرنے کی کو شش کر رہا ہو ں، اﷲ تعالیٰ آسانی فر مائیں۔آج امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کا 60واں یوم وفات بھی ہے۔اﷲ تعا لیٰ شاہ جی کے درجات بلند فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائیں،آمین
پیر جی کی پہلی زیارت 1994ء میں ہو ئی، احقر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ ختم نبو ۃ کانفرنس چنا ب نگر میں شریک تھا۔ مولانا سعید الرحمٰن علوی (متوفیٰ 20 اکتوبر 1994ء)اور جناب سید محمد کفیل بخاری نے فرمایا کہ حضرت پیر جی مرکز احرار میں تشریف لائے ہو ئے ہیں ان سے ملنا ہے تو آجاؤ۔ میری تو کب سے آرزو تھی کہ پیر جی کی زیارت ہو۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے بڑے تینو ں صاحبزادوں کی زیارت تو کر چکا تھا مگر پیر جی کے قیام ِ مدینہ منورہ کی وجہ سے ان کے دیدار سے محرومی ہی رہی……اب جو ان حضرات سے یہ مژدہ جانفزا سنا تو جھٹ سے ان کے ساتھ ہو لیا۔ مر کز احرار پہنچے تو حضرت پیر جی اپنی تمام تر رعنائیوں و زیبائیو ں کے ساتھ رونق افروز تھے۔پیر جی کو دیکھتے ہی جگر مراد آبادی کا یہ شعر یاد آ گیا
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے،جہاں ہوتا ہے اہل دل کے لیے سرمایہ جاں ہوتا ہے
تقریبا ًایک گھنٹہ ان کی علمی و روحانی مجلس میں گذرا، گفتگو تو بڑے حضرات ہی کی رہی میں تو بس پیر جی کے چہرے اور اداؤں ہی کے سحر میں گم رہا۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے،وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہو ں، مگر ایسے بھی ہیں
پیر جی کی دوسری زیارت اس وقت ہو ئی جب مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام لاہو ر کے ایک ہو ٹل میں اجلاس تھا،مولانا سید عطا ء المومن بخاری (متوفیٰ 22اپریل 2018ء) اور پیر جی بھی اس اجلاس میں شریک تھے جوکہ مجلس احرار اسلام کی نمائندگی کر رہے تھے۔خطیب احرار مولانا محمد مغیرہ کی وساطت سے مجھے بھی فرزندان امیر شریعت سے مصافحہ اور گفتگو کا موقعہ ملا۔
اس اجلاس کا آغاز مولانا سید عطا ء المومن بخاری ؒکی تلاوت قر آن مجید سے ہوا تھا۔ احقر نے پہلی دفعہ انہیں یوں جھوم جھوم کے تلاوت کرتے سنا ۔سوچتا ہی رہ گیا کہ فرزند امیر شریعت کی تلاوت کا یہ انداز ہے تو خود حضرت امیر شریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒ تلاوت فرماتے ہو ں گے تو کیا سما ں بندھتا ہو گا…… سبحان اﷲ
برادر مکرم سید محمد کفیل بخاری مدظلہ العالی کی وساطت سے پھر بار ہا پیرجی کی خدمت میں حاضری کے مواقع ملے۔میں ایک دفعہ ملتان دار بنی ہاشم حاضر ہو اتو حضرت پیر جی خود گھر سے ناشتہ لے کر آئے، کسی کارکن نے آگے بڑھ کر برتن لینے چاہے تو پیر جی نے فرمایا یہ میرے مہمان ہیں، ان کی خدمت بھی مجھے ہی کرنے دو۔اپنے ہا تھو ں سے چائے بنا کر دی، کبھی فرماتے یہ بھی کھاؤ،کبھی فرماتے یہ شہد بھی لو، یہ انڈہ بھی کھاؤ۔ ایک ایک لقمہ ان کی محبت اور اپنا ئیت میں ڈوب کر کھایا…… ماؤں جیسی شفقت تھی پیر جی کی اداؤں میں،اﷲ تعالیٰ غریق رحمت فرمائیں۔
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
Kہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
Eایک دفعہ اپنے ذاتی کام کے سلسلہ میں ملتان جا نا ہو ا،دار بنی ہاشم بھی حاضری ہو ئی،پیر جی دفتر میں تشریف فرما تھے، مجھے دیکھتے ہی مسکرا کر فرمایا اچھا ہوا مولوی اورنگ زیب تم آگئے وگرنہ میں تو چناب نگر جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ برادرم سید عطا ء المنان بخاری پاس بیٹھے کسی معاملہ میں ضد کر رہے تھے اور پیر جی انھیں سمجھا رہے تھے، اس وقت ان کی عمر بمشکل 14،13 برس ہو گی۔پیر جی ساتھ ساتھ پان بھی بنا رہے تھے۔ فرمانے لگے پان کھاؤ گے؟عرض کیا جی حضور،آپ کے ہا تھو ں پان،یہ تو سعادت ہے مگر میٹھا پان بنا دیں۔جھوم کے فرمانے لگے ہاں ہاں وہی بنا کے دوں گا۔ برادرم سید شہاب الدین شاہ صاحب بھی ساتھ تھے، عرض کرنے لگے شاہ جی!میں تو چائے پیو ں گا۔ پیر جی نے اپنے مخصوص انداز میں ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ضرور ضرور کیو ں نہیں، چائے بھی پلاؤں گا۔ کچھ دیر میں چائے بھی آگئی۔ ہم احراری اور بخاری چائے سے لطف اندوز ہو ئے تو پیر جی نے مسکرا کر فرمایا آپ لوگ کفیل شاہ سے گپ لگائیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں نے آگے سفر کرنا ہے۔ مانسہرہ کے قریب معروف جگہ ہے، شنکیاری ،وہاں کے بزرگ عالم دین مولانا سید نواب حسین شاہ صاحب ؒ اکثر پیر جی کو اپنے ہاں پروگرامو ں میں بلایا کرتے تھے، انتہائی مہمان نواز اور مخلص انسان تھے۔ جب بھی انہوں نے پیر جی کو دعوت دی آپ نے قبول فرمائی اور ان کے ہا ں تشریف لائے۔ اہلیان علاقہ بڑے جوش وخروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ پیر جی کی زیارت اور ان کے خطاب و ملفو ظات سے مستفید ہونے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔
ایک دفعہ شنکیاری سے واپسی پرحضرت پیر جی نے غریب خانہ کو رونق بخشی،رات تقریبا 12بجے کے وقت، میں کھانا لگا رہا تھا کہ سالن کا ڈونگا میرے ہاتھ سے گرا اور ٹوٹ گیا، گوشت سارا فرش پہ ۔میں پریشانی اور حواس باختگی کے عالم میں کپکپانے لگا کہ یہ کیا ہو گیا۔ فرمانے لگے مولوی اورنگ زیب!پریشان کیوں ہو رہے ہو، یہ ہمارے نصیب میں نہیں ہو گا اس لیے گر گیا۔میں نے اندر جا کر اہلیہ کو صورتحال بتائی، اس نے دوسرا ڈونگا بنا کر دے دیا، اب جو پیر جی نے کھانا شروع کیا تو ایک ایک لقمے پہ فرماتے دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام، ہمارے نصیب میں یہ تھا وہ نہیں، اس کو کہتے ہیں مقدرات۔ مولوی اورنگ زیب!تم تو ایسے ہی پریشان ہو گئے۔ جو رزق انسان کے مقدر میں ہوتا ہے وہ اسے مل کے رہتا ہے اور جو مقدر میں نہیں ہوتا وہ انسان نہیں کھا سکتا۔ صبح ناشتہ کر رہے تھے تو فرمانے لگے مولانا قاضی ارشد الحسینی صاحب (اٹک) سے رابطہ کرو ا ن سے ملنا ہے۔ قاضی صاحب سے رابطہ ہوا تو فرمانے لگے میں گھر والو ں کے ہمراہ کہیں سفر پہ جا رہا ہو ں۔ بہتر یہی ہے کہ حسن ابدال کیڈٹ کالج میں ملاقا ت کر لیتے ہیں۔ آپ کو بھی آسانی ہو گی اور مجھے بھی سہولت۔ پیر جی سے عرض کیا تو فرمانے لگے ٹھیک ہے ملاقات ہی کرنی ہے، وہیں چلے چلتے ہیں۔میرا بیٹا محمد اسامہ سرور بھی جانے کے لیے تیار ہو گیا اور کہنے لگا میں بھی ساتھ چلو ں گا۔ اس وقت اس کی عمر بمشکل 7،8برس ہو گی،پیر جی نے اس کے گال تھپتھپائے اور فرمایا کیو ں نہیں ضرور، اسامہ تو اسامہ ہے اسے ساتھ نہیں لے جائیں گے تو اور کسے لے جائیں گے۔پیر جی نے ایک کاغذ پر کچھ تحریر فرمایا، ساتھ ہی رقم بھی رکھی، اسے لفافے میں ڈالا اور فرمانے لگے قاضی صاحب ہماری کانفرنس پر تشریف لائے تھے،جلدی میں ہم ان کو کرایہ بھی نہ دے سکے، اب اس علاقے کا سفر ہے تو سوچا ان کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کردیا جائے۔ تو یہ وہ ہدیہ ہے جو ان کی ا مانت تھا،اس لیے ان سے ملا قات ضروری ہے۔کیڈٹ کالج حسن ابدال پہنچے۔ جہا ں ان کے چھو ٹے بھائی مولانا قاضی ثاقب الحسینی پروفیسر ہیں اور وہا ں کی مسجد کے خطیب بھی۔ قاضی صاحب گھر سے باہر ہی ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔پیر جی کی تشریف آوری پر بہت خوش ہوئے،چائے وغیرہ سے تواضع کی۔ پیر جی نے ’’لفافہ‘‘ پیش کیا اور ساتھ معذرت بھی کہ ہم آپ کی خدمت نہ کر سکے اس کی تلافی کے لیے حاضر ہو اہو ں۔ قاضی صاحب نے مسکراتے ہوئے دونو ں ہاتھو ں سے لفافہ وصول کیا، اسے چوما،آنکھو ں سے لگایا اور سر پہ رکھ کر فرمانے لگے یہ تو میری سعادت ہے ،خوش قسمتی ہے۔ پیر جی بھی مسکراتے رہے۔ کچھ دیر بعد ہم نے اجازت لی،انہو ں نے ایک شاپر میں امرود ڈال کر دیئے، فرمایا یہ میری طرف سے ہدیہ ہے۔گاڑی روڈ پر پہنچی تو فرمایا قاضی صاحب سے ملا قات تو ہو گئی، ہدیہ بھی پیش کر دیا مگر ان کے والد ماجد امام الزاہدین حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینی ؒ کے مزار پر بھی حاضری دینی ہے۔ وہ دارلعلوم دیوبند کے فاضل،شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد اور امام الاولیا ء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے اور حضرت والد ماجد سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کے بھی عقیدت مند تھے۔ اس لیے ان کے ہاں بھی حاضری ضروری ہے۔چنانچہ ہم کامرہ سے اٹک کی طرف مڑ گئے۔ اٹک جامعہ مدنیہ پہنچے تو حضرت قاضی صاحب ؒکے صاحبزادگان نے حضرت پیر جی کا آگے بڑھ کر استقبال کیا، دفتر استقبالیہ میں بیٹھے، پر تکلف چائے سے انہوں نے تواضع کی۔ قاضی صاحب کے ایک نواسے نے خیر وبرکت کا تعویز مانگا ،پیر جی نے وہ عنایت فرمایا۔ ساتھ ہی حضرت قاضی صاحب کی قبر ہے۔وہاں کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔
پیر جی فرمانے لگے اب اکوڑہ خٹک جانا ہے۔ مولانا شیر علی شاہ صاحب سے ملنا ہے۔ انھیں فون کیا تووہ گھر پہ ہی تھے فرمانے لگے بہت خوشی کی بات ہے تشریف لائیں۔حسن ابدال سے اکوڑہ خٹک تک کا سفر باتو ں میں ہی کٹا۔ اپنے بچپن کے کئی واقعات سنائے، نماز با جماعت کی پابندی، قرآن مجید کی تلاوت، والد گرامی حضرت امیر شریعت ؒکی شفقتیں، سائیکل چلانا، جسم پہ ایک پھوڑے کا نکلنا اور پھٹنا، سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری ؒکی نیلی آنکھیں، سید عطا ء المحسن بخاری ؒکی غلافی آنکھیں، بھائیو ں کی شفقتیں،غرض یہ کہ بے شمار واقعات سنائے جو میں نے گھر آکر ڈائری میں نوٹ کر لیے۔ (طبیعت کبھی سنبھلی تو انھیں بھی سینہ قرطاس کی نذر کر دو ں گا)۔
(یہاں تک لکھ پایا کہ پھر بیماری نے آدبوچا۔ آج 11 نومبر 2021ء بروز جمعرات ایک دفعہ پھر کاغذ قلم سنبھالا،گو کہ پڑھنا لکھنا مشکل ہو گیا ہے مگر پیر جی ؒ کا حق ہے کہ ان پر لکھا جائے،ان سے وابستہ یادو ں کو محفوظ کیا جائے۔صدہا مبارک باد کے مستحق ہیں مخدوم گرامی سید محمد کفیل بخاری مدظلہ العالی جنہو ں نے انتہائی مختصر وقت میں ’’نقیب ختم نبوت ‘‘کی خصوصی اشاعت کا اہتمام فرمایا۔432صفحات پر مشتمل یہ اشاعت خاصے کی چیز ہے جس میں 100سے زائد شخصیات کے تعزیتی مضامین 16شخصیات کے تعزیتی مکاتیب،7 شخصیات کے تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔ اﷲ تعا لیٰ سبھی کو جزاء خیر عطا فرمائیں۔)
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب مدنی ؒ کے ہاں پہنچے تو وہ بڑی بے تکلفی اور اپنائیت سے پیش آئے۔ ان کے صاحبزادے مولانا امجد علی شاہ صاحب بھی پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے۔ دوستوں کی محفل جمی، گپ شپ بھی خوب رہی، قیام مدینہ منورہ کی یادو ں سے تینوں حضرات دل کو بہلاتے رہے۔اور ہم ان کی باتوں سے لطف اٹھاتے رہے۔دن کا کھانا وہیں کھایا، ڈاکٹر صاحب نے کچھ اور علماء کو بھی بلُا رکھاتھا۔ مجلس احرار اسلام کی تاریخ، قربانیو ں اور تحفظ ختم نبوت کی سنہری جدو جہد کے تذکرے ہوئے۔ ہر لحاظ سے یہ ایک یادگار محفل تھی۔ امیر شریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری کی جرأت و بہادری اور خطابتی معرکو ں کا تذکرہ ہو تا تو ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی۔ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر وہیں کچھ دیر پیر جی نے آرام فرمایا۔شام کے قریب واپسی کی اجازت ملی، پیر جی کا رات راولپنڈی پروگرام تھا،حسن ابدال پہنچ کر ہم نے اجازت لی، پیر جی نے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور عزیزم اسامہ سرور کی جیب میں ڈالتے ہو ئے فرمایا یہ تمہارے لیے ہیں کسی اور کو مت دینا۔ پیر جی راولپنڈی کے لیے روانہ ہو گئے اور ہم گھر واپسی کے لیے ویگن میں جا بیٹھے۔
تیری قربت کے ایک لمحے کو میں نے لکھا ہے سال رنگوں کا
میرا قیام جب پشاور میں تھا تو دو دفعہ پیر جی ؒ کو سفر پشاور کی زحمت دی۔ پہلی دفعہ تو مرکز علوم اسلامیہ راحت آباد میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ کی یا د میں ’’امیر شریعت سیمینار ‘‘کا انعقاد کیا تو پیر جی کو دعوت دی۔مخدوم مکرم جناب سید محمدکفیل بخاری کی شفقت کہ پیر جی ہمارے اس پرو گرام میں تشریف لائے۔مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہؒ صاحب صوبائی اسمبلی کے اسپیکر جناب اکرام اﷲ شاہد (مولانا مدرار اﷲ مدرار کے صاحبزادے) ممبر صوبائی اسمبلی جناب حکیم محمد ابراہیم قاسمی و دیگر علما ء کرام نے اس پرو گرام کو زینت بخشی۔ مولانا راحت گل صاحب ؒاور ان کے صاحبزادو ں مولانا سید العارفین اور قاری شبیر احمد الازہری نے میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے۔ شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالستار مروت دامت برکاتہم نے انتظامی امور کی نگرانی فرمائی۔
ہری پور سے برادرم قاضی فہیم احمد قریشی مر حوم بھی اپنے رفقاء سمیت تشریف لائے تھے۔ پیر جی پروگرام سے پہلے بھی غریب خانہ پہ رونق افروز ہوئے۔ اور پروگرام کے بعد بھی رات کا قیام فرمایا،صبح ناشتہ کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ہمارا یہ پروگرام ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ الحمدﷲ ثم الحمدﷲ۔ پیر جی اور کفیل بخاری بھی اس سے بہت خوش تھے۔ پیر جی نے بہت زیادہ دعاؤں سے نوازا۔دوسری دفعہ ’’اسلامک ایجوکیشنل اکیڈمی‘‘کی افتتاحی تقریب میں پیر جی تشریف لائے۔ یاد گا ر اسلاف مولانا سعید الدین شیرکوٹی ؒکے ہاں کھانے کا پرو گرام تھا۔ حسن گڑھی سے وہا ں تشریف لے گئے۔ نماز ظہر ادا کی، ماحضر تناول فرمایا۔ مولانا شیر کوٹی مرحوم نے امیر شریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒسے وابستہ یادو ں کا گلستاں مہکایا۔خوب محفل جمی۔ وہا ں سے مولانا شیر کو ٹی مرحوم اور پیر جی ؒ جلسہ گا ہ تشریف لائے۔ مولانا اکرام اﷲ جان قاسمی، ؒمولانا عبدالقیو م حقانی،پرو فیسر محمد اسماعیل جان سیفی ؒ،مولانا یعقوب القاسمیؒ، مفتی محمود الحسن مانسہروی،مولا نا ڈاکٹر عبدالستار مروت ودیگر نے آپ کا استقبال کیا۔پیر جی نے اپنے خطاب میں ہماری اس کا وش کو سراہا،ملکی حالات پہ تبصرہ فرمایا، دعاؤں سے نوازا، ہمارے کہے بغیر خود ہی حاضرین جلسہ کو ادارہ کے ساتھ مالی تعاون کی تر غیب دی، سب سے پہلے خود اس میں 500 روپے رکھے۔اﷲ اﷲ کیا شفقتیں تھیں اور کیا عنا یات تھیں۔اب یہ شفقتیں اور عنایات کہاں؟پروگرام کے بعد اکیڈمی تشریف لائے، سرپر ستی قبول فرما ئی،سلیبس کے متعلق ہدایات ارشاد فرمائیں۔رات کا کھانا پرو فیسر محمد اسماعیل سیفی صاحب کے گھر تھا، وہا ں تشریف لے گئے۔ پروفیسر صاحب بھی پرانے احراری تھے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ سے وابستہ اپنی یا دیں کھنگالیں اور خوب محفل جمی۔رات کا قیام غریب خانہ پر تھا۔ صبح نماز کے بعد میری اہلیہ کو بیعت فر مایا اور سلسلہ کے اسبا ق ارشاد فر مائے۔ اسی اثنا ء میں محترم مولانا محمد الیاس گھمن صاحب تشریف لے آئے۔ اس وقت تک انہو ں نے اپنی جماعت ’’اتحاد اہل السنتہ والجماعۃ‘‘ نہیں بنائی تھی۔ مختلف امور پر پیر جی ؒ سے مشاورت فرمائی۔ نماز ظہر کے بعد جامعہ ابو ہریرہ خالق آباد نو شہرہ میں پروگرام تھا۔ وہاں کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں مسجد قاسم علی خان پشاور کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی صاحب سے ملاقات ہوئی انہو ں نے شہد اور با دام کا ہدیہ پیش کیا۔جامعہ ابوہریرہ پہنچے تو مولانا عبدالقیو م حقانی اور ادارہ کے طلباء نے بھر پور استقبال کیا۔ لائبریری میں ٹھہرانے کا انتظام تھا۔ جہا ں مولانا سمیع الحق صاحب ؒکے بھائی مولانا انوار الحق،مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ المدنی ؒ،مولانا قاضی ارشد الحسینی ،مولانا حامد الحق حقانی ودیگر علماء کرام بھی تشریف لے آئے۔
نماز ظہر کے بعد پروگرام کا آغاز ہو ا۔ پیر جی کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ پیر جی نے اپنے خطاب میں مجلس احرار اسلام کی خدمات اورتحریک ختم نبوت میں قائدین احرار کی خدمات کے حوالہ سے سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ یہاں سے واپسی پر ہم پیر جی کے ساتھ کامرہ تک گئے۔ ہمارے ساتھ قاضی محمد ارشد صاحب بھی تھے۔ وہاں عثمانیہ ریسٹورنٹ میں قاضی صاحب نے چائے کا انتظام کر رکھا تھا۔ اٹک کے کچھ احباب بھی تشریف فرماتھے۔ وہاں سے پیر جی راولپنڈی کے لیے روانہ ہو گئے اور ہم واپس پشاور پلٹ آئے۔
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
ایک دفعہ گوجر خان ضلع راولپنڈی میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ پیر جی ؒ اس کے مہمان خصوصی تھے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے حضرت مولا نا اﷲ وسایا صاحب اورمولانا پیر عزیز الرحمٰن ہزارویؒ بھی تشریف لائے ہو ئے تھے۔
پروگرام سے پہلے بھی پیر جی کی خدمت میں حاضری ہو ئی۔ بہت خوش ہوئے۔پروگرام سے پہلے غسل فرمایا، کنگھا کیا، خوشبو لگائی۔ پرو گرام میں تشریف لے گئے تو استقبال کا منظر دیدنی تھا۔ یاد گار اسلاف مولانا عبدالمتین صاحبؒ اور ان کے شاگردو ں نے بھرپور انداز میں اپنی محبتیں اور عقیدتیں نچھاور کیں۔پیر جی نے اپنے خطاب میں منکرین ختم نبوت کے شبہات کے جوابات ارشاد فرمائے اور دوران خطاب فرمایا کہ یہ بخاری میزائل ہیں قادیانی ان کا سامنا نہیں کر سکتے۔پروگرام کے بعد جائے قیام پہ تشریف لائے۔ احقر ساری رات پیر جی کے ساتھ بیٹھا رہا۔ مختلف امور پہ گفتگو رہی۔ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پو ریؒ ودیگر بزرگو ں کی باتیں سناتے رہے۔ طبیعت بالکل ہشاش بشاش تھی۔ اپنے بھی کئی واقعات سنائے، نماز تہجد ادا فرمائی، فجر کے بعد اپنے اذکار میں مصروف ہو گئے۔ اشراق کے بعد ناشتہ کیا اس کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا۔بعد میں حضرت رائے پو ریؒ کے خلیفہ مجاز ڈاکٹر محمد حسین تمیمی للّٰہی سے ملنے ان کی خانقاہ تشریف لے گئے۔بعد میں کفیل شاہ جی سے معلوم ہو اکہ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے پیر جی کو اپنی طرف سے خلافت بھی عطا فر مائی۔بعد میں ایک دفعہ میں نے اس خلافت کے حوالہ سے عر ض کیا تو پیر جی چونک پڑے اور بڑی حیرانگی سے دیکھتے ہو ئے فرمایا۔مولوی!تمہیں کس نے بتایا ہے اس خلافت کا؟میں نے عر ض کیا، جی کفیل شاہ جی نے بتایا تھا۔فوراً استغفار کے کلمات زبان پر جاری ہو گئے اور فرمایا اب تم کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔بس اﷲ تعالیٰ اپنا قرب اور معرفت نصیب فرما دیں یہی سب سے بڑی دولت اور نعمت ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اﷲ کی برہان
پیر جیؒ کی کس کس شفقت کو تحریر کیا جائے؟ لاہو ر اور چناب نگر کی سالا نہ کا نفرنسو ں کے اشتہارات بھی بھیجتے، گرامی نامہ بھی اور خود کال کر کے شرکت کی دعوت بھی دیتے۔ جب بھی ان کانفرنسو ں میں حاضری ہوئی، بہت شفقت فرماتے۔ بیان بھی کراتے اور واپسی پہ کرایہ بھی عنایت فرماتے۔میں پشاور میں قیام پذیر تھا کہ مخدوم گرامی جناب سید محمد کفیل بخاری صاحب نے فرمایا پیر جی کا حکم ہے کہ تم خود بھی کانفرنس میں شریک ہو اور فیصل آباد سے صاحبزادہ طارق محمود صاحب کو بھی ساتھ لے کر آؤ۔یہ چناب نگر کی سالا نہ ختم نبوت کانفرنس تھی جو ماہ ربیع الاول میں منعقد ہوتی ہے۔ اس حکم کی تعمیل میں میں پہلے فیصل آباد پہنچا وہا ں سے صاحبزادہ صاحب مر حوم کو ساتھ لیا اور چناب نگر حاضر ہوئے۔پیر جیؒ بہت خوش ہو ئے۔ واپسی پر مسکراتے ہو ئے فرمایا تمہاری تشکیل صحیح رہی، اﷲ خوش رکھے، سلامت رہو۔ جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ نو ٹ نکال کر میری جیب میں ڈال دیئے، فرمایا یہ تمہارا انعام ہے۔ صاحبزادہ طارق محمود صاحبؒ کو محترم سید محمد کفیل بخاری کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔ صاحبزادہ صاحب لینے سے انکار کر رہے تھے۔ کفیل شاہ جی نے فرمایا یہ پیر جی کا حکم ہے اور ان کی طرف سے میں آپ کو یہ رقم پیش کر رہا ہو ں۔ اس پر صاحبزادہ طارق محمود صاحبؒ نے فرمایا کہ یہ میرا پیر خانہ ہے، سر کے بل بھی چل کے آنا پڑا تو میں آؤں گا، مگر کرایہ لوں، یہ نہیں ہو سکتا۔ کفیل شاہ جی کے شدید اصرار کے باوجود انہو ں نے وہ رقم نہ لی ۔واپسی پر بھی میں ان کے ساتھ تھا از راہ تفنن عرض کیا شاہ صاحب اتنا اصرار کر رہے تھے،لے لیتے۔ ہنس کہ فرمایا! خودداری بھی تو آخر کوئی چیز ہے۔اس خانوادے کے ساتھ ہمارا رو حانی اور قلبی تعلق ہے۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی اولا د ہمیں اپنے پروگرامو ں میں بلائے اور ہم ان سے کرایہ لیں۔ یہ ہو نہیں سکتا ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایا ں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں گئیں
اسی طرح 7ستمبرکو لا ہو ر دفتر احرار اسلام میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس تھی۔ سید محمد کفیل بخاری نے پیر جیؒ کے حکم پر مجھے ارشاد فرمایا کہ تمہاری ڈیو ٹی ہے کہ پہلے فیصل آباد پہنچو وہاں سے صاحبزادہ صاحب کو ساتھ لے کر کانفرنس میں شریک ہو۔ میں حکم کی تعمیل میں پشاور سے فیصل آباد جا پہنچا،اتنے میں قبلہ پیر جی کی کال بھی آگئی، خیر خیریت پو چھی اور فر مایا صاحبزادہ صاحب کو ضرور ساتھ لے کر آنا۔ دن ہم نے فیصل آباد میں گزارا اور شام کو حاجی محمود صاحب (نواب ٹاولز والے)کی گاڑی میں صاحبزادہ صاحب مرحوم کے ہمراہ لاہور پہنچے۔پیر جیؒ کمرے میں تشریف فرما تھے ہم حاضر ہوئے تو بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔صاحبزادہ صاحب کی آمد پر بہت خوش تھے اور مجھے خاص محبت بھری نظرو ں سے دیکھتے رہے۔ کانفرنس میں میری گفتگو اور صاحبزادہ صاحب کے خطاب کو سراہا دعاؤ ں سے نوازا۔اس سفر میں میرا چھوٹا بھائی محمد مبشر بھی ہمراہ تھا۔ صاحبزادہ صاحب تو واپس فیصل آباد تشریف لے گئے اور ہم رات دفتر احرار ہی میں رہے۔ صاحبزادہ صاحب کا یہ زندگی کا آخری سفر تھا۔ چند دن بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
رونق بزم یونہی رہے گی جالب مگر کچھ اور تھا رنگ جمانے والا
صاحبزادہ طارق محمود صاحب ؒکے ہمراہ احرار کانفرنسو ں میں شرکت کے حوالہ سے جو اسفار ہو ئے ان کی تفصیل میری کتاب ’’ حیات و خدمات صاحبزادہ طارق محمو دؒ ‘‘میں بھی مو جو د ہے ۔وہا ں ملا حظہ کیا جا سکتا ہے۔
چناب نگر کانفرنس کے لیے ہی ایک دفعہ مجھے پیر جی نے فرمایا کہ حضرت مو لانا عبدالقیو م حقانی صاحب (مہتمم جامعہ ابو ہریرہ خالق آباد،نوشہرہ) کو ساتھ لے کے آنا ہے۔ میں پشاور سے مولانا حقانی کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں سے ہم راولپنڈی پہنچے مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی صاحبؒ کے ہا ں جامعہ زکریا ،ترنول میں پرو گرام تھا اس میں شریک ہو ئے، مولانا حقانی نے خطاب فرمایا۔ جب مولانا ہزاروی کو چناب نگر کانفرنس کے حوالہ سے بتایا کہ ہم وہاں جا رہے ہیں تو مولانا ہزاروی بہت خوش ہو ئے۔ فرمایا مولانا غلام غو ث ہزارویؒ جب وہا ں تشریف لے گئے تھے تو میں بھی حضرت کے ساتھ تھا، دیر تک بخاری برادران کی جرات و بہادری کا تذکرہ کرتے رہے۔راولپنڈی سے روانہ ہو کر رات ہم فیصل آباد پہنچے، رات کا قیام صاحبزادہ طارق محمو د صاحبؒ کے ہا ں تھا۔ صبح وہا ں سے چناب نگر حاضری ہوئی۔ لندن سے مولانا عبدالرحمٰن یعقوب باوا صاحب بھی تشریف لائے ہو ئے تھے۔ ہماری حاضری پر پیر جیؒ بہت خوش ہو ئے۔ مولانا عبدالقیو م حقانی صاحب نے خطاب فرمایا، احقر نے بھی کچھ معروضات پیش کیں،پیر جی بہت خوش ہو ئے دیر تک دعا ؤں سے نوازتے رہے۔
مولانا عبدالقیو م حقانی دامت برکاتہم کے ساتھ اس سفر کی تفصیل احقر کی کتاب ’’مکتوبات حقانی ‘‘میں بھی موجود ہے۔صاحبزادہ طارق محمود صاحب کا انتقال ہو ا تو حضرت پیر جی پورے وفد کے ساتھ جنازہ میں شریک ہوئے، جنازہ اور تدفین کے بعد بھی کافی دیر جامع مسجد محمود میں تشریف فرما رہے۔وہیں مولانا عبدالحفیظ مکی ؒ،مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ،سا بق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑؒ،پروفیسر قاری ڈاکٹر محمد طاہرلدھیانوی و دیگر علما ء کرام بھی پیر جی کے ساتھ بیٹھے رہے اور خوب خوب اکابر کے تذکرے رہے۔امیر شریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری ؒکے حوالہ سے آپ کی ہمشیرہ صاحبہ سیدہ ام کفیل بخاری ؒنے کتاب مرتب کی ’’ سیدی و ابی ‘‘۔ یہ کتاب جب شائع ہو ئی تو پیر جی نے پانچ نسخے اس کے ارسال فرمائے اور ایک کتاب پر اپنے دست مبارک سے مجھ ناچیز کے لیے دعا ئیہ کلمات لکھے۔جو یقیناً مجھ ناچیز کے لیے اعزاز اور فخر کی بات ہے۔ اسی طرح مولانا کریم بخش صاحب ؒ کا مرتب کردہ دعاؤں کا مجموعہ جدید ایڈیشن شائع ہوا تو اس کے بھی دس نسخے بذریعہ ڈاک بھجوائے، حسب معمول ایک نسخہ پر احقر کے لیے دعائیہ کلمات بھی لکھے۔جو میرے پاس پیر جی کی یاد گار ہیں۔
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
Iجو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
wپیر جیؒ سے قلمی رابطہ بھی رہا۔ بہت شفقت فرماتے، میرا ایک جوابی لفافہ تو آخری ملاقات تک اپنے بیگ میں رکھا ہو اتھا۔ جب بھی حاضر ی ہوتی یا کہیں اور ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تو بیگ سے وہ لفافہ نکال کر دکھاتے اور فرماتے مولوی اورنگ زیب! تمہارا یہ جوابی لفافہ میں نے اب تک سنبھال کے رکھا ہو اہے۔پیر جی کے گرامی نامو ں میں سے دو کے چند اقتبا سات قارئین ’’ نقیب ختم نبوت ‘‘کی نذر کرتا ہو ں۔(ان کی فوٹو کاپی محترم کفیل شاہ جی کو الگ سے ارسال کر دی ہے۔)
(1)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
جناب عزیز مکرم ابو ماریہ صاحب و عزیزہ بیٹی ام ماریہ صاحبہ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
طالب خیر احقر عطا ء المہیمن الحمدﷲ مع الخیر ہے۔
جناب ابو ماریہ صاحب زید لطفہ!آپ نے اپنے جن جذبات کا اظہار اپنے مکتوب گرامی میں کیا ہے اس میں صرف اور صرف آپ کے خلوص ہی کی ساری روشنی ہے۔ بندہ کو ابھی خلوص کا یہ مقام کہاں حاصل ہوا۔ اتنا ضرور ہے کہ جو بھی خلوص اور محبت سے قدم بڑھاتا ہے جی کے اندر سے اس کی محبت و خلوص کا جواب اسی پیرایہ میں دینے کا معمول ہے۔ صاف بات یہ ہے کے مولوی حضرات کے طبقہ نے چونکہ پٹائی بہت کی ہے اس لیے ڈر ڈر کے قدم رکھنے کو جی چاہتا ہے۔ بہت ہی جلد اول وہلہ میں وارفتگی کی کیفیت پیدا ہو نہیں پاتی۔ جواباً حسن سلوک تو عین سنت ہے۔ آپ نے محبت وخلوص کا قدم بڑھایا ہے انشاء اﷲ العزیز جواباً اسی طرح پائیں گے۔محبت کا آبگینہ ابتدا میں بہت کمزور ہو تا ہے مگر جب پختہ ہو جائے تو پھر کالنقش فی الحجر والا معاملہ ہو جاتا ہے۔بہر حال اﷲ پاک خیر کا معاملہ فرماویں۔جزاکم اﷲ تعالیٰ احسن الجزا ء! یاد آوری کا شکریہ۔
عزیزہ بیٹی ام ماریہ صاحبہ!اﷲ تعالیٰ آپ کو عافیت نصیب فرماویں۔ آپ کا مکتوب ملا حالات منکشف ہوئے۔ اچھا ہوا آپ نے جلد مطلع کر دیا۔ بٹیا جی پہلی بات تو یہ ہے کہ بندہ کو تو اپنے آپ پر کوئی دعویٰ نہیں نہ ہی کسی بات کا گھمنڈ۔ میں تو خود بہت گنہگار آدمی ہو ں۔ یہ بیعت کا معاملہ بھی اس لیے کرتا ہو ں کہ کسی کی دعا میرے حق میں قبول ہو جائے تو میرا بیڑا پار ہو۔ آپ پر انجانا خوف میرے ہی کسی عمل بد کا اثر ہو گا۔ میں نے استغفار کی ہے امید ہے آپ کی طبیعت ٹھیک ہونی شروع ہو گئی ہو گی۔
علاج نمبر 1:حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ کا تصور کر کے جیسے آپ نے ان کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہو ان کلمات کو بیعت کے تصور سے کہیں۔جیسا کہ آپ اب بیعت کر رہی ہیں۔اول پہلا کلمہ معنی کا خیال کر کے پڑھیں پھر دوسرا کلمہ معنی کا خیال کر کے پڑھیں۔ یوں خیال کریں کہ حضرت آپ کو کہلوا رہے ہیں ۔ یا اﷲ میں نے توبہ کی کفر سے،شرک سے،بدعت سے،غیبت سے،چغلی سے،جھوٹ بولنے سے،جھوٹی گواہی دینے سے،نماز چھوڑنے سے،تمام چھوٹے بڑے حرام کامو ں سے اور تمام گناہو ں سے چھوٹے بڑے یاد ہیں نہیں یاد جو اپنی پوری عمر کیے میں اس سے اے اﷲ توبہ کرتی ہو ں۔مجھے معاف فرما،میری توبہ قبول فرما،راضی ہو جا اور اپنی رضا والے اعمال کی تو فیق عطا فرما اور اپنے حبیب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی اور پکی اطاعت نصیب فرما۔
یہ بس صرف ایک مرتبہ ہی کرنا ہے فقط۔
علاج نمبر 2:اس کے بعد معمول بنا لیں دن میں ایک بار اس عمل کو کیا کریں۔وہ یہ ہے۔ایک بار درود ابراہیمی۔ایک بار سورہ فاتحہ۔ تین بار سورہ اخلاص۔ ایک بار پھر درود شریف پڑھ کر اس کا ایصال ثواب حضرت مرشدی شاہ عبدالقادر صاحب ؒ و شاہ عبدالعزیزؒ صاحب وسلسلہ کے تمام بزرگو ں کے حق میں کر دیں۔
علاج نمبر 3:فرائض سے سلام پھیر کر سر پر ہاتھ رکھ کر آیت الکرسی پڑھا کریں اور ولا یؤدہ حفظھما وھوالعلی العظیم کو تین بار تکرار سے پڑھیں اور تصور کریں کہ اﷲ کی حفاظت و حصار میں آ گئی ہو ں۔
اﷲ اپنی حفاظت میں رکھیں۔آمین
فقط والسلام بہت ہی عاجز بندہ
فقیر سید عطاء المہیمن بخاری
چناب نگر
8شعبان1424ھ
5 اکتوبر 2003ء
(2)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
محترم و مکرم جناب مولانا محمد اورنگ زیب اعوان صاحب (رنگیلا روڈ والے)
زید لطفہ علیکم دائماً آمین بحرمتہ سید المرسلین وعلی الہ واصحابہ اجمعین
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
آج معلوم نہیں کتنے عرصے کے بعد لکھنے بیٹھا ہو ں بعض عوارض کی وجہ سے لکھنا پڑھنا چھوٹ گیا ہے۔ یہ آپ کی زندہ کرامت ہے کہ مدت مدید بعد قلم اٹھایا تو قرعہ فال جناب کے نام پر نکلا۔آپ نے اپنے کام کے بارہ میں اطلاع فرمائی۔بہت مسرت ہوئی۔توکل کا یہی راستہ و ذریعہ محمود ہے۔آپ نے فرمایا بر کت کے لیے کچھ لکھ کر ارسال خدمت کروں۔تعویز وغیرہ تو اس وقت ذہن میں نہیں۔ البتہ اﷲ جل شانہ کی پاک کتاب کریم کی آیت کریمہ پیش خدمت ہے۔سب تعویزو ں پر غالب آئے گی۔انشاء اﷲ
بسم اﷲ الرحمن الرحیم اﷲ لطیف بعبادہ یرزق من یشاء وھوالقوی العزیز۔پ25شروع۔
بعد نماز فجر ستر بار پڑھ لیا کریں۔ اول وآخر درود شریف طاق بار۔ اور ایک بار سورہ یاسین شریف اپنے مقصد کو پیش نظر رکھ کر پڑھیں۔ اﷲ پاک بر کت کے دروازے کھول دیں گے۔ انشاء اﷲ
جوابی لفافہ بھیجنے کا تکلف آئندہ نہ فرماویں۔ایک جوابی لفافہ آپ کا ابھی بھی موجود ہے۔فی الحال والسلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ جلد ہی ملاقات خطوطی ہو جائے گی۔انشاء اﷲ
والسلام مع الاکرام
فقیر سید عطاء المہیمن بخاری ، چناب نگر
آج سے کئی سال قبل دیو بندی مکتب فکر سے وابستہ جماعتو ں کے اتحاد کے حوالہ سے کچھ اجلاس منعقد ہو ئے تھے ان ہی میں سے ایک اجلاس جمعیت علما ء اسلام کی میز بانی میں جامع مسجد دارالسلام اسلام آباد میں انعقاد پذیر ہوا۔
اس میں شرکت کے لیے حضرت پیر جی ؒ محترم سید محمد کفیل بخاری و دیگر رفقاء کے ہمراہ تشریف لائے۔ احقر تمام وقت ان کی خدمت میں موجود رہا۔مفکر اسلام،معروف علمی و ادبی شخصیت حضرت مولانا اﷲ وسا یا قاسم ؒ سے ایک معاملہ میں کچھ تلخی ہو گئی تھی۔ مولانا مجھ سے نارا ض تھے، میں نے پیر جی سے عر ض کیا،ساری صورتحال بتلائی تو پیر جی نے ہم دونو ں کی صلح کرا دی۔ یہ پیر جی کی ہی شخصیت تھی جن کی بات مولانا قاسم نے مان لی اور بغیر کسی پس و پیش کے مجھ سے صلح کر لی و گرنہ وہ تو اتنے غصہ میں تھے کہ کوئی بات سننے ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔پیر جی نے جب ہماری صلح کرائی تو بڑی حکمت عملی کے ساتھ ان کی پگڑی اتار کر میرے سر پہ رکھ دی اور میری ٹوپی ان کے سر پہ۔مسکرا کر فرمایا لو جی! اب تو پکی صلح ہو گئی۔اب ناراض نہیں ہونا۔ان دنو ں برادر گرامی سید ذوالکفل بخاری شہید اسلام آباد نمل یو نیورسٹی میں ایک کورس کر رہے تھے۔پیر جی نے ان سے ملنے وہا ں بھی جانا تھا۔میں قافلہ احرار کو لے کر وہا ں بھی ساتھ گیا۔ ذوالکفل بھائی سے مسجد میں ملا قات ہو ئی، پھر ان کے کمرے میں گئے وہا ں کافی دیر بیٹھے رہے۔مختلف موضوعات پر ان سے باتیں ہو تی رہیں۔ اس ملاقات کی تفصیل، نقیب ختم نبوت کی خصوصی اشاعت بیاد سید ذوالکفل بخاری شہید میں احقر کے مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے۔راولپنڈی میں مجلس احرار اسلام کے رہنما تھے جناب فیض الحسن فیضی ایڈوکیٹ مر حوم،ایک دفعہ انہو ں نے مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ فلا ں وقت حضرت پیر جی تشریف لا رہے ہیں تم بھی آجانا۔ میں مقررہ وقت پر حاضر ہوا تو قبلہ پیر جی تشریف لائے ہو ئے تھے میری حاضری پر بہت خوش ہو ئے۔اپنے مبارک ہاتھو ں سے چائے بنا کر دی،کچھ اور عقیدت مند بھی حاضر ہو گئے ان سے مختلف جماعتی معاملات پر گفتگو رہی۔مجھے فرمانے لگے کہ مولانا پیر عزیز الرحمٰن ہزاروی صاحب (خلیفہ مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ)سے نماز عصر کا وعدہ ہے۔تم نے بھی ہمارے ساتھ جانا ہے۔ میں نے عرض کیا حضور خادم حاضر ہے یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کی رفاقت میں وہا ں حاضری ہو گی۔پیر جی نے وضو کیا کپڑے تبدیل کیے اور ہم مسجد صدیق اکبر ،الہ آباد چوہڑچوک کی طرف روانہ ہو ئے،پیکر اخلاص مولانا ہزارویؒ مسجد کے باہر گلی میں ہی استقبال کے لیے موجو د تھے،آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا،پیر جی نوراﷲ مرقد ہ،کا ہاتھ تھاما اور مسجد لے گئے۔ نماز عصر کاوقت ہو گیا تھا۔ پیر جی سے گزارش کی کہ نماز عصر آپ پڑھائیں۔پیر جی نے فرمایا میں مسافر ہو ں قصر پڑھو ں گا۔ اس لیے نماز آپ ہی پڑھائیں مگر انہو ں نے انتہائی محبت اور عقیدت سے فرمایا نہیں شاہ جی نماز آپ ہی پڑھائیں ہم بعد میں اپنی نماز مکمل کر لیں گے۔ پیر جی مصلیٰ امامت پہ کھڑے ہو ئے تو پیر صاحب نے نمازیو ں سے فرما دیا کہ شاہ صاحب مسافر ہیں دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیں گے جبکہ ہم نے چار رکعت پوری کرنی ہیں۔چنانچہ پیر جی نے نماز پڑھائی،نماز کے بعد مختصر بیان فرمایا۔بیان کے بعد مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی مہمان خانہ میں لے گئے جہا ں ڈرائی فرو ٹ،شہد اور چائے سے تواضع فرمائی۔ پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری اور مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ کا تذکرہ کرتے رہے۔پیر جی،قیام مدینہ منورہ کے دورن حضرت شیخ الحدیث ؒ کے ہاں ہی رہتے تھے، ان کے انتقال پر غسل اور تدفین میں بھی شریک رہے۔ شیخ الحدیث ؒکی آپ پر بہت شفقتیں تھیں،اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلاتے تھے، اگر کسی وقت پیر جی دستر خوان پہ موجود نہ ہو ں تو وہ خود کھانا ہی نہیں کھاتے تھے۔پیر جی حاضر ہوتے تو تب کھانا تناول فرماتے۔کیا عظیم لوگ تھے۔اﷲ تعالیٰ درجات بلند فرمائیں۔مغرب کے قریب پیر جی نے ان سے اجازت چاہی۔مولانا عزیز الرحمٰن ہزاروی رخصت کرنے باہر تک تشریف لائے۔جب تک ہماری گاڑی نظرو ں سے اوجھل نہیں ہو گئی برابر وہ کھڑے رہے۔
ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
ماہنامہ ’’ القاری ‘‘لاہور میں استاذالقراء حضرت قاری محمد تقی الاسلام دہلویؒسے متعلق میرا تعزیتی مضمون شائع ہوا تو وہ پیر جی کی نظرو ں سے بھی گذرا۔مضمون پڑھتے ہی مجھے فون کیا اور فرمانے لگے قاری تقی الاسلام صاحب تو ہمارے دیرینہ دوست تھے۔ مدینہ منورہ اور ریا ض میں ہماری خوب محفلیں ہوتی تھیں،قاری صاحب بڑے مہمان نواز تھے اپنے ہاتھو ں سے مختلف قسم کے کھانے بنابنا کر ہمیں کھلاتے تھے۔مجھے تو ان کی پاکستان آمد اور انتقال کی خبر ہی نہیں تھی۔ تمہارا مضمون پڑھ کر معلوم ہو ا کہ وہ مستقل طور پر پاکستان آگئے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، درجات بلند فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائیں۔ پیر جی دیر تک ان کے لیے دعائیہ کلمات ارشاد فرماتے رہے۔پیر جی سید عطا ء المہیمن بخاری ؒ کو ہم سے جدا ہوئے آج (6فروری2022ء بروز اتوار) پورا ایک سال بیت گیا ہے۔میری کم ہمتی،بیماری اور نالائقی آڑے آتی رہی کہ پیر جی سے متعلق اپنی یادداشتیں بروقت قلم بند کر سکا وگرنہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت کی خصوصی اشاعت میں شائع ہو جاتیں۔اب بھی بچوں کے شدید اصرار اور ہمت بندھانے پر چند منتشر یادو ں کو سمیٹنے کی کو شش کی ہے۔اﷲ تعالیٰ شرف قبولیت نصیب فرمائیں۔آمین