طارق کلیم
پیروڈی ادب کی معروف اصطلاح ہے او ریہ مغرب سے اردو میں آئی ہے۔ اس کا تعلق مزاح سے ہے اور اس کے دائرہ کار میں نثر اور نظم دونوں آجاتے ہیں۔
ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں پیروڈی کے متعلق درج ہے:
An imitation of a specific work of literature (Prose or verses) or style devised so as to ridicule its characteristic feature, exaggeration, or the application of a serious tone to an absurd subject are typical method.[1]
اردو دان طبقے نے پیروڈی کا تصور مغرب ہی سے لیا اور اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی اردو میں پیروڈی کی شعریات کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی کی تعریفوں سے یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ پیروڈی کا مقصد کسی فن پارے یا فن کار کی تضحیک ہے۔ اردو کے ناقدین بھی اس سے متفق ہیں۔ ظفر صدیقی کہتے ہیں : ’’پیروڈی وہ صنفِ ظرافت ہے جس میں کسی کے طرزِ نگارش کی تقلید کر کے اس کے سٹائل یا خیالات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘ ظفر صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر قابلِ تعریف سمجھ کر تقلید کی جائے تو پیروڈی نہیں کہلائے گی اور پیروڈی تب ہی ہوگی جب خیالات یا سٹائل کا مزاق اڑایا گیا ہو[۲]۔ وزیر آغا بھی پیروڈی ایسی نقالی کو کہتے ہیں جس سے تضحیک مقصود ہو [۳]۔ ڈاکٹر فرحانہ منظور نے پی ایچ ڈی کا مقابلہ پیروڈی کے موضوع پر تحریر کیا۔ وہ بھی پیروڈی سے تضحیک کا مطالبہ کرتی ہیں [۴]۔ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش کا بھی یہی خیال ہے کہ پیروڈی میں مذاق اڑانا ضروری ہے[۵]۔ مظہر احمد بھی پیروڈی کو ایک طرح کی تنقید (معروف معنوں میں) قرار دیتے ہیں [۶]۔ اس بحث کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پیروڈی کسی فن کار، فن پارے یا طبقے کے اسلوب کی ایسی نقالی ہے جو مذاق اڑانے کی غرض سے کی گئی ہو۔پیروڈی میں مزاح کا عنصر ہونا ضروری ہے۔
تاہم اردو میں پیروڈی بہت الجھی ہوئی اصطلاح ہے۔ پہلا الجھاؤ تو اس کے اردو متبادل کے بارے میں ہے۔ ۱۹۴۲ء کے ’’ادبی دنیا‘‘ میں ڈاکٹر داؤد رہبر نے پیروڈی کا ترجمہ تحریف کیا اور یہ ترجمہ رواج پاگیا[۷]۔ ڈاکٹر وزیر آغا[۸]، ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش[۹]،ڈاکٹر اشفاق ورک[۱۰]، ڈاکٹر رؤف پاریکھ [۱۱]، ڈاکٹر فرحانہ منظور [۱۲] اور خواجہ عبدالغفور[۱۳] وغیرہ سب پیروڈی کا ترجمہ تحریف کرتے ہیں۔ مگر مزاج کے لحاظ سے پیروڈی اور تحریف دو مختلف چیزیں ہیں۔ اردو میں ان دونوں کا چلن موجود ہے۔ تحریف مزاح پیدا کرنے کی مقبول صورت ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں تحریف کے معنی ہیں[۱۴]۔
ایک حرف کی جگہ دوسرے حرف کو رکھنا، کسی چیز یا کسی بات کو اس کی حالت اور وضع سے بدل دینا۔
کسی بات کو اس کے موضوع کے خلاف کہنا۔ کسی بات کو اس کے موضوع کے خلاف بیان کرنا۔
یعنی فن پارے میں دوسرا شخص کوئی رد و بدل کر دے اپنی مرضی کا لفظ اس طرح رکھ دے کہ جملہ یا شعر پھر بھی بامعنی رہے تو یہ عمل تحریف کرنا کہلائے گا۔ جب مزاح میں تحریف کی اصطلاح استعمال کی جائے گی اس سے ہنسی کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔ تحریف کے لیے ضروری ہے کہ جس شعر یا فن پارے میں تحریف کی جائے وہ بہت مقبول ہو۔ سامع یا قاری مشہور فن پارے سے پہلے سے واقف ہو یا تحریر میں اس سے واقفیت کروائی جائے۔ اس طرح قاری یا سامع نہ صرف تحریف سے لطف لیتا ہے بلکہ دونوں فن پاروں کے مفاہیم کے موازنے سے بھی حظ اٹھاتا ہے۔ شعر کی حد تک کامیاب تحریف وہ ہوگی جس میں کم سے کم الفاظ تبدیل کیے جائیں۔ عبدالحمید عدمؔ کا شعر ہے:
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
کسی ستم ظریف نے ایک لفظ بدل کے شعر کو یوں کردیا:
شاید مجھے نکال کے ’’کچھ کھا‘‘ رہے ہوں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر بامعنی بھی رہا اور ہنسی بھی آتی ہے۔ مندرجہ بالا شعر تحریف لفظی کی بہت عمدہ مثال ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پیروڈی کے لیے اردو میں کیا اصطلاح استعمال کی جائے؟ راقم الحروف کا خیال ہے کہ پیروڈی کے لیے پیروڈی کا لفظ ہی مناسب ہے۔ جب اردو میں مختلف اصناف، ہیئتوں اور تنقید کے لیے بہت سی انگریزی اور غیر ملکی زبانوں کی اصطلاحات قبول کر لی گئی ہیں تو پیروڈی کو بھی کیا جاسکتا ہے۔ بقول مظہرا حمدیوں بھی یہ لفظ اب اس قدر مستعمل ہے کہ ادب سے وابستہ لوگ اس سے بخوبی آگاہ ہیں[۱۵]۔
پیروڈی کے معنی کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جنھیں پیروڈی سے خلط ملط کردیا گیا ہے۔ اردو میں چوں کہ پیروڈی زیادہ تر شاعری میں ہوئی ہے، اس لیے زیر نظر مضموں میں شاعری کی ہی مثالیں دی جارہی ہیں اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پیروڈی میں جن اصطلاحات کی ملاوٹ ہوئی ہے ان میں سے اکثر کا تعلق شعرسے ہے۔ جن میں سے چند اہم یہ ہیں۔
پہلی تو گرہ لگانا یا مصرع لگانا ہے۔ اردو کی شعری روایات میں کسی دوسرے کے مصرعے پر مصرع باندھنے کی مضبوط روایت رہی ہے۔ ظریف شعرا بھی اکثر مشہور مصرعوں پر گرہ لگاتے ہیں۔ وہ یہ کام اتنی ہنر مندی سے کرتے ہیں کہ شعر کا معنی بالکل تبدیل ہوجاتا ہے اور پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے۔ ایک فلم کا حال بیان کرتے ہوئے سید ضمیر جعفری کہتے ہیں:
لڑائی میں رقیبوں سے وہ اسلوب رواداری ’’نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری‘‘ [۱۶]
عام طور پر اسے بھی پیروڈی کہہ دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ کسی طور بھی پیروڈی نہیں ہے کیونکہ اس کا مقصد شعر یا شاعری کی تضحیک نہیں ہے۔ کسی دوسرے مصرعے پر گرہ چاہے مزاح پیدا کرنے کے لیے لگائی جائے یا کسی اور مقصد سے اسے ہم گرہ لگانا ہی کہیں گے۔ یہ غلط رویہ ہے کہ اگر ہنسی کا امکان پیدا ہو تو گرہ لگانے کی بجائے پیروڈی ہوجائے۔ مندرجہ بالا شعر کو ہم اقبال کے مصرعے پر گرہ لگانا ہی کہہ سکتے ہیں۔ گرہ لگانے میں اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ جس مصرعے پر گرہ لگائی جارہی ہے وہ بہت مقبول ہو اور ادب کا قاری اس سے واقف ہو۔
دوسری چیز جسے پیروڈی میں شامل کر دیا جاتا ہے وہ زمین میں لکھنا ہے۔ زمین سے مراد کسی شعر کی بحر، قافیہ اور ردیف ہے اردو میں مشہور شاعروں کی زمینوں میں لکھنے کا رواج ہمیشہ سے رہا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کسی نے مزاحیہ اسلوب میں کسی شاعر کی زمین کو برت لیا تو اسے پیروڈی قرار دے دیا جاتا ہے جو پیروڈی کے مفہوم سے متصادم ہے۔ زمین میں لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمین بہت مشہور ہو۔ ظریف شعر ا مشہور اساتذاہ کی زمینوں کو برتتے ہیں اور ان میں اس طرح طبع آزمائی کرتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کو ہنسی آجاتی ہے۔ غالب کی غزل ’’ابنِ مریم ہوا کرے کوئی‘‘ کی زمین میں سید ضمیر جعفری کی غزل کے دو شعر ملا حظہ فرمائیں:
چیز ملتی ہے ظرف کی حد تک اپنا چمچہ بڑا کرے کوئی
سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں دادی اماں کو کیا کرے کوئی[۱۷]
سید ضمیر جعفری نے غالب کی زمین میں لکھا ہے اور اس کا مقصد غالب کا مذاق اڑانا نہیں بلکہ یہ ایک طرح کا خراج تحسین ہے جس شاعر کی زمین میں لکھا جائے دراصل اس کی عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس لیے مندرجہ بالا اشعار کو غالب کی پیروڈی نہیں کہا جائے گا۔
تضمین کرنے کو بھی پیروڈی سے ملالیا جاتا ہے۔ ظریف شعرا کے ہاں تضمین نگاری کا عام رواج ہے وہ اپنی نظم یا قطعہ میں کسی مشہور شاعر کا مصرع اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ہنسی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ انور مسعود کا قطعہ ہے:
یہاں کلچے لگائے جارہے ہیں نمک کیوں لائیے جا کر کہیں سے
اٹھا کر ہاتھ میں میدے کا پیڑا ’’پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے‘‘[۱۸]
اس قطعے میں آخری مصرع شجاع الدین انور دہلوی کا ہے۔ یہ قطعہ پڑھ کے یہ احساس ہوتا ہے انور مسعود کا مقصد شجاع الدین انور دہلوی کا مذاق اڑانا نہیں ہے۔ تضمین بھی عام طور پر اس مصرعے کو کیا جاتا ہے جو پہلے سے بہت مقبول ہو۔ اس کا مقصد تضحیک کرنا نہیں ہوتا۔ غلط فہمی کی بنا پر اسے بھی پیروڈی کہہ دیا جاتا ہے۔ اسے ہم تضمین نگاری کے علاوہ کوئی نام نہیں دے سکتے۔
تقلیب خندہ آور بھی ایک ایسی شے ہے جسے پیروڈی سے الگ نہیں کیا جاتا ۔ تقلیب خندہ آور میں عام طور پر کسی فن پارے کی نقل اس طرح کی جاتی ہے کہ ہنسی آجائے۔ اس میں اس بات کا خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ فن پارے کا مرکزی خیال برقرار رہے اس بارے میں وزیرآغا کہتے ہیں: ’’تقلیب خندہ آور کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ کسی ادب پارے کو دوبارہ اس انداز میں لکھا جائے کہ مزاح کی تخلیق ہوسکے[۱۹]۔‘‘ فضل جاوید کہتے ہیں: ’’تقلیب خندہ آور میں اصل تخلیق کے خیالات کو بالکل نہ بدلتے ہوئے اسے دوبارہ اس انداز میں لکھا جاتا ہے کہ اس میں مزاح پیدا ہو‘‘[۲۰]۔
یعنی نظم کا مرکزی خیال ہئیت اور زمین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور اسے دوبارہ اس طرح لکھا جاتا ہے کہ ہنسی آئے۔ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ یہ کسی شاعر کے خیالات کی مزاحیہ توسیع ہے۔ اردو میں تقلیب خندہ آور کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ سید محمد جعفری کی نظم ’’جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘ اس زاویے سے مطالعے کے لائق ہے۔ سید محمد جعفری نے نظیر اکبر آبادی کی نظم کے مرکزی خیال کو برقرار رکھتے ہوئے اسے از سر نو لکھا ہے۔ اس نظم کا ایک بند درج کیا جاتا ہے:
جب وفد بنا کر چودھریوں کا لے جاتا ہے طیارہ کچھ اس میں افسر جاتے ہیں، کچھ بیوپاری، کچھ ناکارہ
ایکسچینج انھیں دے دیتا ہے یہ ملک ہمارا بے چارہ ’’ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘[۲۱]
تحریف اور تضمین کی طرح تقلیب خندہ آور کے لیے بھی ضروری ہے جس فن پارے کی تقلیب کی جائے وہ بہت مقبول ہو۔ مزاحیہ شعرا کے یہاں تقلیب خندہ آور کی بہت مثالیں ملتی ہیں۔
ہم نے انسائیکلوپیڈیاز او ردیگر علمائے فن کی آرا سے پیروڈی کے بارے میں جو کچھ اخذ کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پیروڈی کا مقصد کسی فن کار یا فن پارے کی تضحیک کرنا ہے۔ اگر مذاق اڑانا مقصود نہ ہو تو پیروڈی نہیں ہے۔ تاہم صورت حال اس وقت پیچیدہ ہوتی ہے جب ہمارے فاضل نقاد اور محققین پیروڈیز کی مثالیں دینا شروع کرتے ہیں اور اپنے کہے کی خود تردید کردیتے ہیں۔ ظفر احمد صدیقی کا موقف پہلے نقل کیا جاچکا ہے۔ مگر جب اپنے اسی مضمون میں وہ پیروڈی کی مثالیں دینا شروع کرتے ہیں تو تضاد سامنے آتا ہے۔ مثالوں میں غالب اور اقبال کی مشہور ’’پیروڈیز‘‘ (جو اصل میں تحریفِ لفطی یا گرہ لگانا ہیں) دے رکھی ہیں۔ ان شعروں میں جو تبدیلی کی گئی ہے وہ بہر حال تضحیک یا مذاق اڑانے کے مقصد سے نہیں کی گئی۔ وہ پیروڈی کی مثال دیتے ہیں:
بے کاریٔ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
اس شعر میں یہ رد و بدل ہے:
اس مس سے شیک ہینڈ کی ہے دل کو آرزو جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی[۲۲]
* اس مثال کو پڑھ کر کوئی عام سا ادبی ذوق رکھنے والا شخص بھی کہہ سکتا ہے کہ اس رد و بدل سے غالب کا مذاق اڑانا مقصود نہیں۔ نہ ہی غالب کی کسی غلطی کی تصحیح مطلوب ہے۔ بلکہ یہ ردوبدل اسی لیے کیا گیا ہے کہ غالب کا یہ شعر بہت مقبول ہے اور جس نے ردوبدل کیا ہے وہ اس شعر کو پسند کرتا ہے۔
ڈاکٹر فرحانہ منظور اس بات کی قائل ہیں کہ پیروڈی کے ذریعے کسی فن پارے کا مذاق اڑایا جائے مگر جب وہ مثالیں دیتی ہیں تو وہ کسی طرح بھی ان کے لیے اپنے موقف کی تائید نہیں کرتیں۔ کون کہ سکتا ہے کہ مجید لاہوری نے ’’جدید آدمی نامہ‘‘ لکھ کر نظیر اکبرآبادی کا مذاق اڑایا ہے یا سید محمد جعفری نے جب ’’لاد چلے گا بنجارہ‘‘ لکھی تو ان کا مقصد نظیراکبرآبادی کی اصلاح تھی۔
ہندوستان سے پیروڈی کے فن پر مظہر احمد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے میں مظہر احمد نے احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے مسٹر دہلوی کی ’’بنجارہ نامہ‘‘ (یہ تقلیب خندہ آور ہے) سید محمد جعفری کی ’’جب لاد چلے گا بنجارہ‘‘ (تقلیب خندآور)، وزیر کی نماز (اقبال کی زمین) ، لاالہ الا اﷲ (اقبال کی زمین)، مجید لاہوری کی ’’ماڈرن آدمی نامہ‘‘ (تقلیب خندہ آور) سب کو پیروڈی کی لاٹھی سے ہانک دیا۔ سرفراز شاہد نے ’’سخن معکوس‘‘ کے نام سے پیروڈیوں کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بھی وہی قباحت ہے جن کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں ڈاکٹر عمران ظفر کی کتاب ’’تحریفاتِ کلام اقبال‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔ اس میں کوئی بھی نظم ایسی نہیں جو پیروڈی کی تعریف پر پورااترتی بلکہ انھیں تو تحریف بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
اردو میں پیروڈی کا چلن زیادہ نہیں ہے۔ ہماری مشرقی روایات سر عام کسی کی تضحیک کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر پیروڈیز سننے کا موقع مل بھی جاتا ہے تاہم انھیں طبع نہیں کروایا جاتا۔ اردو شاعری میں پیروڈی کی مثال بہت زیادہ نہیں لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پیروڈی سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ حاجی لق لق نے اپنی کتاب ’’ادب کثیف‘‘ میں چند آزاد نظمیں لکھی ہیں جو آزاد نظموں کی پیروڈیز ہیں۔ ان نظموں میں انھوں نے آزاد نظم کی ہیت کا مذاق اڑایا ہے۔ مثال کے طور پرحاجی لق لق کی نظم ’’تم کیا ہو‘‘ درج کی جاتی ہے[۲۳]۔
تم کیا ہو
تم کیا ہو …… اے جان تم کیا ہو؟
تمہاری باتیں میٹھی ہیں
تمہاری ادائیں شیریں ہیں
تمہاری گالیوں میں مٹھاس
تمہاری جھڑکیوں میں حلاوت
تم کیا ہو؟
اے جان …… تم کیا ہو؟
……متھرا کے پیڑے
تم کیا ہو …… اے جان تم کیا ہو؟
تمہارے حسن میں نمکینی
تمہاری گفت گو چٹپٹی
تمہارا خال فلفل سیاہ
تمہارے نخرے میں گرم مصالحہ
تم کیا ہو
اے جان …… تم کیا ہو
گرما گرم آلو چھولے
اس طرح وہ سطحی اور بے معنی جملے لکھتے چلے جاتے ہیں اور خاصی طویل نظم لکھ ڈالتے ہیں۔ کنہیا لال کپور نے کافی پیروڈیز کی ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند اور جدیدیت پسند، دونوں شعرا کی تخلیقات کا خاکہ اڑایا ہے۔ انھوں نے میرا جی کو ہیرا جی کر کے ایک نظم کہلوائی جس کا عنوان ’’بینگن ‘‘ ہے[۲۴]۔
چنچل بینگن کی چھب نیاری
رنگ میں تم ہو کرشن مراری
جان گئی ہیں سکھیاں پیاری
رادھا رانی آہی گئی تو
کرشن کنہیا ڈھونڈ رہے ہیں
لیکن میں تو بھول چکا ہوں
بینگن سے یہ بات چلی تھی
بھوک لگی تھی کتنی ہائے
جی میں ہے اک بھون کے بینگن
کھاؤں لیکن رادھا پیاری
رنگ کو اس کے دیکھ کے تجھ کو
یاد آتے ہیں کرشن مراری
اس لیے بھوکا اپنا شہر
چوں کہ میں ہوں پریم پجاری
بعض اوقات کسی طبقے کی زبان کی نقل بھی کی جاتی ہے ظفر احمد صدیقی اسے بھی پیروڈی قرار دیتے ہیں[۲۵]۔ راقم الحروف کا بھی خیال ہے کہ اسے پیروڈی کہہ لینا چاہیے۔ جب کسی طبقے یا مکتبہ فکر کے خاص اسلوب کی نقل اس لیے کی جائے کہ مذاق اڑانا پیشِ نظر ہو تو اسے پیروڈی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔ اردو میں اس کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔ مجید لاہوری کی نظم ’’اِجت کُھدانے دیا‘‘ ایک گجراتی سیٹھ کی زبان کی دل چسپ پیروڈی ہے:
’’جاستی‘‘ تو نہیں ’’فر‘‘ بھی سوچو ’’جرا‘‘ پانچ چھ ’’چوپڑی‘‘ تو ’’پڑھیلا‘‘ ہے ہم
پانچ چھ ’’چوپڑی‘‘ پڑھ کے ’’کمتی میں کمتی‘‘ بھی لاکھوں کا ’’بجنس‘‘ کریلا ہے ہم
ہم کو ’’اجت‘‘ یہ سارا ’’کھدا‘‘ نے دی آج موٹر کے اوپر ’’چڑھیلا‘‘ ہے ہم[۲۶]
اس مختصر مضمون میں کوشش کی گئی ہے کہ پیروڈی کے بارے میں موجود ابہام کو دور کیا جائے اور پیروڈی پر جوانٹ شنٹ چھاپا جارہا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ پیروڈی ایک واضح اصطلاح ہے اور اسے دیگر اصطلاحات سے علیحدہ رکھا جانا ضروری ہے۔ اس معاملے میں بے احتیاطی سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو طلباء اور نووار دان ادب کے لیے خاص طور پر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ راقم الحروف کو یہ دعویٰ نہیں کہ اس مضمون کے ذریعے بات بالکل واضح ہوگئی ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ اس مضمون کے ذریعے علمائے فن کو مہمیز ملے گی اور وہ اس اصطلاح کو واضح کرنے کی شعوری کوشش کریں گے۔
(ماہنامہ: ’’قومی زبان ‘‘ کراچی)
حواشی
۱۔ مارٹن گرے، Dictionary of Literary Terms
۲۔ظفر احمد صدیقی، ’’اردو ادب میں پیروڈی‘‘، مطبوعہ ’’علی گڑھ میگزین‘‘ (طنز و ظرافت نمبر ۱۹۵۳ء)، ص:۴۷
۳۔وزیرآغا ’’اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ ، (لاہور: مکتبہ عالیہ)، طبع نہم ۱۹۹۹ء ص۴۸
۴۔ڈاکٹر فرحانہ منظور، ’’اردو میں پیروڈی‘‘، (مقالہ برائے پی ایچ ڈی،۲۰۱۰ء، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاول پور)، ص:۷
۵۔ایم سلطانہ بخش، ’’داستانیں اور مزاح‘‘، ص:۶۳،۶۴
۶۔مظہر احمد (مقدمہ) ’’پیروڈی‘‘، مرتبہ مظہر احمد (دہلی: نیوپبلک پریس، ۱۹۹۱ء) ص:۵
۷۔داؤد رہبر، ’’فارسی اور اردو میں پیروڈی کا تصور‘‘، ’’ادبی دنیا‘‘ (۱۹۴۶ء)، ص:۶۵
۸۔ڈاکٹر وزیر آغا، ’’اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ ص:۴۸
۹۔ایم سلطانہ بخش، ’’داستانیں اور مزاح‘‘، ص:۶۳
۱۰۔ڈاکٹر اشفاق ورک، ’’اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ ص:۳۹
۱۱۔ڈاکٹر رؤف پاریکھ ’’اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘، ص:۵۰
۱۲۔فرحانہ منظور، ’’اردو میں پیروڈی‘‘ ص:۱۶۔۱۷
۱۳۔خواجہ عبدالغفور، ’’طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ‘‘، (نئی دہلی : موڈرن پبلشنگ ہاؤس) ۱۹۸۳ء
۱۴۔’’فرہنگ آصفیہ‘‘، اردو سائنس بورڈ، طبع ششم، ۲۰۱۰ء
۱۵۔مظہر احمد (مقدمہ)، ’’پیروڈی‘‘ ، مرتبہ مظہر احمد، (دہلی: نیوپبلک پریس)، ۱۹۹۱ء ص:۳
۱۶۔سید ضمیر جعفری، ’’نشاط تماشا‘‘، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز)، ۲۰۱۴ء، ص:۴۴
۱۷۔ایضاً، ص:۲۲۔۲۳
۱۸۔انور مسعود، ’’قطع کلامی‘‘ ، (اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز)، ۲۰۱۰ء ص:۳۲
۱۹۔ڈاکٹر وزیرآغا، ’’اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘، ص:۴۸۔۴۹
۲۰۔فضل جاوید، ’’اردو پیروڈی اودھ پنج سے شگوفہ تک‘‘، مطبوعہ ماہنامہ ’’شگوفہ‘‘، جولائی ۲۰۰۵ء جلد۳۸، شمارہ:۷۰، ص:۸۰
۲۱۔سید محمد جعفری، ’’کلیاتِ سید محمد جعفری‘‘ (لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز)، ص:۴۷
۲۲۔ظفر احمد صدیقی، ’’اردو ادب میں پیروڈی‘‘، ص:۵۱
۲۳۔حاجی لق لق، ’’ادب کثیف‘‘، (لاہور: مکتبہ اردو، طبع دوم س ن)، ص؟
۲۴۔کہنیا لال کپور، ’’اودھ پنج‘‘، ’’کہنیا لال کپور نمبر‘‘ (لکھنؤ، شمارہ ۱۲، س ن)، ص:۵۷۔۵۸
۲۵۔ظفر احمد صدیقی، ’’اردو ادب میں پیروڈی‘‘، ص:۵۴۔۵۵
۲۶۔مجید لاہوری، ’’کانِ نمک‘‘ ، (کراچی: مکتبہ مجید)، ۱۹۵۸ء، ص:۱۲۲