مولانا محمد یوسف شیخوپوری
شب و روز کے مشاہدات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ والدین اور آباء و اجداد کے بدنی خصائص اور آثار ان کی اولادوں میں نمایاں ہوتے ہیں۔ باپ داد اور نانا کی جسمانی مشابہتیں ان کی حقیقی اولاد میں اور اولاد کی اولاد میں نظر آنا لیل و نہار کے تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہیں اور اس بات پر بھی پوری اُمّتِ مسلمہ متفق ہے کہ حسن و جمال کے تمام اعلیٰ مراتب رحمتِ دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم میں موجود ہیں۔
حدیثِ اُمّ معبد میں حضرت اُمّ معبد رضی اﷲ عنہا نے جو آپ کے حسنِ بے مثال کا نقشہ کھینچا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، جس کا ہر ہر لفظ اپنے اندر بے شمار تفصیل سموئے ہوئے فصاحت و بلاغت سے مزیّن ہے۔ اس میں دو لفظ ہیں ’’وسیم ، قصیم‘‘، دونوں کا معنیٰ اعلیٰ درجہ کا حسن ہے۔ مگر اہلِ لغت نے نقل کیا ہے کہ وسیم اس خوبصورت کو کہتے ہیں جس کو جتنی مرتبہ دیکھا جائے ہر بار، ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ خوبصورت معلوم ہو اور قصیم اس خوبصورت کو کہتے ہیں جسے جس جہت سے، جس پہلو اور جس عضو سے دیکھا، ہر ہر عضو اور ہر ہر پہلو دوسرے سے نمایاں خوبصورتی لیے ہوئے ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی ساری رعنائیاں اور خوبصورت مناظر آپ میں جمع فرما دیے تھے، اس خوبصورتی کی جھلک آپ کی اولاد میں نمایاں نظر آتی تھی۔ یہاں اختصار کے ساتھ صرف دو شخصیات کا ذکر عرض کرنا ہے۔ دونوں آپ کے نواسے، آپ کے کندھوں پر سوار ہونے والے، انگلی تھام کر ساتھ ساتھ چلنے والے، زبانِ نبوّت چوسنے والے، دونوں خوشبوئے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے مہکنے والے خوش منظر پھو ل تھے۔ اسی مذکورہ تجربہ سے ثابت ہونے والے اصول کے مطابق دونوں میں اپنے نانا جان کی بدنی مشابہت تھی۔ یہ بدنی و جسمانی مشابہت اُمت میں کسی اور فرد کو حاصل نہ تھی جو ان دو کو حاصل تھی۔
رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشہور خادم حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان دونوں شہزادوں، حضرت حسن بن علی المرتضی اور حضرت حسین بن علی المرتضی رضی اﷲ عنہم سے بڑھ کر کسی اور کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں دیکھا: ’’عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال لم یکن احد اشبہ بالنبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم من الحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ و قال فی الحسین ایضا کان اشبھھم برسول اللّٰہ (مشکوٰۃ)
خود سیدہ فاطمۃ الزاہراء رضی اﷲ عنہا اپنے جگر گوشہ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو پیار کرتے ہوئے اچھالتیں اور یہ فرمایا کرتیں تھیں ’’بابی شبہ النبی لیس شبیھا بعلی‘‘(مسند احمد)
یہ تو نفس مشابہت کا ثبوت ہے، ذرا خود حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ سے سنیے، آپ نے ذرا تفصیل سے وضاحت فرمائی۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، میرا بڑا بیٹا حسن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ فوقانی حصہ یعنی صدر سے سر تک سے مشابہ تھا اور میرا بیٹا حسین تحتانی یعنی صدر سے لے کر قدموں تک زیادہ مشابہ تھے: ’’عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال الحسن اشبہ برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما بین الصدر الی الرأس والحسین اشبہ بالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما کان اسفل من ذلک ، رواہ الترمذی (مشکوٰۃ، باب: مناقب اہل بیت)
یقینا یقینا نانا جان کی طرح نواسوں میں خوبصورتی بے مثال ہو گی، ان کے چہروں میں مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حسن چھلکتا تھا۔ البتہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی روایت سے معلوم حضرت حسن مجتبیٰ رضی اﷲ عنہ میں زیادہ مشابہت اوپر والے حصہ میں تھی اور حضرت حسین رضی اﷲ عنہ میں نیچے والے حصہ میں تھی۔
حضرت عقبہ بن حارث رضی اﷲ عنہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور مسجد نبوی سے باہر تشریف لائے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ بھی ساتھ تھے (یقینا نماز یں حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے پیچھے پڑھتے تھے، اب بھی نماز پڑھ کر امام اور مقتدی دونوں اکٹھے نکلتے ہیں) اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے سنتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مطابق حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو چوما اور اپنے کندھے پر سوار کر لیا اور فرمانے لگے یہ فرزند تو علی رضی اﷲ عنہ کا ہے لیکن اس کی شکل و صورت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم جیسی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت علی رضی اﷲ عنہ مسکرانے لگے۔ ’’عن عقبۃ بن حارث قال رأیت ابابکر رضی اﷲ عنہ حمل الحسن وھو یقول بابی شبیہ بالنبی لیس شبیہ بعلی و علی یضحک۔ (بخاری مناقب الحسن والحسین)
بدنی مشابہت کی تاثیر:
اس مشابہت کی تاثیر کس حد تک تھی؟ چند ایک جھلکیاں مستحضر فرمائیں۔ اوپر والے بدن میں سب سے نمایاں حصہ چہرہ اور دل ہوتا ہے اور ان کی ترجمان زبان ہوتی ہے اور زبان کا سب سے عمدہ وصف، سب سے اعلیٰ وصف، حسنِ اخلاق ہے اور حسنِ اخلاق کی سب سے نمایاں اورواضح نظیر ’صلح جوئی‘ کی خصلت ہے گویا کہ اوپر والے بدن کا خلاصہ زبان بنتی ہے اور زبان کا جید اور عمدہ ہونا اس کا حسنِ اخلاق سے متصف ہونا، اس کے صلح جو ہونے سے واضح ہوتا ہے۔
حضرت حسن رضی اﷲ عنہ میں تاثیر:
نانا محترم جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم میں یہ صفت تو اتم بدرجہ موجود تھی، آپ نے فطرت انسانی کی رات اپنے حسن اخلاق کے نور سے چمکائی، آپ نے ہمیشہ شکستہ دلوں کو سہارا دیا، آپ نے جبر محکومی کی زنجیریں توڑیں، ہمیشہ صلح جوئی کو پسند فرمایا، صلح کی ترغیب دی۔ ’’صِلْ مَنْ قَطَعَکَ‘‘ کا درس دیا، ہمیشہ جوڑ کی دعوت دی، مواخات اور بھائی چارہ کی مثالیں قائم کیں۔ یہ بدنی مشابہت کی تاثیر حضرت حسن رضی اﷲ عنہ میں ظاہر ہوئی۔ ابھی بچپن کی بات تھی جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ آپ کے پہلو مبارک میں بیٹھے ہوئے تے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور پھر حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی طرف نظر فرماتے تھے، اسی دوران فرمایا یہ میرا بیٹا سردار ہے، مجھے امید ہے اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کروائے گا۔ ’’عن ابی بکرۃ قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی المنبر والحسن بن علی الی جنبہ وہو یقبل علی الناس مرۃ وعلیہ اخریٰ ویقول ان ابنی ہذا سید و لعل اللّٰہ ان یُصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین، رواہ البخاری۔ (مشکوٰۃ، باب: مناقب اہل بیت)
چنانچہ حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے خلافت کے زمانے میں صفین کے موقع پر سنہ ۴۰ ہجری کو مراسلت و کتابت کے سلسلہ سے جنگ بندی ہو گئی اور مصالحت گئی اور کشیدگی ختم ہو کر حالات قیامِ امن کی صورت اختیار کر گئے، مگر دشمنان اسلام کو کسی صورت میں گوارا نہ تھا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ یہ آپس میں لڑتے نہیں، اب پھر سے ایک دوسرے کے قریب ہونے لگے ہیں، اسلام کے شیرازے کو بکھیرنے کے لیے تو ہم نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو قتل کیا، پھر سازشیں کیں، یہاں تک نوبت پہنچائی، اب پھر یہ اکٹھے ہو رہے ہیں، لہٰذا ایک خاص منصوبے کے تحت حضرت علی، حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہم پر حملہ کروایا اور اسلام سے اپنے بغض و عداوت کا پورا ثبوت دیا۔ اس پروگرام میں جو لوگ ان دشمنان اسلام (یہود، مجوس اور ابن سبا کا ٹولہ) کے کام آئے، وہ خوارج تھے، چنانچہ حرم کعبہ میں تین خارجی عبدالرحمن بن ملجم، برک بن عبداﷲ اور عمرو بن بکر جمع ہوئے اور قتل کے منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اپنی جانوں کو فدا کرنے کا پختہ عہد کیا اور متعینہ تاریخ (۱۷؍ رمضان المبارک، ۴۰ھ) کو اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر ان تینوں شخصیات پر قاتلانہ حملے کیے۔ ۱۷؍ رمضان کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ پر حملہ ہوا اور ۳ دن بعد ۲۱؍ رمضان کو آپ شہید ہو گئے۔ آپ کے بعد مسند خلافت پر حضرت حسن رضی اﷲ عنہ تشریف لائے اور بہت تھوڑے عرصے تک حالات حسب معمول پرسکون رہے، مگر چند ماہ بعد سیدنا حسن رضی اﷲ عنہ کے بعض امراء اور اہلِ لشکر نے آپ رضی اﷲ عنہ کو اہلِ شام کے قتال پر آمادہ کیا، اگرچہ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ ذاتی طور پر قتال بین المسلمین کو پسند نہیں فرماتے تھے مگر حالات کے تقاضوں سے مجبور ہو کر ملک شام کے خلاف اقدام کرنے کے مدائن کے عسکری مستقر میں تشریف لائے اور اہلِ عرب کے سربر آوردہ لوگوں سے فرمایا:
’’تم لوگوں نے ہمارے ساتھ اس شرط پر بیعت کی ہے کہ جس کے ساتھ میں صلح کروں گا، تم بھی کرو گے اور جس کے ساتھ میں قتال کروں گا، تم بھی کرو گے، حالات کے پیشِ نظر میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ بیعت کا ارادہ کر لیا ہے، پس تمھیں بھی اس کی اطاعت کرنا ہو گی‘‘۔
آپ رضی اﷲ عنہ کے اس ارادے کی اطلاع اہلِ عراق اور آپ کی جماعت کے دیگر افراد کو ہوئی تو ان میں قسم قسم کا انتشار و افتراق اور روگردانی کے آثار پیدا ہو گئے، جس کی وجہ سے آپ رضی اﷲ عنہ اپنے لشکریوں سے رنجیدہ خاطر ہوئے، حتیٰ کہ بعض برگشتہ افراد نے آپ کو ایذاء و تکالیف پہنچائیں۔ خود روافض کی کتب میں موجود ہے، یزید بن وہب الجہنی کہتا ہے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کو نیزوں سے زخمی کیا گیا، آپ تکلیف کی حالت میں تھے، میں آپ کے پاس پہنچا، صلح کے متعلق آپ کی رائے معلوم کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا:
’’واللّٰہ معاویۃ خیر لی من ھٰؤلاءِ یزعمون انھم لی شیعہ ابتغوا قتلی و انتھبوا ثقلی واخذوا مالی‘‘(احتجاج، بحار الانوار)
اﷲ کی قسم میرے لیے ان لوگوں سے جو میرے شیعہ یعنی میرا گروہ ہونے کے دعوے دار ہیں، حضرت معاویہ کہیں بہتر ہیں، انھوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا، میرے اموال لوٹ لیے۔
الغرض طرح طرح سے ان عراقیوں نے آپ کو ستایا، مصلّیٰ چھین لیا۔ امام بخاریؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے روایت نقل کی ہے، کتاب الصلح میں کہ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے بنو عبدالشمس کے دو افراد عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداﷲ بن عامر کو صلح کرنے کے لیے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی طرف روانہ کیا اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ کی تمام ضروریات و تقاضوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کروا کر صلح پر آماد کیا اور کچھ شرائط طے کیں۔ جن میں ایک شرط یہ بھی تھی ’’ان یعمل فیہم بکتاب اللّٰہ تعالی وسنۃ رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و سیرۃ الخلفاء الراشدین الصالحین۔(کشف الغمہ)
چنانچہ دونوں جماعتوں کے افراد الانبار کے نزدیک ارض السواد کے مسکن میں جمع ہوئے، ربیع الثانی کے آخر میں ۴۱ھ کو ملت اسلامیہ کی منفعت کے لیے باہم صلح ہوئی اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسین رضی اﷲ عنہ سے فرمایا: ’’ قُمْ یا حسین فبایِعْہُ فانَّہُ اِمَامیْ ‘‘(اے حسین! اٹھیے اور ان کی (حضرت معاویہ کی) بیعت کیجیے، کہ اب یہ میرے امیر اور امام ہیں)
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ بھی بیعت کی اور تمام مسلمانوں نے بیعت کی اور ایک امام اور خلیفہ پر اہل اسلام کے مجتمع ہونے کی وجہ سے اس سال کو عام الجماعت کا نام دیا گیا اور مسلمانوں کی اجتماعی قوت جو منتشر ہو چکی تھی، پھر مجتمع ہو گئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جسمانی مشابہت کی تاثیر اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشین گوئی آج لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ میں تاثیر:
حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کا تحتانی (نیچے والا حصہ) حصہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مشابہ تھا، اس کی تاثیر کیا تھی؟ نیچے والے اعضاء بدنی میں اہم حصہ پاؤں کا ہے اور پاؤں کا کمال استقامت ہے، پائے استقلال میں لغزش کا نہ آنا ہے۔ جیسا کہ یہ صفت بدرجہ اتم نانا جان میں تھی کہ جب مکی زندگی میں آپ کی بے مثال دعوتِ توحید کو برداشت نہ کرتے ہوئے، مشرکین مکہ کا وفد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا کے پاس آیا اور درخواست کی کہ آنجناب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے مشن و کاز میں کچھ تبدیلی پیدا کرنے پر مجبور کریں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر آسمان کے چاند اور سورج کو توڑ کر میرے ہاتھوں کا کھلونا بھی بنا دیں، تب بھی میں اپنی دعوت میں لچک پیدا نہیں کر سکتا۔
یہی صفت (پائے ثبات میں لغزش کا نہ آنا) حضرت حسین رضی اﷲ عنہ میں منتقل ہوئی۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی وفات کے بعد اہلِ کوفہ نے ہزاروں خطوط لکھ کر آپ رضی اﷲ عنہ کو مدعو کیا، پھر خود ہی غداری کر گئے اور حضرت حسین رضی اﷲ اور آپ کے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ کر ابن زیاد کے ساتھ مل گئے۔ اس سفر میں آپ رضی اﷲ عنہ کا جب کربلا کے میدان میں ابن زیاد کی طرف سے آنے والے قافلے سے آمنا سامنا ہوا ، تو آپ رضی اﷲ عنہ نے کوفیوں کی بے وفائی اور غداری کو دیکھ کر تین پیشکشیں کی۔ یا تو اسلامی سرحد کی طرف جانے دو، یا مدینہ واپس جانے دیا جائے، یا میں بالمشافہ یزید سے مل لیتا ہو اور ہم باہم معاملات حل کر لیں گے اورآپس مصالحت ہو جائے گی۔ لیکن اس پر ابن زیاد اور کوفی آمادہ نہ ہوئے۔ کہنے لگے، آپ اپنا ہاتھ ابن زیاد کے ہاتھ میں دے دیں۔ تب آپ مقام غیرت میں آگئے اور کسی بُرے آدمی کے ہاتھوں میں ہاتھ دینا غیرتِ ایمانی کے خلاف سمجھا اور برستے ہوئے تیروں اور چلتی ہوئی تیز تلواروں کے سائے میں بھی اپنے ثبات و قیام میں ذرا تبدیلی نہ آنے دی۔ خود بھی کٹ گئے اور خاندان کے ۷۲ کے قریب افراد بھی شہید ہو گئے مگر آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی بلکہ جامِ شہادت نوش کر کے زبان حال سے اپنے جدِّ مکرم سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مشابہت کا کیا ہی خوب اظہار فرما دیا۔