علی زمان
حیفا میں منکرین ختم نبوت کا سالانہ کنونشن
پاکستان کی قادیانی کمیونٹی کے اسرائیلی دوروں کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے عرب جریدے نے لکھا ہے کہ سال ۲۰۱۶ء جولائی میں مقبوضہ فلسطینی شہر حیفا میں منعقدہ سالانہ جلسے میں پاکستان کے قادیانی وفد نے شرکت کی ہے۔ اسرائیل کی عربی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اگست ۲۰۱۶ء میں قادیانی جماعت نے حیفا کے علاقہ الکبابیر میں اپنا بیسواں سالانہ کنونشن منعقد کیا۔ کنونشن میں امریکا، شمالی امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ پاکستان ، اردن او رمصر سے بھی قادیانی وفود شریک ہوئے۔
۲۸؍ جولائی کو منعقد ہونے والے تین روزہ کنونشن میں پاکستانی قادیانیوں کے وفد کی شرکت کو قادیانی کمیونٹی اور اسرائیلی انتظامیہ نے غیر معمولی اہمیت دی اور ان کا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ پاکستانی وفد کو کنونشن میں پاکستان میں قادیانیوں کو در پیش مسائل پر بات کرنے کی دعوت دی گئی۔ جس میں انھوں نے پاکستان میں قادیانیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں کنونشن کے شرکاء کو بتایا۔ اس کنونشن میں قادیانیوں کے علاوہ عیسائی، دروزی، بہائی اور ملحدوں کے ساتھ یہودی وفود نے بھی شرکت کی۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ممبران، یہودی رِبی اور یہودی مصنفین کنونشن میں بطور خاص شریک ہوئے جب کہ اسرائیل کے سیکورٹی حکام اور قومی سلامتی کے عہدیداروں کو بھی بطورِ خاص مدعو کیا گیا تھا۔ ایلان یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر دائنیل ہر شکوفیتش نے قادیانی اجتماع سے خطاب بھی کیا اور قادیانیت کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لیے نیک تمنائیں ظاہر کیں۔ اسرائیل کے ڈومینکین اور کریبین کے سفرا نے بھی اجتماع سے خطاب کیا۔ کنونشن کے دوران پاکستانی وفد سمیت غیر ملکی وفود کے اسرائیلی عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کرائی گئیں۔ عرب جریدے کے مطابق پاکستانی وفد کی آمد کو سراہا گیا اور آئندہ کے لیے سالانہ کنوشن میں ان کی شرکت کو لازمی قرار دیا گیا۔
فلسطین کا مقبوضہ شہر حیفا، کیرہ روم کے مشرقی کنارے واقع ہے۔ اس شہر پر برطانوی قبضہ تھا۔ جس نے ایک خاص سازش کے تحت اس شہر میں قادیانیوں کو بسایا اور اس کی ہر طرح سے مدد کی۔ اس مقصد کے لیے برطانیہ نے ۱۹۲۸ء میں سب سے پہلے ہندوستان سے جلال الدین شمس نامی ایک قادیانی مبلغ کو حیفا بلوایا۔ اسے رہائش کی تمام سہولیات سمیت دیگر مراعات دے دیں۔ برطانوی دور میں حیفا میں الشاذلی نامی صوفی تحریک بڑی سرگرم تھی۔ تصوف سے وابستہ اس خانقاہ کو برطانیہ اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوا۔ برطانوی انتظامیہ نے قادیانی مبلغ کو اسی صوفی تحریک کے افراد کو قادیانی بنانے کا ٹاسک دیا تھا۔ برطانوی حکومت کی سرپرستی میں فلسطینی سرزمین پر قادیانیت کو فروغ ملنے لگا اور صوفی تحریک کے بہت سے خاندانوں نے قادیانیوں کے فریب میں آکر قادیانیت قبول کر لی۔ قادیانیوں پر اپنی مہربانیوں کے لیے مشہور برطانوی انتظامیہ نے ۱۹۳۴ء میں حیفا کے محلے الکبابیر میں قادیانیوں کی عبادت گاہ اور قادیانی ثفاقت کے نام پر ایک کمیونٹی سنٹر تعمیر کیا۔ یہ مقام پورے مشرقی سطیٰ میں قادیانیت کے دجل و فریب کا اوّلین مرکزبنا۔ جہاں سے قادیانیت کی سرگرمیاں پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلنی شروع ہوگئیں۔
۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے حیفا کو یہودیوں کے حوالے کیا۔ اس زمانے میں یہودیوں نے سینکڑوں مساجد کو شہید کیا اور درجنوں کو جانوروں کے باندھنے اور دیگر مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرناشروع کیا۔ تاہم قادیانیوں کے عبادت خانے کو کوئی گزند نہیں پہنچائی گئی۔ قابض یہودیوں نے قادیانی کمیونٹی کو پوری طرح سپورٹ کیا۔ حیفا میں قادیانی مرکز کے سربراہ محمد شریف نامی شخص ہے۔ جس کے ساتھ فلسطینی مفتیان کرام اور علماء کرام کے مناظرے بھی ہوئے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی بھر پور سرپرستی کے سبب اس کے منفی اثرات فلسطینی معاشرے میں پھیلنے کا سلسلہ ابھی تک رکوایا نہیں جاسکا۔ اسرائیل کے شمال میں واقع الکبابیر مرکز کو اسرائیل حکومت کی بھر پور سرپرستی اور تعاون حاصل ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’اوصاف‘‘ ۱۴؍ نومبر ۲۰۱۶ء)